فرقہ واریت: کچھ شیڈس

مشرف عالم ذوقی

’یہاں کچھ ایسا ہے، جو بیمار کر سکتا ہے تمہیں / یہ ایک برفیلا ملک ہے/

یہاں نہیں پڑتی ہیں سورج کی کرنیں / برف باری ہوتی ہے اور برف کے طوفاں آتے ہیں /

ہم چھپ جاتے ہیں / برف کے ٹھنڈے لبادے میں /

اچانک نہیں بلکہ سب کچھ/ سہتے ہوئے اور ٹھٹرتے ہوئے— ایک دن/

نہیں۔ یہ برف کی چٹان ابھی نہیں پگھلے گی/ یہ تیرتی رہے گی پانی کی سطح پر/

اور دور سے آنے والی ناؤیا جہاز کو/ چکنا چور کرتی رہیں گی— یہ بے شمار برفیلی چٹانیں /

یہ ایک برفیلا ملک ہے/ یہاں سورج کئی کئی دنوں تک اوجھل رہتا ہے/

کافی کافی مہینے بعد دکھائی دیتی ہے زمین/ برف پگھلنے پر/

لیکن اب کب پگھلے گی یہ برف؟/ کب اگیں گے یہاں لچین؟/

سیل مچھلی۔ قطبی ریچھ اور رینڈیر/ کے سہارے طے کرنا ہے— یہ برفیلا سفر/

کب پار کریں گے جبر الڑ یہاں کے اسکیمو / کب باہر نکلیں گے اپنے اگلو سے/

چلیں، آگے تیار ہوسکتی ہے سیلج / انہیں کتے یارینڈیر کھینچیں گے/

بہت ممکن ہے۔ ضرورت پڑ جائے ہار پون کی

ہم چلیں گے/ ہم جنگ لڑیں گے/

ہم جئیں گے/ یا ہم باہر نکلیں گے اس برفیلے ملک سے/

ایک صدی گزر گئی۔ ایک نئی صدی کی شروعات ہوگئی— اور اس نئے ہزارہ یا نئی صدی کے دس سال گزر گئے— ان دس برسوں میں بہت حد تک اس فرقہ واریت کے معنیٰ بھی بدل گئے۔ باہری ملکوں کے لیے مسلمان دہشت پسندی کا برانڈ بن چکا ہے۔ ابھی حال میں ایک مسلمان سائنسداں کو امریکہ جانے کے لیے صرف اس لیے ویزا نہیں ملا کہ وہ ایک مسلمان تھا۔ آسٹریلیا سے ستائے جانے والے نوجوان مسلمان ڈاکٹر نے خود پر ہونے والے مظالم کے خلاف مورچہ لے رکھا ہے— لادن پر فلمیں بن رہی ہیں۔ عراق کے بعد امریکہ ایران کو نشانہ بنا رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں — فرقہ واریت کے نئے نئے شیڈس سامنے آ رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارا ملک ہے— اب یہاں بھاجپا نہیں ہے۔ کانگریس ہے— لیکن وہی بٹلہ ہاؤس، وہی گجرات کے فرضی انکاؤنٹرس— لبراہن کمیشن بابری مسجد کے تمام ملزموں کو باعزت بری کرنے کا فتویٰ سناتی ہے۔ اور اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ فرقہ واریت نئے لباس، نئے معنوں میں اس گلوبل گاؤں میں ہر لمحہ نئے رنگ میں سامنے آ رہی ہے—

٭٭

تہذیب نے جب بھی اپنی کتاب میں ترقی کے باب کا اضافہ کیا ہے، جنگوں کا جنم ہوا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ملک ہندوستان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ملکی غلامی سے نجات نے جن ’’چیتھڑوں ‘‘ کو جنم دیا، وہ فرقہ واریت کے لہو سے رنگے ہوئے تھے۔ حالانکہ اسے، اس نظریے سے بھی دیکھنا چاہئے کہ آپسی نفاق صرف انگریزوں کی ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی ہی نہیں تھی بلکہ ہماری اپنے ذہنوں کی گندگی بھی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ فرقہ واریت کے زہر کو جب جب ٹٹولنے کی بات چلتی ہے تو اسے سیدھے انگریزی سیاست سے منسوب کر دیا جاتا ہے اور اپنا دامن بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

مگر یہ پوری حقیقت نہیں ہے۔ قصوروار کہیں ہم بھی رہے ہوں گے— اور یہ جو اپنی پرانی تہذیب سے ورثے میں ملا ہوا دماغ رہا ہے— جس میں برسوں سے یہ بات بٹھائی جا رہی ہے… اتنی ساری ندیاں — اتنے سارے پہاڑ— اتنے سارے رنگ— نسل اور الگ الگ دیشوں سے آئے ہوئے چیتھڑے … یہ جو ایک دیش کو ’’سیکولر‘‘ بنانے کے پیچھے ہر بار جبراً ’’پیوندوں ‘‘ کی بیساکھیوں کا سہارا لیا جاتا ہے— آپ مانیں یا نہ مانیں انہوں نے بھی ذہن و دماغ کے بٹوارے کو جنم دیا ہے۔ در اصل ٹکڑے آریہ ورت کے نہیں ہوئے— ٹکڑے ہوئے دماغ کے… اور ان ہی سے پھوٹی ایک کوڑھ نما تہذیب… ان سے ہی پیدا ہوا ہے فرقہ واریت کا پاگل پن اور جنون—

برفیلا ملک— آزادی کے 62 سال بعد کا یہ بھارت— 62 سال—

ایک صدی گم ہوگئی۔ ہم نے ایک نئی صدی میں قدم رکھا— لیکن بیسویں صدی میں فرقہ واریت کی جن خوفناک آندھیوں سے ہمارا سابقہ یا واسطہ پڑا تھا، ان کا جائزہ لینا یہاں مقصود ہے—

آریہ ورت کتنے ٹکڑوں میں تقسیم ہوا؟ تقسیم کی کتنی آندھیاں چلیں ؟ اس ملک میں کیسے کیسے موڑ آئے— سات تقسیم— تاریخ کے سات سیاہ اوراق— کبھی یہاں سیاہ رنگ کی ایک قوم رہتی تھی— آریہ آئے— ہزاروں کی تعداد میں — پہلے پنجاب پر قبضہ کیا پھر اتر پردیش پر— ملک پہلی بار گورے اور کالوں میں تقسیم ہوا… تو شروع ہوگیا تقسیم کا سلسلہ… چکر چل پڑا بٹوارے کا۔ شمالی ہند میں سفید فام آریہ اور جنوب میں سیاہ فام دراوڑ۔ صدیوں تک سکون سے رہنے کے بعد آریوں میں پھوٹ پڑگئی۔ مختصراً تاریخ پر اگر غور کیا جائے تو تقسیم کا دوسرا دور شروع ہوگیا تھا۔ پھر سکندر آیا۔ جاتے جاتے سیلیوکس کو اپنی سلطنت کا وائسرائے بنا گیا۔ چانکیہ اس زمانے میں گپت خاندان کا وزیر اعظم تھا۔ جنگ ہوئی اور یونانی فوج ہار گئی— یہ ملک کے تیسری بار تقسیم ہونے کا حادثہ تھا۔ بعد کی تاریخ بھی کافی طویل ہے۔ ملک کئی حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا— محمد بن قاسم کی عرب فوجیں سندھ میں ڈیڑہ ڈال رہی تھیں۔ پھر پنجاب اور سندھ پر قبضہ ہوا۔ ترک آئے، پٹھان آئے، مغل آئے— جہانگیر نے فرنگیوں کو تجارت کا راستہ دکھایا… اورنگ زیب کے مرتے ہی سلطنت کمزور پڑنے لگی… پھر پورے ملک پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا۔ یہ ملک کی چوتھی تقسیم تھی— ۱۹۳۵ء میں انگریزوں نے لنکا اور برما کو ہندستان سے الگ کر دیا۔ یہ تقسیم کا پانچواں دور تھا— چھٹا دور سیاست کا وہ سیاہ ورق تھا جب ملک 14؍ اگست 1947ء کو دو حصوں میں تقسیم ہوگیا— پاکستان اور بھارت… دو ملک نہیں بلکہ دو دلوں کو تقسیم کر دیا گیا— ۳؍ دسمبر 1971ء کو بھارت پاک جنگ شروع ہوئی اور ایک الگ آزاد ملک بنگلہ دیش بنا…

یہ آریہ ورت کی ساتویں تقسیم تھی… تقسیم کے سات دروازے— ہر دروازے کے اندر ایک آریہ ورت کراہ رہا ہے۔ کراہنے کی آواز تیز ہے— مگر شاید اب لفظ کے اندر سے کوئی چیخ جنم نہیں لیتی۔ ملک خود مختاری کی 62 ویں سالگرہ منا رہا ہے مگر خواہشات پر جیسے برف کی سلیاں رکھ دی گئی ہے—

٭٭

حقیقت میں — جیسے اب یہ وہ  ملک نہیں رہ گیا ہو— ٹھنڈا ملک، بن گیا ہو— انسان ہونے کی آرزو، تمناؤں اور جذبات پر جیسے برف گر پڑی ہو۔ 62 برس… 62 برسوں میں ہم نے ترقی کے زینے کم چڑھے اپنوں کا خون زیادہ بہایا۔ اگر فرقہ واریت کا جنم ہوا ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کی— صدیوں سے وراثت میں ملی، بٹوارے کی تہذیب سے اگر فرقہ واریت کا جنم نہ ہوتا، تب یہ تعجب کی بات ہوتی۔

آزاد کشمیر، اتر کھنڈ، جھاڑ کھنڈ اور حوالوں اور گھوٹالوں کا ایک لمبا سلسلہ— ان میں کون ملوث نہیں ہے۔ کہنا چاہئے، جہاں اور جس سطح پر جس کو موقع ملا ہے— وہیں وہ بھیگ جاتا ہے، اس گندی بارش میں — ادب اور صحافت تک ہم جیسے چھوٹی بڑی بے شمار برفیلی چٹانوں سے گھر گئے ہیں — سرد ہوگئے ہیں۔ بے حس— حیوان اور بے بس۔ اس ملک کا سب سے بڑا ہیرو مذہب ہے اور مذہب کے نام پر سب کچھ چلتا رہتا ہے۔

ایک برفیلا ملک— چھوٹی بڑی برف کی سلیوں میں گھرے ہوئے ہم… کہیں دھند میں کسی سلیج یا رینڈیر کو آنکھیں تکتی ہیں جو دھند میں راستہ بنا سکے اور ہم باہر نکال سکیں اس ٹنڈر اپردیش سے—

تاریخ گواہ ہے

گواہ ہے، اپنے اپنے عہد کی،

پتھروں پر لکھی گئی ’اچھوت‘ شاعری کا ایک ایک دستاویز،

ان میں غیر انسانی نقوش بھی ہیں

کچھ نشانیاں ہیں … مدھم ہوتی ہوئی

اور ایک برف کی سلّی

جسے اٹھاتے ہوئے گھوم رہے ہیں ہم سب…

مشہور زمانہ مفکر ٹامس پیٹر نے کہا— آزادی کی لڑائی میں جتنا ہاتھ ملک پر جان نثار کرنے والے سپاہیوں کا رہا اتنا ہی الفاظ کا— یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ تحریک آزادی کا ذکر ہو اور اس زمانے کی شعلہ انگیز شاعری، کہانیوں اور مضامین کی یاد نہ آئے۔ برٹش حکومت الفاظ اور الفاظ کی طاقت کو پہچانتی تھی۔ کتنی ہی کتابیں ضبط کر لی گئیں۔ کتنے ہی لہو الفاظ پر پابندی لگا دی گئی مگر الفاظ نعرہ زن ہوتے رہے۔

اور لکھی جاتی رہی۔ آزادی کی تاریخ انتہائی خاموشی سے…

تنقید نگار، فلسفی اور ناول نگار جیاں پال سارتر نے بھی کہا تھا— ’’الفاظ کی اہمیت اس بات میں ہے کہ وہ دوسروں تک کیسے پہنچتا ہے۔ الفاظ میں طاقت ہے۔ الفاظ انقلابی خیالات کو جنم دیتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں ہوئے بہت سے انقلاب کی وجہ یہی الفاظ بنے ہیں۔ ‘‘

الفاظ پھول جیسے نازک اور ترنم آمیز بھی ہوتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب یہی الفاظ ترشول، ہتھیار اور سنگینوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں اور جب وقت آتا ہے تو خود یہی الفاظ انقلاب بن جاتے ہیں۔

٭٭

غلامی کے عہد کی تاریخ دو سو سال سے بھی زیادہ کی رہی ہے۔ انگریز حالانکہ بھارت میں تجارت کرنے کے لیے آئے تھے مگر ان کا ارادہ تھا— سونے کی چڑیا کہلانے والے اس ملک پر قبضہ جمانا۔ وہ کمزور ہوتی ہوئی مغلیہ سلطنت کا باریکی سے جائزہ لے رہے تھے۔ وجہ صاف تھی۔ یہاں کے باشندوں میں وہی تقسیم کرنے والی تہذیب کے جراثیم موجود تھے۔ آپسی رنجش، بھید بھاؤ اور تفریق۔ انگریز اسی کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہندوستانی انگریزوں کی نیت سے واقف نہیں تھے بلکہ ان کے پاس اس کا کوئی کارگر مداوا بھی نہیں تھا۔ اس وقت بنگال کے نواب علی وردی خاں نے اپنے ولی عہد سراج الدولہ سے کہا تھا۔

’’یہ انگریز بڑے چالاک ہیں۔ ان سے ہوشیار رہنا۔ ایک دن آئے گا جب یہ یہاں راج کریں گے۔ ‘‘

یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی— 1757 میں پلاسی کے میدان میں سراج الدولہ کو ہرا کر انگریزوں نے بنگال میں اپنے پاؤں پھیلا لیے۔ آہستہ آہستہ وہ سارے بھارت میں پھیلتے چلے گئے۔ ۲۰۰ برسوں کی ذہنی اور جسمانی غلامی کے بعد آزادی کا سورج نکلا بھی تو کیسا؟ ظلم کے اندھیروں سے راحت بھی ملی بھی تو کیسی؟

فیض احمد فیض کو کہنا پڑا—

’’کہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔ ‘‘

بدلتا منظر

’’شعیب کی آواز لڑکھڑانے لگی— ہاں ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ ایک ساتھ۔ ایک آسمان۔ ایک چھت کے نیچے۔ مگر اس حادثہ کے بعد سے ہم دونوں میں سے کوئی نہیں سو سکا۔ پتہ نہیں کب کس کی آنکھ لگ جائے اور دوسرا چھرا چلا دے۔ آج چار دن ہوگئے ہیں۔ اسی کش مکش میں ہم دونوں میں کوئی نہیں سو پا رہا ہے— ہم دونوں باتیں تو کر لیتے ہیں مگر ایک دوسرے سے ڈرے ڈرے رہتے ہیں۔ کیا پتہ کب ایک کو نیند آجائے اور دوسرا چھرا گھونپ دے…؟‘‘   ناول ’’مسلمان‘‘ سے

در اصل سچ پوچھئے تو یہ المیہ یہیں سے پیدا ہوتا ہے۔ آزادی کے بعد کا یہ کیسا منظر نامہ ہے۔ ہمارا اور ہمارے ملک کا یہی المیہ ہے کہ ہم ایک ساتھ رہنا تو چاہتے ہیں مگر سیاست اور مذہبی سیاست بار بار ایسے رشتوں پر سوالیہ نشان لگاتی رہی ہے۔ کبھی کوئی بخاری یا شہاب الدین سامنے آجاتا ہے تو کبھی ایڈوانی کے رتھ پورے بھارت میں ہنہنا اٹھتے ہیں۔ مذہب کو جس طرح سے اس آزاد ملک میں سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے وہ نہیں رکنے والا— اس سے صرف ایک اچھی بات ہوئی ہے— ہم ایسے لوگوں کو پہچاننے لگے ہیں۔ غلط کو غلط کہنے کے بے باک رد عمل کا ابھی انتظار ہے۔

بہر کیف کچھ بدلا ہے۔ کچھ بدل رہا ہے۔ نئی نسل، یہ جینس کلچر— دھوتی لنگی کلچر والوں سے زیادہ سیکولر ہے۔ اسے نہ بابری مسجد سے مطلب ہے نہ رام لہر سے۔ اسے وسیم اکرم بھی اچھے لگتے ہیں اور تندولکر بھی— ہاں آنے والے برسوں میں تو نہیں، بیس ایک برسوں میں فیض کی ’’صبح‘‘ کا خواب ضرور پورا ہوسکتا ہے۔ کسی کرشمہ یا معجزہ نہیں بلکہ اپنے ہی خونی چہروں، گندی سیاست کو پوری طرح سے محسوس کرنے کے بعد—

’’وہ صبح کبھی تو آئے گی…

وہ صبح کبھی تو آئے گی…

ایک رخ یہ بھی ہے

منٹو کی ایک چھوٹی سی کہانی ہے۔ ’مسٹیک‘—قاتل مردہ شخص کی پتلون اتارتے ہیں اور ایک کی چیخ گونجتی ہے۔

مسٹیک ہو گیا!

مگر مسٹیک کہاں ہوا— ایک نظام بدلا— دوسرا نظام آگیا— منظر ذرا سا بدلا ہے—

’’چودھری برکت حسین آنکھوں میں جگہ گھیرتے ہیں۔ اب تم بھی خطرے میں ہو بالمکند شرما جوش؟‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’تمہارے نام کے ساتھ جوش لگا ہے۔ آدھے مسلمان وہ ہنسنا چاہتے ہیں۔

میاں ! ایسا ہوا تو ازار بند کھول کر…

’’کھولیں گے تب بھی فرق نہیں پڑے گا انہیں۔ ‘‘ برکت حسین کی آنکھوں میں نمی لہراتی ہے— کیونکہ اب ہمارے بعد تم ہو— تم جسے سیکولر سوچنے والے— اب وہ چن چن کر تمہیں ختم کر دیں گے۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے تمہیں تلاش کریں گے اور ختم کر دیں گے۔ – ناول ’بیان‘ سے

سیکولر سوچ سامنے تو آ رہی ہے مگر اس طرح سے نہیں، جس طرح سے آنی چاہئے۔ جب مذہب کا کوئی دقیق مسئلہ سامنے آتا ہے تو ادیب کے اندر کا مذہبی انسان بھی پریشان ہو اٹھتا ہے۔ نہیں ؟ ہم ایک لمحہ میں ہندو اور مسلمان بن جاتے ہیں — کہانیوں کی سطح پر بھی یہ اندر کا آدمی سامنے آجاتا ہے۔ نہیں — اسے نہیں آنا چاہئے— مگر یہی نہیں ہوتا۔ اندر باہر کی جنگ چلتی رہتی ہے۔ باہر کی میز پر بیٹھا ہوا چار لوگوں سے گھرا ہوا آدمی وہ نہیں ہوتا۔ جو گھر کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد ہوتا ہے۔ اپنے گھر میں اپنے بچوں میں۔

لگتا ہے مذہب کی تعریف کو ہم نے کبھی بہت سنجیدگی سے نہیں لیا۔

ہم بڑی بڑی باتیں کرنے کے درمیان ایک کُند چھری سے اسے حلال کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں — مگر درحقیقت دیکھا جائے تو مذہبی تعصبات کا پرندہ اندر بیٹھا ہوتا ہے— پاؤں پسارے اور یہ مذہب وہ نہیں ہوتا جو برابری اور مساوات کے سبق سارے عالم کو پڑھا رہا ہوتا ہے۔ فرقہ واریت نے جس مذہب کو جنم دیا ہے، وہ تنگ نظر بھی ہے اور اس کا دائرہ بھی محدود ہے۔ سچائی یہ ہے کہ اب مذہب کی نئی تعریف بھی ڈھونڈھنی ہوگی—

تقسیم: مصنف کی حدیں

’’یار امان اللہ، طوطا کہاں گیا؟‘‘

’’اڑ گیا!‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’کھڑکی کھلی رہ گئی۔ اڑ گیا۔ ‘‘

……

’’کوئی دوسرا طوطا مٹھو کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ‘‘

’’نہیں یار۔ ‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’میں نے بتایا نا۔ قریب والے امردو کے پیڑ پر طوطوں کی ڈاریں بہت اترتی ہیں۔ کیا پتا کس دن ڈار کے ساتھ وہ بھی چلا آئے۔ پنجرے کو دیکھے تو شاید اسے اپنا چھوڑا ہوا گھر یاد آجائے۔ ‘‘

– ’خالی پنجرہ‘ (انتظار حسین)

پتہ نہیں امرود کے پیڑ پر طوطوں کی ڈاریں اب آتی بھی ہیں یا نہیں مگر اس پنجرے کی یاد باقی رہ جاتی ہے۔ بٹوارہ ایک دردناک حادثہ تھا۔ آزادی کے بعد کے، 62 برسوں میں سرخ حاشیہ سے گزرنے والی زیادہ تر کہانیاں بٹوارے کی کوکھ سے ہی جنمی تھی۔

یہ درد پاکستانی مصنفوں کا بھی درد بنا، جو اپنا پنجرا۔ اپنا نشیمن اجاڑ کر یا چھوڑ کر پاکستان جا بسے۔ پھر لوٹ کر نہیں آئے۔ یا نہیں آسکے۔ مگر یہاں کی یادیں انہیں خون کے آنسو رلاتی رہیں۔

’’کیا پتہ کسی دن ڈار کے ساتھ وہ بھی چلا آئے۔ پنجرے کو دیکھ کر شاید اپنا چھوڑا ہوا گھر یاد آجائے۔ ‘‘

تقسیم کی ان خاموش کراہوں کو انتظار حسین کے اس افسانے میں بہ آسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان کے کہانی کاروں میں، خاص کر آزادی کے بعد آنکھیں کھولنے والے کہانی کاروں میں اس جذبہ کا فقدان رہا ہو۔ تقسیم سب کے لیے ناسور رہا ہے— خاص طور سے نئی نسل اور نئے کہانی کاروں نے جس مضبوطی کے ساتھ اسے نامنظور کیا ہے، یہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔

فسادات کا مرکزی رول

اردو افسانوں میں فسادات کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے جہاں تک میرا خیال ہے فسادات پر جتنی کہانیاں اردو میں لکھی گئی ہیں کسی دوسری زبان میں نہیں۔ آپ چاہے اس کی کچھ بھی وجہ تلاش کریں لیکن اس کی ایک وجہ عدم تحفظ کے احساس سے بھی گزرتی ہے۔ یہ احساس جب بھی جیسے بھی، جن جن وجوہات سے بیدار ہوا ہے اس زبان کے مصنفوں نے کہانیوں کا انبار لگا دیا ہے۔

یہ سچ ہے کہ تقسیم کے وقت— فسادات پر اردو میں جو کہانیاں لکھی گئیں، اُن میں زیادہ تر کہانیاں شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں — واضح طور پر آج کے دور کا صحیح عکس ملتا ہے۔ وہ بے رحم سچائیاں۔ احساس کے گوشت میں چبھنے والی کسک۔ سیاست کے ناپاک اشارے پر تقسیم ہوئی آنکھوں کے ناسور۔ رتھر یاترا کلچر، اور دوغلے پن کا مزاج— کل ملا کر حالات کا جائزہ لیں تو فسادات جیسے اب ملک کا مستقل موسم بن چکا ہے۔

ہیمنگوے نے کہا تھا— اس کے نزدیک جنگ سے بڑا کوئی غور طلب مسئلہ نہیں۔ سب سے زیادہ دلچسپ موضوع جنگ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جنگ کے موضوع پر غیر ملکی زبانوں میں کئی کئی شاہکاروں نے جنم لیا ہے۔ مگر یہاں، یہی بات ہم اردو میں ان افسانوں کے تعلق سے کہہ سکتے ہیں —

بدلتا منظرنامہ

وقت بدلا۔ بدلتے ہوئے وقت کا عکس اردو کہانیوں میں بھی نظر آیا۔ مگر بدلتے وقت کے ساتھ یہ اردو کہانیاں اپنی زمین سے نہ جڑ سکیں۔ زمین کے مسئلوں سے نہ جڑ سکیں — زیادہ تر نئے اردو کے لکھنے والے ہندی میں چلے گئے—

کچھ برس قبل مجھے ایک دلچسپ خط ملا۔ کہانی کار زیب اختر کا— اس نے اردو میں نہ لکھنے کی یہ وجہ بتائی:

’’اردو کو میں نظر انداز نہیں کرتا۔ مگر ان کا مزاج میری سمجھ سے باہر ہے۔ ان کو رومانیت چاہئے۔ چاہے وہ الفاظ کی کیوں نہ ہو۔ موضوع کی ہو یا ٹریٹمنٹ کی۔ ایک خاص دائرہ ہے۔ بس یہیں تک محدود ہے اردو ادب۔ ان کے ادب کو ایک عام آدمی سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ بڑے صاف ستھرے لوگ ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں۔ شراب پیتے ہیں اور تسلیمہ نسرین کو گالیاں دیتے ہیں۔ ‘‘

اسے محض ایک اردو تخلیق کار کی جھلاہٹ نہیں کہا جاسکتا— اردو کہانیاں ابھی بھی سمٹی اور سکڑی ہوئی ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ زیادہ تر اردو کہانیاں مسلم معاشرے اور مسلم کردار سے آگے نہیں بڑھی ہیں — اس لیے زیب اختر جیسے سمجھدار ادیب اس ٹوپی تہذیب سے منکر ہوتے ہوئے، فرار حاصل کرجاتے ہیں۔ ایک مثال اور بھی ہے جیسے بریلی شہر کی ایک مسلم خاتون قاری نے مجھے ایک خط میں لکھا تھا۔

’’آپ ہندوؤں کو لے کر افسانے کیوں لکھتے ہیں ؟ مسلمانوں کو لے کیوں نہیں ؟‘‘

مجھے لگتا ہے آزادی کے آس پاس جو کہانیاں لکھی گئیں وہ بہت پرزور تھیں — آج پہلے کی بہ نسبت ہم لوگوں میں مذہبی تنگ نظری زیادہ آگئی ہے۔ ہم ایک خاص دائرے میں بندھ گئے ہیں۔ بس اس سے آگے نہیں۔ جیسے بابری مسجد کو لے کر اردو میں کافی کچھ لکھا گیا۔ فسادات اور مذہبی دنگوں پر بہت کچھ لکھا گیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اردو مصنف ایسے موقعوں پر مجھے زیادہ بیدار نظر آتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر وہ زیادہ اپنی زمین سے جڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اب ان پہلوؤں پر یوں غور کرتے ہیں :

۱۔ تقسیم ہند کے دوران جو کہانیاں لکھی گئیں، کیا ان میں مدہبی تنگ نظری شامل نہیں تھی؟

۲۔ ہمارے یہاں مذہبی تنگ نظری کیا بابری مسجد اور گودھراکے بعد ابھری ہے؟

۳۔ اردو مصنف، زمین سے مطلب، کیا محض اپنے مسائل سے لیتے ہیں ؟

دیکھا جائے تو یہ بہت الجھے ہوئے سوالات ہیں اور یہ سوالات ایسے ہیں جن پر کم و بیش ایک ساتھ اتفاق کرنا یا انکار کرنے کی گنجائش بھی کم نظر آتی ہے۔ تقسیم ہند کے دوران لکھی جانے والی کہانیوں میں مذہبی تنگ نظری ضرورت سے زیادہ تھی— آپ مشہور ہندی افسانہ نگار بھیشم ساہنی کے بھائی اداکار بلراج ساہنی کا ’’پاکستان کا سفرنامہ‘‘ پڑھ لیجئے— کرشن چندر کی پشاور ایکس، اور اس طرح کی بہت ساری کہانیاں ہیں، جن کو پڑھتے ہوئے ایک خاص طرح کا تعصب آپ کو صاف صاف نظر آجائے گا۔ کم و بیش یہی بات مسلم رائٹر کے ساتھ بھی تھی— وہاں ہندوؤں کے لیے تحریر میں ایک ظالمانہ تعصب برتا گیا— کیوں ؟ وجہ بہت معمولی قسم کی سائیکی ہے—

(۱)  جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے رشتہ دار، عزیز مارے گئے تھے اور جنہوں نے نفرت کے ننگے کھیل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، ان کا بد دل ہونا یا نفرت محسوس کرنا کوئی بڑی بات نہیں سمجھی  جائے گی۔

(۲)  ان ادیبوں نے وہی کیا— کہانی میں ایماندار بنتے بنتے بھی وہ رنگ غالب آگیا— یعنی جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ مثال کے لیے پشاور ایکس پریس۔

(۳)  جو بہت ایماندار بنے۔ مثال کے لیے راما نند ساگر— ’’اور انسان مر گیا—‘‘ اپنی تحریر کو سیکولر رکھنے والا یہ آدمی آحری دنوں میں ’مذہبی‘ بن گیا— رامائن سیریل کی تعمیر کے دوران یہ ہندو سنستھاؤں کے لیے کام بھی کرنے لگا—

یہ میرا نظریہ ہے کہ تقسیم ہند کے بعد ہم آہستہ آہستہ پرانے زخموں کو بھولنے کی کوشش کرتے رہے— اور ایک حد تک ہم اس کوشش میں کامیاب بھی ہوئے— بابری مسجد سانحہ سے قبل تک ہماری تحریروں میں کبھی مسلم رنگ غالب نہ تھا— لیکن اگر یہ رنگ دوبارہ واپس آیا ہے اور وہ بھی صرف مسلم رائٹر کے حصے میں تو یہ افسوس کا نہیں، سوچنے کا مقام ہے— کیونکہ یہ رائٹراسی بیس سے پچیس کروڑ کی آبادی کا ذمہ دار فرد ہے، جسے اتنی بڑی آبادی کی حصہ داری کے باوجود اقلیت کے نام سے پکارا جاتا ہے— اگر یہ اقلیتی مصنف صرف اپنے موضوعات کا انتخاب کرتا ہے تو یہ ایک تکلیف دہ بات یوں ہے کہ اس میں ایک پورے قوم کی بے بسی اور لاچاری شامل ہے— یعنی آزادی کے 62 برسوں میں آپ نے اتنی بڑی آبادی کو اقلیت بنا دیا— آپ نے اس ایک قوم کو اتنے سارے مسائل دے دیئے کہ وہ دوسرے، زمین سے وابستہمسائل، پر لکھنا بھول گیا— حسین الحق اور ذوقی کی زیادہ تر کہانیوں اور ناولوں میں — اشرف کی سہمے ہوئے ’’آدمی‘‘ میں — غضنفر کی کہانی ختنہ میں — طارق چھتاری، پیغام آفاقی، سلام بن رزاق تک کی کہانیوں میں بار بار یہ سہما ہوا مسلمان نظر آ ہی جاتا ہے—

لچیلی زمین کا ادب

ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ ہماری تہذیب کی زمین لچیلی اور نرم ہے۔ ہم چاہے انکار کرنے کی ہمت کرتے ہوں سیمیناروں میں۔ سبھاؤں میں، ادبی نشستوں میں، جن وادی دوستوں میں — مگر ایک سچ ان سے الگ یہ بھی تھا کہ ہمارے اندر ہر دم، ہمیشہ سے اک سویا ہوا مذہب بھی موجود تھا۔ جسے ہم حقیقت میں دوستوں کے بیچ نہ ماننے کی قسمیں بھی کھایا کرتے تھے۔ مگر منڈی ہاؤس، باہری گلیاروں سے ہو کر اپنے گھر کے دروازے تک پہنچتے پہنچتے ہم ہندو بن جاتے تھے۔ مسلمان بن جاتے تھے۔ کبھی رسم و رواج، پرب تیوہار کے گلیمر ہمارے اندر کے مذہبی آدمی کو زندہ کرتے تھے۔ کبھی ایران عراق یا اجودھیا کے حادثات— ہماری غلطی یہ تھی کہ ہم ایک نام نہاد عقیدے کے لیے جینے کا ناٹک کر رہے تھے۔

سچ صرف اتنا نہیں ہے کہ ایک ڈھانچہ گر گیا۔ آپسی اتحاد کے نام پر ایک سوالیہ نشان لگ گیا۔ اسے صرف ایک حادثہ کہنا مناسب نہیں ہے۔ ۔ سیدھے کہا جائے تو بابری مسجد کا انہدام ایک فرقہ کی فتح اور دوسرے فرقہ کی شکست سے جڑا ہوا مسئلہ بن گیا تھا۔ پھر جلتے ہوئے گودھرہ نے اب تک نفرت کی اس آگ کو بجھنے نہیں دیا ہے—

اگر یہ سچ ہے تو ہم ایک خطرناک انجام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ان حادثوں سے اگر تشدد کو تحریک ملتی ہے۔ تو پھر اس پورے ملک کا کیا ہوگا؟

ایک پوری صدی گاتی، بجاتی ہمارے درمیان سے رخصت ہوگئی— ہزار برسوں کا سفر ختم ہوا— نئے ہزار برسوں کا سفر شروع ہوا— پچھلے ہزار برسوں کی تاریخ کا سب سے بدنما دن، چھ دسمبر تھا— آزادی کے 62 برسوں میں تقسیم کے بعد دو اہم پڑاؤ چھ دسمبر اور گودھرہ کی شکل میں سامنے آچکے ہیں۔ نئی الفی کے ہر دن کو ان بدنما تاریخوں سے گزرنا پڑے گا— آنے والے ہزار برسوں کے سفر میں بھی یہ تاریخیں کلیدی حیثیت رکھیں گی اور ظاہر ہے اس کا اثر ہمارے ادب پر بھی پڑے گا— خاص کر اردو ادب پر—

ہمارا اب کا ادب، اس عظیم سانحہ کو نظر انداز کر کے نہیں لکھا جاسکتا—

تبصرے بند ہیں۔