قرآن مجید کا فلسفئہ ’شر‘

قمر فلاحی

شر کے معنی بری چیز، پسند نہ آنے والی چیز، مصیبت میں مبتلا کرنے والی چیز کے آتے ہیں ، یہ خیر کی ضد ہے۔

شر اندرون میں ہوتا جسے ہر کوئ دیکھ کر نہیں پہچان سکتا کہ اس میں شر ہے یا نہیں ،اس کا اشارہ البقرہ ۲۱۶ میں ہے کہ ممکن ہے تم ایک چیز کو پسند کرو [محبت کرو] اور وہ تمہارے لئے شر ہو۔ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ ۔

شر کا ذرہ بھی اگر انسان کرتا ہے تو وہ اللہ سبحانہ کی نگاہ میں ہے اور اس کا بدلہ اسے مل کر رہیگا۔ الزلزلہ ۸۔وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ (8)

قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَلِكَ مَثُوبَةً عِنْدَ اللَّهِ مَنْ لَعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ أُولَئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ (60) وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَدْ دَخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا يَكْتُمُونَ (61) وَتَرَى كَثِيرًا مِنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ(62) لَوْلا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالأَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ (63) وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْـزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ (64) النساء

اس آیت کریمہ میں یہودیوں کوانجام کے اعتبار سے بری مخلوق کہا گیا ہے اور ان کے کرتوت بھی گنوائے گئے ہیں لہذا جس کسی کے اندر اسی طرح کی خصلت پائ جائیگی اس کا انجام بگڑتا جائیگا۔

زمین کی سب سے بری مخلوق وہ ہے جس کے سامنے حق بیان کیا جائے اور وہ اسے سننے اور بولنے سے باز رہے یہ اوصاف منافقین اور مشرکین میں پائے جاتے تھے اسی لئے انہیں شرالدواب کہا گیا،اب اس روش کو اپنانے والے تمام انسانوں پہ اس کا اطلاق ہوگا۔

إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ (22)الانفال

اللہ تعالی نےکسی پہ الزام لگانے کو شر میں شمار فرمایا ہے

 قَالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ قَالَ أَنْتُمْ شَرٌّ مَكَانًا وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ (77) یوسف

انسانوں کی خصلت ہے کہ وہ اپنے لئے شر کی دعائیں کرنےلگتا ہے جس طرح کوئ خیر کی دعا کرتا ہے اس لئے کہ انسان جلد باز پیدا کیا گیا ہے ۔الاسراء ۱۱، وَيَدْعُ الإِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ وَكَانَ الإِنْسَانُ عَجُولا (11)انسان کو جب کوئ شر لاحق ہوتا ہےتو وہ مایوس اور بےصبرا ہوجاتا ہے [لا يَسْأَمُ الإِنْسَانُ مِنْ دُعَاءِ الْخَيْرِ وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَئُوسٌ قَنُوطٌ ؛فصلت] اسی طرح کوئ شر پہونچتے ہی لمبی لمبی دعائیں کرنے والا ہوجاتا ہے[وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَى بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاءٍ عَرِيضٍ (51)فصلت]

جنہیں منہ کے بل جہنم میں لے جایا جائیگا وہ جگہ کے اعتبار سے بری جگہ والا ہوگا۔[الفرقان ۳۴، شر مکانا] اسی طرح برا ٹھکانا طاغین کا ہوگا۔ [للطاغین شر مآب ص ۵۵۔]

کفر و شرک کرنےوالے’ شر البریۃ ‘ [بد ترین خلائق ] اور ایمان اور عمل صالح والے ‘خیر البریۃ’ [بہترین خلائق] ہیں ۔[غور فرمائیں یہاں ایمان کے ساتھ عمل صالح کی شرط ہے ]

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أُولَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ (6) إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ (7) البینۃ

ہمیں پناہ مانگتے رہنا چاہیے اپنے رب کی ان سے : قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (1) مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (2) وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ (3) وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ (4) وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ (5)الفلق

مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ (4) الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ (5) مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (6)الناس

ہراس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے ،رات کی تاریکی کی شر سے جبکہ وہ چھاجائے،اور گرہوں میں پھونکنے والوں[یا والیوں ]کے شر سے،اور حاسد کے شر سے جب کہ وہ حسد کرے۔

اس وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے جو بار بار پلٹ کر آتا ہے ۔جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے ۔خواہ وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔

تبصرے بند ہیں۔