غیر حساس مفتیان اور فتووں کی بے عزتی!

مشتاق نوری

ندا خان کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے پوری قوم کے ساتھ اسلامی قانون و تہذیب کو بھی ذلیل کیا ہے۔ اس بہانے متعصب میڈیا کو بھر پور آکسیجن مل رہا ہے۔ ۔ پر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان وہ ملک ہے جہاں روز ایسی ہزاروں ندا خان پیدا کی جاتی ہیں۔ روز ایسے سانچے تیار کئے جاتے ہیں روز ایسی دین بے زار عورتوں کا میک اپ کیا جاتا ہے۔ اس پر طرفہ تماشا یہ کہ عقل و شعور رکھنے کے باوجود ہم ان کے ہتھے چڑھ بھی جاتے ہیں۔

ہماری سادہ لوحی بھی کمال کی ہے۔ سازشوں کے کیسے کیسے جال بچھائے جاتے ہیں۔ کیسے کیسے حربے استعمال کئے جاتے ہیں ہم ان سب سے بے خبر اپنی دھن میں مست رہتے ہیں۔

ہمارے سماج میں دین بیزاری کے جراثیم بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں۔ خاص کر نئی نسل میں یہ وبا بہت تیزی سے سرایت کر رہی ہے۔ ہمارے اپنے جو اعلی تعلیم کے لئے کالجز، یونیورسٹیز کا رخ کرتے ہیں،نہ جانے کس چور دروازے سے دین بیزاری کا نامسعود رنگ بھی ان پر چڑھ  جاتا ہے؟

ملک کی ایک معروف یونیورسٹی سے phd ہولڈر لڑکی نے ایک غیر مسلم سے شادی رچالی۔ جب اس سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے یہ کہ کر کہ "میرے سماج میں مجھے میرے برابر کا کوئی تعلیم یافتہ نہیں ملا” پوری قوم کو ہی جاہل بنادیا۔

یہی کوئی 2013 کی بات ہے پٹنہ کے جس lodge میں میں رہتا تھا اسی کے دوسرے کمرے میں مغلسرائے یوپی کا ایک لڑکا بھی رہتا تھا جو جنرل کمیٹیشن کی تیاری کررہا تھا۔ ایک دن وہ میرے کمرے میں خالی انڈر ویر میں آگیا۔ میں ٹھہرا مولوی! میں نے کہا کہ اسلامی طریقہ کا کپڑا پہنو یار! تو وہ چھوٹتے ہی کہنے لگا کہ "اس سے اچھا تو بودھ دھرم ہے جس میں اتنی پابندی نہیں ہے۔ "میں نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ میری کوئی دلیل سننے کو تیار نہیں تھا۔

دو ہزار آٹھ میں ثانیہ مرزا کے کپڑوں کو لے کر کافی بحث چلی تھی۔ اس میں حیدرآباد کے کچھ  دارالافتا نے اس کے کپڑے پر فتوی کیا دیا مانو اندھے کو بٹیر ہاتھ لگ گئی ہو۔ میڈیا والوں نے اسے خوب بھنایا تھا۔ اگلے دن اخبار میں ثانیہ مرزا کا یہ بیان شائع ہوا تھا۔ "میں ڈھائی انچ کا پہنوں یا ڈیڑھ انچ کا، ملوں(مولانا)کو کیوں پریشانی ہے”

آپ ذرا دل تھام کر سوچئے کہ مفتی اور فتوے کی اس سے بڑی بے عزتی اور کیا ہوگی؟لیکن پھر بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہیں لئے۔ ہم نے اس سےکوی سبق نہیں لیا۔ اور آج بھی دیوانہ وار فتوی لکھتے بھی ہیں، چھاپتے بھی ہیں۔

ندا خان بھی اسی اسلام بیزاری کی ایک کڑی ہے۔ یہ تو اپنا رنگ دکھائے گی ہی۔ ایسے میں فتوی صادر  کرکے کوئی تیس مار خان بننے کا خواب پا لے تو کیا کیا جائے؟ یہاں فتوی بازی کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔

حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے ارباب افتا و قضا اس نازک سچوئیشن سے لاعلم کیسے رہتے ہیں؟ایک سیدھی اور موٹی سی بات ہے کہ فتوی صرف ان کے لئے ہے جن میں اس کی اہمیت و احترام ملحوظ ہو!!

آج کے حالات کو دیکھتے ہوئے کیا یہ ضروری نہیں کہ افتا و قضا کی مسندوں پر جلوہ افروز حضرات اپنے قرطاس و قلم کو باعزت بنائے رکھیں؟ کیا یہ اصول افتا سے باہر کی چیز ہے کہ مفتیان کرام مستفتی کے بیک گراونڈ  اور پرسنا لٹی پروفائل کی کچھ جانکاری بھی لیں؟ کیا معاملے کی نزاکت کو سمجھنا ضروری نہیں؟کیا ہماری زمہ داری نہیں بنتی کہ اب دارالافتائوں کو بالغ نظر اور حساس صاحبان فقہ و افتا کے حوالے کئے جائیں؟کیا قوم امید لگا سکتی ہے کہ آئندہ احتیاط سے کام لیا جائے گا اور ہماری تضحیک و تذلیل کا سلسلہ تھم جائےگا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔