قوموں کا عروج و زوال

الطاف جمیل شاہ ندوی

 قانون فطرت ہے کسی بھی قوم کا اقتدار اور عروج وزوال دیر پا ضرور ہو سکتا ہے لیکن ہمیشہ نہیں ۔یہ عروج وزوال کی داستان اگر چہ فطری قانون کے مطابق ہوتاہے تاہم اس میں اسباب و عوامل کا کافی عمل دخل حاصل ہے۔کسی بھی قوم کے عروج و زوال میں بہت سے اسباب و عوامل فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ،۔قوموں کے بارہا کے عروج وزوال کو دیکھتے ہوئے ان عوامل کو طے کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔دنیا کی معزز ترین قوم بنی اسرائیل تھی جن پر انعام الہیہ کی بارش ہوا کرتی تھی جب ان میں اخلاقی دیوالیہ پن فطری قانون (جو رب الکریم نے ان کی بقاء کے لئے واضح کیا تھا) سے باغی ہوئے ۔ان کی انانیت حیا باختہ ہونے لگے اور الہی قوانین سے بغاوت کی تو ان کی تباہی ہوئی ۔رب الکریم نے سابقہ اقوام پر گزری سرگزشت بس الل ٹپلاور یوںزیبِ داستان کے لئے بیان نہیں کئے بلکہ اس لئے ان واقعات کی روئداد ہم تک پہنچانے کا بندوبست کیا کہ ہم تاریخ کے واقعات سے کوئی سبق اور نصیحت حاصل کریں ۔اس پر غور و فکر کریں تب فائدہ ہوگا۔ آئے ہم چند لمحوںکے لئے امت مسلمہ پر بیتی اس تباہیکا جائزہ لیں اور دو آنسو ں بہائیںاور اس بات پر غور و فکر کریں کہ کہیں ہم بھی تو اسی ڈگر پر رواں دواں نہیں جو سابقہ اقوام کی روش اور طریقہ تھا۔

 حیاتِ تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود۔یہ سنگ وخشت نہیں جو تری نگاہ میں ہےاللہ تعالی کی کتاب سے دوری قرآن کریم کی تعلیمات اس کے بتائے ہوئے نظام سے اگرچہ ہماری عقیدت بہت زیادہ ہے لیکن یہ نظام جب تک دنیا کے مسلمانوں کے لئے نظام زندگی ہوا کرتا تھا تب تک امت مسلمہ کی عظمت و رفعت کا چرچا ہر چہار سو تھا اور لیکن امت مسلمہ نے اسے صرف ایک مقدس صحیفہ اور ایک تبرک کی حثییت سے طاق ِ پر رکھا اور اس کے نظام عدل و انصاف کو زندگیوں سے نکال دیا ۔یہ کلام الٰہی انسانی زندگی کے مسائل بشمول معاشرت ،انسانی تمدن و تہذیباور عروج و زوال کو ایک جانب احسن اور بلیغ طریقے سے بیان کرتا ہے لیکن ہم اسے ہم مان تو رہے ہیںلیکن اپنانے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ باطل نظریہ حیات ہمارے لئے خوشنماءدکھائی دے رہے ہیں۔یقینا ہمارا نظام ہی بدل کر رہ گیا ہے اسے معمولی نہ سمجھیں کہ قران جو پوری انسانیت کی تمام خرابیاں دور کرنے کے لیے آخری اور مکمل نسخہ شفاءہے ۔ اپنا تنزیلی آغاز اقراءسے کرتا ہے اور عَلَّمَ الِنسَانَ مَا لَم یعلَم (انسان کو وہ باتیں سکھائیں جس کا اس کو علم نہ تھا) کے الفاظ سے تحقیق کے سمندر کی شناوری کی دعوت دیتا ہے اور عَلَّمَ بِالقَلَمِ (جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا) سے اپنے نتائجِ فکر محفوظ کر کے اگلی نسل کے حوالے کر دیتا ہے کہ اس پر مزید تحقیق کی جائے۔

رب الکریم نے اپنے پیغام کا آغاز اسی لیے ایمان اور ہدایت کی دعوت سے نہیں کیا کہ ایسا ایمان اور ایسی ہدایت جس کی اساس علم وتحقیق اور تفکر و تدبر پر نہ ہو مجموعہ توہمات ورسوم ہو سکتے ہیں،حیات و انقلاب آفریں نہیں جب تک امت مسلمہ اس علم و دانش کے مرکز سے وابستہ رہی تب تک چہار جانب سے اس کے عروج کے فیصلے ہوتے رہے ۔امت مسلمہ نے قلم پر کتاب پر جتنا کام کیا اتنا ہی اس کا اقبال بلند سے بلند ہوتا گیا حتی کہ یورپ بھی اس علمی عروج پر عش عش کررہا تھا کہ امت مسلمہ چراغ راہ لے کر ساری دنیا پر علم و عرفان کی کمند ڈال رہا ہے اقوام عالم اس روشنی سے اپنے لئے روشنی کے چراغ جلاتی چلی گئی ۔ہائے شومئے قسمت چراغ جن ہاتھوں میں تھے وہی بازو شل ہوتے گئے اور اپنے چراغ روشن کرنے والوں نے اس علم و عرفان کی مشعل کو تھام کر منصب چھین لیا اور امت مسلمہ اندھیری راہ پر گرچہ چلاتی رہی پر یہ شب ظلمت کے اندھیرے گہرے سے گہرے ہوتے چلے گئے۔

 اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ امت کی تباہی کا ایک بڑا سبب یہی ہے کہ اس نے میدان علم و دانش کو زوال پذیر ہوتے دیکھا لیکن اس کی غنودگی میں فرق نہ آیا ۔کیا ہم بخوبی واقف نہیں کہ جس معاشرے کی کایا پلٹی عالم عربی میں وہ نظام کیا تھا وہ رہنما کیسا تھا وہ قائد کیسا تھا۔ آپ ذرا تصور تو کیجیے کہ ایک ایسا معاشرہ جو جہالت اور گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، جہاں قتل وغارت گری کا رواج تھا ، وہ لوگ راہ راست سے اس حد تک بھٹکے ہوئے تھے کہ کوئی ان پر حکمرانی کرنے کے لیے تیار نہ تھا ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاشرے کا نقشہ ہی بد ل دیا۔ جب ہم آپ ﷺ کی محنت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ آپﷺ نے اس معاشرے کو ایمان محکم، عمل صالح، خوفِ خدا اور فکر آخرت کی ایسی بنیادیں فراہم کیں کہ جن کی وجہ سے پورا معاشرہ یکسر بدل گیا-

وہ لوگ جو پہلے قاتل اور لٹیرے تھے وہ زمانے کے مقتدا اور پیشوا بن گئے۔ ان کا معاشرہ جنت کا نمونہ بن گیا ، وہ قیصر وکسریٰ جیسی عالمی طاقتوں سے ٹکرا کر فاتح ٹھہرے۔ آج اگر ہم دیکھیں تو ہمارے حکمرانوں کا معاملہ ہو یا عوام کا ، انفرادی زندگیاں ہوں یا اجتماعی نظم، یقین محکم کی قوت، کردار وعمل کی طاقت، خوف خدا کے زادِ راہ اور فکرِ آخرت کی دولت سے ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر محروم ہو گئے ہیں۔

جب ہمارے پاس ایمان ویقین کی بنیاد اوراخلاص پر مبنی جذبہ ہی نہیں، کردار وعمل کے اعتبار سے ہم کمزور ہو گئے، محاسبہ کی فکر سے آزاد ہو گئے، مرنے کے بعد کی زندگی کو بھول بیٹھے ۔تو یہ وہ پہلی اینٹ ہے، جو غلط رکھ دی گئی، اس اینٹ کو جب تک صحیح نہیں کیا جائے گا اور اس بنیادی فکر پر اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی کو لانے کی کوشش نہیں کی جائے گی اس وقت تک عروج کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

اصلاح امت کی کوشش 

آ تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے

شمشیر و سناں اول طاوس و رباب آخر

 امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کو چھوڑنا امت مسلمہ کے لئے ایک بدترین سانحہ سے کم نہیں کیونکہ یہ ایک بنیادی مقصد ہے ۔امت مسلمہ کی بقاء و فلاح کے لئے اس کے لئے ہر سطح پر کام کرنے کی سخت احتیاج ہے جس کے چھوڑنے کے سبب ہم اپنے معاشرے کی تباہی و بربادی دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا معاشرتی نظام مسائل و مشکلات کی دلدل میں دھنستا ہی چلا جارہا ہے

کیوں کہ یہ بھی ملت اسلامیہ کے زوال کا ایک اہم سبب ہے۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان اس فریضہ کو اداکرنے کیلئے چہار دانگ عالم میں پھیل گئے اورانھوں نے ساری زندگی امر بالمعروف اورنہی عن المنکر میں گزاردی لیکن افسوس آج ہم نے یہ فریضہ بھی چھوڑ دیااس لئے ذلت ورسوائی ہمارا مقدر بن گئی ۔ہم گرچہ دوسروں کا محاسبہ کرنے پر تیار ہیں پر اپنی اصلاح کی ضرورت محسوس ہی نہیں کرتے اورنتیجہ وہی ہے کہ نہ ہم نے اپنی خو بدلی نہ اس نے مہربانی کی ۔ ہم بد سے بدتر پستی میں دھنستے گئے لیکن ہم نے یقین نہ کیا اور اپنی ذمہ داریوں سے مسلسل انکارکرتے رہے۔

ہم نے تو کچھ نہیں کرنا دوسرے ہی کرتے کیوں نہیں اب تو گرچہ داعیانہ کردار دعوی کئے جاتے ہیں لیکن انفرادی سطح پر ان کا حال بھی قابل رحم ہی ہوتا ہے جب تک ہماری دعوت کا ماخذ قرآن کریم اور سنت نبوی علیہ السلام نہ ہو اور اجتماعی زندگی انفرادی زندگیوں میں اس کا اثر واضح نہ ہو تب تک ہم کامیابی کے سفر پر گامزن نہیں ہوسکتے لہذا ملت اسلامیہ کے زوال کو ختم کرنے کا بہترین ذریعہ قرآن وسنت کے ان احکامات پر عمل پیرا ہونے میں ہی موجود ہے جس سے فرار ممکن ہی نہیں

آپسی رسہ کشی 

مسلمان امت کے زوال کی سب سے بڑی وجہ آپسی رسہ کشی ہے جس کا خمیازہ امت مسلمہ پچھلے پانچ سو سال سے اُٹھارہی ہے صورت حال اتنی دل آزردہ ہوئی کہ مسلمان مسلمان کو فتح کرنے پر تل گئے ۔مسلمانوں نے مسلمانوں کے سروں کے مینارے بنا ڈالے۔ مسلمانوں نے مسلمانوں کی مساجد کتابیں قرآنی نسخے جلا ڈالے ۔ایک دوسرے کو کافر زندیق مرتد بنانے میں اتنی قوت صرف ہوئی کہ تھوڑی سی قوت بھی امت مسلمہ کی فلاح کے لئے صرف ہوتا تو نتائج کچھ اور ہوتے ۔ مسلمان ایک دوسرے کی تباہی و بربادی کے لئے کوشاں و فکرمند رہتا ہے۔ تہذیب یافتہ اور باسلیقہ ملت اس قدر بدزبان گالی گلوچ کرنے والی ملت کے طور پہچانی جارہی ہے کہ غیر اقوام بھی ورطہ حیرت میں ہیں کہ کیا بلا ہیں جن کی زبان اس قدر گندی اور فحش ہے اور یہ آفت اتنی عام ہوگئی کہ خاندان ، گھر ، کمیونٹی ، ملک اورمسلک و منہج ،غرض ہر کوئی ایک دوسرے کے پیچھے پڑا ہوا ہے ۔ہمیںاپنی ذات کی فکر نہیں دوسروں کی غلطیاں چننے میں لگے ہوئے ہیں اور اس کو باقی رکھنے کے لئے مختلف الخیال لوگوں نے صفحات کے صفحات سیاہ کردئے جن صفحات پر بجائے علمی سرمایہ کے گالی گلوچ کی بھر مار دیکھائی دیتی ہے

آج امت مسلمہ کا حال یہ ہے کہ وہ اتحاد واتفاق سے کوسوں دور ہے ، چند ممالک بیٹھ کر اپنے مشترکہ مسائل پر بھی اتفاق نہیں کر پا تے۔ قراردادیں پاس کرتے ہیں ، قلم وقرطاس کا خوب استعمال بھی ہوتا ہے ، مگر عملاً امت مسلمہ کے حق میں کچھ نہیں ہوتا اسی لیے آج ہر محاذ پر لاچار اور مجبور ہیں اور غیروں کے اشارے پر رقصاں ہیں۔ کفّار اپنے تمام تر باہمی اختلاف وانتشار کے باوجود جب کفر اور اسلام کا معاملہ ہوتا ہے تو” الک ±فر ± مِلتہ واحد“ کی عملی تصویر بن جاتے ہیں۔ ان کے پاس اپنے سیاسی ، معاشی ، تعلیمی اور دیگر امور کے

 حل کے لیے کامیاب ادارے اور تنظیمیں موجود ہیں مگر مسلم ممالک آج بھی انہی کے نوالے پر قناعت کر رہے ہیں۔ اگر مسلمانوں کے درمیان باہم ٹھن جائے تو کوئی امریکہ کی پناہ میں ہوتا ہے تو کوئی روس کی۔ غرضیکہ ضمیر وظرف کا بحران اور بے حسی اتنی عام ہوچکی ہے کہ اپنے ہی بھائیوں کے خلاف محاذ کھولنا ، پیٹھ پر وار کرنا اور ان سے برسرِ پیکار رہنا ان کا مشغلہ بن چکا ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ امریکہ ، یورپ اور روس وغیرہ سے اپنی مضبوط ومستحکم دوستی کا حوالہ دے کر اپنے ہی بھائیوں کو تہہ تیغ کرایا جاتا ہے اور اسے اپنے ہاں اصلاح امت اور نہ جانے کیا کیا نام دے جاتے ہیں صرف اس لئے کہ اپنے دستور کا ڈنکا بجتا رہے

استاد محترم نقیب صاحب  کہتے ہیں

فَاعتَبِروا َیا اولِ الاَبصَارِ

امت مسلمہ گزشتہ چودہ صدیوں سے باہم دست و گریبان ہے۔ایک جانب ایک گروہ اپنے مخالفین کی ٹانگ کھینچ رہا ہے اور دوسری جانب کچھ لوگ کسی اور کے گریبان کو پکڑ کر گھسیٹ رہے ہیں۔جن مسائل کے سلسلے میں ہمارے مشائیخ عظام ، ائیمہ کرام اور فقہائے کرام مختلف الرائے ہیں اور ہر ایک کے پاس دلیل بھی ہے ،لیکن ہم علمی کم مائیگی ، بے بضاعتی اور تہی دامنی کے باوجود اپنی اپنی ہانک رہے ہیں۔ ہر گروہ خود کو راست رو سمجھ کر مدمقابل اور مخالفین کی تکفیر کررہا ہے۔دین داری کا دعویٰ کرنے والے شخص پرستی ،مسلک پرستی اور تنظیم پرستی کے خول میں محصور ہوکر مخالفین کی تانک جھانک اور اپنے ہم خیال لوگوں کی پردہ داری میں الست مست ہے۔ ان لوگوں سے اگر اس بات کے لئے استفسار کیا جائے بھائی لوگوں آپ میں سے کتنے لوگوں نے فجر کی نماز کے لئے مسجد کا رخ کیا ،تو ایک دم سے عذر تراش لیں گے ،کہ اجی رات بھر” منکرین اسلام ”سے جہاد کررہے تھے۔رات رات بھر سوشل میڈیا پرایک دوسرے کے خلاف اپنے ترکش سے کفر و ارتداد کے سارے تیر مخالفین کے کیمپ کی جانب چلاکر اتنی بھی سکت نہیں رہتی کہ حی علی الصلواة کی ندا سن کر مسجد کی طرف جا دوڑے لیکن خوردبین لے کر ایک دوسرے کے تعاقب میں رہنا ان کے لئے جنت کی راہداری ہے

شمع کی طرح جئیں بزم گہہ عالم میں

۔خود جلیں، دیدہ اغیار کو بینا کردیں

اس وقت مسلمان، پوری دنیا میں جن حالات سے گزر رہے ہیں انھوں نے فکرمند لوگوں کو حددرجہ تشویش میں مبتلا کررکھا ہے، ایک طرف تو عالمِ اسلام کے نام سے موسوم ا ±س مبارک خطہ کی صورتِ حال ہے جواگر واقعتہً عالم اسلام ہوتا تو یقینا یہ حالات نہ ہوتے، موجودہ دور میں اس خطے کو فقط عالمِ مسلمین کہا جاسکتا ہے، اور پھر مسلمان بھی جس معیار کے ہیں اس کانتیجہ یہ ہے کہ جس کے سبب بیمار ہوئے ہیں اسی عطار کے بیٹے سے دوا لینے کی غلطی مسلسل کررہے ہیں، اس سنگین غلطی نے صورتِ حال کو قابو سے باہر کردیا ہے۔ جن لوگوں کی نظر، یمن، شام، عراق اور فلسطین ومصر کے حالات پر ہے، وہ ہر صبح کسی انہونی کا خطرہ دل میں لیے اٹھتے ہیں اور ہر دن کی خبریں ”اوروں کی عیاری“ اور ”مسلم کی سادگی“؛ بلکہ مجرمانہ سادگی کے شواہد پیش کرتی نظر آتی ہیں جس کے سبب وسلم اسلام کے مومنانہ فکر و کردار کے حضرات انتہائی دل آزردہ ہیں میرے خیال میں یہ ایک اہم سبب ہے کہ ہم اپنوں کے لئے ہی درد و کرب کا باعث بنتے جارہے ہیں۔

 رسول اللہ ﷺکی سنت سے لاتعلقی 

آپ کے طریقوں کو چھوڑ دینا نبوی مزاج نبوی کردار نبوی معاشرت نبوی طرز زندگی میں جو تعلیمات ہماری فلاح و بہبود کے لئے موجود ہیں ان سے خائف امت مسلمہ اب تو ہم ہر سطح پر اسے رخصت کئے جارہے ہیں صورت حال اس قدر بھیانک ہے کہ مساجد و خانقاہ بھی اب اس نعمت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ مختلف افکار و نظریات کے علمبردار گرچہ دعویدار ہیں نظام الٰہی اور ترویج سنت کے لیکن ان کے ہاں بھی عملی میدان میں کائنات کے آخری امام محمد عربی ﷺ کی پاکیزہ طریقے مفقود ہی ہوتے جارہے ہیں جو کہ ایک المناک باب بنتا جارہا ہے ۔جس دن ملت اسلامیہ پلٹ کر محمد عربی ﷺ کو اپنا قائد بناکر اور اپنی ذاتی اصلاح کی فکر اور اجتماعی معاملات میں اتحاد کی فکر، ہمارے مزاج کا حصہ بن جائیں گی اسی دن سے وہ عمل حقیقی معنوں میں شروع ہوگا جسے دعوت کہتے ہیں اور اسی معیار پر ہوگا جس معیار پر اسے ہونا چاہیے، ورنہ ہم جیسے مسلمانوں سے تو کارِ دعوت انجام پانا مشکل ہے؛ البتہ آج کل کے حالات سے جس درجہ فکر اور اندیشوں کا ماحول بنا ہوا ہے، اسے دیکھ کر یہ امید دل میں جاگتی ہے کہ شاید اب ہم حالات بدلنے کے لئے ان صحیح بنیادوں کو اپنانے کی سنجیدہ فکر تک بھی پہنچ جائیں گے، ان شاءاللہ

دل کہتا ہے فصلِ جنوں کے آنے میں کچھ دیر نہیں

ا ب یہ ہو ا چلنے ہی کو ہے صبح چلے یا شام چلے

تبصرے بند ہیں۔