فضائل ماہ رمضان المبارک

محمد عرفان شيخ یونس سراجی

ابتدائے آفرینش سے اللہ تعالى نے سال    میں بارہ مہینے مقرر فرمائے ہیں، ان بار ہ مہینوں کا تذکرہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب مقدس قرآن مجید میں یوں کیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے : ”إِنَّ عِدَّةِ الشُّهُورِ عِنْدَ اللهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا يَوْمَ خَلَقَ السَّمَواتِ وَالْأَرْضَ…“.(سورہ  توبہ: ۳۶) ترجمہ:”بے شک مہینوں کی گنتی  اللہ کے نزدیک کتاب  اللہ میں بارہ کی ہے، اسی دن سے حب سے آسمان وزمین کو  اس نے پیدا کیا ہے“۔

جس طر ح ہفتہ کے دنوں میں جمعہ کے دن کو فضیلت حاصل ہے اسی طرح بارہ مہینوں میں ”رمضان المبارک“ کو اپنے اندر موجود فضائل وخصائص کی بابت  فضیلت حاصل ہے۔ اہل علم نے  اس مہینہ کو” شہر رمضان "سے موسوم کرنے کو مستحب کہاہے، اور اس آیت سے استدلال کرتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ”شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ“.(سورہ بقرہ: ۱۸۵) ترجمہ: ”رمضان وہ مہینہ ہے جس کے اندرقرآن مقدس کا نزول ہوا“۔ اور بعض  اہل علم نے  مجرد ”رمضان“کہنے کو مکروہ کہا ہے،جبکہ صحیح یہ کہ مجرد” رمضان“  سے اس مہینہ کو متصف کرنا جائز ہے، اور رہی بات  کراہت  کی تو وہ حکم شرعی ہے جو دلیل وبرہان کا متقاضی ہے۔ تاہم اس مسئلہ میں کوئی ایسی دلیل وارد نہیں ہوئی ہے جو کراہت پر دلالت کرتی ہو،بلکہ ایسی دلیل وارد ہوئی ہے جو ”رمضان “کہنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے،جیساکہ نبی کریمﷺ کاارشاد گرامی ہے:”إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ“(صحیح بخاری،ح:۱۸۹۸۔ صحیح مسلم،ح:۱۰۷۹) ترجمہ: ”جب رمضان کی آمد ہوتی ہے  تو جنت کے دروازے  یکسر کھول دئےجاتے ہیں “۔ نیز نبی کریم ﷺکا فرمان ہے:”لَاتَقَدَّمُوْا رَمْضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ وَلَا يَوْمَيْنِ“.(صحیح بخاری،ح:۱۹۱۴۔ صحیح مسلم،ح:۱۰۸۲) ترجمہ:”رمضان سے پیشتر ایک  دو روزہ کے رکھنے کے ذریعہ اس کا استقبال نہ کرو“۔

مذکورہ دلائل کی  روشنی میں  یہ بات طشت ازبام ہوگئی کہ ماہ رمضان کو صرف ” رمضان“ سے متصف کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے اور نہ محض رمضان کہنے سے اس کے فضائل وخصائص میں  کوئی رخنہ پڑے گا۔ جیساکہ بعض لوگ اس غلط فہمی کے شکار ہیں۔

اس مہینے کی فضیلت  اور اس میں موجودمتواصل  خیرات وبرکات اور انعامات واحسانات کی بیش بہا برسات کے ذریعہ نبی کریم ﷺاپنی امت کوخلوص آمیز  بشارت دیا کرتے تھےاور انہیں اس کے استغلال پر ابھارتے تھے۔ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :نبی کریم ﷺ اپنے اصحاب کو رمضان المبار ک کی آمد کی نوید جاں فزا  سنایا کرتے تھے جیساکہ امام احمد اور نسائی، أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کرتے ہیں : نبی کریمﷺ اپنے ساتھیوں کو دل آویز مژدہ سناتے فرماتے تھے :”قَدْ جَاءَكُمْ شَهْرُ رَمَضَانَ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ كَتَبَ اللهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، فِيهِ تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجِنَانِ، وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَحِيمِ، وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِينُ، فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدَ حُرِمَ“.(مسند   أحمد بن حنبل، ح: ۶۹۷۲،وصححہ الألبانی) ترجمہ:”ماہ رمضان نے تمہار ا دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے، یہ ایسا مبارک مہینہ ہے جس کاروزہ اللہ تعالى نے تمہارے اوپر فرض کیاہے، اور(یاد رہے کہ)اس کےاندر جنتوں کے دروازے وا کردیئےجاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، اور”خوسر وسرکش“ شیاطین جکڑدیئے جاتے ہیں، اس کے اندر ایک ایسی رات ہے جو ہزارمہینوں سے بہترہے،جو اس کے خیر سے محروم رہ گیا  یقیناوہ  بدنصیب اورمحروم  ہی ہے“۔

بعض اہل فرماتے ہیں کہ یہ حدیث   رمضان المبارک کے قدوم کی مناسبت سے لوگوں کے متبادل تہنیت کی اصل ہے۔ مزید براں فرماتے ہیں کہ مؤمنوں کو جنتوں کے دروازے  وا ہونے کی  روح بخش خوش خبری کیوں نہ دی جائے، گنہ گاروں کو جہنم  کے ابواب   بند ہونے کی روح پرور بشارت  کیوں  نہ دی جائے، اورکیوں نہ  عاقلوں  اور زیرکوں کو ایسے وقت کی   دل آرام  صدائے نوید سنائی جائے جوکسی  دیگروقت اور لمحہ سے مشابہ نہیں ہے   بلکہ وہ اپنے آپ   ایک مثال ہے اور باعث اجر وثواب  ہے۔ (الصیام  فضائل وآداب وأحکام،تالیف : علی بن جریدالعنزی)

اس  مقدس مہینہ کے خصائص وفضائل  وشمائل جن کے ذریعہ دیگر  منجملہ مہینوں سے ممتاز  ہوتا ہے، مندرجات میں مذکور ہیں :۔

1۔ یہ ایسا ایمان افروز  اور بابرکت مہینہ ہے جسے اللہ تعالى نے قرآن کریم کے نزول کے لیے اختیار کیا۔ یہ عظیم اور شاہکار میزہ اور فضیلت رمضان المبارک  کے حصے میں مندرج ہے۔ قرآن کریم عظیم اورمتبرک کتاب ہے جو اس  روئے زمین پر پائی جانے والی کتابوں میں سب سے افضل ہے،اور ساتھ ہی ان تمام آسمانی کتابوں  کی حفاظت کی ضامن ہے، بنابریں اللہ تعالی نے اس کتاب  لازوال کے نزول کی خاطر مبارک مہینہ رمضان المبارک  کا انتخاب کیا۔ اگر  ماہ رمضان سے افضل اور باعتبار اجر  کےکوئی دوسر امہینہ  ہوتا، تو اسے  قرآن کےورود مسعود کے لیے چن لیاجاتا، تاہم اللہ تعالی نے  اس کتاب کے تقدس کے پیش نظر رمضان  المبارک  میں موجود ایسے وقت کا انتخاب کیا جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جسے لیلۃ القدر سے موسوم کیاجاتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ   قرآن کریم کے نزول کےلیے اللہ تعالی نے دن کو اختیار نہ کرکے رات کا اختیار وانتخاب اس لیے کیا کہ رمضان  کی راتیں ان کے دنون سے بہتر ہے۔ جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:”إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ“.(سورہ دخان:۳) ترجمہ:”یقینا ہم نے اسےبابرکت رات میں اتار ا ہے،بے شک ہم ڈرانے والے ہیں “۔ علاوہ ازیں اللہ تعالی  کا فرمان ہے :”إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ* وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ*لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ“.ترجمہ: ”یقینا ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا، توکیا سمجھا کہ شب قدر کیا ہے؟شب قدر ایک ہزارمہینے سےبہتر ہے“۔

2۔ اس مہینے کے فضائل میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ روزہ  اسلامی ارکان کا ایک  عظیم رکن ہے۔ اور رمضان المبار ک خاص روزے کی ادائیگی کے لیے وضع کیا گیا ہے جس میں نذر و کفارہ وتطوع کاروزہ رکھنادرست نہیں ہے۔ یاد رہے کہ  قرآن کریم اور روزہ   اپنے صاحبان کےلیے بروزقیامت سفارشی بنیں گے۔

3۔ اس ماہ مبار  ک کے اندر جنتوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں۔ یہ فتح، فتح حقیقی ہے جو جنات تک رسائی کرنے والی تمام راہوں کے فتح کو شامل  ہے۔

 4۔ متمرد اور سر کش شیاطین اس مبارک مہینہ میں جکڑ دئیے جاتے ہیں، پس وہ   اللہ تعالی کے صالحین اور نیکوکار بندوں تک انہیں گمراہ  کرنے اور راہ راست سے بھٹکانے کی غرض سے  نہیں پہونچ سکیں گے۔ یہ اللہ کی اپنے بندوں کے لیے غیبی اعانت ہے کہ جس نے  ان کےلیے ایسے واقع فراہم کیے جن میں متمرد اور خودسر شیاطین کو محبوس کردیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اہل ایمان اس  متبرک مہینہ میں اپنے قلوب واذہان  سے اللہ کی غضبناکی اور ناپسندیدگی کو ناگوار سمجھتے ہیں۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے:”إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ وَصُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ“.(صحیح مسلم،ح:۱۰۷۹) ترجمہ:”جب رمضان  آتا ہے تو جنت کےدروازے  کھول دیئےجاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور "سرکش شیاطین”کو جکڑدیا جاتا ہے“۔

اس  حدیث میں ”تصفید “سے مراد تصفید حقیقی ہے جو کہ حدیث کے ظاہر سے واضح ہے، اوریہ ”الفاظ حدیث“ کو مجاز کے علاوہ ان کےحقائق پرمحمول کررہا ہے۔ ابن الأثیر رقمطرازہیں : ”صُفِّدَتْ: أَیْ شُدَّتْ وَأُوْثِقَتْ بِالْأَغْلَالِ“.یعنی  تصفید  کہتے ہیں بیڑیوں سے مضبوطی وپختگی  کےساتھ جکڑنا۔ (النہایۃ فی غریب الأثر:۳/۶۸)

 حرف آخر:

رمضان المبارک ایک عظیم الشان رحمت وبرکت والا مہینہ ہےجس میں عبادات اور نیکیوں کی مقدار میں بے شمار اضافہ ہوتا ہے،بنابریں اس  کی فضیلت واہمیت کےپیش نظر اس میں حسب  مقدور  عبادات  اور صدقات وخیرات کاشاخسانہ برقرار رکھنا چاہیے،قیام اللیل اور نوافل کازیادہ سے زیادہ اہتمام کرناچاہیےنیز اس متبرک ومقدس مہینہ کے لمحات کو غنیمت سمجھتے ہوئے قرآن کریم کی تلاوت سے  اپنے قلوب واذہان کو منورکرناچاہیے،اللہ تعالی کی غیبی مدد، خصوصی اعانت ورحمت ورأفت کی روح بخش برکھاسے بھرپور فائدہ اٹھاناچاہیے،اپنے گناہوں اور معاصی کی بھٹی سے نکل کر اللہ کی بارگاہ سربسجود ہوکر تائب اور نادم ہوتے ہوئے اپنے آپ کوجنت میں داخلہ کامستحق بناناچاہیے۔ کسے خبر کہ وہ آنے والے رمضان المبارک کی خوش گور اورروح پرور فضا کی  آب تاب، چمک دمک سے بہرہ ور ہوسکے گا۔ لہذا ہمیں اپنے اوقات  کی نزاکت کا خیال رکھنا  بے حد ضروری امر ہے۔

اللہ ہمیں رمضان  المبار ک کے چھلکتے جام کو نوش کرنے نیز اس کے پرکیف فضا سے کما حقہ استفادہ کی توفیق ارزانی عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔