قرآن کا پیغام والدین کے نام – اولاد کی اصلاح کب تک؟ (12)

’’فَلَمَّا رَجَعُوْٓا اِلیٰ اَبِیْھِمْ قَالُوْا یٰٓاَ بَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ فَاَرْسِلْ مَعَنَآ اَخَانَا نَکْتَلْ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۔ قَالَ ھَلْ اٰمَنُکُمْ عَلَیْہِ اِلاَّ کَمَآ اَمِنْتُکُمْ عَلٰیٓ اَخِیْہِ مِنْ قَبْلُ فَاﷲُ خَیْرٌ حٰفِظًا وَّ ھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ۔ وَ لَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَھُمْ وَجَدُوْا بِضَاعَتَھُمْ رُدَّتْ اِلَیْھِمْ قَالُوْا یٰٓابَانَا مَا نَبْغِیْ ھٰذِہٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ اِلَیْنَا وَ نَمِیْرُ اَھْلَنَا وَ نَحْفَظُ اَخَاناآ وَ نَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیْرٍ ذٰلِکَ کَیْلٌ یَّسِیْرٌ۔ قَالَ لَنْ اُرْسِلَہٗ مَعَکُمْ حَتّٰی تُؤْتُوْنِ مَوْثِقًا مِّنَ اﷲِ لَتَاْ تُنَّیِْ بِہٖٓ اِلاَّ اَنْ یُّحَاطَ بِکُمْ فَلَمَّا اتُوْہُ مَوْثِقَھُمْ قَالَ اﷲُ عَلیٰ مَا نَقُوْلُ وَکِیْلٌ۔ وَ قَالَ یٰبَنِیَّ لاَ تَدْخُلُوْا مِنْ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ وَ مَآ اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِّنْ اﷲِ مِنْ شَیْ ءٍ اِنِ الْحُکُمْ اِلاَّ لِلّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ عَلَیْہِ فَلْیَتَوَکِّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ۔ وَ لَمَّا دَخَلُوْا مِنْ حَیْثُ اَمَرَھُمْ اَبُوْھُمْ مَا کَانَ یُغْنِیْ عَنْھُمْ مِّنَ اﷲِ مِنْ شَیْ ءٍ اِلاَّ حَاجَۃً فِیْ نَفَسِ یَعْقُوْبَ قَضٰھَا وَ اِنَّہٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰہُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ‘‘ (یوسف 63تا68)
’’جب وہ اپنے باپ کے پاس گئے تو کہا ’ابا جان ، آئندہ ہم کو غلہ دینے سے انکار کردیا گیا ہے ، لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ ہم غلہ لے کر آئیں اور اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں ‘ باپ نے جواب دیا کہ ’کیا میں اُس کے معاملہ میں تم پر ویسا ہی بھروسہ کروں جیسا اس سے پہلے اس کے بھائی کے معاملہ میں کرچکا ہوں ؟اللہ ہی بہتر محافظ ہے اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے ‘ ۔ پھر جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ ان کا مال بھی انہیں واپس کردیا گیا ہے ۔ یہ دیکھ کر وہ پکار اُٹھے ’ابا جان ! اور ہمیں کیا چاہئے دیکھئے یہ ہمارا مال بھی ہمیں واپس دے دیا گیا ہے۔ بس اب ہم جائیں گے اور اپنے اہل و عیال کے لئے رسد لے کر آئیں گے ، اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک بار شتر اور زیادہ بھی لے آئیں گے ، اتنے غلہ کا اضافہ آسانی کے ساتھ ہو جائے گا ‘۔ ان کے باپ نے کہا ’میں اس کو ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجو ں گا جب تک کہ تم اللہ کے نام سے مجھ کو پیمان نہ دے دو کہ اسے میرے پاس ضرور واپس لے کر آؤ گے اِلاّ یہ کہ تم گھیر ہی لئے جاؤ‘ جب انہوں نے اس کو اپنے اپنے پیمان دے دئیے تو اس نے کہا ’دیکھو ، ہمارے اس قول پر اللہ نگہبان ہے‘۔پھر اس نے کہا ’میرے بچو، مصر کے دارالسلطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا ۔ مگر میں اللہ کی مشیت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسہ کیا، اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اسی پر کرے ‘ اور واقعہ بھی یہی ہوا کہ جب وہ اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق شہر میں (متفرق دروازوں سے ) داخل ہوئے تو اس کی یہ احتیاطی تدبیر اللہ کی مشیت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آسکی۔ ہاں بس یعقوب علیہ السلام کے د ل میں جو ایک کھٹک تھی اسے دور کرنے کے لئے اس نے اپنی سی کوشش کرلی۔ بے شک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحب علم تھا مگر اکثر لوگ معاملہ کی حقیقت کو جانتے نہیں ہیں ‘‘۔(یوسف 63 :68)
قرآن مجید میں یوسف علیہ السلام کے قصے کو ’’احسن القصص‘‘ (بہترین قصے ) کہا گیا ہے۔ مندرجہ بالا آیات میں اسی قصے کا ایک باب بیان ہوا ہے۔ یوسف علیہ السلام جب مصر کے حکمراں بنادئیے گئے تو ابتدائی سات سال بہت خوشحالی کے گزرے ۔ اس کے بعد شدید خشک سالی پڑی حتی کہ مصر کے پاس پڑوس کے ممالک بھی متاثر ہوئے۔ آپ علیہ السلام نے غلہ کے ذخیرے محفوظ کررکھے تھے چنانچہ پڑوسی ممالک سے بھی غلے کے خریدار آنے شروع ہوئے۔ آپ علیہ السلام کے سوتیلے بھائی بھی غلے لینے کیلئے آئے ؟ آپ نے انہیں پہچان لیا لیکن انہوں نے نہیں پہچانا۔آپ علیہ السلام نے فی نفر ایک اونٹ غلہ دینے کا سسٹم بنایا تھا۔ انہوں نے اپنے سوتیلے بھائی بن یامین( جو کہ آپ علیہ السلام کے سگے بھائی تھے) کیلئے غلہ طلب کیا تو انہوں نے اس بار تو دے دیا البتہ آئندہ کیلئے یہ قید لگا دی کہ انہیں (یعنی بن یامین کو )بھی لانا ضروری ہے ۔ واپسی پر سبھوں نے اپنے والد(یعقوب علیہ السلام) کو رودادِ سفر سنایا اور اس شرط کا تذکرہ کیا ۔ اس کے بعد کے احوال مندرجہ بالا آیات میں بیان کئے گئے ہیں۔ ان آیات میں معاشرتی زندگی سے متعلق بہت سی نصیحتیں اور رہنمائیاں ہیں۔ چند کا تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے:
(1) اولاد اگر بگڑ جائے اور اذیت پہنچائے تو بھی اس سے قطع تعلقی نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کی اصلاح کی فکر میں لگے رہنا چاہئے ۔ یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے آپ علیہ السلام سے جھوٹ بولا۔ سوتیلے بھائی یوسف علیہ السلام کے خلاف سازشیں کیں حتی کہ انہیں کنویں میں ڈال دیا۔ ان باتوں سے آپ کو شدید تکلیف تھی لیکن پھر بھی آپؐ نے ان کو عاق نہیں کیا۔ ساتھ ہی زندگی گزارتے رہے یہاں تک کہ جب قحط پڑا تو انہیں غلہ لانے کے لئے بھیجا بالآخر ایک موقع آیا کہ انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا، توبہ کی، والد سے اللہ سے مغفرت کی دعا کی درخواست کی اور صالح زندگی گزارنے لگے ۔
(2) جب اولاد سے گناہ اور غلطی ہو جائے ۔ اس کی وجہ سے ان کا اعتماد مجروح ہو جائے تو آئندہ اعتماد کرنے سے پہلے پچھلی غلطی یاد دلا کر جتلا دینا چاہئے تاکہ آئندہ وہ محتاط رہیں۔ زجرو توبیخ کے ساتھ ان سے آئندہ پاسداری کا عہد و پیمان بھی لینا چاہئے تاکہ ان پر دباؤ بنا رہے ۔ یعقوب علیہ السلام کو مجبوراً بن یامین کو انکے ساتھ بھیجنا پڑاتو انہوں نے ان کی پچھلی غلطی بھی جتلادی اور آئندہ کیلئے عہد و پیمان بھی لیا تاکہ وہ محتاط رہیں اور ذمہ داری محسوس کریں۔
(3) اولاد خواہ کتنی ہی بڑی ہو جائے ان کے تجربات کم ہوتے ہیں اس لئے والدین کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ زندگی کے تمام مراحل میں وہ اپنے تجربات سے انہیں فائدہ پہنچائیں اور جب ضرورت محسوس کریں مختلف احتیاطی تدابیر کا درس دیتے رہیں جیسا کہ یعقوب علیہ السلام نے اپنے بالغ بیٹوں کو مصر میں داخل ہونے کے سلسلے میں احتیاطی تدبیر سجھائی تھی کہ ایک دروازے سے نہیں بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا۔ یہ احتیاطی تدبیر اس لئے سجھائی تھی کہ قحط کے ہنگامی حالات میں ایک ساتھ داخل ہونے کی صورت میں شبہ پیدا ہوسکتا تھا کہ کہیں یہ لو گ گروپ کی شکل میں لوٹ مار کرنے کی غرض سے تو نہیں آرہے ہیں جب کہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونے کی صورت میں یہ گمان کبھی پیدا نہیں ہوتا۔
(4) کسی پر کوئی ذمہ داری ڈالی جائے تو اس کی قوت و طاقت اور استطاعت کا لحاظ رکھنا چاہئے طاقت سے زیادہ کسی پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے ۔ یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں سے بن یامین کی حفاظت کی ذمہ داری تو ڈالی۔ ان سے عہد و پیمان بھی لیا لیکن ساتھ ہی فرمایا ’’اِلاَّ اَنْ یُحَاطَ بِکُمْ ‘‘مگر یہ کہ تم گھیر لئے جاؤ ۔ یعنی تمہارے بس میں حفاظت نہ رہ جائے تو اس وقت معذور سمجھے جاسکتے ہو۔ اللہ کے رسول ؐ بھی جب بیعت لیا کرتے تھے تو ’’مَا اسْتَطَعْتُمْ‘‘ ’’جتنی تمہاری قدرت ہے ‘‘اتنے بھر کاہی مکلف بناتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ’’لاَ یُکَّلِفُ اﷲُ نَفْساً اِلاَّ وُسْعَھَا ‘‘اللہ کسی جان کو اس کی قدرت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا۔ ہمیں بھی اپنی اولاد اور ماتحتوں کو کام دیتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہئے اور ان کے طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے ۔
(5) جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو تو تدبیر اختیار کرنی چاہئے ۔ لیکن تدبیر ہی پر کلی بھروسہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اصل بھروسہ اللہ تعالیٰ پر ہونا چاہئے ۔ یعقوب علیہ السلام نے احتیاطی تدابیر اختیار کیں لیکن کلی بھروسہ تدبیر پر نہیں کیا بلکہ بیٹوں پر واضح کیا کہ یہ میری محض تدبیر ہے اللہ کی مشیت کچھ اور بھی ہوسکتی ہے اور اللہ کی ہی مشیت اصلاً نافذ ہوتی ہے۔ اس لئے تدبیر ناکام ہو تو مایوسی کا شکار نہ ہونا بلکہ اللہ پر توکل کرنا ان شاء اللہ اس کا میٹھا پھل سامنے آئے گا۔ اللہ کی مشیت انجام کار کے لحاظ سے بندوں کے حق میں ہوتی ہے۔ بندوں کے خلاف نہیں ہوتی۔ چنانچہ ساری احتیاطی تدابیر کے باوجود اللہ کی مشیت کے مطابق بن یامین گھیر لئے گئے لیکن انجام کار سب بھائی اور والدین کی مصر تک رسائی کی سبیل پیدا ہوگئی اور بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ وہاں پہنچے۔

تبصرے بند ہیں۔