’فی ظلال القرآن‘ کی بعض تفسیری خصوصیات

(سورۂ یوسف کی روشنی میں)

سید حامد عبدالرحمن الکاف
سید قطب شہیدؒ (ش1966ء) کی تفسیر ’فی ظلال القرآن‘ نہ صرف پہلی تحریکی تفسیر ہونے کی وجہ سے عربی تفاسیر میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے، بلکہ اس کی اور بھی اہم خصوصیات ہیں جن پر اب تک ، میرے علم کی حد تک ، کسی نے روشنی نہیں ڈالی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی یا غیر عربی زبانوں میں جن حضرات نے سید قطب شہیدؒ کی سیرت پر قلم اٹھایا ہے، یا ان کی تفسیر اور دیگر کتب کے ترجموں پر مقدمے لکھے ہیں وہ تفسیر یا قرآنی علوم کے طالب علم نہیں تھے، یا انھوں نے ان کی تفسیر کا فنِ تفسیر کے زاویۂ نگاہ سے مطالعہ نہیں کیا۔ ذیل میں اسی خاص رخ سے اس اہم تفسیر کے مطالعہ کی کوشش کی جارہی ہے۔
پہلی خصوصیت : قرآن کے متن کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنا
’فی ظلال القرآن‘ کو بہت غور و خوض سے پڑھنے والے یہ بات ضرور محسوس کریں گے کہ سید قطب نے متنِ قرآن کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا، ہر حصہ کی انفرادی خصوصیات کو ملحوظ رکھا اور اس حصہ کا اس سے پہلے اور بعد کے حصوں سے ربط واضح کیا، تاکہ ہر سورت از اول تا آخر ایک اکائی اور وحدت بن کر قارئین کے سامنے آسکے۔
مثال کے طور پر ہم سورۂ یوسف کو لیتے ہیں۔ اس سورت کو انھوں نے چھ بڑے حصوں میں اس طرح تقسیم کیا ہے:
پہلا حصہ : پہلی آیت سے آیت نمبر 20 تک
دوسرا حصہ: آیت نمبر 21 سے آیت نمبر 34 تک
تیسرا حصہ: آیت نمبر 35 سے آیت نمبر 53 تک
چوتھاحصہ: آیت نمبر 54 سے آیت نمبر 79 تک
پانچواں حصہ: آیت نمبر 80 سے آیت نمبر 101 تک
چھٹا حصہ: آیت نمبر 102 سے آیت نمبر 111 تک، جو خاتمۂ سورت ہے۔
آپ یقیناً محسوس کریں گے کہ یہ حصے چھوٹے اور بڑے ہیں۔ جہاں پہلے حصہ میں 10 آیتیں ہیں وہاں دوسرے حصہ میں 14 آیا ت پائی جاتی ہیں۔ تیسرے حصہ میں 17 آیات ہیں، جب کہ چوتھا حصہ 26 آیتوں پر مشتمل ہے۔ یہی حال باقی حصوں کا بھی ہے، جن میں آیات کی تعداد میں تفاوت پایا جاتا ہے۔
اب اس کے بعد ہر حصہ کی اندرونی تقسیم کی طرف توجہ دیجئے ۔
پہلے حصہ کو انھوں نے چھ چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے:
(1) آیت نمبر 1 سے آیت نمبر 3 تک ۔(2) آیت نمبر 4 سے آیت نمبر 6 تک۔ (3) آیت نمبر 7 سے آیت نمبر 10 تک ۔(4) آیت نمبر 11 سے آیت نمبر 14 تک۔ (5)آیت نمبر 15 سے آیت نمبر 18 تک ۔(6) آیت نمبر 19 سے آیت نمبر 20 تک۔
دوسرے حصہ کو انھوں نے کچھ اس طرح تقسیم کیا ہے:
(1) آیت نمبر 21۔ (2) آیت نمبر 22۔(3) آیت نمبر 23 سے آیت نمبر 29 تک۔ (4) آیت نمبر 30 سے آیت نمبر 34 تک ۔
غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان اندرونی تقسیمات کے بعض اجزاء جہاں صرف ایک آیت پر مشتمل ہیں، وہیں ان کی تعداد بعض دوسرے حصوں میں 4 یا 5 تک پہونچ گئی ہے۔
دوسری خصوصیت: تفسیر کے وقت آیات کی کتابت
جب بات تفسیر تک پہونچتی ہے تو وہ آیات قرآنی کو جدید ترین طرز پر لکھتیہیں، یعنی وہ اس کتابت میں نقطۂ توقف کامل (0) FULL STOP اور (‘) COMA اور ابتداء کلام کے لیے (:) SEMI COLON اور ابتداء کلام اور انتہائے کلام کو ظاہر کرنے کے لیے (’’ ‘‘) INVERTED COMAS استعمال کرتے ہیں، تاکہ ایک پیراگراف کے اجزاء ابتدا سے انتہا تک باہم مربوط محسوس ہوں اور کلام میں تسلسل اور روانی پیدا ہوسکے۔ مثال کے طور پر انھوں نے حصۂ اول کے دوسرے جزء (آیات: 4۔6) کو یوں لکھا ہے:
’’إِذْ قَالَ یُوسُفُ لِأَبِیْہِ: یَا أَبتِ، إِنِّیْ رَأَیْْتُ أَحَدَ عَشَرَ کَوْکَباً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ. رَأَیْْتُہُمْ لِیْ سَاجِدِیْنَ. قَالَ: یَا بُنَیَّ لاَ تَقْصُصْ رُؤْیَاکَ عَلَی إِخْوَتِکَ، فَیَکِیْدُواْ لَکَ کَیْْداً. إِنَّ الشَّیْْطَانَ لِلإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ. وَکَذَلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ، وَیُعَلِّمُکَ مِن تَأْوِیْلِ الأَحَادِیْثِ، وَیُتِمُّ نِعْمَتَہُ عَلَیْْکَ، وَعَلَی آلِ یَعْقُوبَ، کَمَا أَتَمَّہَا عَلَی أَبَوَیْْکَ مِن قَبْلُ إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْحَاقَ، إِنَّ رَبَّکَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ..‘‘
اس کی تفصیل یہ ہے:
الف) سب سے پہلے تو انھوں نے (’’ ‘‘) INVERTED COMAS سے اس حصہ کو شروع کیا اور ختم بھی اسی پر کیا۔
ب) ’’ ‘‘ کے بعد وہ ہمیشہ دو نقطے (..) لگاتے ہیں۔ یہ ان کا ایک طے کردہ طریقہ ہے۔
ج) کسی قول کے شروع ہونے سے قبل (:) SEMI COLON استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ آیت بالا میں یا ابتِ … سے قبل اس کا استعمال کیا ہے ۔
د) انھوں نے ان تین آیتوں میں سات مرتبہ (،) COMA استعمال کیا ہے۔ یہ بات انگریزی مضمون نویسی میں معروف ہے کہ کا ما (،) کسی لمبے جملے کو چھوٹے چھوٹے ذو معنیٰ ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے لیے استعمال کیاجاتا ہے۔
ح) ان تین آیتوں میں انھوں نے (.) FULL STOP کا چار بار استعمال کیا ہے، جو کہ ایک با معنٰی جملے کے اختتام پر استعمال ہوا کرتا ہے۔
یہ بات اب زبان و ادب کے طریقۂ تدریس میں مسلّمہ امر بن چکی ہے کہ اس قسم کا جدید طرزِ کتابت و تحریر قاری کو مطالب و معانی کے سمجھانے میں بڑا مددگار ثابت ہوتا ہے ۔ اس سے ربطِ کلام از خود واضح ہوجاتا ہے۔
سید قطب جدید ادب اور خصوصاً انگریزی ادب سے بخوبی واقف تھے جس میں ان اشارات کا استعمال بہت عام ہے، بلکہ ان کی باقاعدہ تعلیم انگلش گرامر اور کامپوزیشن (مضمون نویسی) میں دی جاتی ہے۔ کامپوزیشن کا ایک جزء پیراگراف کی تحریر بھی ہوتا ہے، جس کو ایک با معنیٰ وحدت کی طرح لکھنے کی تربیت دی جاتی ہے ۔ یہ پیرا گراف آپس میں معنوی حیثیت سے مربوط ہوکر ایک مستقل بالذات مضمون کی شکل اختیار کرتے ہیں۔
یہی بات مولانا حمید الدین فراہی (م1930ء) کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ وہ عربی، فارسی اور عبرانی زبانوں کے ساتھ انگریزی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی تفسیر میں ’ربط کلام‘ پر بہت زور دیا ہے، جسے وہ نظام سے تعبیر کرتے ہیں۔
تیسری خصوصیت : ربط آیات و مطالب و معانی 
اس تفسیر کی تیسری اہم خصوصیت ربطِ آیات ہے۔ سید قطب ؒ ہر سورت کو ابتدا سے انتہا تک اس طرح لے کر چلتے ہیں کہ وہ پہلی آیت سے آخری آیت تک ایک مربوط کلام معلوم ہوتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ کلامِ الٰہی کسی بھی سورت کی پہلی آیت سے آخری آیت تک ، ایک دریا ہے جو اپنی منزل یا مرکزی مضمون کی طرف رواں دواں ہے۔ مثال کے طور پر ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ سید قطب نے سورۂ یوسف کی ابتدا کو اس کی انتہا سے کتنے مسحور کن انداز میں جوڑا ہے۔
سورۂ یوسف کے بارے میں متداول مصاحف اور خاص طور پر مصحف امیری میں لکھا ہوا ہے کہ اس کی ابتدائی تین آیات اور آیت نمبر 7 مدینہ میں نازل ہوئی تھیں اور یہ کہ آیت نمبر 111، جو اس سورت کی آخری آیت ہے، سورۂ ھود کے بعد نازل ہوئی ہے۔بالفاظِ دیگر اس سورت کی ایک سو گیارہ (111) آیتوں میں سے چار آیات (1،2،3،7) مدنی اور باقی 107 آیات مکی ہیں۔ ان میں بھی آیت نمبر 111، جو ترتیب مصحف میں آخری آیت ہے، ترتیبِ نزولی کے لحاظ سے پہلی آیت ہے۔ لیکن سید قطب کو اس سے اختلاف ہے، انھوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ :
الف) اس سورت کی تمام 111 آیتیں مکی ہیں، ان میں سے ایک آیت بھی مدینہ میں نازل نہیں ہوئی ہے۔
ب) آیت نمبر 111 ترتیب نزول کے اعتبار سے پہلی آیت نہیں ہے، بلکہ وہ آخر ہی میں نازل ہوئی ہے۔
ذیل میں اس تعلق سے ان کے دلائل نقل کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے:
’’یہ مکی سورت ہے جو سورۂ ہود کے بعد اس پر خطر مرحلہ میں نازل ہوئی جس کے بارے میں ہم نے سورۂ یونس اور سورۂ ھود کے مقدموں میں کلام کیا ہے۔ یہ پر خطر مرحلہ عام الحزن (غم کا سال) جو جناب ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کی موت کا سال ہے جو رسول اللہؐ کے پشت پناہ تھے اور پہلی اور دوسری بیعت عقبہ کے درمیان واقع ہوا ہے۔ یہ بیعتیں وہ عہد و پیمان ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ اور ان کے ساتھیوں اور دعوتِ اسلامی کے لیے ، مدینہ کی طرف ہجرت کی صورت میں راہ نجات بنائی۔ اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ سورت ان سورتوں میں سے ہے جو اس خطرناک مرحلہ میں نازل ہوئیں جس سے دعوتِ اسلامی، رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحابؓ گزر رہے تھے۔
یہ سورت از اول تا آخر مکی ہے، اس اشارہ کے بر خلاف جو مصحف امیری میں کیا گیا ہے کہ اس سورت کی ابتدائی تین آیات مدنی ہیں۔ اس لیے کہ یہ آیات ان کے فوراً بعد شروع ہونے والے قصۂ یوسف ؑ کا فطری مقدمہ ہیں۔ ان آیات کو ہم نقل کیے دیتے ہیں:
’’اآرٰ تِلْکَ آیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ. إِنَّا أَنزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ. نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْْکَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ ہَذَا الْقُرْآنَ، وَإِن کُنتَ مِن قَبْلِہِ لَمِنَ الْغَافِلِیْنَ …‘‘ (آیات:1۔3)
’’الر، یہ واضح کتاب کی آیات ہیں۔ ہم نے اس کو عربی قرآن (کی شکل میں) نازل کیا ہے، تاکہ تم اس کو سمجھ سکو۔ ہم تو کو بہترین قصہ سناتے ہیں اس قرآن میں جس کی وحی ہم نے تم پر کی ہے، اگرچہ کہ تم اس سے پہلے اس سے لاعلم تھے۔‘‘
ان آیات کے بعد وارد ہونے والی آیت یہ ہے :
’’إِذْ قَالَ یُوسُفُ لِأَبِیْہِ: یَا أَبتِ، إِنِّیْ رَأَیْْتُ أَحَدَ عَشَرَ کَوْکَباً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ، رَأَیْْتُہُمْ لِیْ سَاجِدِیْنَ…‘‘ (آیت نمبر 4)
’’(یاد کرو اس وقت کو) جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا: اسے ابا جان، میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو مجھے سجدہ کرتے دیکھا ہے…‘‘
اس آیت کے بعد یہ سورت آگے بڑھتی ہوئی اپنے خاتمہ کی طرف رواں دواں ہوتی ہے۔ اس واقعہ کی تمہید آیت نمبر 3 میں بیان ہوئی ہے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمہید اس واقعہ کے نزول کے لحاظ سے ایک فطری امر ہے۔
سورت کی ابتدا میں (الر) حروف مقطعات آئے ہیں۔ ان کے بارے میں قطعی طور پر کہا جارہا ہے کہ وہ واضح کتاب کی آیات ہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو ’قرآن عربی‘ کی شکل میں نازل فرمایا ہے … یہ بات بھی مکی فضا اور ماحول سے مناسبت رکھتی ہے، جس میں مشرکین کے اس دعویٰ کا کہ کوئی عجمی (غیر عربی) شخص ہے جو رسول اللہ ﷺ کو قرآن کی تعلیم دیتا ہے، مقابلہ قرآن کی عربیت (یعنی فصاحت و بلاغت) سے کیا جاتا تھا اور یہاں یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے، کیونکہ آپ اس سورت کے مضامین اور موضوعات سے لاعلم تھے۔
علاوہ ازیں یہ تمہید اس تعقیب و تبصرہ کے ساتھ گہری مناسبت رکھتی ہے جو (اس قصہ ) کے آخر میں وارد ہوئی ہے: ’’یہ وہ غیب کی خبریں ہیں ، جن کی وحی ہم تم پر کررہے ہیں اور تم اس وقت ان کے پاس نہیں تھے جب انھوں نے باتفاق (اس امر کا) فیصلہ کیا،

اس حال میں کہ وہ ایک مکر بھری چال چل رہے تھے‘‘ (آیت نمبر 102) ۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ مقدمہ اور تمہید اور خاتمہ اور تعقیب واقعہ میں ایک گہرا ربط ہے۔
رہی ساتویں آیت تو اس کے بغیر سیاقِ کلام ہی درست نہیں ہوتا ہے اور یہ بات کچھ جچتی نہیں ہے کہ یہ سورت تو مکہ میں نازل ہوئی ہو اور یہ آیت اس سورت کے سیاق میں نہ ہو اور پھر مدینہ میں اس کے نزول کے بعد اس سورت میں شامل کردی گئی ہو! اس کی دلیل یہ ہے کہ آٹھویں آیت میں ایک ایسی ضمیر ہے جو یوسف اور ان کے بھائیوں کی طرف لوٹتی ہے، جن کا تذکرہ ساتویں آیت میں ہے۔ اس طرح یہ بات درست نہیں ہوسکتی کہ آٹھویں آیت کے ساتھ اس سے پہلے کی آیت (یعنی ساتویں آیت) نازل نہ ہوئی ہو:
’’لَّقَدْ کَانَ فِیْ یُوسُفَ وَإِخْوَتِہِ آیٰتٌ لِّلسَّاءِلِیْنَ. إِذْ قَالُواْ لَیُوسُفُ وَأَخُوہُ أَحَبُّ إِلَی أَبِیْنَا مِنَّا …‘‘
’’سوال کرنے والوں کے لیے یوسف اور اس کے بھائیوں میں بہت سی آیات (علامات اور دلیلیں) ہیں (آیت نمبر7) جب انھوں نے کہا کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کے نزدیک ہم سے زیادہ پیارے ہیں (آیت نمبر8)‘‘
اس سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ دونوں آیتیں (یعنی آیت نمبر 7 اور نمبر 8 ) اس سورت کے مسلسل سیاق میں بیک وقت نازل ہوئی ہیں۔
پوری سورت کے موضوع ، مباحث، بیانات اور اشارات و کنایات پر مکی دور کی چھاپ واضح ہے ۔
(فی ظلال القرآن ، دار الشروق بیروت، 1402ھ۔1983ء، جلد چہارم، ص1949۔1950)
پھر سید قطبؒ آیت نمبر 111، یعنی اس سورت کی آخری آیت کی تفسیر اس طرح کرتے ہیں:
’’یوسف ؑ کے قصہ میں مختلف قسم کے شدائد اور آزمائشیں ہیں: کنویں میں، عزیز مصر کے محل میں، جیل خانہ میں۔ اس کے علاوہ لوگوں سے مایوسی کی کئی جھلکیاں ہیں۔ پھر اس کے بعد یہ وضاحت ہے کہ بالآخر متقین کا انجام بہتر ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے ۔ اس کے علاوہ یوسف ؑ کا قصہ انبیاء کرام ؑ کے قصوں کا ایک نمونہ ہے، جس میں صاحب عقل کے لیے سامانِ عبرت ہے۔ اس میں اللہ کی نازل کردہ سابقہ کتابوں کی تصدیق ہے، جب کہ ان کتابوں سے حضرت محمد ﷺ واقف نہیں تھے۔ اس سے یہ بات ناممکن ہے کہ اس میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں وہ من گھڑت ہوں، کیونکہ جھوٹی اور من گھڑت باتیں ایک دوسرے کی تصدیق نہیں کرتی ہیں۔ وہ ہدایت کی طرف رہنمائی کرتی ہیں نہ ان میں مؤمن کا دل رحمت کی راحت اور امید کی کرن محسوس کرتا ہے:
’’ان کے قصہ میں عقل مندوں کے لیے سامانِ عبرت ہے، یہ کوئی من گھڑت کہانی نہیں ہے، بلکہ اس بات کی تصدیق ہے جو پہلے نازل ہوچکی ہے اور ہر چیز کی تفصیل ہے اور ایمان والوں کے لیے سامانِ ہدایت اور باعثِ رحمت ہے‘‘۔ (آیت نمبر 111)
اس طرح اس سورت کی ابتدا اور انتہا میں یکسانیت اور توافق پیدا ہوتا ہے، جس طرح اس قصہ کی ابتدا اور انتہا میں یکسانیت اور توافق پایا جاتا ہے۔ رہے تبصرے اور تعقیبات تو وہ ابتدائے سورت اور انتہائے سورت اور ان کے درمیان قصہ کے موضوع سے ہم مزاج ، ہم رنگ اور ہم آہنگ ہوکر وارد ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح اس کی عبارتیں اور ان کی ادائی کا طریقہ بھی ہم مزاج ہوکر ظاہر ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے اس قصہ کا دینی مقصد بھی حاصل ہوجاتا ہے اور اس کی فنی خصوصیات بھی پوری طرح کھل کر آجاتی ہیں سچی روایت کے روپ میں اور واقعات اور موضوع میں یک جہتی اور ہم آہنگی کے لحاظ سے بھی۔
’’یہ قصہ ایک ہی سورت میں شروع ہوا اور اختتام کو بھی پہونچا ، کیونکہ اس کا مزاج اس امر کا متقاضی ہے کہ اس کو اسی طرح ادا کیا جائے۔ یہ ایک خواب ہے جو آہستہ آہستہ پائے تکمیل کو پہونچتا ہے، ایک دن کے بعد دوسرے دن میں، ایک مرحلے کے بعد دوسرے مرحلے میں۔ اس کا نتیجہ اس وقت تک سرِ بام نہیں پہونچ سکتا ہے اور نہ اسمیں فنی ہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے جب تک سیاقِ قصہ اس کے مراحل کو ایک کے بعد دوسرا طے کرتے ہوئے اختتام تک نہ پہونچائے۔ اس کا کچھ حصہ ایک جگہ بیان کرنے سے وہ کچھ حاصل نہیں ہوسکتا (جو بیک وقت بیان کرنے سے حاصل ہواہے) جیسا کہ دیگر انبیاء کرام ؑ کے قصوں کو بعض ٹکڑوں میں بیان کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ بطور مثال سلیمانؑ کے قصہ کا ایک ٹکڑا بلقیس کے ساتھ، مریم ؑ کی پیدائش کا ٹکڑا، عیسیؑ کی پیدائش کا قصہ ٹکڑے کی حیثیت سے، نوحؑ اور طوفان نوحؑ کا ٹکڑا ۔ یہ ٹکڑے اپنی اپنی جگہوں اور سیاق و سباق میں اپنے اپنے مقاصد کو مکمل طور پر پورا کرتے ہیں۔ لیکن قصۂ یوسف اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کو پورے کا پورا مسلسل اور مربوط حصوں میں اور مناظر کی شکل میں از اول تا آخر بیان کیا جائے (تاکہ وہ اپنے مقاصد کو پورا کرسکے) اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے:
’’ہم تم کو بہترین قصہ سناتے ہیں اس قرآن کا جس کی وحی ہم تم پر کر رہے ہیں، اگرچہ کہ تم اس سے پہلے اس سے لاعلم تھے‘‘۔
(فی ظلال القرآن ، جلد چہارم، ص2037)
اس طرح سید قطبؒ نے سیاقِ کلام کو قوی ترین دلیل قرار دیتے ہوئے ان چاروں آیات کا مکی ہونا ثابت کیا ہے جن کو عام طور پر مدنی تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن پر مسلسل غورو فکر کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ان میں اتنی بصیرت پیدا کردی تھی کہ وہ بعض قرآنی موضوعات پر اپنی انفرادی نظر رکھتے تھے۔
یہاں بھی سید قطبؒ اور مولانا حمید الدین فراہیؒ کے افکار میں ہم آہنگی اور توارد محسوس ہوتا ہے ۔ مولانا فراہی جس چیز کو نظام اور عمود سے تعبیر کرتے ہیں سید قطبؒ اسی کو تناسق اور سیاق کا نام دیتے ہیں۔ تناسقِ کلام اور سیاق کلام اور ان سے پیدا ہونے والی سورت کی اپنی شخصیت اور شکل و صورت سے جو چیزیں میل نہیں کھاتیں یا ان کے ہم مزاج نہیں ہوتیں سید قطب ان کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں ، جیسا کہ انھوں نے سورۂ یوسف کی مذکورہ بالا چار آیتوں کے بارے میں اپنا مدلّل اور مستحکم موقف پیش کیا ۔ انھوں نے زور دے کر یہ بات کہی کہ زیر بحث چاروں آیتیں بھی ایک ہی وقت مکہ میں نازل ہوئیں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کلام اپنی وحدت کھوبیٹھتا اور اس سورت کی شخصیت مسخ ہوکر رہ جاتی اور اس کا سارا حسنِ بیان اور وضاحت ختم ہوجاتی۔
مولانا فراہیؒ نے بھی سورۂ یوسف کا عمود بیان کرتے ہوئے ایسی ہی بات لکھی ہے۔ اپنی اہم تصنیف دلائل النظام میں فرماتے ہیں:
سورۂ یوسف: اشارۃ الی قرب الہجرۃ وتمثیل الفرج بعد الیأس وغلبۃ الحق (ک) (ص59)

سورۂ یوسف: قرب ہجرت کی طرف اشارہ اور مایوسی اور تنگی کے بعد فراخی اور کشادگی اور حق کی کامیابی اور فتح یابی کی تمثیل ہے۔ (یہ مکی سورت ہے)۔
یہی عمود سید قطبؒ نے اپنی تمہید ، دوران تفسیر اور خاتمۂ تفسیر میں بڑے شاندار انداز میں بیان کیا ہے۔
چوتھی خصوصیت: تاریخی پس منظر میں سورتوں پرغور و خوض
’فی ظلال القرآن‘ ایک تحریکی تفسیر ہے، اس لیے اس کے مصنفؒ کے لیے یہ امر ناگزیر تھا کہ وہ ہر سورت کو اس کے تاریخی پس منظر میں رکھ کر اس کے مضمرات ، متضمّنات، اسباب و نتائج ، دلائل و براہین، ابتدا اور انتہا، لب و لہجہ کے زیر و بم ، طریقۂ استدلال اور کلام کے رخ جیسے سارے ہی پہلوؤں پر تدبر کرے اور پھر اس بحر نا پیدا کنار کے ان انمول اور نایاب موتیوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرے جن کا حصول صرف خوش قسمت اور نیک بخت لوگوں کی تقدیر ہوا کرتا ہے۔
اس کی مثال خود سورۂ یوسف ہے۔ اس سورت کی تمہید کا آغاز انھوں نے اس طرح کیا ہے:
’’ یہ ایک مکی سورت ہے جو سورۂ ہود کے بعد اس پرخطر دور میں نازل ہوئی جس کی طرف ہم نے سورۂ یونس اور سورۂ ہود کے مقدمات میں اشارات کیے ہیں۔ یہ مرحلہ رسول اللہ ﷺ کے دو پشت پناہ۔ جناب ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ۔ کی موت (یعنی عامالحزن) اور بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانی کے درمیان واقع ہے جس کے ذریعہ (یعنی ہجرت کے ذریعہ) اللہ نے رسول اللہ ﷺ ، اہل ایمان اور دعوتِ اسلامی کے لیے تنگی اور شدت کے بعد فراخی اور کشادگی کی راہ نکالی۔
(فی ظلال القرآن، جلد چہارم ، ص1949)
اس افتتاحیہ میں انھوں نے نہ صرف سورۂ یوسف کے نزول کا زمانہ اور اس کی کیفیات بیان کردیں، بلکہ اس میں اور سورۂ یونس اور سورۂ ہود میں تاریخی پس منظر کے نقطۂ نظر سے جو بات قدرِ مشترک ہے وہ بھی بیان کردی، یعنی تاریخی واقعات کی روشنی میں رسول، رسالت اور وحی سے انکار کرنے والوں کی تباہی کی کھلی کھلی دھمکی اور حضرت محمد ﷺ اور آپ کی دعوت کے بارے میں انتہائی مایوس کن حالات میں گھر جانے کے بعد فتح و نصرت کی بشارت ۔ اس طرح یہ ان تینوں سورتوں کا مشترکہ عمود یا مرکزی مضمون قرار پاتا ہے۔
اس پر خطر دور اور اس میں نازل ہونے والی سورت (سورۂ ہود) نے جو نفسیاتی کیفیت رسول اللہﷺ کے ذہن و دماغ میں پیدا کی اس کا اندازہ آپ کے اس قول سے لگایا جاسکتا ہے کہ مجھے سورۂ ہود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کردیا، اس لیے کہ اس میں رسالت اور وحی کے منکرین کا عبرت ناک انجام، تاریخی مناظر کی شکل میں، ایک کے بعد ایک، بیان کیے گئے ہیں۔ اس سے فطری طور پر رحمۃ للعالمین کو بھی اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو صاف صاف بچاکر منکرین کو ختم نہ کردیا جائے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ یوسف کے نزول نے ہجرت کی شکل میں کشادگی کے قریب آنے کی بشارت دی اور آپ کو سکونِ خاطر حاصل ہوا۔ خصوصاً سیدنا یوسفؑ کے اس قول سے: لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم (آج تم سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہے ، یعنی تم کو معافی دی جاتی ہے) آپ بہت مطمئن ہوئے، واللہ اعلم، کیونکہ آپؐ نے فتح مکہ کے بعد کعبۂ مشرفہ کو بتوں سے پاک کرکے ، جو تقریر فرمائی تھی اس کو غور سے پڑھنے اور سمجھنے سے یہ بات ذہن میں آجاتی ہے:
آپ نے فرمایا: (اے اہلِ قریش) تمھارا کیا خیال ہے ، آج میں تمھارے ساتھ کیا برتاؤ کروں گا؟ اہل قریش نے جواب دیا: (آپ) ایک عالی ظرف بھائی اور ایک عالی ظرف بھائی کے بیٹے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا: لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم، اذہبوا فانتم طلقاء (آج تم سے کوئی باز پرس نہیں ہے، جاؤ تم آزاد ہو) ۔
وہاں حضرت یوسف علیہ السلام کے خطا کار بھائی تھے اور یہاں حضرت محمد ﷺ کے خطا کار بھائی۔ دونوں نے اپنے اپنے گناہوں اور زیادتیوں کا اعتراف کیا اور دونوں پیغمبروں نے انہیں وہی جواب دیا جو ان کے شایانِ شان تھا۔ یعنی انبیاء کرامؑ کا باعث رحمت، کریم، فراخ دل اور عالی ظرف ہونا اور کامیابی پر انتقام نہ لینا، بلکہ معافی دے کر دل و دماغ جیت لینا۔
شاید دل و دماغ کی یہی فتح اور اس سے پیدا ہونے والی شرمندگی تھی کہ اہل مکہ فتنۂ ارتداد کے وقت اس دین پر جمے رہے، کیونکہ وہ اس محسن اعظم ؑ کے احسان کے بوجھ تلے دبے جارہے تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ سورتوں کو ان کے تاریخی پس منظر میں رکھ کر غور و فکر کرنے کے فوائد اظہر من الشمس ہیں۔ اس سے اس ماحول اور اس میں کارفرما انسانی اور غیر انسانی عوامل اور ان کے ایک دوسرے سے تعاون کرنے یا ٹکراجانے سے جو فضا تیار ہوتی اور جو ماحول پیدا ہوتا ہے اس کی چھاپ سورت پر بڑی گہری ہوا کرتی ہے۔ فطری بات ہے کہ جب کسی سورت کو بحیثیت مجموعی ایک وحدت کے طور پر یا اس کی آیات کریمہ کو فرداً فرداً یا ایک مجموعہ کی شکل میں اس ماحول اور اس فضا میں فِٹ کیا جاتا ہے تو وہ پیچیدگیاں خود بخود تحلیل ہوجاتی ہیں جو ان حضرات کو پریشانیوں کا شکار بناتی ہیں جو قرآنِ کریم اور اس کی آیات کریمہ کو ایک بے جان اور جامد چیز تصور کرکے غور کرتے ہیں، جب کہ وہ ایک جاندار ، محرّک اور متحرک کلام ہے، جس نے نازل ہوتے ہی افراد، جماعات، ماحول اور فضا ، اخلاق و عادات، اور طریقۂ تفکیر اور اخذ و ترک اور اجتماعی، سیاسی اور اقتصادی تعلقات اور عقائد اور اقدار میں منفی یا مثبت تفاعل (تعاون یا تصادم) کی فضا پیدا کرکے ہلچل پیدا کردی تھی اور بتدریج حالات کا رخ ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل کی طرف موڑ دیاتھا جس میں وہ اپنا خاص نظام قائم کرنا اور چلانا چاہتا تھا۔
یہی وہ نکتہ ہے جس سے ہم سیرتِ نبویؐ اور قرآن کریم میں ربط و ضبط کی اہمیت اور قرآن فہمی میں اس کے رول کو سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ قرآن کریم اور سیرت نبویؑ میں ، جو 23 سالہ مدت پر پھیلی ہوئی ہے، چولی دامن کا تعلق ہے اور جن کو ایک دوسرے سے علیٰحدہ کرنا ناممکن ہے۔
سید قطب کے اس واضح تصور کی ایک اور مثال سورۂ فتح کے مقدمہ میں ملتی ہے۔ فرماتے ہیں:
’’یہ مدنی سورت ہے جو ہجرت کے چھٹے سال، صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی۔ یہ اس عظیم حادثہ اور اس کے واقعات پر بحث کرتی ہے اور اس کی ابتدا میں مسلمانوں کی جو حالت تھی اور ان کے اطراف جو حالات تھے ان کی تصویر کشی کرتی ہے۔ اس کے زمانۂ نزول اور سورۂ محمد کے وقتِ نزول میں کوئی تین سال کا فرق ہے اور سورۂ محمد مصحف کی ترتیب میں سورۂ فتح سے پہلے پائی جاتی ہے۔ ان دونوں سورتوں کے نزول کے درمیانی فاصلہ میں، مدینہ میں، مسلمانوں کے حالات میں، اہم اور پر خطر تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔ ان سے اہم تبدیلیاں خود ان کی اپنی نفسیاتی حالت میں پیدا ہوئیں اور ان کی ایمانی صفات میں نمودار ہوئیں اور منہج ایمانی پر عمیق فہم اور ادراک کے ساتھ جمنے میں ظاہر ہوئیں۔ (فی ظلال القرآن، جلد ششم، ص3306)
اس طرح سید قطب نے سورہ فتح اور سورۂ محمد میں زمانی ربط ان باریک اشارات کے ذریعہ پیدا کیا اور دونوں کے تاریخی پس منظر کو ذہن نشیں رکھنے کی تلقین کی جو ان دونوں سورتوں کے نزول کے وقت قائم تھے۔ پھر ان دو سورتوں کے لب و لہجہ اور فضا اور کلام کے رخ میں جو تبدیلیاں واقع ہوئیں ان کو ملحوظ خاطر رکھنے کا مطالبہ کیا۔ ان سب عوامل کے نتیجہ میں وہ حقیقت سے قریب تر تفسیر وجود پذیر ہوئی جس کی تفسیر کے ذخیرے میں انفرادیت نمایاں ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔