قرآن کی ایمانی تشبیہات اور ان کی حکمتیں

عبدالرحمن زریاب فلاحی

(1) اللہ تعالیٰ نے ایمان کو جن جن چیزوں سے تشبیہ دی ہے ان میں سرفہرست ”آگ“ ہے۔ اللہ کا ارشادہے:”ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی“(سورة البقرہ)[17]

دوسری جگہ ارشادہے:”اور اس چیز میں بھی جس کو آگ میں ڈال کر تپاتے ہیں“۔(سورة الرعد)[17]

اللہ تعالیٰ نے یہاں ایمان کو آگ سے جو تشبیہ دی ، اس میں دو باتوں کی طرف اشارہ مقصودہے:

(الف) جس طرح کھوٹے سونے کو آگ پر تپانے سے سارا کھوٹ دور ہوجاتاہے اور خالص سوناباقی بچتاہے ٹھیک ایسا ہی معاملہ روز محشر کا بھی ہے کہ جب گنہ گارکو آگ دکھائی جائے گی تو وہ اس کے تمام گناہوں اور معاصی کو جلاکر خاکستر کردے گی اور اس کاایمان صحیح سالم بچ جائے گا۔

(ب) جس طرح آگ ہرشئی کو جلادیتی ہے اس طرح جب نورِ ایمانی کی لَو تیز ہوتی ہے تو وہ دل سے غیر اللہ کی محبت کو جلاکرنیست و نابودکردیتی ہے ۔ اس کا ارشادہے:”آپ کہہ دیجئے کہ اللہ نے نازل فرمایاہے پھر ان کو ان کے خرافات میں کھیلنے دیجئے۔“(سورة الانعام)[92]

(2) دوسری چیز جس سے اللہ نے ایمان کو تشبیہ دی ہے وہ ”نور “ ہے۔ ارشاد ہے: ”اس کے نور کی مثال مثل ایک طاق کی ہے جس میں چراغ ہو اور چراغ شیشے کی قندیل میں ہو۔“ (سورة النور)[35]

اور اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل وجوہات کی وجہ سے عرفان الٰہی کو اپنی ذات سے منسوب کیاہے۔

(الف)اللہ تعالیٰ نے معرفت الٰہی کو اپنی ذات سے منسوب اس لئے کیاہے تاکہ شیطان مردود صاحب عرفان کو اپنی حرص و طمع کا نشانہ بنانے سے قطعی طور پر مایوس ہوجائے۔ کیونکہ معرفت بڑا انمول رتن ہے ، اس کی قیمت بہت اونچی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ صاحب عرفان کبھی غفلت کا شکار ہوجاتاہے اور شیطان اس کے مقابلے میں بڑا مکار اور چالباز واقع ہواہے، اس کا سب سے بڑا نصب العین ہی یہ ہوتاہے کہ وہ خداشناس کو معرفت حق سے محروم کردے، لیکن اللہ رب العزت نے اپنی رحمت بے پایاں سے معرفت کو اپنی حمایت میں لے رکھاہے تاکہ ابلیس اس پر اپنی حرص و طمع کی کمند نہ ڈال سکے۔ بطور شہادت اللہ کا یہ ارشاد نقل ہے جو اس نے شیطان کو مخاطب کرکے فرمایاتھا:

”میرے بندے پر تجھے کوئی غلبہ نہیں….“(سورة الحجر)[42]

اس آیت میں جب اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اپنی ذات سے منسوب کیا تو شیطان کو ان پر اپنی حرص و طمع کی کمند ڈالنے کی ساری امیدیں خاک میں مل گئیں اور وہ چیخ اٹھا۔ کہنے لگا:”پھر تو تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو یقینا بہکادوں گا بجز تیرے ان بندوں کے جو چیدہ اور پسندیدہ ہیں“ (سورہ ص)[83-82]

(ب)بندوں کے پاس جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ دراصل اللہ کی ملکیت ہوتا ہے کیونکہ وہی ان کا خالق اور پیداکرنے والا ہے ، کوئی بندہ جب اس درجہ و مقام کو پہنچ جاتاہے کہ وہ اپنی ساری پونجی اور دولت خدا کی ملکیت سمجھنے لگتاہے تو گویا وہ اپنے ایمان کے درجہ کمال کو پہنچ جاتاہے ایسی ہی صورت میں اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں فرماتاہے کہ جو کچھ اس کا ہے وہ ہمارا ہے اور جو کچھ ہمارا ہے وہ اس کا ہے اور وہ معرفت جو اس کو حاصل ہے وہ ہمار ے لئے ہے ۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ بلا شبہ اللہ نے معرفت کو اپنی ذات سے منسوب کیا ہے اور فرمایاہے :”اس کے نور کی مثال مثل ایک طاق کی ہے جس میں چراغ ہو۔“(سورة النور)[35]

(ج) کسی شئی کو ذاتِ الٰہی سے منسوب کرنا دراصل اس کی قدرو منزلت اور شرافت و عظمت کی علامت ہوتاہے جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے:

”اور میرے گھر کو طواف، قیام، رکوع، سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھنا۔ (سورة الحج)[26]

اسی طرح”یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لئے دلیل ہے۔“(سورة الانعام)[73]

اور”اور جب اللہ کا بندہ اس کی عبادت کے لئے کھڑا ہوا۔“(سورة الجن)[19]

مذکورہ آیات سے معلوم ہواکہ عرفانِ الٰہی کی ذاتِ الٰہی کی طرف اضافت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے بندوں کو حاصل ہونے والی سب سے افضل و اشرف خلعت و نوازش ہے۔ مذکورہ بحث سے متعلق کچھ سوالات ہوسکتے ہیں جن پر غورکرلینا مفید ہوگا۔

سوال1:- اللہ تعالیٰ نے نورِ ہدایت یعنی عرفانِ الٰہی کو چراغ کی روشنی سے تشبیہ دی ہے ، اس کے اندر کیاحکمت ہے؟

اس سوال کے مندرجہ ذیل جوابات ہوسکتے ہیں:

(الف) جس گھرمیں چراغ روشن ہوتاہے اس میں ذلت و رسوائی کے خوف سے کوئی چور گھسنے کی جسارت نہیں کرپاتا بالکل یہی معاملہ قلبِ انسانی کا بھی ہے ، کیونکہ جب خانہء دل میں معرفتِ الٰہی کا چراغ روشن ہوتاہے تو شیطان اپنے ذلیل و خوار ہونے کے ڈر سے اس دل میں گھر کرنے کی جراءت نہیں کرپاتا۔

(ب) جس گھرمیں چراغ روشن ہوتاہے ، اس کے مالک کو گھر کے سامان ڈھونڈنے میں آسانی ہوتی ہے ۔ ٹھیک یہی حال انسانی دل کا بھی ہوتاہے ،کیونکہ جب اس میں عرفانِ الٰہی کا چراغ روشن ہوتاہے تو وہ اس کی مدد سے مشروعاتِ الٰہیہ تک رسائی حاصل کرلیتاہے۔

(ج) جب کسی گھرمیں چراغ روشن ہوتاہے تو اس کی روشنی سے نہ صرف یہ کہ صاحب خانہ ہی تنہا مستفید ہوتاہے بلکہ اس کے علاوہ سبھی افراد خانہ اس چراغ سے یکساں استفادہ کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح معرفت الٰہی سے منور دل سے بھی دوسرے لوگ یکساں استفادہ کرتے ہیں۔

(د) جس طرح کسی گھر کے اندر شیشے سے پیک روشندان کے اندر روشن چراغ اندرون خانہ اور بیرون خانہ دونوں کو اپنی روشنی سے منور کرتاہے اسی طرح چراغِ معرفتِ الٰہی قلبِ انسانی کے ظاہرو باطن دونون کو ضوفشانی عطاکرتا ہے یہاں تک کہ اس چراغِ عرفانِ الٰہی کا نور آنکھوں، کانوں اور زبانوں تک پر ظاہر ہوتاہے جس کے نتیجے میں ان اعضاءسے مختلف قسم کی اطاعت وبندگی کا ظہور ہوتاہے۔ امام ترمذی نے دعا کے باب میں ابن مسعودؓ سے جو روایت نقل کی ہے اس میں آنحضرت ﷺ کا اشارہ اسی نورِ ہدایت کی طرف ہے ۔ وہ حدیث یہ ہے:

”اللھم اجعل فی قلبی نوراً وفی سمعی نورا وفی بصری نورا و فی عظمی نورا و فی مخی نورا [اخرجہ الترمذی فی الدعوات عن ابن مسعودؓ]

(هـ) جب تک کسی گھر میں چراغ روشن ہوتاہے اس وقت تک صاحب خانہ خوش اور مسرور رہتاہے ، لیکن جیسے ہی چراغ بجھتاہے وہ ڈروخوف محسوس کرنے لگتاہے۔ ٹھیک اسی طرح جب دل کے اندر چراغِ معرفت روشن ہوتاہے انسان شادکام رہتاہے لیکن جیسے ہی وہ اس نورِ ہدایت سے محروم ہوتاہے وہ غم و اندوہ کا شکار ہوجاتاہے۔ اس حقیقت کی طرف اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اشارہ فرمایاہے:

”سوجس شخص کو اللہ تعالیٰ راستہ پر ڈالنا چاہے اس کے سینے کو اسلام کے لئے کشادہ کردیتا ہے اور جسے بے راہ رکھنا چاہے اس کے سینہ کو بہت تنگ کردیتاہے۔ جیسے کوئی آسمان میں چڑھتا ہو۔ (سورة الانعام)[125]

(و) جس طرح چراغ کا ظاہری جسم و ڈھانچہ چھوٹا ہونے کے باوجود اس کی روشنی چہار جانب بکھرتی ہے اسی طرح نورِ ہدایت قلب انسانی کے چہار سو ضوفشانی کرتاہے جیساکہ اللہ کا ارشادہے:

”اورمشرق و مغرب کا مالک اللہ ہی ہے تم جدھر بھی منھ کرو ادھر ہی اللہ کا منھ ہے۔“ (سورة البقرة)[115]

”اور خصوصاًاوپر کی جانب“ تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں۔“ (سورة الفاطر)[10]

سوال 2:- چراغ معرفت الٰہی اور چراغِ عالم آب و گل یعنی سورج کے درمیان فرق کیا ہے؟

یہ فرق مندرجہ ذیل ہیں:

(الف)سورج پے بدلیاں چھاجاتی ہیں، اسے ڈھانک لیتی ہیں، چھپالیتی ہیں، لیکن معرفت الٰہی کے چراغ کو سات آسمان بھی محجوب نہیں کرپاتے۔

(ب)سورج شب میں پردہ خفاءمیں چھپ جاتاہے ، لیکن چراغِ معرفت الٰہی نہ تو دن میں غائب ہوتاہے اور نہ ہی رات میں بلکہ رات میں تو یہ اور بھی زیادہ ضوفشانی کرتاہے جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے:

”بے شک رات کا اٹھنا دل جمعی کے لئے انتہائی مناسب ہے۔“(سورةالمزمل)[6]

”پاک وہ اللہ جس نے اپنے بندے کو رات ہی رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ، ہم نے برکت دے رکھی ہے۔“(سورة الاسراء)[1]

”شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہترہے۔“(سورة القدر)[3]

(ج)سورج ایک روز فنا ہوجائے گا جیساکہ قرآنی آیت سے معلوم ہوتاہے ۔ ”جب سورج لپیٹ دیاجائے گا۔“(سورة التکویر)[1]اس کے برعکس معرفت الٰہی کو ابدیت حاصل ہے ، اسے فنا نہیں ہونا ہے جیساکہ ارشادہے:”ہرچیز فنا ہونے والی ہے مگر اسی کا منھ“ یعنی علاوہ اس کے جو اللہ کی رضا سے حاصل ہو۔(سورة القصص)[88]

(د) سورج ظاہرہوتاہے لیکن معرفت ظہور میں نہیں آتی۔ دکھائی نہیں دیتی۔

(ہ) سورج چیزوں کوکالا کردیتاہے لیکن معرفت ان کو جلابخشتی ہے۔

(و) سورج جلاتاہے لیکن معرفت نارِ جہنم سے نجات دلاتی ہے۔

(ز) سورج کبھی مفید ہوتاہے تو کبھی مضر، لیکن معرفت ہمیشہ مفید ہوتی ہے، کبھی بھی مضرنہیں.

(ح) سورج کے فوائد صرف دنیا تک محدود ہیں لیکن معرفت کے فوائد دنیا و آخرت دونوں پرمحیط ہیں۔

(ط) سورج اہل زمیں کے لئے زینت ہوتاہے تو معرفت اہل آسماں کے لئے۔

(ى) سورج اونچائی پر واقع ہوتاہے اور اپنے ماتحت کو منور کرتاہے جبکہ معرفت مومن کے دل میں اندر ہوتی ہے اور اپنے مافوق کو روشن کرتی ہے۔

(ك)سورج سے کائنات کا وجود ظاہرہوتاہے لیکن معرفت سے خالق کائنات کا علم حاصل ہوتاہے ، اس کی دلیل امیرالمومنین حضرت علیؓ کا وہ قول ہے جو انھوں نے اس سوال کے جواب میں فرمایاکہ ”کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟“ تو آپ نے کہا:”میں کسی ایسے رب کی بندگی نہیں کرتا جس کومیں نے دیکھا ہی نہ ہو۔“

(ل)سورج اللہ کے دشمن و دوست دونوں کو اپنی روشنی سے مستفید کرتا ہے لیکن معرفت صرف اولیاءاللہ ہی کو حاصل ہوتی ہے۔

(م) سورج کا فائدہ انسان کو صرف دنیوی زندگی میں حاصل ہوتاہے اس کے برعکس معرفت الٰہی کی بیج آوری انسان دنیا میں کرتاہے اور آخرت میں اس سے مستفید ہوتاہے۔

(ن)سورج مخلوق کا چراغ ہے اور معرفت خالق کائنات کا۔

(س)اجرام سماویہ کی جائے طلوع آسمان ہے اور معرفت کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔

(ع) یہ اجرام سماویہ خالق کائنات کی بہت سی علامتیں اپنے اندر رکھتے ہیں جبکہ معرفت اللہ کا فیض و کرم ہے جس کو چاہتاہے اسے نوازتاہے۔

سوال3:- چراغ دنیا اور معرفت الٰہی میں کیا فرق ہے؟

حسب ذیل فرق ہے:

(الف) دنیوی چراغ کی روشنی میں تاریکی کی آمیزش ہوتی ہے یہ تاریکی وہ دھواں ہے جو اسے اونچا اٹھاتاہے، اس کے برعکس معرفت الٰہی کے چراغ کی روشنی صاف شفاف ہواکرتی ہے، یہاں تاریکی کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔

(ب) دنیوی چراغ دوسروں کو نفع پہنچانے کے لئے خود کوجلاتاہے لیکن معرفت الٰہی کا چراغ گناہوں کو جلاتاہے۔ قلب انسانی کو منور کرتاہے اور اندرون کو راحت پہنچاتاہے۔

(ج) دنیوی چراغ کی روشنی سورج کے مقابلے میں مدھم پڑجاتی ہے لیکن توحید و ایمان کے چراغ سے خود سورج کی روشنی ماند پڑجاتی ہے۔

(د)چراغ دنیوی بے وفا ہوتاہے کیونکہ جو شخص اس میں بتی لگاتاہے اسے روشن کرتاہے یہ اسے بھی اس طرح جلاسکتاہے جس طرح نہ جلانے والے کو جلاتاہے ۔ اس کے برعکس عرفانِ الٰہی کا چراغ باوفا ہوتاہے، کیونکہ وہ اپنے روشن کرنے والے کو جلاتا نہیں بلکہ اسے جلنے سے بچاتا ہے۔

سوال 4:- معرفت کو چراغ سے تشبیہ دینے میں کون سی حکمت مضمر ہے؟

(۱لف) پہلی حکمت تو یہ ہے کہ چراغ کے لئے ہو امضر ہوتی ہے اور معرفت کے لئے وسوسہ۔

(ب) دوسری حکمت یہ ہے کہ چراغ بغیر تیل کے نہیں جل سکتا، اسی طرح معرفت الٰہی بھی اللہ کی توفیق و عنایت خاص کے بغیر باقی نہیں رہتی ۔

(ج) چراغ کے لئے ایک محافظ و نگراں کا ہونا ضروری ہوتاہے ، اسی طرح معرفت کے لئے بھی محافظ و نگراں ناگزیرہے اور یہ نگراں اللہ کی رحمت اور اس کا فضلِ خاص ہی ہوسکتاہے۔

سوال 5:- دل کو شیشہ سے تشبیہ دینے میں کونسی حکمت کارفرما ہے؟

اس کے اندر مندرجہ ذیل حکمتیں کارفرما ہیں:

(الف) سونا اور چاندی بلاشبہ قیمتی ہوتے ہیںلیکن حقیقت میں ان کے اندر کثافت ہوا کرتی ہے ، اگر ان کو دو چیزوں کے درمیان رکھ دیا جائے تو حجاب بن جاتے ہیں اس کے برعکس شیشہ اگرچہ وہ قیمتی نہیں ، پھر بھی اپنے اندر لطافت رکھتاہے وہ صاف اور شفاف ہوتاہے ، اس سے پردہ و حجاب کا کام نہیں لیاجاسکتا۔ کیونکہ اس کے باطن سے ظاہر کو اور ظاہر سے باطن کو بآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی رفع حجاب کے لئے اللہ نے اس مثال کو ذکر فرما یا ہے۔

(ب) انسان شیشے کے برتن کے لئے نہیں بلکہ اس کے اندر جو کچھ موجود ہوتاہے، دراصل اس کے لئے فکر مند ہوتاہے بالکل ایسے ہی جیسے کہ وہ اپنے دل کے لئے نہیں بلکہ اس کے اندر موجود ایمان کے لئے فکرمند ہوتا ہے۔

(ج) شیشہ ٹوٹ جانے کے بعد جب تک اس کو بھٹی میں ڈال کر پگھلایانہ جائے وہ درست نہیں ہوسکتا ، بالکل یہی معاملہ دل کا بھی ہے۔ جب اس کے اندر فساد پیدا ہوجاتاہے تو اس کی اصلاح بھی اسی طریقہ سے ممکن ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

”تم میں سے ہر ایک وہاں ضرور وارد ہونے والا ہے ۔ یہ تیرے پروردگار کا ذمہ قطعی فیصلہ شدہ امر ہے۔(سورہ مریم)[72-71]

(د) جس کے پاس سونا اور چاندی ہوتی ہے ، وہ ان کے ٹوٹنے سے ڈرتا نہیں کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے سونا اور چاندی کی قیمت میں کوئی فرق پڑنے والا نہیں، لیکن اس کے برعکس جس کے پاس شیشہ ہوتاہے وہ بڑا چوکنا اور مستعد رہتاہے کیونکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوتاہے کہ شیشہ کے ٹوٹنے سے اس کی قیمت بھی باطل ہوجائے گی۔ اسی بیداری اور مستعدی کا ثبوت ایک مومن کو بھی دینا چاہئے نہ کہ صاحب سیم و زر کی طرح مامون رہے۔

(ہ) شیشے سے نکلنے والی روشنی سونے اور چاندی کے اندر موجود روشنی سے کہیں زیادہ حسین، دلکش اور کامل ہواکرتی ہے۔”أنا عند المکسرة قلوبھم“ میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔

سوال6:- شیشہ کو کوکب دری سے تشبیہ دینے میں کونسی حکمت مضمرہے؟

اس سوال کے متعددجواب ہوسکتے ہیں:

(الف) اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ستارے اہل زمیں کے لئے راہ نما ہوتے ہیں ”اور ستاروں سے بھی لوگ راہ حاصل کرتے ہیں۔“(سورة النحل)[16]

یہی ستارے اہل آسمان کے لئے سامان زینت ہیں۔

”ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا۔“(سورة الصافات)[6]

بالکل یہی حال دلِ مومن کا بھی ہے کیونکہ وہ اہل ایمان کو خیرات و صالحات کی طرف رہنمائی کرتاہے اور ساتھ ہی ساتھ اہلِ آسمان کے لئے سامانِ تفریح بھی ہے۔ اس لئے کہ عارف باللہ کی معرفت کے سلسلے میں مروی ہے کہ وہ اہل آسماں کے لئے بالکل ایسے ہی ضوفشانی کرتی ہے جس طرح ستارے اہل زمیں کے لئے روشنی بکھیرتے ہیں۔

(ب) ستاروں پر شیاطین کو قدرت و غلبہ حاصل نہیں ہوتاہے، بلکہ ستارے خود ہی شیاطین کو مارتے ہیں جیساکہ ارشادہے:

”بے شک ہم نے آسمانِ دنیا کو چراغوں(ستاروں) سے آراستہ کیا اور انھیں شیاطین کے مارنے کا ذریعہ بنادیا“(سورة الملک)[5]

ٹھیک اسی طرح ایک مومن کے دل تک بھی شیاطین کو رسائی حاصل نہیں ہوتی بلکہ مزیدبرآں اس کے دل کا نور اور ایمان خود ہی شیاطین کو جلاکر خاکسترکردیتے ہیں۔ اسی کے مد نظراللہ نے ارشاد فرمایاہے:

”میرے بندوں پر تجھے کوئی غلبہ نہیں“(سورة الحجر)[42]

اور فرمایا:”جولوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتاہے۔“(سورة الناس)[1]

مذکورہ آیت میں اللہ نے لوگوں کے سینوں میں ”جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں نہ کہ لوگوں کے دلوں میں“ اسی سلسلے میں مزید ارشاد ربانی ہے:

”یقینا جولوگ خدا ترس ہیں جب ان کوکوئی خطرہ شیطان کی طرف سے آجاتاہے تو وہ یاد میں لگ جاتے ہیں۔ سویکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔“(سورة الاعراف)[201]

یہی تفکر اور تذکر نورایمانی کا ظہور ہوتاہے اور آنکھیں کھل جانے سے اشارہ شیاطین کے وسوسوں کو جلانا ہے۔

سوال7:- کس حکمتِ بالغہ کے پیش نظر اللہ نے دل کو سورج و چاند کے بجائے ستارے سے تشبیہ دی ہے؟

مندرجہ ذیل تین حکمتوں کے پیش نظر اللہ نے ایسا کیا ہے:

(الف) ستارے دن کو آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہیں اور صرف شب میں ظاہرہوتے ہیں ، بالکل اسی طرح عارف باللہ بھی دن کی روشنی میں لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتاہے لیکن جیسے ہی رات تاریکی کی چادر زیب تن کرتی ہے وہ خدمت خلق اور بندگیء خالق کائنات کا مظہراتم بن جاتاہے۔

(ب) ستارے آسمانِ دنیا کے لئے سامانِ فرحت و زینت ہوتے ہیں تو دل صاحبِ معرفت کے لئے زینت ہوتا ہے۔

(ج) اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ستارے آسمان کے چراغ ہیں۔

”بے شک ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں(ستاروں ) سے آراستہ کیا۔ (سورة الملک)[5]

سوال8:- کیاایمان کو چراغ سے تشبیہ دینے میں اہل ایمان کے لئے کوئی بشارت ہے؟

اس سوال کے مندرجہ ذیل جوابات ہوسکتے ہیں:

(الف) سورج ایک ایسا چراغ ہے جس کو اللہ نے ایک روز فنا ہوجانے کے لئے روشن کررکھا ہے۔ کسی کے دست قدرت میں نہیں کہ سورج کو محروم روشنی کردے اس کے بالمقابل معرفت حق کے چراغ کو اللہ رب العزت نے بقاء کے لئے روشن کیا ہے ، لہٰذا ابلیس اس کو بجھانے پر کیسے قادر ہوسکتاہے۔

(ب) اللہ نے سورج کو آسمان میں روشن کررکھا ہے جو اتنی دوری پر واقع ہونے کے باوجود آپ کے گھر سے ظلمت و تاریکی کو دور کرتاہے تو پھر جس آفتابِ معرفت کو اللہ نے قلب انسانی میں چمکارکھاہے، وہ شدتِ قرب کی وجہ سے معصیت و گمرہی کی تاریکی کو کیسے دور نہیں کرے گا؟

(ج) جوشخص کوئی چراغ جلاتاہے ، اسی پر اس کی حفاظت و نگرانی بھی عائد ہوتی ہے ۔ آفتابِ معرفت کو روشن کرنے والا خود خالق کائنات ہے۔ ارشاد ربانی ہے :”ان کے دلوں میں اللہ نے لکھ دیا ہے ایمان۔“(سورة المجادلة)[22]

”پس یقینا اللہ نے اپنی رحمت پر اس کی مدد اور حفاظت کو واجب کررکھاہے۔ارشاد ہے: ”ہم نے آپ اتاری ہے یہ نصیحت اور ہم آپ نگہ بان ہیں اس کے ۔“(سورة الحجر)[9]

(د) چورجب کسی گھر میں چراغ جلتے ہوئے پاتاہے تو اس گھر میں چوری کی ہمت نہیں کرپاتا۔ جب اللہ نے آپ کے قلب میں چراغِ ہدایت روشن کردیا ہے تو پھر شیطان آپ سے کیسے قریب ہوسکتاہے؟

(ه) مجوسی آگ جلاتے ہیں اور پھر اس کو بجھانا نہیں چاہتے۔ اللہ جو سارے جہاں کا مالک ہے اور ہر عیب و نقص سے جس کی ذات پاک ہے، نے آپ کے قلب میں معرفت اور اپنی محبت کی آگ بھڑکائی وہ اس کے بجھنے کو کیسے پسند کرے گا؟

(و) جوشخص کوئی چراغ جلانا چاہتاہے اسے چھ چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے:

1- چقماق، 2- پتھر،3- تپش و جلن،4- گندھک،5- چراغدان،6- فتیلہ و تیل

(ز) کسی بندے کو جب چراغِ معرفت جلانا مطلوب ہوتو اسے بھی جدوجہد کی زنّاردرکار ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :”اور جنھوں نے محنت کی ہمارے واسطے ہم سمجھادیں گے ان کو اپنی راہیں“(سورة العنکبوت)[69]اسے تضرّع کا پتھر مطلوب ہوتاہے۔”پکارو اپنے رب کو گڑگڑاکر اور چپکے چپکے“(سورة الاعراف)[55] رہا تپش اور جلن تو وہ نفس کو خواہشات کی پیروی سے روکنے میں پیش آنے والی مشکلات کی بھٹی میں جلانا ہے ۔”اور روکا ہوا س نے جی کو خواہش سے“(سورة النازعات)[40] انابت کی گندھک:”اور رجوع ہوجاؤ اپنے رب کی طرف“(سورة الزمر)[54] صبرکاچراغدان”اور صبرکرو ، یقینا اللہ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔“(سورة الانفال)[46] شکر کا فتیلہ”اور شکرکرو اللہ کے احسان کا اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔“(سورة النحل )[114] اللہ کے فیصلہ پر راضی ہوجانے کا تیل:”اور تو ٹھہرارہ منتظر اپنے رب کے حکم کا“(سورة الطور)[48] حضور اکرم ﷺ کا ارشادہے: ”الرضا بالقضاءباب اللہ الآعظم“

عہد عبودیت کی پاسداری، نگرانی اور محافظت کے سلسلے میں آپ کو یہی روش اختیار کرنی چاہئے اور جب آپ عبودیت میں وفاداری کا ثبوت دیں گے تو پھر اللہ تو عہد ربوبیت کے پورا کرنے کا اور بھی سزاوار ہے۔ ارشاد ہے: ”اور تم پورا کرو میرا اقرار تو میں پورا کروں تمہارا اقرار“(سورة البقرة)[40]

لہٰذااس معرفت کو اپنے دل کے اندر اور اس یاددہانی کو اپنی زبان پر محفوظ کرلو۔ اسے ایسا نور بنالو جو آپ کے ساتھ قبر کی تنہائی میں رہے۔ تاریکیوں میں قندیل رہبانی ثابت رہے اور قیامت میں موجب نجات۔

3- تیسری چیز مٹی: اللہ نے ایمان کو مٹی سے تشبیہ دی ہے ۔ ارشاد ہے:”اورجو شہر پاکیزہ ہے اس کا سبزہ نکلتاہے ، اس کے رب کے حکم سے“(سورة الاعراف)[58] اس مشابہت کے اسباب درج ذیل ہیں:

۱-مٹی امانت دار ہوتی ہے ۔ جوکوئی اس کے پاس کوئی چیز ودیعت کے طور پر رکھتاہے مٹی اسے کئی گنا بڑھاکر لوٹاتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے”ہربالی میں سودانے“(سورة البقرة)[261] بالکل اسی طرح جب کوئی مومن عمل صالح کرتاہے تو اس کا بدلہ اسے روز محشر کئی گنازیادہ ملے گا۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ”صبرکرنے والوں ہی کو ان کا ثواب بے شمار دیاجائے گا۔“(سورة الزمر)[10]

2- زمین کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس پر ہر قسم کی گندگی و غلاظت کو انڈیل دیا جاتاہے اور عمدہ اور خوبصورت چیزوں کو اس کا سینہ چیر کر نکال لیا جاتا ہے۔ ٹھیک یہی معاملہ ایمان کی زمین کا بھی ہے۔ جس پر کفرو شرک اور گناہوں کی ساری غلاظت کو پھینکا جاتاہے لیکن اس کے اندر سے رحمت و مغفرت اور رضائے الٰہی کی فصل لہلہا اٹھتی ہے ۔ ارشاد باری ہے:”سوان کو بدل دے گا اللہ برائیوں کی جگہ بھلائیاں“(سورة الفرقان)[70]

(3) زمین کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ آپ کے لئے دودھ پلانے والی ماں کی طرح ہے ۔ یایوں کہہ لیجئے کہ ماں کی گود ہے۔ ارشادہے:”کیاہم نے نہیں بنایا زمین کو بچھونا“(سورة النبا) [6] اور زمین آپ کے لئے خزانے کے مانند ہے”وہ ہے جس نے پیدا کیا تمہارے واسطے جو کچھ زمین میں ہے“(سورة البقرہ)[29] اور مشفق ماں کی مثل ہے :”اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے ، اسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے“(سورة طٰہٰ) [55]ایمان بھی بالکل ایسا ہی ہے ۔ اسی سے آپ کو دنیا و آخرت میں تمام فوائد نصیب ہوں گے۔

4- چوتھی چیز: پانی

ایمان اور قرآن کو اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں سے تشبیہ دی ہے ، ان میں چوتھے نمبرپرپانی ہے۔ اللہ کا ارشادہے: ”اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہرندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اس سے لے کر چل نکلا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لئے لوگ پگھلاتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتاہے ، جوجھاگ ہے وہ اڑجایاکرتاہے اور جوچیز انسانوں کے لئے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہرجاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتاہے۔“(سورة الرعد)[17]

یعنی ایمان اور کفر۔ یہاں جھاگ سے مراد کفر ہے اور پانی سے مراد ایمان ہے۔ اس تشبیہ کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:

1-پانی کپڑے سے نجاست کو دور کردیتاہے ”اور ہم نے آسمان سے پاک پانی نازل کیا“ (سورة الفرقان)[5]”اور اپنے کپڑے پاک رکھو“(سورة المدثر)[4] ایمان بھی بالکل اسی طرح قلب انسانی سے کفرومعصیت کی نجاست کو دور کردیتاہے۔ رسول اکرم ﷺ کا قول ہے: ”اسلام اپنے سے پہلے کی چیزوں یعنی نجاستوں کو مٹادیتاہے۔“

2- اللہ نے آسمان سے نازل پانی کو رحمت کا نام دیاہے”اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لئے ہوئے بھیجتاہے۔“(سورة الاعراف)[57] اللہ نے قرآن کو بھی رحمت سے موسوم کیاہے”مومنین کے لئے رہنمائی اور رحمت ہے “سورہ یونس)[57] ایمان کو رحمت اور باعث رحمت قرار دیاہے”یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کردیاہے“ (سورة المجادلة)[22]”تمہارے رب نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کرلیا ہے“(سورة الانعام) [54] اسی وجہ سے اللہ نے بلاشبہ ایمان و قرآن کو پانی سے تشبیہ دی ہے۔

3- اللہ نے قرآن کو ”مبارک“ کہاہے ”اور یہ مبارک ذکر ہم نے تمہارے لئے نازل کیاہے“(سورة الانبیاء)[50]

اسی طرح سے پانی کے سلسلے میں ارشاد ہے”اور آسمان سے ہم نے برکت والا پانی نازل کیا“ ۔(سورہ ق)[4]

معلوم ہوا کہ چونکہ قرآن اور پانی دونوں مبارک ہیں اسی لئے ایمان اور قرآن کو پانی سے تشبیہ دی گئی ہے۔

4- پانی نفوس کے لئے شفاہے تو یہ قرآن دلوں کے لئے نسخہء کیمیا ہے۔”ہم اس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کررہے ہیں جو ماننے والوں کے لئے شفاءاور رحمت ہے“(سورة الاسراء)[82]

5- جس طرح سے اللہ جب آسمان سے بارش نازل کرتاہے تو اسے روکنے کی قدرت و طاقت کسی میں نہیں ہوتی ، ٹھیک اس طرح جب اس نے آسمان سے قرآن نازل فرمایا تو اسے کوئی روک نہ سکا اور نہ ہی قرآن میں کسی طرح کی آمیزش کرسکا۔”یہ ایک زبردست کتاب ہے، باطل نہ سامنے سے اس پر آسکتاہے نہ پیچھے سے“ (سورہ فصلت) [42-41)

6- جس طرح کوئی مخلوق بارش کے پانی کے قطروں کی تعداد کو گننے پر قادر نہیں اسی طرح سے کوئی بھی قرآن کے اسرار اور حقائق کی باریکیوں کا احاطہ نہیں کرسکتا۔

7- جس طرح بارش آسمان سے قطرہ قطرہ نازل ہوتی ہے پھر زمین پر نہرو ں کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور آخرمیں بحر بیکراں بن جاتی ہے ، بالکل اسی طرح قرآن بھی شروع میں آیتوں کی شکل میں نازل ہوا پھر قسط وار اور بالآخر نہروں اور سمندروں کی سی وسعت و گہرائی کا مظہر بن گیا۔ حدیث میں وارد ہے کہ :قرآن ایک ایسا بحر ناپیداکنار ہے جس کی گہرائی و گیرائی کا ادراک محال ہے۔

8- جیساکہ اگر بارش آسمان سے یکبارگی نازل ہوتی تو درختوں کو اکھاڑپھینکتی اور بستیاں ویران ہوجاتیں اور بارش سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا۔ اسی طرح اگر قرآن بھی مکمل شکل میں نازل ہوتا تو لوگ اس کو سمجھ نہ پاتے اور اوہام و لغویات کا بول بالا ہوجاتا۔ ارشادہے:”اگرہم نے یہ قرآن کسی پہاڑپر بھی اتاردیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دباجارہاہے اور پھٹا پڑتا ہے“ (سورة الحشر)[21]

9- جس طرح اللہ تعالیٰ بارش سے مردہ زمین کو زندہ کردیتاہے اور اس سے ہری بھری کھیتیاں لہلہا اٹھتی ہیں، ٹھیک اسی طرح وہ قرآن سے مردہ قلوب کو زندگی بخشتاہے۔ ارشادہے: ”کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندگی بخشی“(سورة الانعام)[122]

10- جس طرح زمین پر نازل ہونے والی بارش کے ایک قطرہ سے کہیں پھول اور خوشبو کا ظہور ہوتاہے تو دوسری بوند سے کانٹے اور زہر جنم لیتے ہیں، اسی طرح قرآن جب قلب مومن پر واقع ہوتاہے تو عبودیت و بندگی کا پھول کھلتاہے اور سمع و طاعت کی عطربیزی سے پوری فضا معطرہوا ٹھتی ہے، لیکن قرآن جب کافر کے دل پر نازل ہوتاہے تو اس سے کفر و شرک کا زہر اور معصیت و سرکشی کا کانٹا جنم لیتاہے۔ اللہ کا ارشاد ہے۔ ”اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھادیتاہے“(سورة البقرة) [26]

11- آسمان سے نازل پانی دوسرے تمام پانیوں سے بے نیاز کردیتا ہے۔ اسی طرح قرآن انسان کو جملہ علوم و کتب سماویہ سے مستغنی کردیتا ہے۔

12- گہرے پانی میں جب کوئی ایسا شخص داخل ہوجاتاہے جس کو اچھی طرح تیرنا نہیں آتا تو وہ ہلاکت و بربادی سے دوچار ہوجاتاہے ، اسی طرح قرآن کے بارے میں کوئی شخص جب بغیر علم کے کلام کرتاہے تو اس کا بھی انجام ہلاکت و بربادی ہوتاہے، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے: ”جوکوئی قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرتاہے اسے اپنا ٹھکانہ جہنم بنالیناچاہئے۔“

13- جس طرح ضرورت سے زیادہ پینانقصان دہ ثابت ہوتاہے اسی طرح قرآن کے بارے میں اپنی فہم وادراک سے زیادہ کلام بھی مہلک ثابت ہوتاہے۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: ”مجھے حکم ہوا ہے کہ لوگوں کی عقل و فہم کے مطابق ان سے کلام کروں۔“

14- جب ابرباراں کا نزول ہوتاہے تو قحط سالی کا خاتمہ ہوجاتاہے ۔ نباتات اگتے ہیں۔ غذاؤں کی فراوانی ہوتی ہے اور پھلوں و میوہ جات سے عالم فطرت کی گود بھرجاتی ہے۔ نزول قرآن سے پہلے سرزمین دین و مذہب بھی قحط زدہ تھی۔ نزولِ قرآن سے یہ قحط زائل ہوا اور روح انسانی کے لئے انواع و اقسام کے پھل، غذا اور میوے کی فصلیں لہلہا اٹھیں۔ قرآن توحید، رسالت و نبوت اور مشروعات کا بیان ہے۔

15- جس طرح پانی آگ کو بجھادیتاہے ،اسی طرح ایمان اور قرآن بھی مومن سے جہنم کی آگ کو بجھادیتے ہیں۔

5- پانچویں چیز: رسی

پانچویں چیز جس سے اللہ نے ایمان کو تشبیہ دی وہ رسی ہے۔ اللہ کا ارشادہے: ”اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑلو“(سورة آل عمران)[103] اس تشبیہ کی درج ذیل وجوہات ہیں:

1- جوکوئی پستی سے بلندی پر چڑھناچاہتاہے اور اسے پھسلنے کا خوف لاحق ہواگروہ کسی رسی کو مضبوطی سے تھام لے تو وہ خوف و ڈر سے مامون ہوجاتا ہے اور بلندی تک پہنچ جائے گا۔ اسی طرح جب بندہ بشریت سے متعلق پستی سے اٹھ کر عالم جاہ و جلال اور مقامِ کبریائی پر فائز ہونا چاہتا ہے اور اسے یہ ڈرستارہاہوکہ اس کی عقل اسے دھوکہ دے سکتی ہے ، ایسی حالت میں اگر وہ قرآن کو مضبوطی سے پکڑ لے تو وہ خطرات سے محفوظ رہے گا۔

2- جب کوئی نابینا شخص کسی جگہ جانا چاہتا ہے اور اس جگہ تک ایک رسی پھیلادی جاتی ہے ، اسے ایک رسی کا سہارا مل جاتا ہے تو وہ اس کو پکڑکر بلاخوف و خطر منزل تک پہنچ جاتاہے۔ تو حید و معرفت کی شاہراہ پر گامزن ہونے میں عقل انسانی بھی نابینا شخص کی طرح ہے ۔ اگر اسے قرآن کی صورت میں مضبوط رسی فراہم ہے تو وہ خوف و خطر سے مامون رہتی ہے۔

3- جب کوئی شخص کنوےں میں گرپڑتاہے تو اس کے نکالنے کی سبیل یہ ہے کہ اس تک کوئی رسی لٹکادی جائے جس کو وہ پکڑلے اور اوپرچڑھ آئے اور ہلاکت سے بچ سکے۔ انسانیت بھی ضلالت و گمرہی کے گڈھے میں گرپڑی تھی۔ اللہ نے قرآنی رسی اسے فراہم کی ۔ جن پاکیزہ لوگوں نے اس رسی کو پکڑ ا وہ بلندی درجات سے سرفراز ہوئے اور کامیابی نے ان کے قدم چوما۔ جن لوگوں نے اس رسی کو نہیں تھاما وہ ظلمت و تاریکی کی گہری کھائی میں گرپڑے اور ہلاک ہوگئے۔

6- چھٹی چیز: زیتون کادرخت

جن چیزوں سے اللہ نے ایمان کو تشبیہ دی ہے ان میں سے چھٹی چیز زیتون کا درخت ہے۔ ارشاد ہے ”اور وہ درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو طورسیناء سے نکلاہے۔ تیل بھی لئے ہوئے اگتا ہے اور کھانے والوں کے لئے سالن بھی“(سورة المؤمنون)[20] اس تشبیہ کے سلسلے میں دو باتیں کہی گئی ہیں۔

1- اللہ نے ایمان کو اس درخت سے محض اس وجہ سے تشبیہ دی ہے کہ یہ درخت زیادہ تر پاک جگہوں پر ہی اگتا اور پروان چڑھتاہے ۔ اسی طرح معرفت بھی ہرجگہ نہیں ٹھہرتی بلکہ نفوس ذکیہ کے اندر ہی یہ اپنا مستقر بناتی ہے۔

2- زیتون کے درخت سے حاصل شدہ پھلوں سے ہی صاف ترین تیل نکلتا ہے ۔ بالکل اسی طرح قلب مومن ہی سے ایمان ومعرفت کے نور کا ظہور ممکن ہے جو سب سے زیادہ صاف و شفاف اور اشرف ہے۔

تبصرے بند ہیں۔