فرعون کا عبرتناک انجام اور خدائی تبصرہ

فرعون اس عبرت ناک انجام کو کیوں پہنچا اور اس کے کیا اسباب تھے؟ ان سب پر اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر مختلف اسالیب و انداز میں تبصرہ فرمایا ہے اور آئندہ اسے جو کچھ پیش آنا ہے اس کو بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہوا:

  استکبار کا نتیجہ- دنیا و آخرت میں لعنت:’’اس نے اور اس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی حق کے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور سمجھے کہ انھیں کبھی ہماری طرف پلٹنا نہیں ہے۔ آخر کار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندروں میں پھینک دیا۔ اب دیکھ لو کہ ان ظالموں کا انجام کیسا ہوا۔ ہم نے انھیں جہنم کی طرف دعوت دینے والے پیش رو بنا دیا اور قیامت کے روز وہ کہیں سے کوئی مدد نہ پاسکیں گے۔ ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگادی اور قیامت کے دن وہ بڑی قباحت میں مبتلا ہوں گے‘‘ (سورۃ القصص: 39 تا 42)۔

حقیقی بڑائی اور کبریائی صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ کسی مخلوق کا نہ یہ حق ہے اور نہ اس کو زیب دیتا ہے کہ وہ خالق برتر کے مقابلہ میں اپنی بڑائی کا دعویٰ کرے اور اپنی بے چون و چرا اطاعت کا مطالبہ کرے، اس زمین کو اپنی جاگیر سمجھ کر جو چاہے کرتا پھرے اور سمجھے کہ مجھے کسی کے سامنے کوئی جواب نہیں دینا ہے۔

 فرعون اور ساتھیوں نے یہی روش اختیار کی اور دیکھ لو کہ ان کا انجام کیا ہوا؟ اور ابھی تو یہ انجام کا آغاز ہی ہے، آگے ان کا جو حشر ہوگا وہ اس سے بھی برا ہے۔ اپنی کجروی سے انھوں نے آئندہ آنے والوں کیلئے مثال قائم کی کہ حق کی مخالفت ان طریقوں اور ہتھکنڈوں سے کی جاتی ہے اور اس مخالفت حق میں اس حد تک گزرا جا سکتا ہے۔ وہ صرف اپنے کئے ہی کی سزا نہ پائیں گے بلکہ ان تمام بدکرداروں کے فسق کی بھی سزا پائیں گے جو ان کی پیروی میں ظلم و طغیان پر اتر آتے ہیں۔ قیامت کے دن وہ نہ صرف جہنم میں جھونکے جائیں گے بلکہ مجرموں کے سرداروں کی حیثیت سے سخت ترین سزا کے مستوجب ہوں گے۔ انھیں اس وقت پتہ چلے گا کہ ان کے سارے لشکر اور ساتھی بے حقیقت تھے اور ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ ان کی اس بدکرداری اور سرکشی کی ایک سزا تو اس دنیا میں ہی یہ مل گئی کہ قیامت تک ان پر لعنت برستی رہے گی اور قیامت کے دن انھیں ہیبت ناک سزا ملے گی کہ چہرے بگڑ جائیں گے، مردودوں اور مقہوروں میں جگہ پائیں گے اور وہ سزا پائیں گے کہ العیاذ باللہ!

 دوزخیوں کا پیشوا ہوگا:قیامت کے دن فرعون کی جو گت بنے گی اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’قیامت کے روز وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا اور اپنی پیشوائی میں انھیں دوزخ کی طرف لے جائے گا۔ کیسی بدتر جائے ورود ہے یہ جس پر کوئی پہنچے! اور ان لوگوں پر دنیا میں بھی لعنت پڑی اور قیامت کے روز بھی پڑے گی۔ کیسا برا صلہ ہے یہ جو کسی کو ملے!‘‘ (سورہ ہود: 98-99)۔

کاش! وہ لوگ جو آج دنیا میں فرعون بنے ہوئے ہیں، ائمہ ضلالت بنے ہوئے ہیں، اپنے پیش رو کے اس انجام دے کوئی سبق لیتے اور اپنے رویے کو درست کرلیتے۔ یہ دنیاوی ٹھاٹھ باٹھ جو انھیں دھوکے میں ڈالے ہوئے ہیں، کتنے دن کے؟ یہ ساری اکڑفوں کس لئے ہے کہ دنیا میں ان کی بڑائی کا ڈنکا بجے، لیکن انجام کیا ہوگا؟ اس دنیا میں بھی پھٹکاراور آخرت میں بھی پھٹکار۔

دنیابھی ہاتھ سے گنوائی:پھر یہ بھی دیکھ لیں کہ اس دنیا کو بنانے کیلئے فرعون نے یہ سارے پاپڑ بیلے لیکن یہ دنیا بھی ہاتھ نہ آئی۔

’’کتنے ہی باغ اور چشمے اور کھیت اور شاندار محل تھے جو وہ چھوڑ گئے۔ کتنے ہی عیش کے سر و سامان جن میں وہ مزے کر رہے تھے ان کے پیچھے دھرے رہ گئے۔ یہ ہوا ان کاا نجام، اور ہم نے دوسروں کو ان چیزوں کا وارث بنا دیا، پھر نہ آسمان ان پر رویا نہ زمین، اور ذرا سی مہلت بھی ان کو نہ دی گئی۔ اس طرح بنی اسرائیل کو ہم نے سخت ذلت کے عذاب، فرعون سے نجات دی جو حد سے گزر جانے والوں میں فی الواقع بڑے اول درجہ کا آدمی تھا‘‘ (سورہ الدخان:25تا 31)۔

 ان لوگوں کی ساری مخالفت اس لئے ہی تو تھی کہ انھیں اندیشہ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی دعوت کی کامیابی کی وجہ سے ان کا اقتدار ختم ہوجائے گا، ان کے عشرت کدوں کی رونقیں ختم ہوجائیں گی، ان کے خدائی ٹھاٹھ باٹھ اور اللہ کے بندوں پر ان کی خود ساختہ خدائی معدوم ہوجائے گی۔ ان مفادات کو بچانے کیلئے انھوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، دعوتِ حق کو ٹھکرایا اور اللہ کے نبی تک کو جھٹلایا یہ جانتے ہوئے کہ وہ حق پر ہے۔ لیکن ہوا کیا؟جب اللہ کی پکڑ آئی تو نہ تو کوئی بچا اور نہ ہی انھیں تلافیِ مافات یا تو بہ کیلئے کوئی مزید مہلت ملی، بلکہ اپنی توقعات،  آرزوؤں، تمناؤں اور تدبیروں کے برعکس ان سب چیزوں کو چھوڑنا پڑا۔ نہ صرف چھوڑنا پڑا بلکہ ذلت کا عذاب ان پر مسلط ہوکر رہا۔ پھر ان کی تباہی و بربادی پر نہ کوئی آنکھ روئی، نہ کسی نے آہ بلند کی، نہ کسی نے مرثیہ کہا، نہ نوحہ کیا بلکہ رہتی دنیا تک ان کے نام پر لعنت ہی پڑتی رہے گی۔ اپنی طاقت کے زعم میں وہ جن لوگوں کو دبانا اور مٹانا چاہتا تھا، اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کو بچایا بلکہ اس سے بدرجہا بہتر انعامات سے نوازا۔

تحریر: اخلاق حسین… ترتیب:  عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔