قرآن انسان کو تدبر اور تفکر کی دعوت دیتا ہے(دوسری قسط)

عبدالعزیز

حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’تفسیر ترجمان القرآن‘‘ میں لکھا ہے:

بُرہانِ رُبوبیت: چنانچہ اس سلسلہ میں اس نے مظاہر کائنات کے جن مقاصد و مصالح سے استدلال کیا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ عام استدلال ربوبیت سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ کائنات کے تمام اعمال و مظاہرہ کا اس طرح واقع ہونا کہ ہر چیز پرورش کرنے والی اور ہر تاثیر زندگی بخشنے والی ہے اور پھر ایک ایسے نظام ربوبیت کا موجود ہونا جو ہر حالت کی رعایت کرتا اور ہر طرح کی مناسبت ملحوظ رکھتا ہے، ہر انسان کو وجدانی طور پر یقین دلا دیتا ہے کہ ایک پروردگار عالم ہستی موجود ہے اور وہ ان تمام صفتوں سے متصف ہے جن کے بغیر نظام ربوبیت کا یہ کامل اور بے عیب کارخانہ وجود میں نہیں آسکتا تھا۔

 وہ کہتا ہے، کیا انسان کا وجدان یہ باور کرسکتا ہے کہ نظام ربوبیت کا یہ پورا کارخانہ خود بخود وجود میں آجائے اور کوئی زندگی، کوئی ارادہ، کوئی حکمت اسکے اندر کار فرمانہ ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اس کارخانۂ ہستی کی ہر چیز میں ایک بولتی ہوئی پروردگاری اور ایک ابھری ہوئی کارسازی موجود ہو، مگر کوئی پروردگار، کوئی کارساز موجود نہ ہو؟ پھر کیا یہ محض ایک اندھی بہری فطرت، بے جان مادہ اور بے حس الیکٹرون کے خواص ہیں ، جن سے پروردگاری و کارسازی کا یہ پورا کارخانہ ظہور میں آگیا ہے؟ اور اور عقل اور ارادہ رکھنے والی کوئی ہستی موجود نہیں ؟

  پروردگاری موجود ہے مگر کوئی پروردگار موجود نہیں ! کارسازی موجود ہے مگر کوئی کارساز موجود نہیں ! رحمت موجود ہے مگر کوئی رحیم نہیں ! حکمت موجود ہے مگر کوئی حکیم موجود نہیں ! سب کچھ موجود ہے مگر کوئی موجودنہیں ! عمل بغیر کسی عامل کے، نظم بغیر کسی ناظم کے، قیام بغیر کسی قیوم کے، عمارت بغیر کسی معمار کے، نقش بغیر نقاش کے، سب کچھ بغیر کسی موجود کے، نہیں ، انسان کی فطرت کبھی یہ باورنہیں کرسکتی۔ اس کا وجدان پکارتا ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ۔ اس کی فطرت اپنی بناوٹ میں ایک ایسا سانچا لے کر آئی ہے جس میں یقین و ایمان ہی ڈھل سکتا ہے۔ شک اور انکار کی اس میں سمائی نہیں !

قرآن کہتا ہے، یہ بات انسان کے وجدانی اذعان کے خلاف ہے کہ وہ نظام ربوبیت کا مطالعہ کرے اور ایک رب العالمین ہستی کا یقین اس کے اندر جاگ نہ اٹھے، وہ کہتا ہے، ایک انسان غفلت کی سرشاری اور سرکشی کے ہیجان میں ہر چیز سے انکار کر دے سکتا ہے لیکن اپنی فطرت سے انکار نہیں کرسکتا۔ وہ ہر چیز کے خلاف جنگ کرسکتا ہے، لیکن اپنی فطرت کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھاسکتا۔ وہ جب اپنے چاروں طرف زندگی اور پروردگاری کا ایک عالمگیر کارخانہ پھیلا ہوا دیکھتا ہے تو اس کی فطرت کی صدا کیا ہوتی ہے؟ اس کے دل کے ایک ایک ریشے میں کونسا اعتقاد سمایا ہوتا ہے؟ کیا یہی نہیں ہوتا کہ ایک پروردگار ہستی موجود ہے اور یہ سب کچھ اسی کی کرشمہ سازیاں ہیں ؟

     یہ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کا اسلوبِ بیان یہ نہیں ہے کہ نظری مقدمات اور ذہنی مسلمات کی شکلیں ترتیب دے، پھر اس پر بحث و تقریر کرکے مخاطب ردو تسلیم پر مجبور کرے۔ اس کا تمام تر خطاب انسان کے فطری وجدان و ذوق سے ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے، خدا پرستی کا جذبہ انسانی فطرت کا خمیر ہے۔ اگر ایک انسان اس سے انکار کرنے لگتا ہے، تو یہ اس کی غفلت ہے اور ضروری ہے کہ اسے غفلت سے چونکا دینے کیلئے دلیلیں پیش کی جائیں ، لیکن یہ دلیل ایسی نہیں ہونی چاہئے جو محض ذہن و دماغ میں کاوش پیدا کر دے بلکہ ایسی ہونی چاہئے جو اس کے نہاں خانۂ دل پر دستک دیدے اور اس کا فطری وجدان بیدا کردے، اگر اس کا وجدان بیدار ہوگیا، تو پھر اثبات مدعا کیلئے بحث و تقریر کی ضرورت نہ ہوگی۔ خود اس کا وجدان ہی اسے مدعا تک پہنچا دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن خود انسان کی فطرت ہی سے انسان پر حجت لاتا ہے:

  ’’بلکہ انسان کا وجود خود اس کے خلاف (یعنی اس کی کج اندیشیوں کے خلاف ) حجت ہے، اگر چہ وہ (اپنے وجدان کے خلاف) کتنے ہی عذر بہانے تراش لیا کرے‘‘ (14:75)۔

    اور اسی لئے وہ جا بجا فطرتِ انسانی کو مخاطب کرتا اور اس کی گہرائیوں سے جواب طلب کرتا ہے:

   ’’وہ کون ہے جو آسمان (میں پھیلے ہوئے کارخانۂ حیات) سے روز زمین (کی وسعت میں پیدا ہونے والے سامان رزق) سے تمہیں روزی بخش رہا ہے؟ وہ کون ہے جس کے قبضہ میں تمہارا سننا اور دیکھتا ہے؟ وہ کون ہے جو بے جان سے جاندار کو جاندار سے بے جان کو نکالتا ہے؟ اور پھر وہ کون سی ہستی ہے جو یہ تمام کارخانہ خلقت اس نظم و نگرانی کے ساتھ چلا رہی ہے؟ (اے پیغمبر!) یقینا وہ (بے اختیار) بول اٹھیں گے اللہ ہے (اس کے سوا کون ہوسکتا ہے؟)۔ اچھا تما ان سے کہو، جب تمہیں اس بات سے انکارنہیں تو پھر یہ کیوں ہے کہ غفلت و سرکشی سے نہیں بچتے؟ ہاں بے شک یہ اللہ ہی ہے جو تمہارا پروردگار برحق ہے اور جب یہ حق ہے تو حق کے ظہور کے بعد اسے نہ ماننا گمراہی نہیں تو اور کیا ہے(افسوس تمہاری سمجھ پر)۔ تم (حقیقت سے منہ پھیرے) کہاں جارہے ہو؟‘‘ (32:10)۔

  ایک دوسرے موقع پر فرمایا:

  ’’وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور جس نے آسمان سے تمہارے لئے پانی برسایا، پھر اس آب پاشی سے خوش نما باغ اگا دیئے، حالانکہ تمہارے بس کی یہ بات نہ تھی کہ ان باغوں کے درخت اگاتے؟ کیا (ان کاموں کا کرنے والا) اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے؟ (افسوس ان لوگوں کی سمجھ پر) حقیقت حال کتنی ہی ظاہر ہو) مگر یہ وہ لوگ ہیں جن کا شیوہ ہی کج روی ہے؟

  اچھا بتاؤ، وہ کون ہے جس نے زمین کو (زندگی و معیشت کا) ٹھکانا بنادیا، اس کے درمیان نہریں جاری کردیں ۔ اس (کی درستگی) کیلئے پہاڑ بلند کردیئے، دو دریاؤں میں (یعنی دریا اور سمندر میں ایسی) دیوار حائل کردی (کہ دونوں اپنی اپنی جگہ محدود رہتے ہیں ) کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرابھی ہے؟ (افسوس! کتنی واضح بات ہے) مگر ان لوگوں میں اکثر ایسے ہیں جو نہیں جانتے۔

 اچھا بتلاؤ، وہ کون ہے جو بے قرار دلوں کی پکار سنتا ہے، جب وہ (ہر طرف سے مایوس ہوکر) اسے پکارنے لگتے ہیں اور ان کا درد دکھ ٹال دیتا ہے؟ اور وہ کہ اس نے تمہیں زمین کا جانشین بنایا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا بھی ہے؟ (افسوس! تمہاری غفلت پر) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم نصیحت پزیر ہو!

اچھا بتاؤ، وہ کون ہے جو صحراؤں اور سمندروں کی تاریکیوں میں تمہاری رہنمائی کرتا ہے، وہ کون ہے جو بارانِ رحمت سے پہلے خوش خبری دینے والی ہوائیں چلا دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا بھی معبود ہے؟ (ہر گز نہیں ) اللہ کی ذات اس ساجھے سے پاک و منزہ ہے جو یہ لوگ اس کی معبودیت میں ٹھہرا رہے ہیں ۔

  اچھا بتاؤ، ہو کون ہے جو مخلوقات کی پیدائش شروع کرتا ہے اور پھر اسے دہراتا ہے اور وہ کون ہے جو آسمان و زمین کے کارخانہ ہائے رزق سے تمہیں روزی دے رہا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے؟ (اے پیغمبر!) ان سے کہو، (اگر تم (اپنے رویہ میں ) سچے ہو (اور انسانی عقل و بصیرت کی اس عالمگیر شہادت کے خلاف تمہارے پاس کوئی دلیل ہے) تو اپنی دلیل پیش کرو‘‘ (61-62:27)۔

  ان سوالات میں سے ہر سوال اپنی جگہ ایک مستقل دلیل ہے کیونکہ ان میں سے ہر سوال کا صرف ایک ہی جواب ہوسکتا ہے، اور فطرت انسانی کا عالمگیر اور مسلمہ اذعان ہے۔ ہمارے متکلّموں کی نظر اس پہلو پر نہ تھی، اس لئے قرآن کا اسلوبِ استدلال ان پر واضح نہ ہوسکا اور دور و دراز گوشوں میں بھٹک گئے۔

   بہر حال قرآن کے وہ بے شمار مقامات جن میں کائنات ہستی کے سر و سامانِ پرورش اور نظام ربوبیت کی کارسازیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ فطرت انسانی کا ذکر کیا گیا ہے، در اصل اسی استدلال پر مبنی ہیں :

 ’’انسان اپنی غذا پر نظر ڈالے (جو شب و روز اس کے استعمال میں آتی رہتی ہے) ہم پہلے زمین پر پانی برساتے ہیں ، پھر اس کی سطح شق کر دیتے ہیں ، پھر اس کی رائیدگی سے طرح طرح کی چیزیں پیدا کر دیتے ہیں ، اناج کے دانے، انگور کی بیلیں ، کھجور کے خوشے، سبزی، ترکاری، زیتون کا تیل، درختوں کے جھنڈ، قسم قسم کے میوے، طرح طرح کا چارہ (اور یہ سب کچھ کس کیلئے) تمہارے فائدے کیلئے اور تمہارے جانوروں کیلئے!‘‘ (24-32:80)۔

  ان آیات میں فَلْیَنْظُرِ الْانْسَانُ کے زور پر غور کرو، انسان کتنا ہی غافل ہوجائے اور کتنا ہی اعراض کرے، لیکن دلائل حقیقت کی وسعت اور ہمہ گیری کا یہ حال ہے کہ کسی حال میں بھی اس سے اوجھل نہیں ہوسکتیں ۔ ایک انسان تمام دنیا کی طرف سے آنکھیں بند کرلے، لیکن بہر حال اپنی شب و روز کی غذا کی طرف سے تو آنکھیں بند نہیں کرسکتا؟ جو غذا اس کے سامنے دھری ہے، اسی پر نظر ڈالے۔ یہ کیا ہے؟ گیہوں کا دانہ ہے۔ اچھا گیہوں کا ایک دانہ اپنی ہتھیلی پر رکھ لو، اور اس کی پیدائش سے لے کر اس کی پختگی و تکمیل تک کے تمام احوال و ظروف پر غور کرو۔ کیا یہ حقیر سا ایک دانہ بھی جود میں آسکتا تھا۔ اگر تمام کارخانۂ ہستی ایک خاص نظم و ترتیب کے ساتھ اس کی بناوٹ میں سرگرم نہ رہتا؟ اور اگر دنیا میں ایک ایسا نظام ربوبیت موجود ہے تو کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ربوبیت رکھنے والی ہستی موجود نہ ہو؟

تبصرے بند ہیں۔