فلسطینی تنازعہ

 شہزاد سلیم عباسی

تاریخ اسلامی کے غیر حل شدہ تنازعوں کی طرح فلسطینی تنازعہ بھی عشروں پر محیط ایک تلخ کہانی ہے۔ دنیا میں 2ارب مسلمانوں اور 40کروڑ عربوں کے ہوتے ہوئے بھی پچاس لاکھ فلسطینی پچھلے ستر سال سے بے گھر ہیں۔ حالیہ او آئی سی کے اجلاس میں 57ممالک میں سے کل ملا کے 26رکن ممالک نے حاضری لگوا کراحتجاج ریکارڈ کروایا۔ سوائے ترکی اور فلسطینی صدر کے کسی نے بھی جاندار اور جارحانہ انداز میں بات نہیں۔ غیر سنجیدگی کی انتہا دیکھیں کہ دنیا ئے اسلام کے سب سے اہم ترین موڑ اور انتہائی اہم اجلاس پر مصر، متحدہ عرب امارات اور کنگڈم آف سعودیہ نہیں آئے۔ مسلمان آج بے بس ہے اور چائینہ روس وغیرہ پر انحصار کر کے بیٹھا ہے۔ امریکی شکنجے ’’شیعہ مشرقی وسطیٰ اور سنی مشرقی وسطیٰ‘‘ کے جال میں بری طرح پھنس چکا ہے جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ مسلمانوں، عیسائیوں یا دنیا بھر میں احتجاج کرنے والوں سے سپر پاورامریکہ کو کوئی فرق نہیں پڑھتا کیوں کہ سب بشمول پاکستان کے، خدانخواستہ مشرقی یا مغربی بیت المقد س پر قبضے کے بعد بھی امریکہ سے قرضے کی بات کررہے ہوں گے۔

مجلس علمی سوسائٹی کی رپورٹ کے مطابق’’1904 سے 1914 تک چالیس ہزار یہودیوں نے ہجرت کی اور اس وقت یہودی آٹھ فیصد جبکہ عرب بانوے فیصدتھے۔1916 میں سائیکس پکٹ کے تحت شام تقسیم ہوااور فلسطین برطانیہ کے زیر تسلط آگیا۔1917میں برطانوی کابینہ کے خفیہ اجلاس میں اسرائیل کی منطوری دی گئی۔ 1947میں برطانیہ کے فلسطین سے انخلا کے وقت اقوام متحدہ کی قرار داد منظور ہوئی۔ پھر 1948میں برطانیہ کے انخلاء کے ساتھ ہی عرب اسرائیل جنگ ہوئی اور اسرائیل 78فیصد فلسطینی زمین پر قابض ہوگیا۔ فلسطینی زمین پر عہد بہ عہد قبضہ ہوتا گیا اور رفتہ رفتہ فلسطین کی تقریباََ 90فیصد زمین پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔ 1947میں اسرائیل کی طرف سے یہودی ریاست کے اعلان کے بعد 1993ء میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان براہ راست اوسلو معائدہ طہ پایا جس میں 78ء فیصد حصے پر قبضہ تسلیم کیا گیا اور معائدے کے تحت اسرائیل کو مغربی کنارہ اور غزہ خالی کرنا تھا۔عالمی طاقتوں کے گٹھ جوڑ کے باعث اوسلو معائدے کے بیس سالوں میں 3لاکھ سے زائد آبادکاروں کو مقبوضہ علاقوں میں بسایا گیا، 15,000سے زائد فلسطینی عمارتوں کو منہدم اور 10,000سے زائد فلسطینیوں کو اسرائیلی درندوں نے شہید کیا اور 441میل لمبی دیو ہیکل ناجائز دیوار تعمیر کر کے اہل فلسطین کو محصور کر دیا۔

احوال واقعی یہ ہے کہ 70لاکھ سے زیادہ فلسطینی ملک چھوڑ چکے ہیں اور اسرائیل کے پاس بربریت کے لئے جدید ترین امریکی ساخت اسلحہ جبکہ فلسطینیوں کے پاس دفاع کے لیے غلیل ہے۔ امریکی سفارت خانہ کو تل ایب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے صہیونی مقاصد مندرجہ ذیل ہیں :(1)اس بات کا اعتراف کرنا کہ بیت المقدس اپنی مشرقی و مغربی حدود کے اعتبار سے قابض اسرائیل کے ماتحت ایک شہر ہے۔ (2) اس بات کا اعتراف کرنا کہ بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔(3)مستقبل میں کسی بھی مذاکراتی عمل سے بیت المقدس کو بے دخل کرنا۔ (4)تمام مقدس اسلامی اور عیسائی اداروں کو اسرائیل کے ماتحت کرنا۔(5)دنیا کے ممالک کے لیے بیت المقدس میں اپنے سفارتخانے منتقل کرنے کی راہ ہموار کرنا۔(6)قبضہ پالیسی کی حمایت کرتے ہوئے بیت المقدس کی زمین پر قبضہ کرنا اور اس کے باشندوں کو بے گھر کرنا اور یہودی شہر آباد کرنا۔‘‘

افسوس کہ پاکستان سمیت آج ہر مسلم ملک جیواسٹریٹیجک صورتحال میں پھنس چکا ہے۔ اپنے اپنے مفاد اور دلچسپی کے چکر میں اپنی اقدار، رتبے اور یہاں تک کہ اوقات کو بھول بیٹھا ہے۔ حالیہ منعقدہ او آئی سی اجلاس کے اعلامیہ میں کچھ نقاط توبہت ہی مضحکہ خیز ہیں جیسے کہ ’’مقبوضہ بیت المقدس سے متعلق امریکی اقدام انتہاء پسندی، دہشت گردی میں اضافہ ہوگا‘‘، امریکہ اپنا فیصلہ واپس لے اور ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں، اقوام متحدہ میں فلسطین کے مستقل رکن ہونے کا مطالبہ کریں گے، امریکہ مشرق وسطیٰ کے معاملے میں اب ثالث نہیں رہا وغیرہ وغیرہ۔ یہ رسمی بیانات تو فلسطینی صدر بھی دے سکتاتھا اور اگر صرف رسمی بیانات کی حد تک ہی رہناتھا تو پھر اجلاس کو ہنگامی یا غیر معمولی اجلاس کا نام دینے کی کیا ضرورت تھی؟جب ہسپانیہ کے آخری مسلمان بادشاہ ابو عبداللہ کو سقوط غرناطہ کے بعد وہاں سے نکال دیا گیا تو ایک پہاڑ کی چوٹی پر رک کر وہ غرناطہ پر آخری نظر ڈالتے ہوئے رونے لگا اس وقت اس کی ماں نے اسے یہ تاریخی الفاظ کہے تھے ! ’’اس کے لیے عورتوں کی طرح مت رو جس کے لئے تم مردوں کی لڑ نہیں سکے‘‘آج یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنتے دیکھ کر دنیا بھر کے مسلمانوں کی دہائی پر مجھے ابو عبداللہ کی ماں کے الفاظ یا د آگئے۔

اب ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ امریکا کے اس اقدام کی پرزور مذمت کریں۔ فلسطینی بھائیوں کہ ہر ممکن اخلاقی، سفارتی و مالی مدد کریں۔ سوشل میڈیا، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر فلسطینی بہن بھائیوں کی آواز بنیں۔ پرامن احتجاج اور منسٹری آف فارن افیئرز کے ذریعے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں۔ برطانیہ میں لابنگ کرکے باالفور معاہدے سے دست برداری کا رستہ ہموار کرائیں۔ عیسائی کمیونٹی کو بھی بیدارکریں۔ او آئی سی، 57 اسلامی ممالک اور اسلامی فوجی اتحاد کے محاذوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے قبلہ اول کی حفاظت کریں اور ٹرمپ انتظامیہ پر پریشر بڑھائیں۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    اسرائیل فلسطین مسئلہ
    اہم سوال و جواب
    ٹرمپ کا یروشلم والا فیصلہ:
    یہ درست نہیں ہے کہ ٹرمپ نے اچانک کوئی نیا منصوبہ بنایا ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت ماننا 1995 سے امریکی کانگریس کا منظور شدہ قانون ہے جس کو کلنٹن بش اور اوبامہ ہر چھہ مہنیے میں موخر کرتے آئے ہیں باوجود اس کے کہ یہ ان کی الیکیشن کیمپین کا حصہ رہا ہوتا ہے۔ ٹرمپ نے چھہ ماہ پورے ہونے پر ایک بار اس آرڈر پر موخر کرنے کے دستخط کئے تھے اور اب دوسری بار کی مدت پوری ہونے پر وعدے کے مطابق اس شق پر عمل کیا ہے۔ ایک اور بات جو غلط فہمی پر مبنی ہے وہ عربوں کے موقف کے حوالے سے ہے۔ عربوں کے کئی سارے موقف ہیں جن میں سے مقبول ترین موقف مکمل یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت بنوانا ہے نہ کہ یروشلم کو تینوں مذاہب کے لئے کھلا رکھنا اور اقوام متحدہ کے زیر کنٹرول رہنے دینا۔ عربوں کا یہ موقف اس اسرائیلی موقف سے کچھ مختلف نہیں جس کے تحت اسرائیل مکمل یروشلم کو اسرائیل کا درالحکومت دیکھنا چاہتا ہے۔

    کیا مکمل خطہ ہمیشہ سے مسلمانوں کا تھا:
    نہیں یہ درست نہیں ہے۔ پورے علائقے کو فلسطین بولنا عربوں کے سیاسی موقف کی حمایت ہے جس کا مقصد اسرائیل کے وجود کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ خطہ کئی ناموں سے پکارا جاتا رہا ہے اور کئی حصوں پر مشتمل ہے جن میں سنائے غازہ گولان اور کئی دوسرے حصے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ اردن کے کئی حصے اور پورا لبنان بھی اسی تاریخی جگہ کا حصہ رہا ہے۔ یہودی کی زایونسٹ تحریک اپنی اس تاریخی ریاست کی بحالی کی تحریک ہے جو آج سے تین ہزار سال پہلے اسی خطے پر موجود تھی جبکہ عربوں کی جانب سے اس بات کی نفی کی جاتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ پرانی تاریخ کے بجائے معاملات کو 1948 سے دیکھا جائے۔ زایونسٹ تحریک کے تحت 1880 سے یہودیوں نے یورپ سے واپس اس خطے میں آکر آباد ہونا شروع کیا تھا جس کے لئے انہوں نے عربوں سے زمینیں اور گھر مہنگے داموں خریدے تھے، 1945 کے بعد البتہ یہودیوں کی آمد میں تیزی آئی تھی اسی لئے اس ہجرت کا زیادہ تر ذکر 1948 کے ہی تناظر میں کیا جاتا ہے۔

    آزاد فلسطین ریاست کیوں قائم نہیں ہوتی:
    یہ ایک غلط فہمی پر مبنی بات ہے کہ دو ریاستی قیام میں رکاوٹ اسرائیل یا امریکہ ہے۔ بلکہ اس میں رکاوٹ عربوں کے موقف میں یک جہتی نہ ہونا ہے۔ شام اس پورے علاقے بشمول لبنان کے اپنا حصہ دیکھتا ہے۔ اردن یروشلم اور گریٹر جوڈیا کو اپنا حصہ مانتا ہے، مصر سینائے اور غازہ کے علاوہ ایک وسیع ساحلی پٹی کو مصر مین ضم کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب ایک آزاد فلسطین ریاست کے قیام کا شدید مخالف ہے۔ ان بڑی طاقتوں کے علاوہ خود فلسطینیوں میں ریاست کے قیام سے متعلق مختلف دھڑوں میں متضاد سوچیں پائی جاتی ہیں اور سنی شیعہ تفریق ایک الگ مسئلہ ہے۔ کل کو اگر کسی معجزے یا حادثے کی وجہ سے اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ بھی جائے اور تمام یہودی مر جائیں تو بھی ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ان تمام پیچیدگیوں کی وجہ سے ممکن نہیں ہے۔

    یاسر عرفات کیا چاہتے تھے:
    یاسر عرفات، پیلیسٹینین لبریشن آرگنائیزیشن، انتہا پسند حماس اور کئی دوسرے عربوں کا موقف اسرائیل کا مکمل طور پر خاتمہ ہے (نہ کہ آزاد فلسطین کا قیام) جس کے لئے وہ مختلف نوعیت کی کوششوں پر یقین رکھتے ہیں۔ خود یاسر عرفات نے ساٹھ اور ستر کی دہائی کے بعد اسرائیل کے مکمل خاتمے کے بجائے اس پیس پراسس پر توجہ دینی شروع کی تھی جس کے تحت دو ریاستی حل کی جانب پیش رفت ممکن ہوسکے پر تنقید نگاروں کے مطابق یاسر عرفات اور ان کی تنظیم دل سے اس پراسس کے حق میں نہیں تھے اور اس وجہ سے کبھی ایک مربوط اور جامع موقف کے ساتھ کام نہیں کرپائے۔

    اسرائیل کو غاصب کیوں کہا جاتا ہے:
    اسرائیل کو غاصب ان اقدامات کے لئے کہا جاتا ہے جن کے تحت اس نے 1967 کی جنگ کے نتیجے میں علاقے حاصل کیے۔ کچھ حلقے اس بات کو 1948 والے اسرائیلی ریاست کے قیام سے نتھی کرکے بتاتے ہیں تاکہ اسرائیل کے قیام کو سرے سے ایک غاصب ریاست قرار دیا جاسکے پر وہ بین القوامی موقف جو اسرائیل کو غاصب کہتا ہے وہ صرف 1967 کی جنگ کے بعد کی صورتحال کی بات کرتا ہے۔ اسرائیل سیاسی حل کے لئے 1967 سے پہلے والی پوزیشن پر جانے کے لئے کئی مواقعوں پر تیار تھا جیسا اس نے جزیرہ نما سینائے کا خطہ مصر کو واپس کرکے کیا یا پھر عرب ریاستوں کے لئے یہ منصوبہ پیش کیا کہ عربوں کی جانب سے سفارتی تعلقات کی ضمانت کے بدلے میں اسرائیل 1967 سے پہلے والی پوزیشن پر واپس جاسکتا ہے مگر عرب ریاستوں اور پی ایل او کی جانب سے اس پر پیش رفت نہ ہوسکی۔

    کیا فلسطین ایک قوم ہے:
    اسرائیلی ریاست کے قیام پر تنقید کرتے وقت اکثر یہ توجیہ دی جاتی ہے کہ اسرائیلی کوئی ایک قوم نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کے مختلف خطوں سے جمع ہونے والے یہودی مذہب کے ماننے والے ہیں، یہ بات بلکل درست ہے اتنی ہی درست جتنی یہ بات فلسطینیوں کے بارے میں درست ہے۔ اسرائیلیوں کی طرح فلسطین بھی کوئی قوم نہیں ہے بلکہ یہ عراقی شامی اردنی اور شمالی افریقہ کے علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والے عربی النسل لوگ ہیں۔ آج بھی ان میں قبیلوں کے نام انہی علاقوں کی نسبت سے ہیں۔ بلکل ویسے ہی جیسے لبنانی کوئی قوم نہیں ہے۔ فلسطین نام اس فلسطائن نسل کے نام سے لیا گیا ہے جو آج کے غازہ اور مغربی ساحلی پٹی پر رہتے تھے یہ قدیم یونانی نسل سے نکلے ہوئے لوگ تھے جو قدیم اسرائیلی سلطنت بننے سے بھی پہلے ختم ہوچکے تھے۔ یہ تین ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی بات ہے۔ عربوں نے فلسطین نام استعمال کیا تاکہ خطے پر اپنی تاریخی ملکیت کی مہر ثبت کی جاسکے۔

    کیا خطے میں صرف مسلمان اور یہودی ہیں:
    اس خطے میں مسلامانوں اور یہودیوں کے علاوہ بھی کئی چھوٹے چھوٹے مذاہب کے لوگ رہتے ہیں جن میں ایرانی بہائی، قدیم سماراٹن اور دروز لوگ شامل ہیں۔ یہ تمام لوگ اسرائیل ریاست کے شہری رہنا چاہتے ہیں نہ کہ مستقبل میں بننے والی کسی عربی فلسطینی ریاست کے۔ اس کے علاوہ موجودہ اسرائیل فلسطین اور لبنان میں عیسائی عربوں کی بڑی آبادی موجود ہے، یہ لوگ بھی ایک آزاد فلسطین ریاست کے بارے میں متضاد رائے رکھتے ہیں۔

    کیا اسرائیل میں کوئی مسلمان شہری نہیں:
    یہ درست نہیں ہے، اسرائیل ریاست میں سترہ لاکھ کے قریب عرب مسلمان شہری ہیں جو زیادہ تر سنی مسلمان ہیں۔ ان میں سے تین لاکھ کے قریب لوگ مشرقی یروشلم میں مقیم ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔