غیبت: ایک معاشرتی ناسور

مولانامحمدطارق نعمان

غیبت ایک بری عادت ہے جس سے دین ودنیادونوں کی خرابی کاقوی اندیشہ ہے غیبت کرنے والااپنے آپ کانقصان کرتاہے غیبت نیکیوں میں کمی کاسبب بنتی ہے اوربندے کولوگوں کی نظروں میں گرادیتی ہے یہ ایک ایساگناہ ہے جب تک جس کے بارے میں غیبت کی وہ معاف نہ کرلے یہ گناہ معاف نہیں ہوسکتا:

حضرت ابوسعید خدری ؓ اور حضرت جابر ؓ کی روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایاغیبت زناسے بھی زیادہ اور سنگین ہے بعض صحابہ ؓ نے عرض کیاکہ اے اللہ کے نبی ﷺ غیبت زناسے زیادہ سخت وسنگین کیونکر ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا:(بات یہ ہے کہ)آدمی اگر بدبختی سے زناکر بھی لیتاہے توصرف توبہ کرنے سے اس کی معافی اورمغفرت اللہ پاک کی طرف سے ہوسکتی ہے مگر غیبت کرنے والے کوجب تک خود وہ شخص معاف نہ کردے  جس کی اس نے غیبت کی ہے، اس کی معافی اوربخشش اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوگی (شعب الایمان للبیہقی)

غیبت کی تعریف

 کسی انسان میں پائی جانے والی کسی برائی کا اس کی عدم موجودگی میں تذکرہ کرنا غیبت ہے۔

بعض فرماتے ہیں کہ  کسی کی پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی گفتگو کرنا جسے وہ ناپسند کرے۔

امام غزالی فرماتے ہیں کہ آدمی کی کسی ایسی بات کا تذکرہ کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہے خواہ اس کا تعلق اس کی شخصیت سے ہو یا اس کی ذات سے، دین و دنیا سے ہو یا مال و اولاد سے، ماں باپ سے ہو یا زوجہ و خادمہ سے، حرکات و سکنات سے ہو یا خوشی و غمی سے، گفتگو سے ہو یا اشارہ و کنایہ سے غیبت ہی شمار ہوگی۔

اسی کانام غیبت ہے

غیبت ایک ایسا مرض ہے کہ لوگوں کی کثیر تعداد شعوری اور غیر شعوری طور پر اس میں ملوث نظر آتی ہے۔ بظاہر خوشنما نظر آنے والے گناہوں کے اس سراب میں کھو کر صراط مستقیم سے لوگ ایسے دور ہٹتے ہیں کہ پھر گناہ و ثواب اور جزا و سزا ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے اور جب کوئی ان مبتلا حضرات کو اللہ کا خوف دلا کر اس سے منع کرتا ہے تو چالاکی و عیاری کے پردہ میں چھپا ہوا معصومیت بھرا ان کا جواب یہ ہوتا ہے۔

’’لو بھائی اس میں کون سی غیبت والی بات ہے یہ عیب اس میں موجود تو ہے‘‘ جب کہ اسی کا نام غیبت ہے۔

غیبت کاحکم

غیبت کے عظیم خطرات کے پیش نظر علماء نے اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے، اگر وہ اس سے توبہ نہیں کرتا۔ ابن حجر الہیثمی کہتے ہیں : کہ بہت سارے صحیح اور واضح دلائل اس کے بڑا گناہ ہونے کی دلیل ہیں۔ لیکن اس کے مفاسد میں اختلاف ہونے کی وجہ سے اس کے بڑا اور چھوٹا ہونے میں اختلاف ہے۔ اور صاحب جوامع الکلمﷺ نے اسے مال غصب کرنے اور کسی کو قتل کرنے کی قبیل میں شمار کیا ہے جو بالاجماع کبیرہ گناہ ہیں، آپ کا فرمان ہے کہ : ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی جان و مال اور عزت حرام ہے۔

غیبت اورالزام میں فرق

معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے تو انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسولﷺہی بہتر جانتے ہیں تو آپ ﷺنے فرمایا : تیرا اپنے مسلمان بھائی کے متعلق ایسی بات ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرے۔

تو صحابہؓنے کہا اگر وہ بات اس میں پائی جاتی ہے جو میں ذکر کرتا ہوں تو فرمایا : اگر اس میں موجود بات کو تو کرے گا تو تو نے اس کی غیبت کی، اور اگراس میں موجود نہیں ہے تو تو نے اس پر الزام لگایا۔ (رواہ مسلم )

ثلث عذاب غیبت کی وجہ سے

حضرت قتادہؓفرماتے ہیں عذاب قبر کی ہمیں تین قسمیں بتائی گئیں ہیں، ایک ثلث عذاب غیبت سے، ایک ثلث پیشاب کے چھینٹوں سے اور ایک ثلث چغل خوری سے عذاب ہوگا۔

سفرِمعراج اورغیبت کرنے والوں کوسزا

رسول اللہﷺ فرماتے ہیں : جب مجھے معراج کرائی گئی، میں ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے جن سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے، میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ تو اس نے بتایا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزتوں کو پامال کرتے تھے۔ (یعنی لوگوں کی غیبت کیاکرتے تھے ) (احمد، ابودائود)

غیبت کرنے والے کی سزا

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی جوشخص غیبت کاشکار ہوااورپھر اس نے توبہ کر لی تب بھی وہ جنت میں سب سے آخر میں داخل ہوگااورجوشخص غیبت پرمصر ہواوہ جہنم میں سب سے پہلے ڈالاجائے گا(نزہۃ المجالس)

غیبت کی بدبو

حضرت جابر بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ساتھ تھے کہ ایک گندی اور بدبودار ہوا چلی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : کیا تم اس ہوا کے متعلق جانتے ہو؟

 یہ مومنوں کی غیبت کرنے والوں کی(غیبت کی )بدبو ہے۔ ((احمد ابن ابی الدینا )

سمندر کے پانی کاذائقہ تبدیل

 حضرت عائشہصدیقہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت صفیہ ؓکے متعلق رسول اللہﷺکو کہا کہ وہ ایسی ایسی ہے۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ چھوٹے قد کی ہے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:تو نے ایسا کلمہ کہا ہے اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو اس کا ذائقہ بھی تبدیل ہو جائے۔ (ابودائود،ترمذی)

غیبت کے نقصانات

غیبت کا سب سے بڑا نقصان تو یہی ہے کہ غیبت کرنے والے کی معنوی وجودی شخصیت ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔ جو لوگ غیبت کے عادی ہو گئے ہیں انھوں نے اپنیعزت واخلاق کوکھودیاہے کیونکہ  یہ لوگ عیوب کو اور رازوں کو ظاہر کر کے لوگوں کے دلوں کو زخمی کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ خودبھی اخلاق کی بلندی کونہیں پہنچ سکتے اورعزت کامقام حاصل نہیں کر سکتے۔

غیبت بزرگ ترین محل فضیلت کو ویران کر دیتی ہے اور انسان کے پاک وصاف خصائل کو بہت جلد کمزور کر دیتی ہے بلکہ یہ غیبت خود غیبت کرنے والے کے دل میں فضیلتوں کی رگوں کو جلا دیتی ہے اور نا پید کر دیتی ہے۔

غیبت نے  معاشرے کے اندر کینہ و دشمنی کو بڑھادیا ہے۔ جس قوم کے اندر یہ صفت راسخ ہوئی ہے اس نے قوم کی عظمت کو خاک میں ملا دیا ہے اس کی شہرت کو داغدار بنا دیا ہے اور اس ملت کے اندر ایسا شگاف ڈال دیا ہے جو بھرنے والا نہیں ہے آج غیبت کا بازار ہر جگہ گرم ہے۔ اور اس نے ہر طبقہ کے اندر رخنہ پیدا کر دیا ہے پیار،اخوت ختم ہوچکاہے سلام کاجواب دیناتودور کی بات سلام کرنامشکل ہوچکاہے ایک دوسرے کوحقارت کی نظر سے دیکھنے میں بھی غیبت ہی کارِ فرماہے۔ اسی کی وجہ سے آپسی اعتماد ختم ہوگیاہے

غیبت ایک عملی بیماری ہے مگر اس کاتعلق انسان کی روح سے ہے اور یہ ایک خطرناک روحانی بحران کی علامت و نشانی ہے

غیبت کے اسباب میں  اہم ترین حسد، غصہ، خود خواہی، بد گمانی ہیں۔ ان اسباب کی وجہ سے انسان غیبت کی محفل کوسجاتاہے اور اپنے من کولطف پہنچانے کی ناکام کوشش کرتاہے

یحییٰ بن معاذؒ فرماتے ہیں کہ ہر مسلمان کو اپنے اندر تین اوصاف و خوبیاں رکھنی چاہئیں۔

 1 ۔ اگر آپ اپنے بھائی کو نفع نہیں دے سکتے تو نقصان بھی نہ دیں۔

 2۔ اگر اسے خوشی نہیں دے سکتے تو مغموم بھی نہ کریں۔

 3۔ اگر اس کی تعریف نہیں کر سکتے تو مذمت بھی نہ کریں۔

ٓآج ہماری اکثریت ان اوصاف سے محروم نظر آتی ہے جن اوصاف سے متصف ہونا چاہئیے وہ تو کہیں نظر نہیں آتے مگر دوسرے بدرجہ اتم موجود ہیں۔ جہاں پر غیبت کی محفل سجتی ہے وہاں کثیر تعداد دکھائی دیتی ہے اورجہاں اصلاحی مجالس ہوں وہاں سے راہِ فرار اختیار کی جاتی ہے یاد رکھیے یہ ہمارے وجود میں ایمان کی کمزوری ہے ہمیں اپنی محافل و مجالس میں غیبت سے بچناچاہئیے اور اگر کوئی کر رہا ہو تو اسے سمجھانا چاہئیے اور اپنے مسلمان بھائیوں وبہنوں کا دفاع کرنا چاہئیے کیونکہ اس میں بھی اجر و ثواب ہے۔

اللہ پاک ہمیں غیبت اوراسبابِ غیبت سے محفوظ فرمائے(آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)

   ؎تھے جب اپنی برائیوں سے بے خبر

رہے ڈھونڈتے اوروں کے عیب و ہنر

     پڑی اپنی برائیوں پہ جب نظر

      تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

تبصرے بند ہیں۔