قرآن مجید، مغرب اور ہم

شہباز رشید بہورو

 علمِ قرآن سے نا آشنا رہنے کی وجہ سے آج مسلم معاشرے کی بنیادیں اور  در و دیوار اس حد تک اپنے صحیح و ٹھوس مقاماتِ نصب سے ہٹ چکی ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے مقاماتِ آثار قدیمہ .(archeaological sites)جن کی ہر ایک چیز اپنے  صحیح محل و وقوع سے گرتی ہوئی نظر آتی ہے. جہاں پر محتاط ترین تخمینہ لگانے کے بعد بھی ہم اس مقام کے صحیح تعلق کو کسی ایک مخصوص قوم کے ساتھ باندھنے میں  ہمیشہ مشتبہ نظر آتے ہیں ۔ قیاسی طور پر اگر ہم  نے اس مقام کو کسی ایک قوم  کے ساتھ منسلک کیا بھی تو وہ اس بنیاد پر کہ  وہاں کی کچھ دریافت شدہ چیزیں  تاریخ کی روشنی میں اس قوم یا ملک کے ساتھ میل کھاتی ہیں۔ لیکن یہ متعلق و منسلک کرنا حتمی ہو نے کے بجائے عارضی و فرضی ہوتا ہے۔

ان اندازوں کے ڈھیلے پن کی وجہ انسان کا ان مقامات پر بسنے والی اقوام کے تہذیب و تمدن کے بارے میں لا عملی  و نا آشنائی ہے. جس کی وجہ سے ماہرین آثار قدیمہ کو وہاں کی چند چیزوں کی بنیاد پر یہ اندازہ لگانا پڑتا ہے کہ شاید یہ فلاں و فُلاں قوم ہوسکتی ہے. اسی طرح اگر چہ امت مسلمہ تاریخِ انسانی کے بہت وسیع حصے پر چھای  ہوئی ہے، لیکن آج کے دور کی چھپتی تاریخ کوان کے اسلاف کی تاریخ  سے منسلک کرنا بڑا محال نظر آتا ہے۔ کیونکہ آج ہمارے پاس اسلامی تہذیب و تمدن   کی کوئ بھی رمق نظر  نہیں آتی ہے کہ ہم بھی احساسِ تفاخر کے ساتھ یہ کہتے کہ ہم امتِ مسلمہ ہیں۔

آج کے اس مادیت پرستی کے دور میں ایک مسلمان قرآن مجید کے علم سے اتنا نا بلد ہو چکا ہے کہ اس کی شخصیت کے اندر وصفِ  فر قانیت مفقُود ہے۔ جس کی عدم موجودگی میں اس کو اسلامی علوم اور تہذیب وتمدن کوجاننے اور پہچاننے میں دکت ہوتی ہے ۔ اِسی عام لاعلمی کی وجہ سے امت مسلمہ کی ماضی کی شاندار تاریخ ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے کیونکہ جو چیز مسلمانوں کو ان کی عظمتِ رفتہ کو وجوہات کو جاننے کے لیے اکساتا وہ قرآن مجید ہے جس سے ہم کوسوں دور  ہیں ۔اسلامی شاندار تاریخ کے بجائے مغربی دینا کی تاریخ ہر طرف روشن ہے۔ہمارے لوگ غیروں کی تاریخ میں تخصص حاصل کرتے اور اپنی تاریخ کو جاننے کے لیے علماء حضرات کا کام سمجھ کے رکھ لیا ہے۔

مغربی دنیا کی تاریخ کے آئنے میں مسلمانوں نے بھی اپنی تقدیر کو آزمانے کی ٹھان لی ہے تجربوں پہ تجربہ کرتے ہوئے مسلم دنیا ہر محاذ پر اپنا سا منھ لے کر آخر کار  ہزیمت والی شکست سے دوچار ہوتی ہے۔ مغربی دنیا کی تاریخ کو دلکش بنانے کے بعد اس کو اپنی استعماریت کے بل بوطے پرپوری دنیا میں خصوصاً مسلمان ممالک میں بڑے شدومد کے ساتھ پھیلایا گیا۔ بد قسمتی سے ہماری اپنی تاریخ میں یہ غیر اسلامی تاریخی مواد جمع ہوا جس میں  اسلام کا زندگی کے ہر شعبہ میں کامل راہنمائ کرنے کا پہلو  نظر انداز کردیا گیا ۔ اس دور میں قرآن کو باقی مذہبی کتابوں کی طرح ایک عام مذہبی کتاب کا درجہ دیا گیا۔ مغربی استعماری قوتوں کے اس فعل کی وجہ سے امت مسلمہ بھی انہی کے رنگ میں رنگی گئی اور بد قسمتی سے آج ہمارے ہر مسلم ملک میں قرآنی آئین کے بدلے مغرب کا سیکولر آئین لوگوں کے معاملات کی نگرانی و نگہبانی کر رہا ہے۔مغربی  علوم کے غلبے اور قرآنی علوم سے دستبرداری کی وجہ سے مسلمان اپنی بے غیرتی میں اتنا  آگے بڑھ گئے ہیں کہ اپنے آپ کو یا اپنے ملک کو  اسلام یا مسلمان کے ساتھ وابسطہ کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔

قرآن مجید سے ناواقفیت کی  وجہ سےمسلمانوں نے خالص اپنے تخمین و ظن یا  تناقص آلودمغربی علوم کی راہنمائ میں رائے قائم کرنے کے ساتھ ساتھ عملی دنیا مین بھی غیر اسلامی طرز پر پیش قدمی کی۔ قرآن سے دور ان آراؤں اور پیش قدمیوں نے مسلمانوں کو شرک و بد عات ، رسومات و خرافات، فلسفیانہ موشگافیوں اور مرعو بیت کے اس شکنجہ میں جکڑدیا کہ  جس سے آزادی اب امت کے مفکرین کے نزدیک ایک مشکل ترین مقصد بن گیا ہے۔کئی صدیوں کی اس قید نے امت کے عموم کو ایک خاص مزاج کا حامل بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں  اس قید  سے آزاد  ہونا اسے ایک جرم عظیم کا مر تکب ہونے کا احساس دلاتا ہے ۔  اس قید میں مقید ہو کر آج کے مسلمان کا حیاتِ انسانی سے متعلق ہر اہم اصطلاح کا مفہوم ہی بدل گیا ہے۔ترقی کا مفہوم بدل گیا ہے،کامیابی کا مفہوم بدل گیا ہے، حتی کہ دینی اصطلاحات کا بھی مفہوم بدل کے رکھ دیا ہے۔اس کی وجہ اس کےسوا اور کچھ نہین کہ ہم نےاپنے ذہنوں کو قرآن کے علم سے دلوں کو اللہ کی یاد سے خالی و غافل کرکے اپنے پورے وجود کو ہوا اور ہوس کا آشیانہ بنایا ہے امام  ابن تیمیہ فرمایا کرتے تھے:

"میں قیدی نہیں ہوں ۔ قیدی وہ شخص ہے جس کا دل  اللہ کی یاد سے خالی اور ہوا و ہوس مین جکڑا ہوا ہو "

یہ ایک المیہ ہے کہ آج کا مسلمان خدا نا آشنا اور انسانیت نا آشنا درندہ صفت اقوام کے زیر اثر پلنے والی سائنس اور ٹیکنالوجی سےاس قدرمتاثر ہوا ہے کہ اپنے قرآن سےکلی طور پر لا تعلقی کا اعلان کرکے دیوانگی کے عالم میں اس کے پیچھے دوڑنے لگا ہے. اسی سائنس اور ٹیکنالوجہ کے بارے میں مرحومہ مریم جمیلہ لکھتی ہیں :

thus Modern science is guided by no moral values but naked materialism and arrogance this is also why what may appear to be beneficial superficially because of the underlaying motive the whole branch of knowledge and its application is contaminated with the same evil.
Modern technology and the dehumanization of man .pp.8

اسی سائنس اور ٹیکنالوجہ کی بھیک مانگتے آج کا مسلمان قرآن مجید کے علوم سے تہی دامن ہوا۔کیونکہ مسلمانوں کے پاس دینے والی عظیم نعمت قرآن مجید ہے اب جبکہ ہم نے اسے چھوڑ ا ہمارے پاس دینے  کے بد لے لینے کےلئے پھیلایاہوا کھالی دامن رہا۔
یورپ کی تعلیمات نے آج کے انسان کو مادی جانور کی حیثیت دے کر اسے درندگی کے مقام پر لاکر کھڑا کرکے اس کے ہاتھوں میں انسانیت کو ختم کردینے والے اسلحہ و ہتھیار تھام دئے اور اسی انسان نماحیوان نے صرف 30  سالوں کے اندر دنیا مین وہ عظیم جنگیں بھڑکائیں کی شاید ہی تاریخِ انسانی نے ایسا منظر پہلے کبھی دیکھا ہوگا  جس میں کئی میلین لوگ لقمہ اجل   بن گئے۔ اسی نام نہاد  development and advancement  کے پیچھے ہم نے اپنے قرآن کو بھلا دیا جس نے ۰۰۴۱ سال پہلے ان درندہ صفت انسانوں کے ہاتھوں میں وہ چراغِ علم تھمایا جس کی  اثر سے وہ انسانیت کے محافظ بن گئے۔ لیکن افسوس صد افسوس! ہم کہاں کی طرف جارہے ہیں . مغربی علوم کے جال میں پھنس کرہم بھی وہی بن رہے ہیں جو اس کا مقصد ہے اور قرآنی  علوم سے دور جس  مقصد کو بقول مریم جمیلہ مغرب کے جینٹل مین  کے بجائے ایک حکیم پیدا کرنا ہے اس سے ہم بہت دور ہو چکے ہیں:

the ideal man of reasoning in islamic culture was not the specialist but the hakim who encompasses with  him self all the intellectual qualification of the sage scholar, philospher, saint ,mediical healer and spiritiual guide.

مغرب کی سازش اور مسلمانوں کی بے غیر تی آج کے دور میں ایک عجیب صورتحال پیدا کر رہی ہے جس میں مسلمانوں کو کھلونے کی طرح کھیلا جا رہا  ہے۔ ہمارے ہر معاملے میں مغرب کی دخل اندازی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے کسی ایسی چیز سے بے اعتنائ برتی ہے جو ہم میں غیرت، بصیرت اور اعتماد پیدا کرتی ہے. غیرت  اس معنی میں کہ ایک مسلمان کو اپنے دین کی پیروی کرنے میں ہی عزت و فخر محسوس ہوتا ہو اور اس کی نمائیندگی کرنا اس کی زند گی کا مقصد بن جائے ، اس دین کی خدمت کرنے کا فریضہ اسے باعزت  و با برکت کام نظر آیے ۔ بصیرت اس معنی میں کہ بعض اوقات خارجی حالات اسے اس قدر متاثر کرنے کی قوت رکھتے ہیں کہ اس کی جسمانی قوتیں اب مجبور و لاچار ہو کر جواب دے بیٹھتی ہیں جیسے آج کے دور میں اس کی آنکھ مغرب کی چمک و دمک سے متاثر، اس کے کان مغرب کی موسیقی سے متاثر، اس کی ناک مغرب کی خوشبو سے متاثر اور اس کا ذہن مغربی علوم سے متاثر غرضیکہ اس کے وجود کے سارے deciding players متاثر ہیں۔

ان حالات میں اب  وہ کیا کرے ؟ کس طرح سے اپنے آپ کو بچائے؟ ان حالات میں اس کی فطرت کو مسخ کرنے والے تمام عوامل سے اس کی  فطرت سلیمہ ہی نگہبان بن کر فریضہ تحفظ ادا کر سکتی ہے۔ جسے ہم بصیرت کہتے ہیں.اگر ان مشکل حالات میں ہماری بصارت حق اور باطل کے درمیان تمیز نہیں کر پاتی ہے لیکن بصیرت یہ کام بخوبی سر انجام دے سکتی ہے. اس عمل فرقانیت کو کرنے کے بعد بھی ایسا ہو سکتا ہے کہ بصیرت اپنے فیصلے پر مطمئن نہ ہو اب اس صورت میں ایک ہی وصف ہے جو بصیرت کو اپنے کئے ہوئے کام پر اطمینان فراہم کرسکتا ہے وہ ہے اعتماد جو بصیرت کو راہنمائی فراہم کرتا ہے ۔

یہ تینوں صفات اگر ہمارے اندر موجود ہوں تو ہم آج کی مغربی تہذیب کا مردانہ وار مقابلہ کرسکتے ہیں۔ یہ تینوں صفات ہمارے اندر خالصتاً قرآن مجید کے مطالعہ اور اس پر خلوص کے  ساتھ ساتھ تدبر وتفکر  کرنے سے حا صل ہوں گے ۔ لیکن اگر آج کے مسلمان معاشرے پر نظر ڈالی  جائے تو تصویرِ گلستان کچھ موسمِ خزاں کی جیسی بے رنگی لیے ہوئے ہے۔ یہ قرآن مجید سے دوری کا نتیجہ ہے کہ ہم مشرقی وسطی میں، ہندوستاں میں، بنگلہ دیش میں، پاکستان میں، برما میں غرضیکہ دنیا کے ہر کونے میں جہاں مسلمان بستے ہیں تعذیب و بربریت کا شکار ہیں ۔یہ قرآن سے دوری کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہم  سب سے بڑے شرک کے مرتکب اور اسی کےحامیوں کے حامی اور مددگاروں کے مددگار بن رہے ہیں کہ اللہ کی کائنات میں رہ کر بھی ہم اللہ کے نظام کو قائم نہ کر پارے ہیں ۔جس کا ہمیں مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ اللہ سے ہم دعا کریں کہ ہمیں قرآنِ مجید کو ٹھیک طرح سے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اس دور نو کے عظیم اسلامی و قرآنی  انقلاب کی جدوجہد میں حصہ لینے والوں کا رفیق اور شفیق بنائے :

اٹھ کہ اب بزم  جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے. اقبال

تبصرے بند ہیں۔