قرآن مجید کا فسلفئہ ’المعروف‘

قمر فلاحی

معروف عربی زبان کے لفظ عرف سے بنا ہے جس کے معنی پہچاننا ہوتا ہے،یعنی شناخت کرنا کہ یہ فلاں شئ ہی ہے، قرآن مجید نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت اور حقانیت کو سمجھانے کیلئے اس لفظ کا استعمال یوں فرمایا ہے :

  الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ [البقرہ ۱۴۶]

یعنی جس طرح لوگ اپنی اولاد کو پہچاننے میں دھوکہ نہیں کھاتے کسی تعارف کے محتاج نہیں ہوتے، بلکہ یک لخت پہچان لیتے ہیں اسی طرح یہ آپ صلی اللہ کو پہچانتے ہیں مگر انکار کر رہے ہیں۔

معروف کہتے ہیں جو سماج میں رواج پاچکا ہو، عام ہوچکا ہو،پرچلت ہوگیاہو اور کامن  common ہو خذ العفو وامر بالعرف [الاعراف ۱۹۹] خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ

اس میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو چیز انہیں بتائ جائے وہ اجنبی نہیں ہے بلکہ اسے انسانوں کا ضمیر عقل و دماغ بھلی بھانتی پہچانتا ہے۔ اور اسے اچھا خیال کرتا ہے یعنی اسے گندہ اور برا نہیں کہتا۔

قول معروف بھلی بات پسند آنے والی بات، اور مغفرت سے کلمات اس صدقہ سے بہتر ہے جو تکلیف دہ کلمات کے ساتھ دیے جائیں۔

البقرہ ۲۶۳۔ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ

یہاں معروف کا ترجمہ اور واضح ہوگیا ہے کہ نفس انسانی کو غیر معروف باتیں پسند نہیں ہوتیں۔ جسے سماج پسند نہیں کرتے اسے فرد بھی پسند نہیں کرتاہے۔

کسی کو پہچاننے کیلئے علامتیں بھی درکار ہوتی ہیں مثلا فقراء کی شناخت اس کی پیشانی سے بھی ہوسکتی ہے جو لوگ کہ شرم و جھجھک کی وجہ سے ہاتھ نہیں پھیلاتے ہیں۔

البقرہ ۲۷۳لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ لا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

اسی عرف سے الاعراف بھی ہے جو ایک مخصوص مقام ہے جنت میں جسے لوگ بآسانی پہچان لیں گے۔

الاعراف ۴۸۔وَنَادَى أَصْحَابُ الأَعْرَافِ رِجَالا يَعْرِفُونَهُمْ بِسِيمَاهُمْ قَالُوا مَا أَغْنَى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ

مجرم کے جرم کی علامتیں پیشانی پہ آجائیں گے جس سے ان کی شناخت ہوجائے گی۔ الرحمن ۴۱۔يُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِيمَاهُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِي وَالأَقْدَامِ

حجاب مومن عورتوں کی علامت ہے۔

الاحزاب ۵۹يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا

اللہ تعالی نے انسانوں کو مختلف قبائل اور گروہ میں اس لئے پیدا کیا تاکہ وہ ایک دوسرے کو پہچان سکیں باہم  تعارت ہو سکے۔

الحجرات ۱۳۔يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ

اسی عرف سے اعتراف بنا ہے جس کے معنی اپنے جرم کو تسلیم کرلینا، جس کا انکار کر رہے تھے اس کا اقرار لینا ہوتا ہے۔ فاعترفنا بذنوبنا۔ غافر ۱۱۔

اگر کوئ اپنے والدین یا اقرباء کیلئے وصیت کرے تو معروف طریقے سے کرے یعنی جس مقدار کی وصیت سماج میں عام ہے، یا جس کا ذکر شریعت میں  ہوتا آرہاہے، جسے کرنے میں کسی کا نقصان نہ ہو اتنی ہی کرے ناکہ پوری جائداد کی وصیت کر ڈالے اس سے بڑا نقصان ہوگا۔ البقرہ ۱۸۰۔

طلاق شدہ عورت کو معروف طریقے سے رکھے، یعنی جس طرح سے اسلام نے اسے رکھنے کو کہا ہے اس طرح رکھے۔اس طریقے سے رکھنا مطلقہ کو پسند آئیگا اور وہ رہ لیگی ورنہ وہ بھاگ کھڑی ہوگی یا کوئ دوسری حرکت کر بیٹھےگی۔ البقرہ ۲۲۹۔

بچے کے والد کے ذمہ ہے بچہ کو کھلانا اور پہنانا، اب اسی معیار کا کھانا اور لباس بچے کو دیا جائیگا جوعام ہو، مشقت سے پاک ہو اور جو بچے کو پسند آئے۔

البقرہ ۲۳۳۔وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلا وُسْعَهَا لا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلادَكُمْ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَا آتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

عورتوں کو نان نققہ بھی معروف طریقے سے دیا جائیگا یعنی جو عام ہو،جسے پسند کیا جائے اور قبول کیا جائے۔ اس میں مالدار شوہر کا نفقہ الگ ہوگا اور غریب شوہر کا نفقہ الگ ہوگا۔البقرہ ۲۳۶۔

البقرہ ۲۴۱۔ وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ

تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو لوگوں کو معروف پہ ابھارے۔

[آل عمران ۱۰۴] وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

اسلام انسان کی فطرت کا ایک حصہ ہے اسے پتہ ہے کہ یہ دین ہے، یہ اللہ کی بات ہے، پہلے ہی مرحلہ میں اس کی صداقت انسانوں کے سامنے آجاتی ہے اسی لئے اسلام کو معروف کہا گیا ہے۔

اگر کوئی محتاج ہوتو یتموں کا مال معروف طریقے سے کھا سکتاہے یعنی جتنی ضرورت ہو اتنا لے سکتاہے۔ النساء ۶۔

[یہاں سے معروف کا ترجمہ ضرورت کی چیز بھی نکلا یعنی اسلام انسان کی ضرورت ہے۔ ]

مطلقہ عورت اگر اپنی عدت مکمل کرلے اور شوہر کی خواہش ہو کہ اسے دوبارہ اپنی بیوی بنائے تو اسے چاہیے کہ وہ معروف طریقہ اپنائے یعنی گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کرے نہ کہ رازدارانہ طور پہ اپنے گھر رکھ لے کیوں کہ کل کو اگر کوئ معاملہ پیدا ہوگا تو شوہر انکار کرسکتا ہے یا بیوی مُکر سکتی ہے۔الطلاق ۲۔

بچے کی ماں اگر خود دودھ پلانے کو تیار ہوجائےتو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ معروف معاوضہ کے علاوہ شوہر سے مطالبہ کرے ورنہ شوہر مشقت کا شکار ہوگا۔الطلاق ۶۔

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِنْ كُنَّ أُولاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوفٍ وَإِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَى (6) لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا

[یہاں سے معروف کے معنی مشقت سے نکالنے والا  ہوا]

اور والدین کے ساتھ معروف طریقہ اختیار کیا جائے جو سماج کو بھی اچھا لگے اور انکو بھی پسند آئے۔ لقمان ۱۵۔

تبصرے بند ہیں۔