اقبال متین بہ حیثیت فکشن ناقد

 احمد علی جوہر

اقبال متین اردو کے مشہور ومعروف اور قدآورافسانہ نگار ہیں۔ افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ فکشن کے اچھے پارکھ اور ناقد بھی ہیں۔ انھوں نے فکشن اور فکشن نگاروں کے حوالے سے چند منفرد نوعیت کے مضامین لکھے ہیں۔ ایسے مضامین میں ’’کہانی میں زماں کا محدود تصوّر اور علامت‘‘، ’’اردوکہانی کی عمومی بے جہتی‘‘، ’’جینے والاعابدسہیل‘‘، ’’ایک فن کار صلیب بدوش، ناصربغدادی‘‘، ’’افسانوں کی افسانوی لڑکی، بانوسرتاج اب ایک خاتون محترم ہے‘‘، ’’چھُپا چھُپاقدآور کہانی کار، بلراج ورما‘‘ ہیں۔ یہ مضامین ان کے شعورِ فن اور ان کی تنقیدی بصیرت کے غمّاز ہیں۔ ان میں سے اوّل الذکر دو مضامین انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قاضی عبدالستار کی زیرِ نگرانی منعقد ہ فکشن سیمینار میں پڑھے جس پر زاہدہ زیدی، ساجدہ زیدی، عابد سہیل، غیاث احمدگدّی اور مختلف تخلیق کاروں اور ناقدین نے انھیں داد وتحسین سے نوازا۔ باقی تین مضامین انھوں نے اپنے ہم عصروں عابدسہیل، ناصربغدادی اور بلراج ورما پر اور ایک مضمون اپنی جونئیر افسانہ نگار بانوسرتاج پر لکھا۔ یہ چاروں مضامین تعارفی اور اعترافی نوعیت کے ہیں جس میں افسانہ نگار کی شخصیت وفن کا تعارف اس انوکھے انداز میں کیا گیا ہے کہ قاری خودبخود اس کا اعتراف کرنے لگتا ہے۔ ان مضامین میں تاثراتی تنقید کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ ان کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ان کا شعورِفن خاصا بالیدہ اور ان کا تنقیدی شعور کافی گہرا ہے۔ دیکھئے انھوں نے اپنے تنقیدی شعور سے کام لے کر ترقی پسندادب، جدیدادب، اچھے ادب، بُرے ادب، سمجھ میں نہ آنے والے مبہم افسانے اور علامتی افسانے پر کیسی بصیرت افروز گفتگو کی ہے۔

’’بعض فیشن زدہ ترقی پسندادیب جس مزدور اور کسان کا رونا روتے رہے وہ اس سے واقف ہی نہیں تھے۔ فیشن زدہ جدید ادب کے علم بردار جس ذات کو رو رہے ہیں وہ اس کے اندرونی کرب سے واقف ہی نہیں ہیں۔ ادب کے ہر دور میں نظریے اور اقدار کو بدلنے سے شکست وریخت کا یہ سلسلہ چلتا ہے اور جو بچ رہتا ہے وہی صرف وہ ہوتا ہے جو ادب ہوتا ہے۔ ادب کی کوئی قسم نہیں ہوتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ادب کی صرف دو ہی قسمیں ہوتی ہیں۔ اچھا ادب اور بُرا ادب۔ ‘‘ (1)

 ’’ایک افسانہ وہ بھی تھا جس کے لئے اس کا عظیم خالق یہ فتویٰ صادر کرتا تھا کہ افسانہ قاری کے اس لئے پلّے نہیں پڑتا کہ قاری نااہل ہے اور قاری کی ذہنی سطح تک ضرورت نہیں ہے کہ خالق چلے آنے کی اہانت برداشت کرے۔ ‘‘ (2)

’’علامتی افسانے کا حسن یہ ہے کہ وہ کم کینوس پر وسیع تر تناظر کا احاطہ کرتا ہے۔ علامت کاتخلیق کار کے ذہن سے قاری کے ذہن تک سفر ضرور ہوتا ہے، اگر آپ علامت کو اپنی ذاتی ملکیت قرار دینے سے گریز کریں کہ قاری اس کا دروازہ کھٹکھٹانے کی جرئات بھی نہ کرے۔ علامت اس لئے وضع نہیں کی جاتی کہ آپ کو علامتی افسانہ لکھنا ہے۔ افسانہ اپنے دروبست کے لئے اپنے اظہار کے لئے علامت کا سہارا اس درک کے ساتھ لیتا ہے کہ وہ لفظ کو معانی ومفاہیم کو زیادہ بوجھ اٹھانے کے قابل بنادے۔ اس لئے نہیں کہ سرے سے لفظ کی پہچان ہی ختم کردے۔ ‘‘ (3)

درج بالا اقتباسات اقبال متین کے مضمون ’’کہانی میں زماں کا محدود تصوّر اور علامت‘‘ سے نقل کئے گئے ہیں۔ اس مضمون میں انھوں نے کہانی میں زمانہ کے تصوّر، علامتوں کے استعمال اور کہانی کی بے چہرگی پر مدلّل گفتگو کی ہے۔ مضمون کا اختتام ان جملوں پر ہوتا ہے۔

’’میرے نزدیک کہانی خواہ وہ علامتی ہو کہ تجریدی اس کو پہلے کہانی ہونا چاہئے۔ اس کا کہانی پن یا اس کی افسانویت ہی اس کو اس کی بے چہرگی سے بچاسکتی ہے جو ضروری ہے۔ ‘‘ (4)

اقبال متین نے اپنے مضمون ’’اُردوکہانی کی عمومی بے جہتی‘‘ میں بھی اپنے تنقیدی شعور کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے جدیدیت کے زیراثرتخلیق کردہ جدید اردو کہانیوں کی عمومی بے جہتی پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ جدیدیت کے زیرِ اثر اُردوکہانی کو خاصا نقصان پہنچا۔ سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ اردو افسانے کا رشتہ اپنی زمین سے کٹ گیا۔ مغرب کی اندھی تقلید اور نام نہاد عصری حسّیت نے کہانی کو کیا سے کیا بنا کر رکھ دیا۔ فیشن زدہ علامتی اور تجریدی اظہار نے بھی کہانی کی شکل وصورت کو مسخ کرنے میں نمایاں رول اداکیا۔ بعض رسائل اور اس کے مدیران نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ بعض ناقدین نے جدیدیت کے زیراثرتخلیق کئے گئے مبہم اور ژولیدہ افسانہ نما تحریروں کے ایسے خوبصورت تجزیے کیے کہ اس کے آگے کہانی ماند پڑگئی۔ اس سے بھی جدیدی کہانی کی بے راہ روی کو حوصلہ ملا۔ اقبال متین نے ان تمام پہلوئوں پر مذکورہ مضمون میں اپنے منفرد انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں :

’’کسی بھی دور اور کسی بھی ملک کا شعروادب اپنے ماحول اپنے مزاج، اپنے معاشرے، اپنی زندگی اپنی زمین اور اپنی ہوا سے روحِ تخلیق حاصل کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اردوزبان وادب کا ہندوستانی مزاج نہ فرانس میں پنپ سکتا ہے نہ انگلستان اور امریکا میں نمو پاسکتا ہے۔ ۔ ۔ ایسے میں کیا ضروری ہے کہ اردوافسانے کو جو وہاں نہیں، یہاں ہندوستان میں تخلیق کیا گیا ہے مغربی شعروادب کی تحریکات سے اس حد تک وابستہ کیا جائے جب کہ ہماری آب وہوا سے لے کر معاشرے اور تہذیب تک، حالات ومسائل تک اتنا بڑا فرق ہے کہ ایک دوسرے پر ان کا پرتو آج بھی ممکن نہیں ہے۔ ۔ ۔ آج بھی ہمارا معاشرہ زراعتی معاشرہ ہے صنعتی معاشرہ نہیں۔ ‘‘ (5)

ایک جگہ اقبال متین جدیدی افسانہ نگاروں کے تعلق سے یوں رقم طراز ہیں :

’’مغربی ممالک کی مشینی زندگی کی دوڑ میں جدیدی ادیب، جدیدی افسانہ نگار ہندوستان میں رہ کر بھی اس خشوع وخضوع سے شامل ہے کہ ہر لحظہ موت کی تلوار اپنی گردن پر دھری محسوس کرتا ہے اور عصری حسّیت کے معنیٰ ومفہوم اسی فراریت میں ڈھونڈتا ہے۔ ۔ ۔ اور شایدخود کو کسی ماورائی عصری حسّیت کے غیر عصری تصوّر میں گم رکھتا ہے۔ ان حالات میں کہانی پر جوبیتنی تھی بہرحال بیت کر رہی۔ اور اس صورتِ حال کو ہوادی ایسے نقادوں نے جنہیں افسانہ نگاروں کی پیٹھ ٹھونک ٹھونک کر آگے بڑھانا تھا تاکہ وہ اپنے لئے راستہ بنائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پوری کرتب بازی میں افسانہ نگار کم ESTABLISHہوئے۔ ۔ ۔ ان کے نقاد زیادہ۔ ‘‘ (6)

ایک جگہ وہ جدیدی کہانیوں کے دلفریب تجزیے کے تعلق سے لکھتے ہیں :

’’آج کل کہانی، کہانی کو خود نہیں پہچانتی، تجزیے پہچانتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ جب نقاد تجزیوں کا آئینہ خانہ سجادیتے ہیں تو کہانی سج دھج کر اپنا چہرہ اس آئینہ خانے میں اس طرح دیکھتی ہے جیسے کسی اور کا چہرہ دیکھ رہی ہو۔ ایسے میں نقاد آگے بڑھ کر کہانی سے سرگوشی کرتا ہے۔ ۔ ۔ یہ تم ہو۔ ۔ ۔ مان لو کہ یہ تم ہی ہو۔ ‘‘ (7)

مذکورہ بالا اقتباسات میں اقبال متین کے تنقیدی خیالات سے تھوڑا بہت اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر اسے رد نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں ان کی باتیں خاصی مدلل اور منطقی انداز کی حامل ہیں۔ یہ بات واضح رہے کہ اقبال متین کو جدیدی افسانہ نگاروں سے کوئی بیر نہیں ہے۔ انھوں نے سریندرپرکاش، انورعظیم، کلام حیدری اور غیاث احمد گدّی وغیرہ کی بہت سی کہانیوں کی دل کھول کر تعریف کی ہے۔ ان کو اصل شکوہ فیشن زدہ جدیدی افسانہ نگاروں کے منفی رویّوں اور ژولیدہ افسانہ نما تحریروں سے ہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اقبال متین ترقی پسند ضرور رہے ہیں مگر انھوں نے ترقی پسندوں کی بے راہ روی کو بھی طنز کانشانہ بنایا ہے۔ ان کے نزدیک ترقی پسندی کا مطلب کھوکھلی نعرے بازی، ادب کی ادبیت سے دستبرداری اور ادبی بے راہ روی نہیں ہے۔ بلکہ ان کے نزدیک ترقی پسندی کا مطلب انسان دوستی، امن وآشتی اور بھائی چارگی کے خیالات کو ادبی پیرایہ میں پیش کرنا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ادبی حدودوقیود کی پابندی ہی ادیب اور اس کی تحریروں کو عظمت بخشتی ہے۔ انھوں نے اپنی تنقیدی تحریروں میں اس پابندی کا خیال رکھا ہے اور متوازن رویّہ اپنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تنقیدی تحریروں میں ایک سنجیدہ ناقد کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔

اقبال متین نے عابد سہیل، ناصربغدادی، بانو سرتاج اور بلراج ورما کی افسانہ نگاری پر جو مضامین لکھے ہیں، وہ بھی خاصے دلچسپ اور فکرانگیز ہیں۔ ان مضامین کی اہم خوبی یہ ہے کہ ان میں اقبال متین نے چند جملوں میں کچھ افسانوں کے بصیرت افروز تجزیے کیے ہیں۔ یہاں انھوں نے اپنے منفرد تخلیقی انداز میں افسانہ نگاروں کی افسانہ نگاری پر دلچسپ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ان کی انفرادیت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ دیکھئے انھوں نے عابدسہیل کی افسانہ نگاری اور ان کی انفرادیت کے تعلق سے کتنی دلچسپ اور اہم باتیں کہی ہیں :

’’عابدسُہیل بڑی نرمی اور گھلاوٹ سے اپنی کہانیوں میں زندگی کے گوناگوں رجائی اور قنوطی جذبے آنکھ بچاکر سمیٹتا جاتا ہے پھر ماجرے کا اظہار کچھ اس طرح کرتا ہے جیسے وہ خود اپنی کہانی میں کچھ نہیں کہہ رہا ہے بلکہ اس کی کہانیاں خود اس سے اور اپنے قاری سے تخاطب کو بیانیہ کا وسیلہ بنائے ہوئے ہیں۔ اس طرح کہانی میں پوری طرح سماکر کہانی سے الگ ہوجانا یا ان میں کرداروں کے ساتھ دوستی نباہتے نباہتے اس طرح اجنبی ہوجانا جیسے ان کے ساتھ رہنے کی علت سے کرداروں کی آزادہ روئی سلب ہوکر رہ جاتی ہے۔ عابدسہیل کا ایک ایسا ہنر ہے جوبڑی کہانی کے امکانات کو تقویت دیتا ہے اور اس کی انفرادیت کے لئے کوئی اشتباہ نہیں رہ جاتا۔ ‘‘ (8)

 یہ اقتباس اقبال متین کے مضمون ’’جینے والا، عابدسہیل‘‘ سے لیا گیا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے عابدسہیل کی چند کہانیوں ’’سوانیزے پر سورج‘‘، ’’جینے والے‘‘، ’’نہ دھوپ نہ سایہ‘‘، ’’رشتے‘‘، ’’پوشتین‘‘ اور ’’رگِ سنگ‘‘ کے مختصراور معنی خیز تجزیے بھی پیش کئے ہیں۔ عابدسہیل کی افسانہ نگاری پر یہ خاصا جامع اور اہم مضمون ہے جس نے عابدسہیل کو بھی بے حد متاثر کیا۔ وہ اس مضمون کے تعلق سے ایک خط میں اقبال متین کو لکھتے ہیں :

’’تمہارے مضمون کی سب سے بڑی خوبی (میرے نزدیک) یہ ہے کہ میں نے اس سے خود اپنی متعدد کہانیوں کو سمجھا۔ سچ جانو کئی افسانوں کے تجزیوں میں تم نے ایسے پہلو پر سے پردے اٹھائے ہیں جو شعوری طور پر میرے اپنے ذہن میں نہ تھے لیکن تمہارا مضمون پڑھنے کے بعد جیسے یکایک احساس ہواکہ ان جذبوں سے تو دل ودماغ کی پرانی آشنائی ہے۔ ۔ ۔ ۔ حیرت ہے، تم نے ہر وہ کہانی پکڑلی جو مجھے پسند ہے۔ ‘‘ (9)

ناصربغدادی پر بھی اقبال متین کا مضمون بے حد دلچسپ ہے۔ یہ مضمون انھوں نے ناصربغدادی کے افسانوی مجموعے ’’مصلوب‘‘ کے پیش لفظ کے طور پر لکھا تھا۔ اس میں انھوں نے ان کے چند افسانوں کے خوبصورت تجزیے پیش کئے ہیں جنھیں کئی بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ انھوں نے ناصربغدادی کی افسانہ نگاری اور ان کی انفرادیت کے حوالے سے بھی بڑے اہم اور دلچسپ خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ایک جگہ وہ ناصربغدادی کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں :

’’ناصربغدادی کے افسانوں میں بیانیہ کی تجریدی انفرادیت اسے اپنے ہم عصر لکھنے والوں سے اسی وصف کی بنا پر الگ کرتی ہے کہ وہ بیانیہ افسانے کا آرٹ بنانے پر قدرت رکھتا ہے۔ اس کے افسانوں میں تجریدیت کرداروں کے اعمال وافعال سے ہویدا ہوتی ہے اور ان کے ذہنی انتشار کی نفسیاتی گرہیں ناصر کے قلم کی مرہون منت ہوکر کھلتی ہیں۔ (10)

 اقبال متین نے اس مضمون میں ناصربغدادی کی افسانہ نگاری پر گفتگو کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے جملوں اور چند سطروں میں پتے کی باتیں کہی ہیں : چند مثالیں ملاحظہ ہوں :

’’ایک بات ضرور طے ہے کہ ’’بے شناخت‘‘ سے لے کر ’’مصلوب‘‘ تک ناصر نے اظہار کے لئے افسانے کو نئی زبان دی ہے اور یہی اس کی انفرادیت کی پہلی شناخت ہے۔ ۔ ۔ ۔ ناصر کہانی میں ہر معمولی کرتب کو ہنر بنالینے کا یہاں تک اہل ہے کہ وہ اپنی موعود عبارت آرائی کو اظہار کا حسن بنانے کے لیے تکرار سے کام لیتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے اکثر افسانے اس شہر کی بے دردی کے دردناک مناظر پیش کرتے ہیں جہاں وہ سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جہاں کے روزمرہ ایسی بے یقینی کا شکار ہیں کہ سانس کی آمدوشد کابھروسہ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ناصر بیانیہ کی استعاراتی جہت درجہت اشک فشانی کا ایسا نباض ہے کہ اس کی تحریر لفظ لفظ میں اس کا درد سموتی جاتی ہے۔ ‘‘ (11)

ناصربغدادی کی کہانیوں کا مطالعہ کرنے کے بعداقبال متین نے اپنے مجموعی تاثرات کا اظہار یوں کیا ہے:

’’ناصربغدادی کی اکثر کہانیاں طوالت پسند ہیں۔ اس کی تحریر کی روانی میں جب اس کا قلم طرارے بھرتا ہے تو کوئی اڑچن نہیں ہوتی۔ اس کی عبارت ندی کی طرح بہتی رہتی ہے۔ جب وہ اس بہاو کے درمیان میں ڈوب ڈوب کر ابھرتا ہے تو ایک ٹھہرائو آجاتا ہے اور اس ٹھہرائو پر وہ موتی نکال لاتا ہے ورنہ دوسری صورت میں اس کابیانیہ سپاٹ ہوکر رہ جاتا اور اکہرے پن کا شکار ہوکر نری حقیقت نگاری کے زمرے میں اپنی رمزآشنائی سے رشتہ باقی نہ رکھ سکتا۔ ‘‘ (12)

ناصربغدادی کی افسانہ نگاری پر یہ اتنا اہم مضمون ہے کہ اس کے تعلق سے مشہور فکشن نقاد پروفیسر قمررئیس ایک خط میں اقبال متین کو لکھتے ہیں :

’’مصلوب کے افسانوں پر آپ کا مبسوط تجزیاتی مضمون پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ سچ مچ آپ نے غیرمعمولی محنت اور محبت سے یہ مضمون لکھا۔ اور ناصر کے فن کے منفرد پہلوئوں کو جس درک وبصیرت سے تلاش کیا وہ آپ کے شعورفن پر دلالت کرتا ہے۔ ‘‘ (13)

بانوسرتاج اور بلراج ورما پر بھی اقبال متین کے مضامین ان کے تنقیدی شعور کے غمّاز ہیں۔ یہاں اقبال متین نے مبالغہ سے کام نہیں لیا ہے۔ اردو افسانہ میں بانوسرتاج اور بلراج ورما کا جو قد ہے انھوں نے اسی کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ بانوسرتاج کے حوالے سے وہ ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’بانوسرتاج کو پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ جس تجسس کو انھوں نے اپنا شعار بنا رکھا ہے اسی تجسُس نے ان کی کہانیوں میں تنوع کے کتنے ہی روزن بنا رکھے ہیں جن سے وہ جھانکتی ہیں۔ ۔ ۔ کیوں ؟۔ کیا؟۔ اور کس طرح؟ کی تثلیث تخلیقی جبلت کو صیقل کرتی ہے۔ وہ کہانی کو چھونے سے پہلے اس کے اندر اتر جانے کا گُر جان گئی ہیں۔ جیسے غم آنسو بننے سے پہلے دل میں اُتر جاتا ہے۔ ‘‘ (14)

اس مضمون میں اقبال متین نے بانوسرتاج کے افسانوں کی خامیوں کی طرف بھی نشان دہی کی ہے۔ انھوں نے ان کے بعض افسانوں کو کمزور افسانوں کے زمرے میں رکھا ہے۔ ہاں جو افسانے انھیں اچھے لگے اور جن میں فنی پختگی ہے، انھوں نے ان کی پذیرائی کی ہے۔ ان کا یہی وہ متوازن تنقیدی رویّہ ہے جو ان کی تنقید کو سنجیدہ بناتا ہے اور اعتبار عطا کرتا ہے۔ دیکھئے انھوں نے اپنے مجموعی مطالعہ کی روشنی میں بانوسرتاج کی افسانہ نگاری پر کس قدر متوازن رائے کا اظہار کیا ہے:

’’بانوسرتاج کہانی کو بڑے ڈھنگ سے سمیٹتی ہیں۔ لیکن بعض وقت جب وہ گول (Goal) کی جانب بڑھتی ہیں تو قریب پہنچ کر اتنی طاقت ور اور نپی تلی کِک (Kick) نہیں لگا پاتیں کہ گیند گول میں دھنس جائے۔ ان کا قاری جو ایسے میں ان کاگول کیپر بھی ہے گیند کو پکڑ لیتا ہے۔ وہ تحیر کی اس کیفیت سے نہیں گزر پاتا کہ میرے چھلانگ لگا کر گیند کو روکنے کے باوجود گیند کس طرح گول میں گھس پڑی۔ ۔ ۔ ۔ بانو نے افسانے کے دروبست میں سلیقہ مندی کا ایسا مظاہرہ کیا ہے جو انھیں فن کاری کی سرحدوں میں لے جاتا ہے۔ ‘‘ (15)

اقبال متین نے بلراج ورما پر لکھتے ہوئے ان کے افسانوی بیانیہ پر بڑی دلچسپ گفتگو کی ہے۔ انھوں نے ان کی چند کہانیوں کے مختصر تجزیے بھی کیے ہیں۔ دیکھئے انھوں نے بلراج ورما اور ان کی افسانہ نگاری کے حوالے سے کتنے دلچسپ خیالات کا اظہار کیا ہے۔

’’وہ زندگی کی بوقلمونی کو برت برت کر جینے کے لیے اپنے کرداروں کو کھُلی چھوٹ دیتا ہے جو فطرت انسانی کے عین مطابق ہوتے ہوئے بھی جذبے کے آماج کو یک رو نہیں کرتا۔ ۔ ۔ ۔ بلراج ورما جنس کی پذیرائی میں اخلاقی جواز کو جب کبھی آدرش یا نصب العین بنا لینے کی سعی کرتا ہے تو دونوں انسانیت کے ہاتھوں مجروح ہوجاتے ہیں۔ جنس بھی آدرش بھی۔ جب وہ اس ملاوٹ سے بچ کر چلتا ہے تو ’’ابھیشاپ‘‘، ’’الیوژن‘‘ اور ’’اب یہاں کوئی نہیں آئے گا‘‘ جیسی کہانیاں دے جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اس کی کہانیوں کی اس خوبی سے بھی انحراف ممکن نہیں ہے کہ کہانی شروع ہوتے ہی اپنے قاری کو گرفت میں لے لیتی ہے اور اپنے اختتام کو پہنچنے تک قاری کے ذہن میں ہر راہ سے محسوسات کی آماج بنی رہتی ہے۔ ورما کی کہانیاں پڑھتے وقت محسوس ہوتا ہے کہ داخل وخارج کی کیفیات کو شعور اور تحت الشعور کو وہ کھل کھیلنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ اور جس آئینہ خانے میں قاری کہانی کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ کہانی قاری کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر اس کو ساتھ لیے لیے گھومتی ہے اور طرح طرح سے اس کے عکس اس کو کہانی کے کرداروں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ ‘‘ (16)

اس مضمون میں اقبال متین نے بلراج ورما کے افسانوں کی پذیرائی بھی کی ہے اور زبان کے معاملہ میں ان کی تساہلی کی گرفت بھی کی ہے۔ انھوں نے ان کے افسانوں کی بعض فنی خامیوں سے پردہ بھی اُٹھایا ہے۔ بلراج ورما کی افسانہ نگاری پر یہ ایک سنجیدہ نوعیت کا تنقیدی مضمون ہے۔

مذکورہ بالا تمام مضامین کے جائزہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اقبال متین کا شعورِ فن خاصا توانا اور سنبھلا ہوا ہے اور وہ گہری تنقیدی بصیرت کے مالک ہیں۔ اس سے کام لے کر انھوں نے اردوافسانہ پر معنی خیز بحث کی ہے اور اپنے دلچسپ تنقیدی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے تنقیدی خیالات اور رائے میں علمی ذہانت وبصیرت، توازن، فکرونظر کی بالیدگی، سنجیدگی اور گہرائی وگیرائی ہے۔ ان مضامین کو پڑھنے کے بعد ان کی تنقیدی بصیرت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ افسانہ نگاروں پر انھوں نے جو مضامین لکھے ہیں، اس میں انھوں نے براہِ راست افسانوی متن کی روشنی میں بحث کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بحث خاصی معنی خیز نظر آتی ہے۔ ان مضامین میں انھوں نے افسانہ نگاروں کے فن پر اپنے منفرد تخلیقی انداز میں اظہار خیال کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں تخلیقی تنقید کا احساس دلاتی ہیں۔ ان مضامین کے مطالعہ کے بعدیہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس میں اقبال متین نے جس تنقیدی شعور کا مظاہرہ کیا ہے اور افسانہ نگاروں کے متن کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کے منفرد پہلوئوں کو جس درک وبصیرت سے تلاش کیا ہے اورافسانوں کے مختلف زاویوں سے روشناس کراتے ہوئے جو معنی خیز بحث کی ہے، اس کی بنا پر وہ اُردوادب میں ایک اہم اور ممتاز ومعتبر فکشن ناقد کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔

حوالے

(1) اقبال متین، کہانی میں زماں کا محدود تصوّر اور علامت، مشمولہ، اقبال متین کے افسانے، جلد دوم، (کلیات)، ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، 2010ء، ص، 404۔

(2) ایضاََ، ص، 405۔

(3) ایضاََ، ص، 406۔

 (4) ایضاََ، ص، 407۔

(5) اقبال متین، اُردوکہانی کی عمومی بے جہتی، مشمولہ، اقبال متین کے افسانے، جلددوم، (کلیات)، ص، 411۔

(6) ایضاََ، ص، 413، 414۔

(7) ایضاََ، ص، 414۔

(8)  اقبال متین، اعتراف وانحراف، ناشر: کل ہند اردو ریسرچ اسکالرس کونسل، 2006ء، ص: 21۔

(9) عابدسہیل، خط اقبال متین کے نام، مشمولہ، بادبان، کراچی، (اقبال متین نمبر) مدیر اعزازی، ناصربغدادی،

شمارہ:13، جولائی تا ستمبر، 2010ء، ص، 473۔

(10) اقبال متین، اعتراف وانحراف، ص، 51۔

(11) ایضاََ، ص، 64 تا 75۔

(12) اقبال متین، اعتراف وانحراف، ص، 76۔

(13) پروفیسر قمر رئیس، خط اقبال متین کے نام، مشمولہ، بادبان، کراچی، (اقبال متین نمبر)، ص، 468۔

(14)  اقبال متین، اعتراف وانحراف، ص، 129۔

(15) ایضاََِ، ص، 134۔

(16) ایضاََ، ص، 136 تا145۔

تبصرے بند ہیں۔