قرآن کریم کے حقوق

محمد احمد رضا ایڈووکیٹ

عَنْ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ أَنَّہُ بَلَغَہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: تَرَکْتُ فِیْکُمْ أَمْرَیْنِ، لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا: کِتَابَ اللہِ وَسُنَّۃَ نَبِیِّہ۔

’’امام مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ان تک یہ خبر پہنچی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں، اگر انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے یعنی اللہ کی کتاب اور اُس کے نبی کی سنت۔ ‘‘

اللہ کریم نے قرآن کریم کو ہدایت کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے واضح ارشاد فرما دیا کہ اگر قرآن اور سنت کو تھامے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے۔ ہم اگر اپنے معاشرے کو دیکھیں تو بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج بحیثیت معاشرہ قران کے ساتھ ہمارا ناطہ ٹوٹ چکا ہے۔ ہم نے قرآن کو حفاظ کے یاد کرنے، میت پر پڑھنے، مسجد کے امام صاحب کے پڑھنے یا رمضان میں بس قرآن کے الفاظ کو ایک بار پڑھنے کی حد تک مخصوص کر دیا ہے۔ جو کچھ زیادہ مذہبی ہیں وہ شادی بیاہ پر قرآن کا سایہ بھی کر لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کے مقاصد یہ ہیں ؟؟ کیاقرآن کے حقوق یہ ہیں ؟؟؟ کیا ان کاموں سے رسول اللہ ﷺ کی اوپر بیان کردہ حدیث مبارکہ پر عمل ہو گیا ؟؟

میری دانست میں ان سوالات کا جواب نیگیٹو ہے۔ قرآن کریم کے پانچ حقوق بیان کئے جاتے ہیں، ان حقوق میں ہی قرآن کریم کا حقیقی مقصد پوشیدہ ہے۔

قرآن کریم کا پہلا حق، قرآن پر ایمان لانا ہے۔ دوسرا حق تلاوت کرنا ہے۔ تیسرا حق قرآن کریم میں تدبر و تذکرکرنا ہے۔ چوتھا حق قرآن کریم پر عمل کرنا ہے۔ پانچواں حق قرآن کریم کی تبلیغ کرنا ہے۔

پہلا حق: قرآن کریم پر ایمان لانا؛ یعنی یہ یقین رکھنا کہ یہ اللہ تعالی کی آخری کتاب ہے جو اللہ کریم کے آخری رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئی۔ یہ اللہ کریم کا کلام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس میں جو کچھ ہے وہ ہی حق اور سچ ہے۔

دوسرا حق: تلاوت کرنا؛ بدقسمتی سے ہم قرآن کریم کا یہ حق ادا نہیں کرتے۔ ہم اگر اپنی زندگیوں کا محاسبہ کریں تو شاید ہم پورے سال میں کل چوبیس گھنٹے بھی قرآن کی تلاوت نہیں کرتے۔ بلکہ افسوس کہ ہم میں سے اکثر کو قرآن پڑھنا بھی نہیں آتا۔ ہم نے انگلش پڑھنا ہو تو ہم انگریزوں کو سن سن کر ان کی طرح کا لہجہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن افسوس ہم نے کبھی قرآن کو قرآن کے لہجے میں پڑھنے کا سوچا بھی نہیں۔ بس جس طرح گائوں کے مولوی صاحب نے پڑھا دیا ویسے ہی پڑھتے جا رہے ہیں۔ ہم قرآن کو اردو میں پڑھتے ہیں۔ ہم نے کبھی قرآن کے مخارج نہیں سیکھے۔

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:

لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَتَغَنَّ بِالقُرْآنِ

وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا۔

قرآن کو خوش الحانی سے پڑھنے سے مراد یہ ہے کہ قرآن کو اس کے صحیح مخارج کے ساتھ پڑھاجائے۔ یاد رکھیں کہ جس قدر قرآن نماز میں پڑھنا ضروری ہے، اس کا صحیح مخارج سے سیکھنا بھی فرض ہے۔ اگر قرآن کے اصول و قواعد نہیں آتے، اور مخرج صحیح ادا نہ ہوا، یا تجوید کی ایسی غلطی کر بیٹھے جو لحن جلی کہلاتی ہے تو نماز ہی ٹوٹ جائے گی۔ اور ایسے پڑھنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ مثال کے طور پر قرآن کریم میں ہے کہ؛ و اللہ لا یحب الظالمین۔ اللہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ عربی میں (لا) کا مطلب (نہیں ) ہوتا ہے۔ لیکن اگر (لا) کو الف کے بغیر (ل) پڑھ دیا جائے یعنی تھوڑا سا کھینچے بغیر پڑھ دیں تو اس کا مطلب مثبت ہو جاتا ہے۔ اب اگر کسی نے غلطی سے بھی نماز میں یا تلاوت کرتے وقت لا یحب کو لیحب پڑھ دیا تو اس کا ترجمہ بن جائے گا کہ اللہ پسند کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ (معاذ اللہ)۔ یہ لحن جلی ہے۔ جان بوجھ کر پڑھنا کفر، غلطی سے پڑھنا حرام۔ نماز نہیں ہو گی۔

صرف اسی ایک مثال کو سامنے رکھ کر ہم اپنا محاسبہ کر لیں کہ ہم نے اپنی زندگی کا کتنا حصہ اللہ کے قرآن کو سیکھنے میں صرف کیا؟؟ کیا اللہ سے، اللہ کے کلام سے محبت کا تقاضہ یہ ہی ہے کہ ہمارے پاس دنیا جہان کی ہر چیز سیکھنے کو وقت ہے، اللہ کے منکر، اللہ و رسول کے دشمنوں کے بنائے فلمیں ڈرامے دیکھنے کو وقت ہے لیکن قرآن سیکھنے کو وقت نہیں۔ کیا انگلش (معاذ اللہ) قرآن سے زیادہ اہم ہے کہ ہم انگلش کے ایک لفظ کو بھی غلط بولنا گوارا نہیں کرتے لیکن قرآن کو کبھی سیکھنا گوارا نہیں کرتے۔

تجوید، قراء ت، خوش الحانی کے یہ اصول کسی کے ایجاد کردہ نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے خود تعلیم فرمائے ہیں۔ صحیح بخاری شریف کی حدیث مبارکہ ہے کہ انس بن مالک ؓ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کی قراء ت کیسی تھی تو آپؓ نے جواب دیا: کان یمد مدا۔ رسول اللہ ﷺ الفاظ کو لمبا کھینچا کرتے تھے۔

تجوید میں بھی مد کے الفاظ کو لمبا کھینچ کر پڑھا جاتا ہے۔ لیکن افسوس ہم نے دنیا کا ہر علم سیکھ لیا اور قران چھوڑ دیا۔

تیسرا حق: قرآن کریم میں تدبر و تذکر کرنا: یعنی قرآن کریم کو یاد کرنا۔ قرآن کریم کا اتنا حصہ جو نماز میں پڑھنا ضروری ہے، اس کا حفظ کرنا ہر مسلمان پر فرض عین ہے۔ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ کوئی اس کے علاوہ حفظ کرتا ہے تو اس کی بہت سی فضیلتیں ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ قرآن کے معنی و مفہوم، احکام پر غور و فکر کیا جائے۔ غور و فکر کرنے کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ انسان تلاوت کرتے وقت اپنا محاسبہ کرے کہ قرآن کریم میں مذکور احکامات میں سے کتنے پر عمل کر رہاہے۔ تذکر سے مراد یہ بھی ہے کہ قرآن کریم سے نصیحت حاصل کرے۔ افسوس ہے کہ آج ہم ڈرامہ فلم اس لئے دیکھتے ہیں کہ کچھ سیکھنے کو ملے گا، نصیحت ملے گی لیکن اللہ کریم کا کلمہ پڑھنے کے باوجود اللہ کریم نے جو نصیحت کی کتاب نازل کی ہے اس سے نصیحت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ فقط الفاظ کو پڑھنے پر اکتفاء کر لیتے ہیں۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ساری کائنات کا ذکر کر دیا اور فرمایا کہ اس میں غور و فکر کرو۔ اس غور و فکر کرنے سے انسان میں اللہ تعالی کی معرفت میں اضافہ ہوتا ہے۔ انسان جب معانی و مفہوم پر غور کرتا ہے تو اسے اللہ کریم کی قدرت کے مشاہدے نظر آتے ہیں۔ یہ مشاہدے ایمان کو تقویت دیتے ہیں۔

چوتھا حق: قرآن کریم پر عمل کرنا؛ یعنی قرآن کریم میں جو احکامات درج ہیں ان پر عمل کیا جائے۔ قرآن کریم فقط حصول برکت کے لئے نازل نہیں ہوا۔ بلکہ قرآن کے نزول کا اصل مقصد ھدی للناس ہے۔ یعنی لوگوں کے لئے ہدایت۔ اور ہدایت کے لئے شرط ہے کہ قرآن کے احکامات پر عمل کیا جائے۔ بغیر عمل کے ہدایت ناممکن ہوتی ہے۔ انسان دنیا کی کسی فرم میں جائے اور وہاں کی ہدایات پر عمل نہ کرے تو یقینا وہ اس فرم میں نہیں رہ سکتا۔ تو قرآن پر عمل کئے بغیر وہ جنت میں قرآن والوں کے ساتھ کیسے رہ سکے گا؟؟؟

پانچواں حق: قرآن کریم کا پانچواں حق یہ ہے کہ اس کی تبلیغ کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بلغوا عنی و لو آیۃ۔ پہنچا دو میری طرف سے اگرچہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔ گویا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہر کلمہ گو کو یہ حکم دے دیا کہ اپنی اپنی حیثیت میں قرآن کریم کی تبلیغ جاری رکھے۔ گھر کا سربراہ ہے تو بچوں کو قرآن کی تعلیم سکھائے۔ بچوں کو قرآن کریم سے سبق حاصل کرنے کی نصیحت کرے۔ لیکن افسوس ہم اپنے چھوٹے بچوں کے سکول، کھیل کود، جسمانی نشونما، ان کی ہر طرح کی سرگرمیوں کا خیال رکھتے ہیں لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بچے قرآن بھی پڑھتے ہیں یا نہیں۔ ہم نے نئی نسلوں کی قرآن سے محبت کے لئے محنت ہی چھوڑ دی۔ بچوں کو ہر چیز کی اہمیت بتاتے ہیں لیکن قرآن کی اہمیت کبھی نہیں بتائی۔ ہم بچوں کو صبح و شام یہ کہتے ہیں کہ سکول نہیں پڑھو گے تو دنیا میں کامیاب نہیں ہو گے لیکن یہ کبھی نہیں بتایا کہ اگر قرآن نہ سیکھا تو ایمان بھی خطرے میں پڑ جائے گا اور آخرت میں کامیاب نہیں ہو گے۔

خلاصہ یہ کہ ہمیں بحیثیت قوم و معاشرہ قرآن سے ناطہ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم سے محبت کا تعلق استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے جس قرآن کو فقط تیز تیز پڑھ کر ثواب کمانے کے لئے مختص کر دیا ہے، اس قرآن سے نصیحت پکڑ کے اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔

اللہ کریم ہمیں قرآن کریم کی محبت نصیب فرمائے۔ قرآن کریم پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔