فتنہ مادیت اور مسلمان

انسان کا جب خالق سے رشتہ کمزور پڑ جاتا ہے تو انسانی رشتے نہ صرف ذاتی مفاد تک ہی محدود ہو جاتے ہیں،  بلکہ ان رشتوں  سے اخلاص اور رحم کے جذبات کے ساتھ زندگی کا اصل رومانس بھی ختم  ہو جاتا ہے اور پھر ایسے معاشرے کو فتنے اور فساد سے کوئی نہیں  روک سکتا – اٹھارہویں  صدی کے کارپوریٹ کلچر اور مادی انقلاب کے بعد خدا بیزار دجالی تہذیب کے نتائج بھی ہم دیکھ رہے ہیں  کہ کس طرح  ہمارا پورا معاشرہ اس فتنے اور لعنت سے تباہ ہو رہا ہے اور کس طرح پچھلےسو سالوں  کے درمیان ہونے والی جنگوں  اور فسادات میں  کروڑوں  انسان آپسی خلش ، نفرت اور نسلی عصبیت کا شکار ہوکر ہلاک ہوگئے- یہ صورتحال بدستور آج 2017 میں  بھی قائم ہے –

شام کے شہر حلب میں  ایران شام اور ان کی دجالی ملیشیاؤں  نے دنیا کے ایک بڑے دجال  روس کے ساتھ مل کر  پانچ لاکھ کے قریب شامی مسلمانوں  کو موت کے گھاٹ اتار دیا – بظاہر امن اور جمہوریت کے نام پر کھیلے گئے اس کھیل کا مقصد بھی صرف ایک کھیل اور چند شیطانی طاقتوں  کی ذہنی تفریح اور تسکین کی سوا اور کچھ نہی ہے اور یہ اپنے اسی شیطانی نظریے کی بالادستی چاہتے ہیں – دنیا کے اس پورے منظرنامے میں  نبوی تحریک  کی نمائندگی کرنے والے چہروں  کی حالت یا تو تماشائی کی رہی یا کچھ لوگوں  نے اس نظریے کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے اصحاب کہف کی طرح پہاڑوں  اور صحراؤں  کا رخ کر لیا ہے اور جو طاغوتی حکومتوں  کے درمیان رہ کر حق بات کہنے کی جرات کرسکے۔ مسلسل شعب ابی طالب اور سنت یوسفی کے حالات سے گذر رہے ہیں – وہ لوگ جو کفر اور شرک کے ان کشمکش حالات میں  بھی اپنی پرامن جدوجہد سے مایوس نہیں  ہیں  پوچھتے ہیں  کہ ان مشکل اور پر آشوب حالات میں  امتہ مسلمہ کا کردار کیا ہونا چاہیے تاکہ دنیا سے فساد کا خاتمہ ہو سکے- اگر اس موضوع پر بحث کی جائے یا اس کا کوئی حل پیش بھی ہو سکتا ہے تو اس کا جواب ایک اور مکمل انقلاب کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے – مگر مشکل یہ بھی  ہے کہ عیسوی اور ہجری صدی کے بعد دنیا کے ہر انقلاب کی تاریخ آگ اور خون سے لکھی گئی ہے اور شاید مستقبل کی پرامن دنیا کے انقلاب کا رنگ بھی ایسا ہی ہو – مستقبل میں  اس انقلاب کیلئے حالات  کیا رخ اختیار کرتے ہیں  اس کی پیشن گوئی کرنا تو مشکل ہے لیکن کسی شاعر کے بقول یہ بات یقینی طورپر کہی جاسکتی ہے کہ:

پھر وہی قافلہ شوق وہی نہر فرات

کربلا پھر سے وہی تشنہ لبی مانگے ہے

لیکن چونکہ دنیا کے ہر خطے کے  مسلمانوں  کے اپنے مسائل اور وسائل دونوں  مختلف ہیں  اس لئے آج کے پرفتن حالات میں   نبوی تحریک کے علمبرداروں  کیلئے قرآن کی سورہ کہف کی آیات میں   بہترین رہنمائی ہے-  مثال کے طور پر اہل ایمان اگر کسی خطے میں  یاجوج ماجوج جیسے فتنے یا کسی ظالم قوم کے نرغے میں  ہیں  تو ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہی کہ کسی ذولقرنین کیلئے دعا کریں  اور اس کی مدد کریں  – اسی طرح اللہ چاہتا تو کسی ذوالقرنین سے اصحاب کہف کی بھی مدد کروا سکتاتھا مگر اللہ نے  انہیں  وقت کے ایک ظالم حکمراں  سے پناہ حاصل کرنے کی تدبیر  اختیار کرنے کی حکمت میں  قیامت تک کے مسلمانوں  کیلئے رہنمائی کی مثال قائم کردی – سورہ کہف کی  انہیں  آیات میں   حضرت موسیٰ اور  حضرت خضر کی ملاقات کا واقعہ بیان کرکے اللہ تعالی دنیا کے تمام مومنین کو پیغام دیتا ہے کہ بغیر کسی تحقیق اور  علم کے مومن کسی مومن سے سر زد ہونے والی قابل اعتراض حرکتوں  پر بھی اعتراض نہ اٹھائے- جیسا کہ دنیا کے موجودہ حالات میں  کچھ  نادان دانشور اورعلماء دین بھی دجالی میڈیا کے پروپگنڈے کا شکار ہو کر مومنوں  پر لعنت ملامت کے مرتکب ہو رہے ہیں –

نبوی تحریک کی تاریخ میں  اکثر انبیاء کرام کو مختلف ادوار میں  مختلف قسم کے مشکل مراحل سے گذرنا پڑا اور اکثر کو اپنی بستیوں  سے ہجرت بھی کرنی پڑی  لیکن اس کے باوجود اللہ کے ان نیک بندوں  نے دولت جائداد اور اپنےکاروبار کی ترقی کیلئے اپنے اخلاق اپنے کردار اور صلہ رحمی کے اوصاف کو ترک نہیں  کیا -شاید یہی وہ کرداراور اخلاق کی دولت تھی جس کی وجہ سے انہیں  مشرکین کی جماعت سے بھی  حمایت ملتی رہی ہے اور تمام مخالفتوں  کے باوجود جب وہ کامیاب ہوئے تو ان کی اس تحریک کی بدولت زمین پر برسہا برس تک امن اور خوشحالی کا ماحول رہا – لیکن اس عمل کیلئے اہل ایمان کو خود  اپنے رسول محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی شروعات کا جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے  کہ آخر وہ کیا عمل تھا کہ جس نے وقت کے رسول کو جس پر کہ ابھی وحی کے نزول کا سلسلہ بھی نہیں  شروع ہوا تھا  مقبول و معروف  بنا دیا تھا – کیا کسی بھی تحریک اور اس کے نمائندوں  کی اخلاقی شناخت محض اسٹیج شو یا زبان وبیان کی بلاغت سے کی جاسکتی ہے یا کسی بھی تحریک اور قوم کے قائد پر محض اس کی تعلیمی لیاقت اورسیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے ؟ رسول عربی ﷺ کے دور میں  ابو جہل ، ابو لہب ، ابو سفیان ، ولید بن مغیرہ اور خود ابو طالب اور عمر بن خطاب جیسے بے شمار سرداران عرب تھے  جو اپنی قابلیت اور لیاقت کی بنیاد پرعربوں  کی قیادت کے اہل تو تھے لیکن کیا وہ عربوں  کو ایک عالم گیر تحریک کیلئے متحد کرسکے- ایک عالم گیر تحریک کیلئے عربوں  کو آمادہ کرنا تو دور کی بات ان میں  سے کسی ایک سردار میں  یہ صلاحیت تک نہیں  تھی کہ وہ مکہ کے تمام قبیلوں  کو کسی سیاسی نظام کے ماتحت ایک پرچم کے نیچے متحد کرسکے لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم  میں  ایسی کیا بات تھی کہ جب انہوں  نے مشرکین مکہ کو صفا مروہ کی پہاڑی کے نیچے جمع ہونے کی دعوت دی تو بیک وقت مکہ کے تمام سرداران نے ان کی آواز پر لبیک کہا – کیا آپ پر پورا قرآن نازل ہوچکا تھا ، کیا آپ کو اللہ کے مستقبل کے منصوبے کا علم تھا ، کیا آپ کو معراج کی سیر کرادی گئی تھی ؟ شاید یہ وحی اور خواب کے نزول کا ابتدائی دور تھا جس کی اطلاع آپ نے ابھی اپنی شریک حیات حضرت خدیجہ کو دی اور آپ خود اتنے گھبرائے ہوئے تھے کہ حضرت خدیجہ کو اپنے چچا ورقہ بن نوفل سے مشورہ لینا پڑا – خود حضرت خدیجہ جنھوں  نے آپ کے اخلاق اور کردار کی بنا پر آپ سے نکاح کیا تھا آپ کو تسلی دیتی ہیں  کہ آپ گھبرائیں  نہیں  آپ کے آپ کی قوم پر اتنے احسانات ہیں  کہ وہ  آپ پر کبھی کوئی تکلیف نہیں  آنے دیگی – سوال یہ ہے کہ آپ کے آپ کی قوم پر وہ  کیا احسانات تھے کہ آپ مکہ کے لوگوں  کیلئے محسن اور ہردلعزیز بن چکے تھے اور کہیں  نہ کہیں  انہیں  آپ سے یہ امید تھی کہ  یہ نوجوان مستقبل میں  عربوں  کی کامیاب رہنمائی کریگا – یہ بات اکثر آپ کے دادا عبد المطلب بھی کہا کرتے تھےکہ میں  اپنے اس بیٹے میں  عربوں  کی سرداری کی جھلک دیکھ رہا ہوں  – بعد میں  لوگوں  نے دیکھا بھی کہ  آپ نے بچپن سے جوانی کی عمر تک جبکہ ابھی آپ نبوت سے سرفرازبھی نہی ہوئے تھےاپنی زندگی کو لوگوں  کیلئے وقف کردیا اور پورے عرب میں   لوگ آپ کو امین کہہ کر پکارتے تھے – ایسا اس لئے تھا  کہ جہاں  مشرکین مکہ اپنی ضرورتوں  کی تکمیل اورتحصیل کیلئے آمادہ  جنگ تھے  آپ لوگوں  کی ضرورت اور مسائل کا حل پیش کرکے ان  کی ضرورت اور پہچان بن چکے تھے –

ہندوستان کی  موجودہ صورتحال مسلمانوں  سے اسی کردار کی متقاضی ہے کہ کیا اس ملک میں  مسلمانوں  کی یا مسلمانوں  کی کسی تنظیم اور اس کے قائد کی اپنی پہچان بھی یہی ہے – اگر نہیں  تو پھر مسلم تنظیموں  اور ان کے قائدین کو اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ کیا انہوں  نے اپنے معاشرے کی اصلاح کیلئے  نبوی تحریک سے کوئی سبق حاصل کیا – کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ وحی کے نزول سے پہلے ہی وقت کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بے چینی کیا تھی اور اس نے لوگوں  کی عام مادہ پرستانہ سوچ اور ماحول سے باہر نکل کر غار حرا کا رخ کیوں  کیا – یہ بات غور طلب ہے کہ زمانے کے ہر دور میں  قوموں  اور قبیلوں  کی گمراہی کی وجہ ان کے لوگوں  کی مادہ پرستی اور مفاد پرستانہ سوچ ہی تھی جس نے انہیں  جارح ، بے رحم اور متکبر بنا دیا تھا -سورہ کہف کی آیات میں  ایک شخص کی تباہی کی ایک وجہ اس کی یہی متکبرانہ اور مادہ پرستانہ سوچ بتائی گئی ہے – شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں  یہود ونصاریٰ کے علماء نے احکام الٰہی کو مال و زر سے  بیچنا شروع کر دیا تھا مشرکین مکہ میں  بیٹیوں  کو زندہ دفن کرناعام بات تھی – کل اور آج کے مشرکین میں  اگر کچھ فرق آیا ہے تو بس اتنا کہ بچیوں  کو قتل تو نہیں  کیا جاتا لیکن انہیں   کارپوریٹ سیکٹر یا فحاشی کی صنعت کی طرف موڑ کر دولت اور شہرت کمانے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے – مسلمانوں  کی اکثریت ممکن ہے ابھی پوری طرح اس دلدل میں  نہ گری ہو لیکن جدید ترقی اور معاشی بدحالی کے خوف نے اسے اپنے نصب العین سے ضرور منحرف کر دیا ہے – نئی نسل تو اپنی ملی اور قومی بیداری سے بھی نابلد ہے – اس طرح مسلمانوں  کی تحریکوں  اور تنظیموں  کی بھی  اپنی کوئی  شناخت نہیں  رہی کہ جس کی وجہ سے انہیں  امین یا امانت دار کے لقب سے پکارا جائے-

آج کے حالات میں  مسلمان کتنا بھی تعلیم یافتہ ہو جائے یا ترقی کرلے احیائے اسلام کی سیاسی تاریخ کو دوبارہ عروج اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جبکہ وہ اپنی مادہ پرستانہ سوچ سےاوپراٹھ کر لوگوں  میں  اپنے اخلاق ، فلاح وبہبود اور معاشرے کی اصلاح کے کاموں  سے اپنی ایک اسلامی شناخت قائم کرے تاکہ ہماری یہی شناخت مستقبل کے مسلمانوں  کیلئے سیاسی عروج کا سبب بن سکے – یہی اللہ سے ہمارا عہد بھی ہے اور اللہ نے بھی اس جماعت کے بارے میں  گواہی دی ہے کہ کنتم خیر امتہ اخرجت الناس -یہی وہ جماعت تھی جو ایک معاشرے کی اصلاح اور مستقبل کےانقلاب کیلئے اپنا سب کچھ ترک کرکے مدینہ منتقل ہو گئی – ان کی سب سے بڑی قربانی یہ نہیں  تھی کہ انہوں  نے اپنے وطن سے ہجرت کی جبکہ حکومت ، اقتدار اور کاروبار کی ترقی کیلئے قوموں  نے بارہا اپنے وطن کی قربانی دی ہے اور آج بھی لوگ روزی روزگار کیلئے امریکہ اور لندن میں  منتقل ہو رہے ہیں  مگر تاریخ میں   لکھی جانے والی بات یہ ہے کہ انہوں  نے مکہ میں  اپنی زمین جائداد گھر رشتے دار اور کاروبار کوترک کرکے اپنے نفس کی جو قربانی دی وہ دراصل اس وقت کی مادہ پرستانہ ذہنیت کے خلاف جنگ کا پہلااعلان تھا اور مدینے کی جدوجہد خالق کی ربوبیت اور اس کی حاکمیت کے اقرار اور اعلان کی عملی بنیاد تھی – بدقسمتی سےآج اسلام کی جو شبیہ بنا دی گئی ہے ہمارے بچے  اسلام ، دعوت و اصلاح اور انقلاب کا مفہوم بھی بھولتے جارہے ہیں  – اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ مادی فتنے میں  قید اہل ایمان کو بھی اتنی فرصت کہاں  ہے کہ وہ ماہانہ اور ہفتہ واری چھٹی کے دنوں  میں  رسمی اجتماعات منعقد کرنے کے بعد کچھ غوروفکر کر سکیں  یا وہ بے چینی نظر آئے جو کسی معاشرے اور سماج کی اصلاح کے لئے درکار ہوتی ہے –

تبصرے بند ہیں۔