قرآن مجید کا فلسفئہ ’انداد‘

قمر فلاحی

قدیم و جدید تاریخ کا اگر بغور مطالعہ کیا جائےتو پتہ چلے گا کہ جن لوگوں کا عقیدہ الہ کے تعلق سے واضح ہے وہ لوگ الہ کو مانتے ہوئے الہ کے مد مقابل مثل وہ نظیر پہ بھی ایمان لاتے ہیں۔ جان لیں کہ ایسا عقیدہ بھی اسلام کی نظر میں شرکیہ عقیدہ ہے۔ الہ کی جمع آلہۃ اسی لیے قرآن مجید میں جگہ جگہ استعمال ہوئ ہے۔ مشرکین کا یہی اعتراض تھا کہ ہم تمام معبود کو ایک کیسے بنادیں ؟

انداد نِدّ سے بنا ہے اس کے معنی مثل اور نظیر کے بیان کیے گئے ہیں، اگر دیکھا جائے تو عمدا نہ سہی مگرغیر ارادی طور پر اکثر مسلمان بھی اس عقیدہ کے تعلق سے محفوظ نہیں ہیں۔

آلہۃ کی طرح انداد بھی جمع استعمال ہوتا ہے اسی لئے ان دونوں کے مفہوم میں مماثلت پائ جاتی ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:

الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ البقرہ ۲۲۔

اے لوگو اللہ کے لئے مثل اور نظیر نہ بنائو جانتے بوجھتے۔

مثلا جب تمہارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی ہی رزق دینے والا ہے تو پھر اس کی طلب اللہ تعالی کے علاوہ کسی سے نہ کرو، یہ مت خیال کرو کہ فلاں ناراض ہوجائے گا تو رزق کا دروازہ بند ہوجائے گا یا رزق میں کمی آجائے گی بلکہ یہ عقیدہ رکھو کہ جو رزق دینے والا ہے رزق دیتا ہی رہے گا خواہ ذریعہ کوئ دوسرا بنا دے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ۔ البقرہ ۱۶۵۔
ا

ور لوگوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے مقابلے میں اس کیلئے ایسے مثل اور نظیر بناتے ہیں، جن سے یہ اللہ تعالی کی طرح محبت کرتے ہیں [جتنی محبت اللہ تعالی سے کرنی چاہیے اتنی محبت کرتے ہیں ]۔

یعنی کوئ شخص اللہ تعالی کی طرح اگر کسی اور ذات سے محبت کرنے لگے تو یہ محبت الہ میں شرک کرنا کہلاتا ہے۔

وَجَعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِهِ قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ ابراہیم ۳۰۔

اور لوگوں نے اللہ کے مقابلے میں انداد بنائے تاکہ وہ اس کے راستے سے لوگوں کو بہکادیں۔

یہاں ایک خاص بات یہ ہیکہ انداد اختراعی اور گھڑے ہوئے ہوتے ہیں، دوسری اہم بات اس آیت میں یہ ہیکہ اللہ تعالی کا ایک ہی راستہ ہے جسے” سبیل” اور "صراط "کہا جاتا ہے۔ جب لوگ انداد اور الہۃ کو ماننے لگتے ہیں تو سبیل سُبُل بن جاتے ہیں اور لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں اور یہ انداد لوگوی کی گمراہی کا باعث بنتے ہیں۔

انداد کی پرشتش کرنے والے مسلمانوں کو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کا انکار کریں اور انکی نظیر ٹھیرا لیں۔

إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَنْ نَكْفُرَ بِاللَّهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَنْدَادًا۔ سبا ۳۳

تبصرے بند ہیں۔