فساد فی الارض

منیر احمد خلیلی

دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص لفظ ’کرپشن‘ کی دھوم ہے۔ جس کثرت سے یہ اصطلاح زبان زد عام ہے شاید ہی کوئی اور لفظ اس کثرت سے بولا اور لکھا جاتا ہو۔طباعتی یا برقی میڈیاکی گرما گرم تحریریں اور ٹاک شو ہوں، مجلسوں اور محفلوں کا زیرِ بحث موضوع ہو، سیاسی جلسے یادانشوروں کے مذاکرے اور مباحثے ہوں، تجزیاتی رپورٹیں اور جائزے ہوں، عدالتوں میں زیرِ سماعت بڑے بڑے مقدمے ہوں، ریستورانوں، تھڑوں اور بیٹھکوں کی گفتگوئیں ہوں، انتخابی دنگل میں مختلف پارٹیوں کے لیڈروں کی تقریریں ہوں، کرپشن ضرور زیرِ بحث آتی ہے۔ہر مقام پر لفظ ’کرپشن‘ صرف مالی بدعنوانی کے مترادف کے طور پر بولا اور لکھا جا رہا ہے۔یوں اس اصطلاح کے بہت ہی اہم پہلووں پر پردہ پڑا رہنے کی وجہ سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک سیاست دان یا ملٹری اور سول بیوروکریسی کے اہم عہدوں پر فائز اہل کار اگر ناجائز ذرائع سے مال نہیں بناتے تو گویا وہ کرپٹ نہیں بلکہ پاک صاف اور لائقِ عزت و توقیر ہیں۔ مالی بدعنوانی درحقیقت ’کرپشن‘ کا ایک صرف ایک مظہر ہے۔قُرآن مجید اور احادیث نبویؐ میں ایک لفظ’ فساد‘ آیا ہے۔ اردو اور فارسی میں تو یہ سہولت ہے کہ یہ لفظ بد عنوانی کے ظاہری مفہوم میں لے لیا گیاہے۔قُرآن حکیم کے بعض انگریزی مترجمین نے بھی لفظ فساد کا ترجمہ corruptionکیا ہے۔

حالیہ عرصے میں سعودی عرب میں بھی مالی بدعنوانی کے سدّ باب کے نام پرشاہی خاندان کی بڑی متمول شخصیات کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن ہوا ہے۔عرب پریس اور سوشل میڈیاپر مبینہ کرپشن کے لیے فساد کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے اوراس کے انسداد کی اس’ مہم ‘ کو گویا’ردّ الفساد‘ قرار دیا جا رہا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’فساد‘ حال اور ہر مقام پرصرف مالی بدعنوانیوں تک محدود نہیں۔ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ عبداللہ یوسف علی اور پکتھال دونوں نے اِفْسَادْ کا ترجمہ make mischief کیا۔ان دونوں ترجموں کی رو سے یُفْسِدُ وْنَ کا ارتکاب کرنے والے معاشرے میں شر اور فتنہ پھیلاتے ہیں۔ قرآن مجید کے بعض دیگر اچھے ترجموں میں فساد کا ترجمہto spread disorderبھی آیا ہے جو لفظ کرپشن کے مقابلے میں وسیع تر اور صحیح تر مفہوم دیتا ہے۔یعنی وہ اجتماعیت کے محکم نظام کو کمزور کر کے اسے بد نظمی اور انتشارسے دوچار کرتے اورمثبت اخلاقی اور معاشرتی رویوں او ر راست اعتقادی، فکری اور نظریاتی بنیادوں میں خلل پیدا کرتے ہیں۔ اگر صرف لفظ کرپشن ہی کو لیں تو معتبر انگریزی ڈکشنریوں میں اس کا مطلب صرف حرام ذرائع سے مال بنانا ہی نہیں ہے۔ہم ایک معتبر انگریزی لغت Merriam-Webster Dictionaryسے حوالہ لیں تو اس میں اس لفظ کی جو مکمل تعریف دی گئی ہے اس میں impairment of integrity, virtue or moral principleکوبھی شامل کیا ہے جس کے معنی اخلاقیات، سماجی وحدت و سالمیت اور نیکی کی قدروں اور زرّیں اصولوں کی شکست و ریخت اور نقص و ضرر ہیں۔ دوسرا ترجمہ inducement to wrong by improper or unlawful means کیاگیاہے یعنی نا مناسب اور غیر قانونی راستوں سے برائی کی ترغیب دینا۔ departure from the original or from what is pure or correctبھی اس تعریف کا حصہ بتایا ہے۔اس سے صحیح اور صالح معاشرتی روایات و اقدار کو پسِ پشت ڈال دینامراد ہے۔ان ترجموں کو ذہن میں رکھ کر سورہ بقرہ کی گیارھویں آیت پر غور کریں :

وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ * اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ*

’جب کبھی اُن سے کہا گیا کہ زمین پر فساد برپا نہ کرو، تو انہوں نے یہی کہا کہ ’ہم تو اِصلاح کرنے والے ہیں ‘____ خبر دار، حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر اِنہیں شعور نہیں ہے۔‘

مولانا امین احسن اصلاحی ؒ نے محولہ بالا آیت کی جو تفسیر لکھی ہے اس میں اوپر قُرآن حکیم کے انگریزی ترجموں اور مریم ویبسٹر ڈکشنری کے سارے مفہومات کا گویامغز کشید ہو کر آ گیا ہے۔مولانا اصلاحی ؒ اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ فساد فی الارض ’اُس نظامِ حق کو بگاڑنا یا بگاڑنے کی کوشش کرنا ہے جو اللہ واحد و قہّار کی عبادت اور اس کے احکام و قوانین کی اطاعت پر مبنی ہو۔ نظامِ تکوینی کی بقا اسی لیے ہے کہ اس میں صرف رَبِّ قدیر و قہّارکا ارادہ کارفرما ہے۔اس کے اندر کسی اور کا زور و اختیار بھی چلتا ہوتا تو یہ آن کے آن میں درہم برہم ہو کے رہ جاتا۔ ‘ نظامِ تکوینی کے استحکام کی طرف اشارہ کرنے کے بعد وہ نظامِ تشریعی میں فساد کے بارے میں لکھتے ہیں : ’اسی طرح اس ( کائنات )کے نظام تشریعی کے اندر اگر کسی اور کی عبادت و اطاعت کے جواز یا دخل کو تسلیم کر لیا جائے تو اس سے اس کا مزاج بالکل ہی بگڑ کر رہ جاتا ہے اور یہ بگاڑ سارے نظام تمدّن کو خراب کر کے رکھ دیتا ہے۔اس وجہ سے ہر وہ کوشش قُرآن کے نزدیک فساد فی الارض کے حکم میں داخل ہے جو اس بگاڑ کا دروازہ کھولے اگرچہ یہ کوشش بظاہر اصلاح کے نیک ارادہ ہی کے ساتھ کیوں نہ ہو۔ ‘ (تدبّر قُرآن جلد اول)

بات اگرچہ لفظ کرپشن سے چلی لیکن حقیقت میں ہمیں اپنی اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں پھیلے ہوئے فساد کے حوالہ سے قومی مستقبل پر غور کرنا ہے۔مالی بدعنوانی جس کے مترادف کے طور پر انگریزی کا لفظ کرپشن اب بچے بچے کی زبان پرہے۔یہ بیماری نئی نہیں ہے۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد سب سے پہلے اس بیماری کی علامتیں جعلی کلیموں کی صورت میں ظاہر ہوئی تھیں۔ بھارت کے مختلف حصوں سے ہجرت کر کے آنے والوں میں ایسے لوگ بھی تھے جو ایک کمرے کے مالک تھے،یہاں آ کر حویلیاں چھوڑ آنے کے دعوے کیے اور اسی نسبت سے انہوں نے بھاری جائدادیں نام کرا لیں۔ مہاجرین کی بحالی کے لیے جو شعبہ قائم کیا گیا تھا اورجس محکمے کا کام متروکہ املاک نئے دعویداروں کا الاٹ کرنا تھا اس کے اہلکاروں نے جعل سازیوں کی انتہا کر دی تھی۔ایسی بیسیوں نہیں سینکڑوں مثالیں دنیا نے دیکھیں کہ وہ مقامی لوگ جو ہجرت کر کے نہیں آئے تھے انہوں نے بھی رشوت دے کریا میل ملاپ کے ذریعے بڑی قیمتی متروکہ املاک اپنے نام کرا لی تھیں۔

یہ تو ایک پہلو ہے۔ ہم نے ہوش سنبھالا توانکم ٹیکس، پولیس اور محکمہ مال کے سرکاری ملازمین کو رشوت کی لت میں مبتلا دیکھا۔ سیاسی رشوت میں گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں روٹ پرمٹ ایک عام چیز تھی۔اسی عرصے میں ملوں اور کارخانوں کے پرمٹ کی صورت میں بھی سیاسی رشوت کا رواج ہو گیا تھا۔کچھ آگے بڑھے تو بنکوں سے بھاری قرضے لے کر نادہندگی کے راستے نکالے گئے یا پھر اثر و رسوخ کے بل پرقرضے معاف کرا لینے کی روایت پڑ گئی۔ فساد کی یہ ساری شکلیں بڑی حد تک سیاست دانوں کے لیے خاص تھیں۔ ایمان کی صفائی اور راستی دل کے مستقیم اور راست ہونے پر منحصر ہے اور دل کی استقامت اور راستی زبان کی استقامت اور راستی کے بغیر ممکن نہیں۔ جھوٹ سے دِل میں کھوٹ پیدا ہوجاتا ہے۔ بدعنوانی کی جن شکلوں کا اوپر ذکر آیا ہے ان میں زبانوں سے جھوٹ نکلے اور دلوں کا کھوٹ ظاہر ہوا۔اس چیز نے سیاست اور بے ایمانی اور بد دیانتی کو ہم معنی بنا دیا۔سیاست کی اس اخلاقی پستی کو بیان کرنے کے لیے کبھی ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح کا سہارا لینا پڑتا ہے اور کبھی اس کی تعبیر کے لیے لوٹا کریسی کی اصطلاح وضع ہوتی ہے۔

ایک وقت گزرا ہے جب سیاست میں اصول پسندی، دیانت و امانت اور جذبۂ خدمت جیسی خصوصیات لازم سمجھی جاتی تھیں۔ اب دولت اور اثر و رسوخ اور اقتدار میں شرکت یا کم از کم ازاس کا قُرب سیاست کا مقصدِ اوّلین بن گیا ہے۔ مال بنانے کے بعد اس کے تحفظ اور بڑھوتری سیاست دانوں کی اصل فکر ہوتی ہے۔ مستحکم سیاسی، حکومتی اور عدالتی نظام کے فقدان کے باعث کوئی حقیقی اور قطعی غیر جانبدار احتسابی میکانزم وضع نہیں ہو سکا۔احتساب کے نام پر قائم ادارہ موجود ہے لیکن اسے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ملک میں دولت کو غیر محفوظ سمجھنے والے سیاست دان، بڑے کاروباری طبقے، بیوروکریٹ اورحاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیل احتساب کے نام پر مال سے محرومی کے ڈر سے اپنی دولت کا بڑا حصہ بیرونِ ملک منتقل کر دیتے ہیں۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق سیاست دانوں اور دیگر بااثر پاکستانیوں کا200بلین ڈالر سویس بنکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ کم و بیش ہر سیاسی پارٹی کے بڑے بڑے لیڈروں نے 700بلین روپے کی سرمایہ کاری عرب امارات میں کر رکھی ہے۔ٹیکس بچانے اور سرمایہ بڑھانے کے لیے نواز شریف کی اولاد،خودعمران خان اور ان کے معتمد ترین ساتھیوں، علیم خان اور جہانگیر ترین، کے علاوہ چودھری پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی سمیت کاروباری دنیا اور بیوروکریسی سے وابستہ چار سو سے زیادہ پاکستانیوں نے ماورائے ریاست Shore) (Off کمپنیوں میں سرمایہ کاری کیے رکھی تھی یا ابھی تک ہے۔ڈیڑھ درجن سے زیادہ سیاسی شخصیات کے شاہانہ فلیٹ اور مہنگے گھر لندن کی معروف اور پوش سٹریت پر موجودہیں۔ مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں کا دوبئی دوسراگھر ہے۔ملک کے اندر بھی ان کے پر تعیش فارم ہاؤس اورتین تین سو کنال کے رقبے میں محل نما مکان ہیں۔

معاملہ بظاہر مالی کرپشن کا ہے لیکن دیکھیں تو اس برائی کے باعث نہ ان کی دیانت برقرار رہے نہ یہ امانت کے جوہر کے حامل رہے ہیں۔ یہ سیاست دان تضادات کا مضحکہ خیزمجموعہ ہیں۔ ان کے دماغوں میں قُرآن مجید اور سنّت و سیرت رسول ﷺ کی سچائیاں سما نہیں سکتیں۔ ایک طرف یہ اپنا لبرل اور سیکولر تعارف کھونے کے لیے تیار نہیں، دوسری طرف آکسفورڈ اور کیمبرج کی ڈگریاں ہونے کے باوجود باطنی طور پر حد درجہ ضعیف الاعتقاد ہیں۔ اپنے گھٹیا دنیوی مقاصد کے لیے نام نہادروحانی قوتوں کے سہارے ڈھونڈتے ہیں۔ ان کے اندرون میں ایک خود ساختہ مذہبیت کی آبیاری ہوئی ہے اس لیے توحید و رسالت اور شرک و بدعت کے فرق سے خالی اور جاہلی رسوم و رواج کے اسیر ہیں۔ نہ ان کا کوئی بلند نصب العین ہے، نہ اصول ہیں، نہ کوئی جاندار اور مثبت فکر اور نظریہ ہے اور ان کے کوئی اخلاقی معیار ہیں۔ گویا یہ ذات اور طرزِ سیاست میں خود ایک فساد ہیں۔ اسی فساد کوسیاست کے راستے معاشرے میں پھیلاتے ہیں۔

فساد کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ایک اور اہم پہلو لائق توجہ ہے۔یہ اخلاقی فساد کی پست ترین صورت ہے۔ سیاست، اثر و اقتدار، طاقت کا دولت کا چولی دامن کا رشتہ ہوتا ہے۔دولت عیش و عشرت، لہو و لعب اور شراب و شباب کا راستہ دکھاتی ہے۔عورت اس سارے کھیل کا مرکزی کرداربن جاتی ہے۔بڑے سرمایہ دار، جاگیردار، وڈیرے اور سردار، یہاں تک کہ فوجی جرنیل اپنی ہوس پرستی کے لیے اپنی منکوحہ عورتوں پر اکتفا نہیں کرتے۔ ان کی زندگی میں غیر منکوحہ عورتوں کے حسین چہرے اپنی پوری کراہت کے ساتھ کارفرما ہوتے ہیں۔ سیاست میں عورت کے اس انداز میں دخیل ہونے سے کئی بڑے قومی المیوں نے جنم لیاہے۔ باحیا معاشرہ جب اس بے حیائی کی ایسی صورتوں کو گوارا کرنے کا عادی بنا دیا جاتا ہے تواگلی منزل ایک ہولناک اجتماعی اخلاقی زوال ہو تی ہے۔اسلام نے نکاح اور طلاق دونوں کا اعلان ضروری قرار دیا۔ لیکن ہمارے سیاسی رہنما خفیہ شادیوں اور خفیہ طلاقوں کا ایک نیابے ہودہ کلچر متعارف کرا رہے ہیں۔ ایسے سیاست دانوں پر شیفتہ و فریفتہ عوام اور صحافیوں اور کالم نگاروں اور اینکرز کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان لیڈروں نے کسی نہ کسی حد تک عوام کے کسی نہ کسی حصے کو بے حیائی کے اس کلچر کے معاملے میں بے حس بنا دیا ہے۔

اس تحریر کے ابتدائی حصے میں بتایا گیا ہے کہ عرب اخبارات و جرائد بھی کرپشن کا مفہوم لفظ فساد ہی سے بیان کرتے ہیں۔ قُرآن حکیم میں اخلاقی،معاملاتی اور مالی بگاڑ کی تمام صورتوں کو فساد ہی کا نام دیا گیا ہے۔ حضرت شعیب علیہ السّلام اہلِ مدین میں دعوتِ حق پھیلانے، ان کو شرک اوراخلاقی بگاڑ سے روکنے پر مامور ہوئے تھے۔کرپشن کی ایک صورت اس قوم کی پہچان بن گئی تھی۔اس کے اثرات ان کی ساری اجتماعی زندگی پر پڑتے تھے۔اللہ کے پیغمبر نے ان سے کہا تھا:

وَ یٰقوْمِ اَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَ الْمِیْزَا نَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآ ءَ ھُمْ وَ لَا تَعْثَوا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ* (ھود:85)

’اے میری قوم کے لوگو…ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو اُن کی چیزوں میں گھاٹا نہ دیا کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔‘

مال سے لے کر معاملات و اخلاقیات تک پھیلا ہوا فساد disorder پیدا کر کے نظمِ اجتماعی میں خلل ڈالتاہے۔ اس کی تیار کی گئی کھیتی میں شر اور بدی کی فصل اگتی ہے۔ بظاہر یہ حرص و ہوس اور ایک پہلو سے بخل کا معاملہ ہے لیکن فساد کی یہ کیفیت رَب کی بندگی کا احساس و شعور مار دیتی ہے۔ خُدا خوفی سے خالی کر دیتی ہے۔دِین و ایمان کی قدروں سے بے نیاز کر دیتی ہے۔خود غرض اور نفس پرست بناتی ہے۔ ہمدردی اور تعاون اور خیر خواہی کے جذبوں کی قاتل ثابت ہوتی ہے۔ دھوکہ بازی اور مکاری سکھاتی ہے۔ اپنے نفع کی خاطر دوسروں کے نقصان کی سرشت کو پختہ کرتی ہے۔یہی فساد ہے۔یہی کوسارے نظامِ تمدّن کی جڑیں اکھاڑنے کے مترادف ہے۔ یہی اس حیا سے خالی کر دیتی ہے جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس نے حیا کو چھوڑ دیا اب وہ جو جی میں آئے کرتا رہے۔اس کے اندر نہ ضمیر کی گھنٹی بجتی ہے اور نہ غیرت کی روشنی پھوٹتی ہے۔ فطرت میں جڑیں پکڑ لینے والافساد اخلاقی حس کو کند بنادیتا ہے۔ اس سے سماج بد نظمی اور بے اعتدالی کا شکار ہو جاتا ہے۔مہر و مروت اور تعلق و وفا کو جوہر دم توڑ دیتا ہے۔ نیکی اور شرافت کی روح ختم ہو جاتی ہے۔فضا عداوت و کدورت سے غبار آلود ہو جاتی ہے۔ رقابتیں بڑھتی ہیں اور حسد و عناد کا زہر پھیلتا ہے۔ سیاست ہو یا معاشرتی دائرہ ہر جگہ جوڑ توڑ اور سازشوں کا سلسلہ چل نکلتاہے۔ایک دوسرے کو ذلیل و خوار کرنے کا رجحان تقویت پکڑتاہے۔ یہی فساد قومی صفوں میں پولرائزیشن کی خلیج وسیع پیدا کرتا ہے۔ قومی وحدت پارہ پارہ ہوتی اور اتحاد مجروح ہوتا ہے۔ یہ ناسور دفاعی اداروں کی رگوں میں داخل ہوتا ہے توقومی سلامتی اور ملکی استحکام پر خطرے کے مہیب سائے چھا جاتے ہیں۔ یہی فساد اعلیٰ اصولوں اور اور مثبت رویوں کے اضمحلال کا سبب بنتاہے۔ یہی عدل و انصاف کے ترازو کوقائم نہیں ہونے دیتا۔

یہی ظلم کا پاسدار اور زیادتی کا حمایتی ہوتاہے۔ اس کے جراثیم عدلیہ کی رگوں میں داخل ہوتے ہیں تو عدل کے ترازوکا ایک پلڑا گم ہو جاتا ہے۔ایک ہی طرح کے مقدموں میں الگ الگ معیارات برتے جاتے اور جدا جدا فیصلے صادر ہوتے ہیں۔ ایک ہی جرم میں ایک کو صادق و امین ہونے کی سند ملتی ہے، دوسرا کاذب اور خائن قرار پاتا ہے۔وکیل جھوٹے مقدموں کی کروڑوں میں فیس وصول کرتے ہیں اور ڈاکٹر جھوٹے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے لاکھوں بٹورتے ہیں۔ ۔ استاد اپنے تعلیمی اداروں میں طلبہ پر اتنی محنت نہیں کرتے جتنی محنت اکیڈمیاں کھول کر اپنے ہی طلبہ سے بھاری فیسیں لے کر کرتے ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری شعبوں کے چھوٹے بڑے اہلکاریہی چھوت لگنے سے حرام خور ہو جاتے ہیں۔ اسی بنا پر بازاروں میں مہنگائی کا راج ہوتا ہے۔ اشیائے خور و نوش میں ملاوٹ ہوتی ہے۔ اسی کے سبب سے فارن سروس سے وابستہ سفارتی عملہ جن ملکوں میں تعینات ہوتا ہے وہاں اپنا بزنس بھی کھول لیتا ہے اور ان میں سے کئی ملک کی سفارتی خدمات کے عرصے میں غیر ملک کی شہریت لے لیتے ہیں۔ اسی کے باعث انتہائی حساس اداروں میں اعلیٰ پوزیشنوں پر رہنے والے جرنیل اور دیگر اہلکار ریٹائر ہوتے ہی دوسرے ملکوں میں بھاری معاوضوں پر نوکریاں کرنے لگ جاتے ہیں اورقومی امانتوں میں خیانت کا خدشہ لگا رہتاہے۔اس فساد سے جھوٹ اور مکر کی روش مقبول ہوتی ہے۔25 جولائی کومتوقع قومی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہوئے ایک نوجوان امیدوار نے جسے والدہ اور نانا سے بھی اربوں کی وراثت ملی اور باپ کی جائداد کا مرکزی وارث بھی وہی ہے، جن مکانات کی مارکٹ ویلیو اربوں میں ہے نے اپنے گوشوارے میں وہ لاکھوں میں بتائی ہے۔اس فساد کے شکار بڑے بڑے لیڈروں کا کردار شرم ناک حد تک پست ہوتا ہے۔یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ ایسے پچاسوں کردار ہیں جن کے قول اور فعل میں تضاد اور پرائیویٹ اور پبلک لائف میں ہوش ربا بعد ہے۔جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔ منافقت جن کا تعارف ہے۔

حضرت شعیب علیہ السّلام کی قوم معاملات میں کھری نہ رہی تو ایمان و عقیدہ اور بندگی کا شعور بھی اس سے چھن گیا تھا۔اس کو حق ماری میں مہارت حاصل ہو گئی تھی۔ لین دَین میں ڈنڈی مارنا اس کا شعار تھا۔ اس روش سے اجتماعیت کے رشتے کمزور پڑتے اور انتشار و افتراق کی ہوائیں چلتی تھیں۔ اسی کو قُرآن پاک نے فساد کا نام دیا اور اسی وجہ سے اللہ کے پیغمبر نے فرمایا تھا کہ ’زمین پر فساد نہ پھیلاتے پھرو۔‘ فوکس تھوڑا سا وسیع کر کے دیکھیں توہماری اجتماعیت کے ہر شعبے میں فساد کی بڑی ہولناک تصویر سامنے آتی ہے۔ہماری اجتماعی زندگی کے کم و بیش ہر شعبے کی کلیدی شخصیات اس فسادکو نچلی سطح تک پھیلا رہی ہیں جس فساد کو پھیلانے سے حضرت شعیب ؑ نے اپنی قوم کے بااثر لوگوں کو روکا تھا۔جب فساد کی لہریں ہر کہ و مہ کو لپیٹ میں لینے لگیں تو اس قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تھا۔ہم سیاست کے راستے فساد کی ایک بڑی ہولناک نوعیت میں دھنسے ہوئے ہیں۔ اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے کہ ان مترفین کی وجہ سے کہیں ساری قوم پر خُدائی عذاب کا کوڑا نہ برس پڑے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    "دین میں فساد تین طرح سے آتا ہے:

    ایک بادشاہوں اور سلاطین کے ذریعے سے، دوسرے علماء سوء کے ذریعے سے اور تیسرے راہبوں کے ذریعے سے۔”

    حضرت عبداللہ مبارک تبع تابعی
    .
    باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
    اے کشتہ سلطانی و ملائی و پیری

    یعنی اے مسلمان!
    آج تیرا آئینہ قلب دھندلا گیا ہے تو اس کی وجہ وہ زخم ہے جو تجھے تین اطراف سے لگے ہیں۔ ایک پیشہ ور مذہبی ملا، دوسرے بادشاہ، تیسرے پیری مریدی کرنے والے۔

تبصرے بند ہیں۔