غلام نبی کمار ’مظہر امام ایواڑ‘ سے سرفراز 

جموں و کشمیر کے قصبہ چرارشریف، کمارمحلہ سے تعلق رکھنے والے دہلی یونی ورسٹی کے معروف اردو اسکالر، نقاد، محقق ومبصراور صحافی غلام نبی کمارکو ساہتیہ کار ادبی سنگم زیر اہتمام المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ، دربھنگہ بہار کی جانب سے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ’’مظہر امام ایوارڈ‘‘سے نوازا گیا ہے۔ یہ ایوارڈ انہیں ایک روزہ قومی سمیناربعنوان’’اردو زبان کا فروغ اور ہماری ذمہ داریاں ‘‘اور کل ہند مشاعرہ کے دوران معروف سائنسداں مانس بہاری ورما، شمیم قاسمی، حنیف ترین، منصور خوشتر اور انتخاب ہاشمی کے ہاتھوں پیش کیا گیا۔

 اس موقع پرانھوں نے دربھنگہ میں المنصور ایجوکیشنل اینڈویلفیئر ٹرسٹ کے ذریعے منعقد سمینار میں ’’اردو زبان کی موجودہ صورتِ حال‘‘کے عنوان سے اپنا مقالہ بھی پیش کیا۔ قومی سطح کے ایوارڈ تقریب اور سمینار میں ملک کے اطراف و اکناف سے آئے اسکالروں کے علاوہ کئی نامورادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں نے شرکت کی۔ نیز اس میں بہارکے علمی و ادبی، سیاسی و سماجی اور تجارتی و ثقافتی اداروں سے وابستہ حضرات کے علاوہ مختلف مدارس کے طالب علموں کا جوش و خروش بھی دیکھنے لائق تھا۔ غلام نبی کمار کے ایوارڈ پانے کی خبرجونہی ادبی حلقوں میں پھیل گئی تو انہیں کئی معزز و معتبر شخصیات سے مبارکبادی کے پیغامات موصول ہوئے۔

 انہیں مبارکباد دینے والوں میں ڈاکٹر مشتاق قادری، پروفیسر عبدالستار دلوی، پروفیسر سید سجاد حسین، پروفیسر سید ظہور گیلانی، ڈاکٹرنذیر آزاد، ڈاکٹر مشتا ق احمد وانی، ڈاکٹرمشتاق حیدر، ڈاکٹر درخشاں اندرابی، ڈاکٹر شمس کمال انجم، ڈاکٹر ریاض توحیدی، پرتپال سنگھ بیتاب، سید زیشان فاضل، ستیش ومل، زاہد مختار، ڈاکٹر محمد مستمر، سلیم سالک، پریمی رومانی، راجہ یوسف، طارق شبنم، مقبول فیروزی، بشیر چراغ، ڈاکٹر کوثر مزمل، ڈاکٹر نذیر مشتاق، ڈاکٹرداؤد محسن، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، دیپک بدکی، ڈاکٹر شاہینہ تبسم، ڈاکٹر عشرت ناہید، ڈاکٹر نعیم اختر، ڈاکٹرقسیم اختر، سالک جمیل براڈ، حبیب سیفی، عمران پاشا، عنایت گل خان، عاصم اسعدی، محمد سلیم علیگ، میر صاحب حسن، انور آفاقی، ڈاکٹر انوارالحق، حقانی القاسمی، خورشید حیات، کامران غنی صبا، نرگس سلطانہ غیرہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

غلام نبی کماراردو کے تحقیقی و تنقیدی اور صحافتی میدان میں ایک اُبھرتا ہوا نام ہے۔ وہ بے حد سرگرم، فعال ومتحرک قلم کار ہیں۔ انھوں نے مختلف النوع علمی و ادبی موضوعات پر پچاس سے زائد تحقیقی و تنقیدی مقالات اور سو سے زائد مضمون نما تبصرے تحریر کیے ہیں۔ ہندو پاک کے متعدد و موقر رسائل وجرائد میں ان کے مضامین جس تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہتے ہیں وہ اردو زبان کے روشن مستقبل کی ضمانت پیش کرتے ہیں۔ موصوف ابھی تک کشمیرسے باہربیرونی ریاستوں کے سمیناروں میں بھی شرکت کرتے رہتے ہیں۔ جس کے باعث اردو حلقے میں ان کی سرگرمیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔ ان کی تین کتابیں ’’اردو کی عصری صدائیں ‘‘، ’’قدیم وجدید ادبیات‘‘اور’’کلیاتِ زبیر رضوی‘‘عنقریب شائع ہورہی ہیں۔ موصوف دہلی یونیورسٹی میں ڈاکٹر مشتاق احمد قادری کی نگرانی میں ’’زبیر رضوی کی ادبی خدمات کا تنقیدی مطالعہ‘‘کے موضوع پر پی۔ ایچ۔ ڈی کر رہے ہیں۔

ان کے ایم۔ فل کا موضوع’’دہلی یونیورسٹی سینٹرل لائبریری میں موجود رسائل و جرائد کا وضاحتی اشاریہ‘‘تھا اور یہ ڈگری انہیں پروفیسر ارتضیٰ کریم کی نگرانی میں تفویض ہوئی تھی۔ واضح رہے کہ غلام نبی کماراس وقت کئی سہ ماہی رسالوں ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘، ’’تحقیق‘‘، ’’پنج آب‘‘کے معاون ایڈیٹر اورماہنامہ’’نمودِ حرف‘‘لاہور کے کنوینیر بھی ہیں۔ علاوہ ازیں اردو زبان کی ترقی و ترویج کے سلسلے میں ڈاکٹر حنیف ترین کے قائم کردہ ادارہ’مرکز عالمی اردو مجلس‘کے جنرل سکریڑی کے طور پر فرایض انجام دے رہے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔