فلسطینی عوام پر مظالم  کا سدّ باب ضروری ہے!

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

روئے زمین پر ارض فلسطین میں رہنے والی عوام نے نہ جانے ظلم و ستم کی کتنی  داستانیں دیکھی ہیں، ہر روز ان پر آتش و آہن کا نیا کھیل کھیلا جاتا ہے،معصوموں، بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور خواتین پر زیادتی، قتل و غارت گری کا ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے،گویا آلام و مصائب کی نا ختم ہونے والی رات شروع ہوچکی ہے، جب صبح نمودار ہوتی ہے اور دن کا اجالا بڑھتا جاتا  ہے تو فلسطینی عوام کی زندگیوں میں اندھیرے کے سماں بندھ جا تا کوئی نہ کوئ اس مظلوم عوام کے صحن میں زندگی کی آخری سانسیں پوری کرہا ہوتا ہے،ہر صبح ان کی زندگیوں میں خوشیوں کے بجائے افسردگی،پزمردگی اور مایوسی کی نوید لیکر آتی ہے،اب تک نہ جانے کتنے افراد لقمئہ اجل بن چکے ہیں، ان کا صرف قصور اتنا ہیکہ وہ اپنے اوپر کئے جانے والے مظالم کا دفاع کرتے ہیں، فلسطین کا موجودہ  قضیہ جاننے کے لئے ضروری ہیکہ اس حقیقت سے بھی آشنا ہوا جائے کہ صیہونی ریاست اسرائیل نے مقدس سر زمین پر اپنا تسلط کیونکر جمایا  چنانچہ مؤرخین نے لکھا ہے :

"پہلی جنگ عظیم کے موقع پر ڈاکٹر وائز مین جو اس وقت یہودیوں کے قومی وطن کی تحریک کا روح رواں  تھا، انگریز حکومت سے اس نے وہ مشہور پروانہ حاصل کر لیا، جسے تاریخ میں  اعلان بالفور کے نام سے جانا جاتا  ہے۔ اگر ان دستاویزات کا بغور مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ اعلان بالفور کے وقت فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی پانچ فیصد بھی نہ تھی۔ مگر    لارڈ بالفور کے جارحانہ اور جانبدارانہ الفاظ بھی ملاحظہ کرتے چلئے  "ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجودہ باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صیہونیت ہمارے لیے ان سات لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اس قدیم سرزمین میں اِس وقت آباد ہیں ۔”

بالفور کی ڈائری کے یہ الفاظ آج بھی برطانوی پالیسی کی دستاویزات (Documents of British Policy) کی جلد دوم میں موجود  ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 1917ء میں یہودی آبادی جو صرف 25 ہزار تھی وہ پانچ سال میں بڑھ کر 38 ہزار کے قریب ہو گئی۔ 1922ء سے 1939ء تک ان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ گئی۔ جنگ عظیم دوم کے زمانے میں ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے والے یہودی ہر قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بے تحاشہ فلسطین میں داخل ہونے لگے۔ صیہونی ا یجنسی نے ان کو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں فلسطین میں گھسانا شروع کر دیا اور مسلح تنظیمیں قائم کیں، جنھوں نے ہر طرف مار دھاڑ کر کے عربوں کو بھگانے اور یہودیوں کو ان کی جگہ بسانے میں سفاکی کی حد کر دی۔

اب ان کی خواہش تھی کہ فلسطین کو یہودیوں کا "قومی وطن” کی بجائے "قومی ریاست” کا درجہ حاصل ہو جائے۔ 1947ء میں برطانوی حکومت نے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کر دیا نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا۔ اس کے حق میں 33 ووٹ اور اس کے خلاف31 ووٹ تھے۔ دس ملکوں نے کوئی ووٹ نہیں دیا۔

آخر کار امریکہ نے غیر معمولی دباؤ ڈال کر ہائیٹی، فلپائن اور لائبیریا کو مجبور کر کے اس کی تائید کرائی۔ یہ بات خود امریکن کانگریس کے ریکارڈ میں  موجود ہے کہ یہ تین ووٹ زبردستی حاصل کیے گئے تھے۔ تقسیم کی جو تجویز ان ہتھکنڈوں سے پاس کرائی گئی، اس کی رو سے فلسطین کا 55 فیصد رقبہ 33 فیصد یہودی آبادی کو، اور 45 فیصد رقبہ 67 فیصد عرب آبادی کو دیا گیا۔ حالانکہ اس وقت تک فلسطین کی زمین کا صرف 6 فیصد حصہ یہودیوں کے قبضے میں آیا تھا۔ یہودی اس تقسیم سے بھی راضی نہ ہوئے اور انہوں نے مار دھاڑ کر کے عربوں کو نکالنا اور ملک کے زیادہ سے زیادہ حصے پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ آرنلڈ تائن بی اپنی کتاب A Study of History میں لکھتا ہے کہ: وہ مظالم کسی طرح بھی ان مظالم سے کم نہ تھے جو نازیوں نے خود یہودیوں پر کیے تھے۔ اسی طرح  9 اپریل 1948ء کے قتل عام کا خاص طور پر اس نے ذکر کیا ہے، جس میں عرب عورتوں، بچوں اور مردوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

عرب عورتوں اور لڑکیوں کا برہنہ جلوس نکالا گیا اور یہودی موٹروں پر لاؤ ڈ اسپیکر لگا کر جگہ جگہ یہ اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ:”ہم نے دیریا سین کی عرب آبادی کے ساتھ یہ اور یہ کیا ہے، اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ساتھ بھی یہی کچھ ہو تو یہاں سے نکل جاؤ”۔ ان حالات میں 14 مئی 1948ء کو عین اس وقت جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی فلسطین کے مسئلہ پر بحث کر رہی تھی، یہودی ایجنسی نے رات کے دس بجے اسرائیلی ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا اور سب سے پہلے امریکہ اور روس نے آگے بڑھ کر اس کو تسلیم کیا۔ حالانکہ اس وقت تک اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین میں اپنی قومی ریاست قائم کرنے کا مجاز نہ کیا تھا۔ اس اعلان کے وقت تک 6 لاکھ سے زیادہ عرب گھر سے بے گھر کیے جا چکے تھے اور اقوام متحدہ کی تجویز کے بالکل خلاف یروشلم (بیت المقدس) کے آدھے سے زیادہ حصے پر اسرائیل قبضہ کر چکا تھا۔ پس یہی ہے وہ منحوس دن جس کو تاریخ ِ فلسطین میں یوم نکبہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ اور آگے تک جاتی ہے۔

توسیع پسند و تسلط و طاقت کے نشہ میں مدہوش اسرائیل نے 1967ء میں تمام فلسطین پر قبضہ کر لیا اور مقامی باشندوں کو بے دخل کر دیا، یوں اس سرزمین کے اصل وارث لاکھوں کی تعداد میں اردن،لبنان اور شام میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے، مگر سامراجی اور استعماری ہتھکنڈوں نے انہیں یہاں سے بھی نکالنے کی سازش کی، چنانچہ ستمبر 1975ء میں اردن کی شاہی افواج نے یہاں پر مقیم فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا کر دی۔ ان کا قتل عام کیا گیا، اس کے بعد ان فلسطینیوں کو لبنان میں پناہ پر مجبور کر دیا گیا۔ اس بھیانک ظلم کو سیاہ ستمبر کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ فلسطیں میں اسرائیل کی سکونت غاصبانہ اور جابرانہ ہے جب سے آج تک فلسطینی باسیوں نے   نہ جانے کتنے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں، ظلم بالائے ظلم یہ کہ چند روز قبلط امریکہ نے یروشلم میں اپنا سفارتخانہ قائم کرلیا اور جب فلسطینی عوام نے اس کے روکنے کے لئے احتجاج کیا تو نہتے لوگوں کو بموں اور بارود سے نشانہ بنا کر ڈھیر کرڈالا امریکہ کے اس رویہ کے خلاف دنیا کے بیشتر ممالک میں احتجاج ہورہے ہیں اور امریکہ کے اس عمل کو غیر انسانی قرار دیا جا رہا ہے، مگر اس پر کوئی جو ں نہیں رینگرہی ہے، اسی وجہ سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارہ کے سربراہ نے اسرائیل کے فلسطینی مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کو غیر مناسب قرار دیا ہے، جنیوا میں منعقدہ ایک اجلاس میں اسرائیل کی حالیہ سفاکی کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ غزہ کے رہنے والے مؤثر انداز سے ایک زہر آلود پنجرے میں قید ہیں لہذا اسرائیل کو غزہ کا قبضہ ختم کرنا چاہئے۔

اسی طرح اسرائیل کی حالیہ در اندازی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسلامی سربراہی کانفرینس میں متفقہ طور پر کہا گیا ہے کہ امریکی ایماء پر اسرائیلی افواج جنگی جرائم کا ارتکاب کررہی ہے، اگر اس پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسرائیل نے یہ جرائم امریکی سفارتخانہ منتقلی کے غیر قانونی پس منظر میں کئے،جبکہ سفارتخانہ کی منتقلی مجرمانہ قدم ہے،ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کا یہ قدم  اقوام متحدہ چارٹر اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور مسلم امہ کے خلاف اشتعال انگیزی اور کھلی دشمنی کا واضح ثبوت ہے،حیرت اس بات کی ہے کہ امریکی سفارتخانہ کی غیر قانونی منتقلی پر غیر مسلح فلسطینیوں کے پر امن احتجاج پر اسرائیلی سفاک افواج نے تشدد اور بربریت کا راستہ اختیار کیا جس کے نتیجہ.میں ایک اخباری بیان کے مطابق  60  سے زیادہ فلسطینیوں کی شہادت اور اور تین ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے،ساتھ ساتھ ہی ساسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہیکہ امریکی سفارتخانہ کی مقبوضہ بیت المقدس منتقلی کسی گہری سازش کا حصہ ہے، امریکہ کے اس غیر ذمہ دارانہ عمل کی بنیاد پر کئی مملک نے اپنے سفیروں کو بھی اسرائیل سے واپس بلالیا ہے اسرائیل اور امریکہ کی درندگی اور سفاکی سے دلبرداشتہ ہوکر ایک عیسائی پادری مینوئل (جو  یروشلم میں عیسائی اسلامی کمیٹی کے رکن ہیں )  یہ کہنے پر مجبو ہوگیا کہ کہ فلسطینیوں کی آزادی کے لئے نئے صلاح الدین ایوبی کی ضرورت ہے انہوں نے سماج دشمن عناصر پر طمانچہ مارتے ہوئے کہا کہ یروشلم کی آزادی کا راستہ غزہ سے ہوکر گزرتا ہے اور فلسطین کی آزادی کےلئے ایک نئے صلاح الدین ایوبی کو جنم لینا ہوگا  پادری نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ  یہ صلاح الدین ایوبی  کسی بھی نام سے ہوسکتا ہے لیکن وہ اپنے مذہب پر عمل پیرا ہوکر فلسطین کو اسرائیل سے آزاد کرائے گا،اس وقت عیسائی رہنما کا یہ کہنا اور مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھانا انتہائی اہمیت رکھتا ہے،کیونکہ  تقریبا زیادہ تر عیسائی یہودیوں کے بتائے ہوئے نقش قدم پر چل رہے ہیں کہا جاتا ہے کہ دنیا کے بیشتر حصوں اور مؤثر اداروں پر یہودیت کا اثر و رسوخ ہے ایسے موقع پر عیسائی مذہبی رہنما کی طرف سے مظلوموں کی دادرسی میں صدا بلند کرنا بہت بڑا کار خیر ہے-

ظاہر ہے کہ اسرائیلی سفاکی کو ختم کرنے کے لئے تمام انصاف پسند اور حق نواز انسانوں کو مل کر  آواز بلند کرنے کی بیحد ضرورت ہے-  الغرض اس وقت پوری دنیا میں امریکہ کا یہ غیر ذمہدارانہ قدم ایک نئی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے امریکہ کی اس حرکت سے نمٹنے کےلئے تمام مسلم.ممالک کے سربراہان کو یکجا ہونا پڑیگا اور امریکہ کی اسلام دشمن پالیسیوں پر سنجیدگی سے غورو خوض کرنے کی ضرورت ہے، وہیں آج اس بات کی بھی سخت ضرورت ہے کہ اسلام کے باریمیں مغرب نے جو پروپیگنڈہ اختیار کر رکھا ہے اس کا مؤثر اور دندان شکن جواب دینے کے لئے علمی اور عملی طور  پر ہر آن مستعد رہنے کی ضرورت ہے یہ بھی عرض کردوں کہ  امریکہ اور اسرائیل کی اس طرح کی اسلام مخالف سرگرمیاں کوئی نئی بات نہیں ہے صیہونی طاقتوں نے اپنی روزی روٹی کی بنیاد  اسلا م دشمنی پر کھڑی کر رکھی ہے آئے دن وہ اسلام کے خلاف نئے زاویے اور طریقہ اپنا رہے ہیں مگر ان کے دفاع میں ہمارا کیا وطیرہ ہے؟  بلکہ بعض مسلم ممالک کے سربراہ تو فکری اور عملی طور پر امریکہ اور اس کے نت نئے فتنوں کے اسیر ہو چکے ہیں-

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔