فرطِ جذبات کا تھا مارا میں

افتخار راغبؔ

فرطِ جذبات کا تھا مارا میں

اب ہوں ٹوٹا ہوا ستارہ میں

لمس تیرا سنوار دیتا تھا

جب بھی ہوتا تھا پارہ پارہ میں

ذہن اور دل میں اتفاق نہیں

کیسے سمجھوں ترا اشارہ میں

خود سے اُتنا ہی میں ہوا بے زار

جتنا لگتا تھا تجھ کو پیارا میں

بن ترے دن کہاں گزرتے تھے

کر رہا تھا فقط گزارا میں

کیسے ہو کر ترے خلاف کبھی

اپنے دل کا بنوں سہارا میں

روز غم سے ترے لڑائی کی

روز تیری خوشی سے ہارا میں

روز اٹھتی تھی دل میں ایک ہی ٹیٖس

روز کرتا تھا استخارہ میں

اب نہ دوں گا تمھیں کوئی تکلیف

ہو گیا خود پہ آشکارا میں

جانے کب چل گیا تمھارا سحر

جانے کب ہو گیا تمھارا میں

اُس نے پوچھا کہ کون راغبؔ ہے

کہہ دیا میں نے کتنا سارا "میں”

تبصرے بند ہیں۔