کیٹلوونیا آخر اسپین سے آزادی کیوں چاہتا ہے؟

صائمہ اخلاق

دنیا کے نقشے پر آج بھی کئی ایسے علاقے موجود ہیں جو معروف معنوں میں ایک آزاد ریاست بننے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں اور اس کے لیے جدوجہد بھی کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک علاقہ کیٹلوونیا کے نام سے جانا جاتا ہے جو اسپین کی ایک نیم خودمختار ریاست ہے.

اسپین بہت ہی قدیم قوموں کا ملک ہے جن میں کاسیتن، کٹالین اور باسک جیسے  قبائل شامل ہیں۔ یہ  مغرب کی جانب پرتگال، جنوب میں برطانوی نوآبادی جبل الطارق اور مراکش جبکہ شمال مشرق میں انڈورا اور فرانس کے ساتھ منسلک ہے.

اگر کیٹلوونیا کو جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ اسپین کے شمال مشرق میں واقع ہے اور معاشی اعتبار سے اسپین کا امیر ترین علاقہ ہے۔ صنعتی اور زرعی پیداوار اس کی معاشی ترقی کے اہم ذرائع ہیں جو کہ اسپین کی جی ڈی پی می27فیصد مختص کرتی ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیٹلوونیا آخر اسپین سے آزادی کیوں چاہتا ہے۔ کیٹلوونیا میں ہونے والا حالیہ ریفرنڈم آزادی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش تھی تاہم یہ ریفرنڈم نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے اور اس کے برعکس پورے ملک میں بے چینی اور تناؤ کی فضا پیدا ہوگئی۔

اسپین کی موجودہ صورتحال یورپی یونین سمیت اقوام عالم کے لیے باعث تشویش ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اسپین کیٹلوونیا کو کیوں آزاد نہیں کرنا چاہتا اور یورپی یونین جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کی علمبردار مانی جاتی ہے، کیٹلوونیا کے معاملے پر کیوں خاموش ہے۔

اگر ہم اسپین کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہاں مختلف ادوار میں مختلف عقائد کے حامل حکمران تخت نشین ہوتے رہے۔اس دوران اسپین کے علاقوں میں انتظامی، مذہبی، ثقافتی اور سیاسی اعتبار سے تبدیلیاں آتی رہیں۔ کیٹلوونیا بھی  ان ہی علاقوں میں شامل ہے۔ تقریباً 76لاکھ کی آبادی کے ساتھ یہ اسپین کا خوشحال علاقہ ہے۔ یہاں کی زبان بھی باقی ملک سے قدرے مختلف ہے اور یہاں تاریخی طور پر علیحدگی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔

 کیٹلوونیا کے لوگ اپنی زبان پر فخر کرتے ہیں اور عموماًبارسلونا میں یہی زبان بولی جاتی ہے۔ ثقافتی اعتبار سے بھی اسپین میں کیٹلو ونیا ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ انسانی ٹاور بنا نے کی قدیم رسم سمیت کٹلوونیا کے مخصوص کھانے اور روایتی رقص اسے باقی اسپین سے ممتاز کرتے ہیں۔ یہاں بیل کی لڑائی کو بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔کیٹالین قبائل کے لوگ محنتی اور جفاکش ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ پورے اسپین/یورپی یونین کو زرعی آمدن کا ایک بڑا حصہ کیٹلوونیا سے ملتا ہے۔ معاشی طور پر کیٹلوونیا سب سے بڑا شہر ہے اس کی علیحدہ ایک علاقائی پارلیمنٹ ،ہائی کورٹ اور علاقائی حکومت ہے۔ کیٹلوونیا کا دارلحکومت بارسلونا بین الاقوامی سیاحت کا مرکز ہے۔ ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے کیٹلوونیا کی آزاد اور خودمختار ریاست کی خواہش قابل غور ہے۔ اس خواہش کو تقویت اس وقت ملی جب 1936میں اسپین میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ ری پبلکن پارٹی اور فوج کے درمیان حالات کشیدہ ہوگئے.اس دوران کیٹالن حکومت  کی حما یت ری پبلکن کے ساتھ تھی  کیوں کہ وہ اپنے سماجی، ثقافتی اور مذہبی عقائد میں قدرے آزاد تھے۔ باقی علاقوں کو بھی خودمختاری حاصل تھی مگر 1939میں فوج نےجنرل فرانکو کی سربراہی میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا اور پورے اسپین کو فوجی آمریت نے لپیٹ میں لے لیا۔

 ملک میں خوف کی فضا قائم ہوگئی۔ بالخصوص کیٹلوونیا میں کیٹالین زبان، رسم و راج اور ثقافتی اقدار پر پابندی لگادی گئی جس سے کیٹلوونیا کے لوگوں کے دلوں میں احساس محرومی نے جنم لیا۔

دوسری جانب یورپ کے خطے میں بھی تبدیلیاں آرہی تھیں ۔ وہ علاقے جو ایک خود مختار اور آزاد ریاست بننے کی اہلیت رکھتے تھے، آزاد مملکت کی حیثیت سے سامنے آرہے تھے جن میں چیک سلواکیہ بھی شامل ہے جو آزادی کے بعد چیک ری پبلک اور سلواکیہ دو ملکوں میں تقسیم ہوگیا۔

ان حالات میں کیٹلووینا میں بھی علیحدگی کے جذبات پروا ن چڑھے مگر وہ فوجی آمریت کے باعث مجبور تھے۔

آخرکار 1975 میں  جنرل فرانکو کی موت کے ساتھ اسپین میں جمہوریت بحال ہوئی ۔ جمہوری حکومت نے وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے کیٹلووینا کی علاقائی خودمختاری اور آزادی کو تسلیم کیا۔ 1979میں کیٹلوونیا کو قوم یعنی ” Nation” کا درجہ دیا گیا۔ ہسپانوی زبان کے ساتھ کیٹالن زبان کو بھی ریاست کی د فتری زبان قر ا ر  دیا گیا۔

ان اقدامات سے کیٹلوونیا کی ترقی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ معاشی ترقی کا یہ عالم تھا کہ صرف کیٹلوونیا کی معیشت سے اسپین کی ریاست چلائی جاسکتی تھی۔

اسپین کو سب سے زیادہ ٹیکس بھی کیٹلوونیا سے حاصل ہوتا تھا مگر اس کے باوجود مرکزی حکومت کیٹلوونیا کی ترقی کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کر رہی تھی اور کیٹلوونیا سے حاصل ہونے والی کثیر آمدنی کا بڑا حصہ دوسرے علاقوں پر خرچ کر رہی تھی جس سے  کیٹلوونیا کے لوگ ناخوش تھے۔

مزید صورتحال اس وقت تشویشناک ہوگئی جب 2008میں دنیا بھر اقتصادی بحران آیا جس نےیورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اسپین کی معیشت بھی اس سے شدید متاثر ہوئی۔ اسپین پہلےہی651بلین یورو کا مقروض تھا جو اسے یورپی یونین کو ادا کرنے تھے۔ 2010میں اسپین نے مزید 100بلین یورو یورپی یونین سے قرضہ لیا اور پھر ان قرضوں کی ادائیگی کے لیئے  اسپین کی  مر کزی حکو مت  نے  کیٹلوونیا سے حاصل ہونے والی آمدنی کا استعمال کیا جس سے کیٹالن عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔دولت کی اس غیر منصفانہ تقسیم پر کیٹالن حکومت نے مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔

کیٹالوونیا کے صدر کارلس پیجڈی مونت  charlas Puigdemont نے اسپین سے علیحدگی کی تحریک چلائی۔ یہ تحریک زور پکڑتی چلی گئی جس سے ملک بھر میں مظاہرے شروع ہوگئے۔  کیٹالن پارلیمنٹ نے 9نومبر2014کو علیحدگی کے لیے ریفرنڈم کے انعقاد کا اعلان کردیا تاہم اسپین کی حکومت اسے روکنے میں کامیاب ہوگئی۔ بعد ازاں کیٹالن صدر نے یکم اکتوبر2017کو ایک بار پھر ریفرنڈم کا اعلان کیا۔ کیٹالن عوام نے اس ریفرنڈم میں بھرپور حصہ لیا۔ ہسپانوی پولیس نے ریفرنڈم کو ناکام بنانے کے لیے پولنگ بوتھ اور اسکولوں کو بند کرنے کی کوشش کی۔ اس ریفرنڈم کے دوران اسپین کی پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج بھی کیا گیا جس کے نتیجے میں 337سے زائد افراد  زخمی ہوئے جس سے پورے ملک میں بے چینی اور کشمکش کی فضا پیدا ہوگئی۔

کیٹالن حکومت کا کہنا تھا کہ اسپین کی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات پر تشدد، غیر منطقی اوغیر ذمہ دارانہ ہیں اور ان واقعات سے کیٹلوونیا کے عوام کو نہیں روکا جاسکتا۔  ریفرنڈم کے نتائج علیحدگی کے حق میں آئے تھے اور کیٹلوونیا کی پارلیمنٹ بھی علیحدگی کا اعلان کرچکی تھی مگر اسپین کی عدالت نے اسے غیرقانونی قرار دیا کیوں کہ ملکی قوانین کے مطابق علیحدگی کے فیصلے کے  لیے سارے ملک میں ووٹنگ ہونا ضروری ہے۔ کیٹلوونیا کی علیحدگی کے اعلان کے اگلے ہی روز اسپین کی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 155کے تحت کیٹلوونیا پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرلیا۔

 آئین کے اس آرٹیکل کے مطابق حکومت کو باغی علاقوں کو لگام دینے کا اختیار حاصل ہے۔ ساتھ ہی کیٹلوونیا کی علاقائی اسمبلی تحلیل کرکے سیاسی رہنمائوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا۔ کیٹالن صدر اپنے 6ساتھیوں سمیت فرار ہوکر بیلجیئم پہنچ گئے .کیٹالن صدر کی یہ خود ساختہ جلاوطنی تھی. حکومت نے ان رہنمائوں پر قومی فنڈز کے غلط استعمال، عوام کو بغاوت پر اکسانے اور ملک میں انتشار پھیلانے کے الزامات عائد کیے۔ معزول صدر بیلجیئم سے جرمنی پہنچ گئے ۔جنہیں اسپین کی درخواست  پر جرمنی میں گرفتار کرلیا گیا تاہم وہ8اپریل 2018کو ضمانت پر رہا کردئے گئیے .

اس صورتحال میں کیٹلوونیا کی آزادی کے امکانات بہت کم ہیں۔ باو جود اس کے کیٹلوونیا میں علیحدہ ملک بننے کی پوری صلاحیت موجود ہے ، اسپین اسے کبھی آزاد نہیں کرنا چاہے گا۔ کیٹلوونیا اس وقت تک آزاد نہیں ہوسکتا جب تک پورے ملک میں اس کی آزادی کے حق میں ووٹ نہ دیا جائے اور آخری طریقہ یہ ہے کہ وہ فوج تشکیل دے کر اسپین میں جنگ کی صورتحال پیدا کرے تاہم موجودہ صورتحال میں یہ سب ناممکن ہے۔

ان حالات میں یورپی یونین کا کردار بے حس اور ظالمانہ  ہے کہ کس طرح وہ دنیا میں اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار کہتا ہے مگر اپنے فائدے کے لیے کیٹلوونیا کی آزادی کو سلب کیے ہوئے ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کیٹلوونیا کی علیحدگی سے یورپ میں چلنے والی علیحدگی کی تحریکوں یا خواہشوں میں شدت آئے گی مگر یورپ کو اس حقیقت کا ادراک کرلینا چاہیے کہ آزادی کی تحریکوں اور جستجو کو اتنی آسانی سے دبایا نہیں جاسکتا۔ کیٹلوونیا کی تاریخی جدوجہد اور قربانیاں اس عزم کا اعادہ کرتی ہیں کہ قومیں اپنی سالمیت، مذہبی و ثقافتی اقدار اور آزادی کے لیے ہر دم تیار رہتی ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔