فرطِ جذبات کا تھا مارا میں
افتخار راغبؔ
فرطِ جذبات کا تھا مارا میں
اب ہوں ٹوٹا ہوا ستارہ میں
…
لمس تیرا سنوار دیتا تھا
جب بھی ہوتا تھا پارہ پارہ میں
…
ذہن اور دل میں اتفاق نہیں
کیسے سمجھوں ترا اشارہ میں
…
خود سے اُتنا ہی میں ہوا بے زار
جتنا لگتا تھا تجھ کو پیارا میں
…
بن ترے دن کہاں گزرتے تھے
کر رہا تھا فقط گزارا میں
…
کیسے ہو کر ترے خلاف کبھی
اپنے دل کا بنوں سہارا میں
…
روز غم سے ترے لڑائی کی
روز تیری خوشی سے ہارا میں
…
روز اٹھتی تھی دل میں ایک ہی ٹیٖس
روز کرتا تھا استخارہ میں
…
اب نہ دوں گا تمھیں کوئی تکلیف
ہو گیا خود پہ آشکارا میں
…
جانے کب چل گیا تمھارا سحر
جانے کب ہو گیا تمھارا میں
…
اُس نے پوچھا کہ کون راغبؔ ہے
کہہ دیا میں نے کتنا سارا "میں”
تبصرے بند ہیں۔