قرآن کا پیغام والدین کے نام – اولاد کس لئے؟ (1)

’’ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہٗ زَکَرِیَّا اِذْ نَادیٰ رَبَّہٗ نِدَاءً خَفِیًّا قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَھَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَ اشْتَعَلَ الرَّاسُ شَیْباً وَّ لَمْ اَکُنْ م بِدُعَاءِکَ رَبِّ شَقِیًّا وَاِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ وَکَانْتِ اِمْرَاتِیْ عَاقِراً فَھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا یَّرِثُنِیْ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ وَ اجْعَلْہُ رَبِّ رَضِیًّا یٰزَکَرِیَّآ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمٍ ن اِسْمُہٗ یَحْیٰی لَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ کَانْتِ امْرَاتِیْ عَاقِراً وَّ قَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عِتِیَّا قَالَ کَذٰلِکَ قَالَ رَبُّکَ ھُوَ عَلَیَّ ھَیِّنٌ وَّ قَدْ خَلْقْتُکَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَکُ شَیْءًا‘‘ (مریم:2۔9)

ترجمہ: – ’’ذکر ہے اس رحمت کا جو تیرے رب نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی۔ جب کہ اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا۔ اس نے عرض کیا : اے پروردگار! میری ہڈیاں تک گھل گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک اٹھا ہے ۔ اے پروردگار! میں کبھی تجھ سے دعا مانگ کرنامراد نہیں رہا۔ مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں کی برائیوں کا خوف ہے اور میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے فضل خا ص سے ایک وارث عطا کر دے جو میراوارث بھی ہو اور آل یعقوب کی میراث بھی پائے اور اے پروردگار ! اس کو ایک پسندیدہ انسان بنا(جواب دیا گیا) اے زکریا ! ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے جس کا نام یحییٰ ہوگا ہم نے اس نام کا کوئی آدمی اس سے پہلے پیدا نہیں کیا۔ عرض کیا: پروردگار ! بھلا میرے یہاں کیسے بیٹا ہوگا جب کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میںؤ بوڑھا ہوکر سوکھ چکا ہوں۔ جواب ملا ایسا ہی ہوگا ۔ تیرا رب فرماتا ہے کہ یہ تو میرے لئے ایک ذرا سی بات ہے۔ آخر اس سے پہلے میں تجھے پیدا کرچکا ہوں جب کہ تو کوئی چیز نہ تھا‘‘۔
مندرجہ بالا آیات میں حضرت زکریا علیہ السلام کی زندگی کا ایک اہم واقعہ بیان کیاہے جس میں کئی حقیقتیں سمجھائی گئی ہیں:
1۔ بظاہر اسباب موجود نہ ہوں پھر بھی اللہ اگر نوازنا چاہے تو ہر چیز سے نواز سکتا ہے ۔ حضرت زکریاعلیہ السلام انتہائی بوڑھے ہوچکے تھے اور بیوی بانجھ تھیں پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اولاد سے نوازنا چاہا تو نوازدیا۔ حضرت زکریا علیہ السلام کو اولاد کی بشارت ملنے پر تعجب ہوا تو سمجھایا گیا کہ جب اللہ بغیر کسی چیز کے انسان کووجود میں لاسکتا ہے تو تمہیں اولاد عطا کرنا کون سا مشکل کام ہے ۔
2۔ اولاد کی خواہش ایک فطری خواہش ہے لیکن اگر کوئی اس سے محروم ہو تو اس کودردر کی خاک چھاننے کے بجائے اصل داتا سے مانگنا چاہئے جیسا کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے ظاہری اسباب مفقود ہونے کی باوجود انہیں اولاد عطا کی کیونکہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے جب کہ کائنات کی ہر چیز خود محتاج ہے ۔ وہ بھلا یہ خواہش کیسے پوری کرسکتی ہے؟
3۔ محض اولاد کی طلب کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ وہ دودھاری تلوار کی طرح ہے اگر نیک نکلی تو نیک نامی کا سبب بنتی ہے لیکن اگر بد چلن نکلی تو بد نامی کا سبب بنتی ہے۔ اسی لئے نیک اور پسندیدہ اولاد کی دعا کرنی چاہئے جیسا کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی ’’اور اے پروردگار! اس کو ایک پسندیدہ انسان بنا ‘‘ ایسی ہی دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی کی تھی’’رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ فَبَشَّرْنَاہٗ بِغُلاَمٍ حَلِیْمٍ‘‘(الصافات:100۔101)اے پروردگار! مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں(نیکوں) میں سے ہو (اس دعا کے جواب میں) ہم نے اس کو ایک حلیم (بردبار) لڑکے کی بشارت دی ۔
4۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ اولاد کس لئے چاہئے؟ کیا اس لئے کہ پدریت و مادریت کے جذبے کی تسکین ہو سکے یا نام و خاندان باقی رہے اور ماں باپ کا نام روشن کرے یا اس لئے کہ اولاد گھر کی زینت بنے اور گھر کی رونق بڑھائے یااس لئے کہ بڑھاپے کا سہارا بنے یا اس لئے کہ حریفوں پر رعب و دبدبہ قائم رہے وغیرہ ذالک۔
یقیناًیہ ساری چیزیں مطلوب ہیں لیکن اصل مطلوب نہیں کیونکہ صاحب ایمان کو ہر چیز اپنے مشن کے لئے مطلوب ہوتی ہے اور صاحب ایمان کا مشن اللہ کی بندگی اور اس کی رضا جوئی ہے۔ اسے اولاد بھی چاہئے تو اسی مشن کے لئے چنانچہ حضرت زکریا علیہ السلام نے واضح طور پر اللہ کے حضور یہ عرض کیا ’’مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں کی برائیوں کا خوف ہے ۔ وہ میرے بعد میرے مشن کا حق ادانہیں کرسکیں گے۔ لہٰذا اپنے فضل خاص سے ایک وارث عطا کر جو میرا وارث ہو آل یعقوب کا بھی وارث بنے یعنی ہمارے مشن کو لے کر آگے بڑھے۔ واضح رہے کہ اگر مال و اسباب کی وراثت مراد لی جائے تو پھر آل یعقوب کی وراثت کا ذکر فضول قرار پائے گا۔
صاحب ایمان ماں باپ کے جذبات کیا ہوتے ہیں؟ اس کی ایک حسین تصویر حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کے حوالے سے قرآن مجید میں یوں پیش کی گئی ہے ’’اور یاد کرو اس وقت کو جب کہ عمران کی عورت کہہ رہی تھی کہ میرے پروردگار میں اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہوں وہ تیرے ہی کام کے لئے وقف ہوگا۔ میری اس پیش کش کو قبول فرما توسننے والا اور جاننے والا ہے ‘‘۔ (آل عمران :35) آگے تذکرہ ہے کہ جب عمران کی عورت نے لڑکے کے بجائے لڑکی جنا تو پریشان ہوئیں اور اللہ کے حضور عرض کیا کہ لڑکی لڑکے کی طرح خدمت گزار نہیں ہوسکتی لیکن اللہ قدر داں ہے اس نے لڑکی ہی کو قبول فرما لیا۔ وہی لڑکی ہے جو حضرت مریم علیہا السلام کے نام سے جانی جاتی ہیں اور جن کے بطن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے برگزیدہ نبی پیدا ہوئے۔
یہی وجہ ہے کہ جب صاحب ایمان کے مشن کا تقاضا ہوتا کہ اولاد مشن کی خاطر قربان کردی جائے تو وہ اس کے لئے بھی بخوشی تیار رہتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑھاپے میں بڑی آرزوؤں اور تمناؤں کے بعد اولاد عطا ہوئی تھی لیکن جب اللہ کا حکم ہوا تو اس کی رضا کی خاطر اپنے ہاتھوں اسے قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئے کیاآج کے ماں باپ اپنے اندر یہ جذبہ اور حوصلہ پاتے ہیں؟

(مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔