قرآن کا پیغام والدین کے نام – کیا سیر و تفریح(پکنک) معیوب ہے؟ (15)

مولانا عبدالبر اثری فلاحی

’’قَالُوْا یٰٓاَبَانَا مَالَکَ لاَ تَأْمَنَّا عَلیٰ یُوْسُفَ وَ اِنَّا لَہٗ لَنَاصِحُوْنَ۔اَرْسِلْہُ مَعَنَا غَداً یَّرْتَعْ وَ یَلْعَبْ وَ اِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ۔ قَالَ اِنِّیْ لَیَحْزُنُنِیْ اَنْ تَذَْھَبُوْا بِہٖ وَ اَخَافُ اَنْ یَّاْکُلَہٗ الذِّءْبُ وَ اَنْتُمْ عَنْہٗ غَافِلُوْنَ۔ قَالُوْا لَءِنْ اَکَلَہٗ الذِّءْبُ وَ نَحْنُ عُصْبَۃٌ اِنَّا اِذاً لَّخَاسِرُوْنَ۔‘‘ (یوسف: 11۔12)
ترجمہ: ’’انہوں (یوسف علیہ السلام کے بھائیوں) نے اپنے باپ سے کہا : ابا جان! کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے معاملہ میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے بہت خیر خواہ ہیں؟ کل اسے ہمارے سات بھیج دیجئے کچھ چرچگ لے گا اور کھیل کود سے بھی دل بہلائے گا ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں۔ باپ (یعقوب علیہ السلام) نے کہا : تمہارا اسے لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ پھاڑ کھائے جبکہ تم اس سے غافل ہو ۔ انہوں نے جواب دیا :اگر ہمارے ہوتے اسے بھیڑئیے نے کھالیا جبکہ ہم ایک جتھا ہیں تب تو ہم بڑے ہی نکمے ہوں گے‘‘۔
مندرجہ بالا آیات میں یوسف علیہ السلام کے بچپن کے حالات کا ایک باب بیان ہوا ہے۔ یوسف علیہ السلام بچپن ہی سے بہت سی خوبیوں کے مالک تھے اسی لئے یعقوب علیہ السلام کے دل میں ان کے لئے زیادہ محبت تھی۔ یہ محسوس کرکے یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائیوں کے دل میں حسد پیدا ہوگیا اور انہوں نے یوسف علیہ السلام کے خلاف سازش شروع کردیں حتی کہ انہیں باپ سے جدا کردینے کا تہیہ کرلیا۔ سوتیلے بھائیوں کے سلوک اور چال ڈھال سے خود یعقوب علیہ السلام نے بھی یہ محسوس کرلیا تھا کہ یوسف کے سلسلے میں ان کی نیتیں(ارادے) اچھی نہیں ہیں۔
چنانچہ بھائیوں کی طرف سے یوسف علیہ السلام کے سلسلے میں جب کوئی ایسی بات سامنے آتی جس میں آپ خطرہ محسوس کرتے تو اسے رد فرمادیا کرتے تھے۔ اسی لئے بھائیوں نے جب سیرو تفریح (پکنک) پر بھیجنے کی تجویز پیش کی تو سب سے پہلے اپنی شکایت درج کرائی کہ ہم یوسف کے انتہائی خیر خواہ ہیں پھر یوسف کے معاملہ میں آپ ہم پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے؟ ان آیات میں اسی شکایت، پکنک کی تجویز، تجویز پر یعقوب علیہ السلام کے اشکال اور بھائیوں کے جواب کا تذکرہ ہے ۔ اس پورے واقعہ میں عبرت کے چند پہلو ہیں جو ہمارے لئے مشعل راہ بن سکتے ہیں۔
۱۔ باپ کی ذمہ داریوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اولاد کے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی تجویز(خواہ وہ سیرو تفریح کے سلسلے ہی میں کیوں نہ ہو) کسی کی طرف سے آئے (خواہ وہ اس کا بھائی ہی کیوں نہ ہو) وہ اس کا باریک بینی سے تجزیہ کرے اور فیصلہ لے جیسا کہ یعقوب علیہ السلام کیا کرتے تھے۔ جب تجویز معقول نہ ہوتی تو رد کردیتے اور جب معقول ہوتی تو قبول فرما لیتے۔ (جیسا کہ سیرو تفریح کی تجویز کو قبول کرلیا) اور جو کچھ اندیشے اور خطرات ہوتے اس کا اظہار بھی فرما دیتے تاکہ ان پہلوؤں سے چوکنا رہا جاسکے۔ بچے کم علمی اور محدود تجربے کی بنیاد پر مستقبل اور خارج کے بہت سے خطرات کا اندازہ نہیں لگا سکتے اور والدین کی رہنمائی کے محتاج ہوتے ہیں۔ جو والدین اس معاملہ میں کوتاہی کرتے ہیں وہ گویا بچوں کا حق ادا نہیں کرتے۔ بچے نے ذرا ضد کی یا اس کے ساتھیوں نے ذرا اصرار کیا تو خواہی نخواہی ان کا مطالبہ مان لیتے ہیں۔ خواہ نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ رویہ درست نہیں۔
اسی طرح بسا اوقات اولاد کے سلسلے میں بڑے بزرگوں کی طرف سے کچھ تجاویزآتی ہیں جو مناسب نہیں ہوتیں لیکن ادب و احترام کی خاطر اسے قبول کیاجاتاہے اور زندگی بھر تکلیف اٹھائی جاتی ہے خصوصا اعلیٰ تعلیم اور شادی وغیرہ کے سلسلے میں۔ اس موڑ پر بھی باپ کی ذمہ داری ہے کہ جو بہتر محسوس کرے اسے قبول کرے ورنہ رد کردے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرے۔
۲۔ یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ خطرہ محسوس کرتے ہوئے بھی یعقوب علیہ السلام نے سیرو تفریح کے لئے جانے کی اجازت کیوں دے دی؟ جبکہ آپ علیہ السلام کو یہ احساس بھی تھا کہ یہ سب تو یوسف کے جانی دشمن ہیں۔ اس کی یہ وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ خارجی خطرات کے سلسلے میں تو بھائیوں نے ہر قیمت پر حفاظت کی یقین دہانی کرائی تھی جسے نہ ماننے سے ان کی دل شکنی ہوتی اور دشمنی مزید بڑھ جاتی ۔ خود بھائیوں کی طرف سے جو خطرہ تھااس کا اظہار خلاف حکمت تھا کیونکہ اس سے ان کے بھروسہ نہ کرنے کی شکایت کو تقویت ملتی اور وہ اپنی دشمنی میں اور پختہ ہو جاتے۔ اس سیاق میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بلا سبب بتائے منع بھی کیا جاسکتا تھا۔ لیکن یعقوب علیہ السلام یہ دیکھ رہے تھے کہ آج نہیں تو کل دوسرے بہانوں سے وہ اپنی دشمنی نکال سکتے ہیں اس لئے اجازت دے دینا ہی قرین حکمت ہے۔ اس طرح ان کی دلجوئی بھی ہورہی تھی۔ بھروسہ نہ کرنے کی شکایت کا ازالہ بھی ہورہا تھا اور ممکن ہے اس سلوک سے ان کی دشمنی کا بخار بھی ٹھنڈا پڑ جاتا۔
اس میں والدین کے لئے یہ پیغام مضمر ہے کہ اگر اولاد کے درمیان کسی وجہ سے ناچاقی ہو اور وہ محسوس بھی کریں پھربھی بلا وجہ اس کا اظہار ضروری نہیں کیونکہ اس سے مزید ناچاقی بڑھنے اور پختہ ہونے کا خطرہ رہتا ہے لہٰذا جس قدر رعایت دی جاسکتی ہو اور بات کو مخفی رکھ کر کام چلایا جاسکتا ہو وہی بہتر ہے البتہ حفظ ما تقدم کے طور پر جو اقدامات ضروری ہوں وہ ضرور کریں جیسا کہ یعقوب علیہ السلام نے اپنے اندیشہ کا اظہار کردیا تھا اور ان سے حفاظت کی یقین دہانی حاصل کی تھی۔
۳۔ سیرو تفریح، پکنک اور کھیل کود کا نام آتے ہی عموماً ذہن اس طرف جاتاہے کہ یہ لغو اور بے کارکام ہے۔ اس لئے اس سے بچنا چاہئے۔ خصوصاً بچے گھومنے پھرنے اور کھیل کود کے بڑے دلدادہ ہوتے ہیں۔ اگر انہیں چھوڑ دیا جائے تو سارا وقت کھیلتے، کودتے رہ جائیں اس لئے انہیں اس سے دور رکھنا چاہئے۔ جسمانی صحت کیلئے کچھ لوگ اسے ضروری تسلیم کرتے ہیں لیکن دینی اعتبار سے تو اسے معیوب ہی خیال کیاجاتاہے۔ حالانکہ اگر معاملہ ایسا ہوتاتو یعقوب علیہ السلام پیغمبر ہوتے ہوئے ہرگز اپنے بیٹوں کو اس کی اجازت نہ دیتے۔ ان کا اجازت دینا اور اس ارادے پر کوئی نکیر نہ کرنا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں اور دینی اعتبار سے بھی اسے معیوب خیال نہیں کیا جانا چاہئے ۔ کیونکہ یہ بچوں کی فطرت میں شامل ہے۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس سے بچوں کے علم و تجربہ میں اضافہ ہوتاہے۔ جسمانی صحت پروان چڑھتی ہے۔ پژمردگی اورتکان ختم ہوتی ہے۔ فرحت و انبساط پیدا ہوتا ہے ۔ مسابقت کا جذبہ ابھرتا ہے۔ رسول اللہﷺ بچوں کے درمیان دوڑ کا مقابلہ کراتے تھے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ، عبیداللہ اور بنو عباس رضی اللہ عنہم کے کئی بچوں کو ایک لائن میں کھڑا کیا اور فرمایا جو دوڑ کر پہلے میرے پاس پہنچے گا اسے اتنا اتنا انعام ملے گا چنانچہ بچے آپ کی طرف دوڑے اور آپﷺ کے پاس پہنچ کر کوئی آپﷺ کے سینہ مبارک پر گرتا ، کوئی پیٹ پر گرتا۔ آپﷺ ان کو اٹھاتے، چومتے اور گلے لگاتے‘‘(مسند احمد) ہاں جس طرح ہر چیز میں اعتدال ضروری ہے۔ بے اعتدالی کی وجہ سے یقیناًنقصان ہوگا اور اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی مثلاً دن دن بھر کھیلتے رہیں۔ روز روز پکنک منائیں۔ اسی طرح شرعی حدود کی پابندی ضروری ہے مثلاًنہ فضول خرچی ہو اور نہ بے حیائی و فحاشی کو راہ دی جائے وغیرہ وغیرہ

تبصرے بند ہیں۔