لقمان حکیم (تیسری قسط)

جناب لقمان کے واقعات

 ایک روز ان کے مالک نے کہاکہ بکری ذبح کرو اور ان کے دو بہترین اور نفیس ٹکڑے میرے پاس لائو ۔وہ دل اور زبان لے گئے ۔کچھ دنوں بعد پھر ان کے آقا نے یہی حکم دیا اور کہا کہ آج اس کے سارے گوشت میںسے جو بدترین اور خبیث ٹکڑے ہوں وہ لادو ۔آپ آج بھی یہی دو چیزیںلے گئے ۔مالک نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ بہترین ٹکڑے تجھ سے مانگے توتو یہی دولایا ۔اور بدترین ٹکڑے مانگے تو تو نے یہی لادیئے۔یہ کیا بات ہے ؟

آپ نے فرمایا:جب یہ اچھے رہیں تو ان سے بہتر کوئی جسم کا کوئی عضو نہیں اور جب یہ برے بن جائی تو پھر سب سے بدتر بھی یہی ہیں۔(ابن کثیر ،مفسر ابوالفداء اسمٰعیل ابن عمر ابن کثیر ،جلد ۴ صفحہ ۴۹ناشر ،فواز نیاز،مطبع نواز پرنٹنگ پریس ،لاہور اورتفسیر ثعلبی اوربیضاوی میں یہی واقعہ سور ہ لقمان کے ضمن میںبیان ہوا ہے۔ )

 ایک دن جناب لقمان دوپہر کے وقت آرام فرمارہے تھے کہ اچانک انہوںنے ایک آواز سنی اے لقمان !کیا آ پ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ آپ کو زمین میں خلیفہ قراردے تاکہ آپ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں؟

آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر میرا پرودگا ر مجھے اختیار دے تو میں عافیت کی راہ کو قبول کروںگا۔کیونکہ میں جانتاہوںکہ اگر اس قسم کی ذم داری میرے کندھوںپر ڈال دے گا تو یقینا وہ میری مدد بھی فرمائے گااور مجھے لغزشوںسے بھی محفوظ رکھے گا۔

فرشتوں نے جبکہ وہ آپ کو دیکھ رہے تھے کہا کہ اے لقمان ! ایساکیوں ؟

انہوںنے جواب دیا:اس لئے کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنا سخت کام ترین منزل ہے اور اہم ترین مرحلہ ہے اور ہر طرف سے ظلم و ستم کی موجیں اس کی طرف متوجہ ہیں ۔اگر خدا انسان کی حفاظت کرے تو و ہ نجات پائے گا لیکن اگر خطا کی راہ پر چلے تو یقینا جنت کی راہ سے منحرف ہوجائے گا اور جس شخص کاسر دنیا میں جھکا ہواور آخرت میںبلند ہو اس سے بہتر ہے کہ جس کا سر دنیا میں بلنداورآخرت میںجھکاہواور جو شخص دنیا کو آخرت پر ترجیح دے وہ نہ دنیا کو پاسکے گااور نا ہی آخرت کوحاصل کر سکے گا۔فرشتہ آپ کی اس دلچسپ اور منطقی باتوںسے متعجب ہوئے ۔آپ نے یہ بات کہی اورسوگئے ۔تب خدانے نور حکمت ان کے دل میں ڈال دیا ۔جس وقت بیدار ہوئے تو ان کی زبان پر حکمت کی باتیں جاری تھیں ۔(مجمع البیان مفسر شیخ طبرسی در ضمن سورہ لقمان جلد ۸ صفحہ 316)

 جناب لقمان کا ایک فرزند مصائب و آلام میںمبتلاتھااور اس کاشکوہ کیاکرتا تھا ۔آپ جتنا بھی سمجھاتے کہ بیٹا! بھلائی اسی میںہے لیکن وہ قبول کرنے کوتیار نہ تھا۔آپ اس بات کی طرف متوجہ تھے کہ کوئی ایسا موقع آئے جب میںاس نکتہ کاراز بتائوں ۔

ایک روز آپ اپنے فرزند کے ساتھ کسی دیہا ت میں سفر کرنے کا پختہ ارادہ کیا ۔وہ دونو ںحضرات ایک خچر پر سوار ہوئے اور چلنے لگے ۔تھوڑا سا راستہ چلے تھے کہ جانور کاپائوں کسی وجہ سے ٹوٹ گیا اور وہ حر کت نہ کرسکا۔فرزند نے شکایت کی ۔

آپ نے فرمایا:بیٹا !بھلائی اسی میں ہے ۔پریشا ن ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ! اس کے بعد وہ دونو ں پیدل چلنے لگے ۔اس بار ابھی تھوڑی دور تک ہی چلے تھے کہ فرزند کاپیر لڑکھڑایا اور اس کے پائو ںمیںچوٹ آگئی اوروہ چل نہ سکتا۔اب دونوںنے مجبورا اسی جگہ رات بسر کی کہ ہوسکتاہے کہ آسانی کی کوئی راہ نکل آئے ۔بیٹا چیخنے ،چلانے اور شکوہ کرنے لگا ۔

باپ نے پھر وہی جواب دیا :بیٹا! بھلائی اسی میںہے۔جب صبح ہوئی تودونوںکسی قافلہ کے ہمراہ اس دیہات میںپہونچ گئے ۔(وہاں وہ لوگ )نہایت ہی برے اور تعجب خیز منظر سے دو چارہوئے ۔یعنی مقتولین اور زمین پر پڑے ہوئے جنازے دیکھے ۔جب ان کے مرنے کاسبب پوچھا تو لوگوںنے بتایاکہ گذشتہ شب کو دشمنوں نے شب خوں ماراہے اور ان تمام لوگوںکو قتل کردیا ۔جناب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا:اے میرے بیٹے!دیکھا ! میںنے کہاتھانا کہ بھلائی اسی میںہے!اگر وہ سارے مصائب وحوادث ہم پر پڑتے تو اس وقت ہم بھی انہیںمقتولین میںسے ہوتے ۔(چہل حدیث و چہل داستان صفحہ 11)

 ایک دفعہ مالک نے تما م غلاموں کوپھل توڑ نے کے لئے باغ میںبھیج دیا۔سب نے پھل کھالئے ،لقمان نے انکار کردیا تو واپس آکر سب نے الٹی شکایت کردی ۔مالک نے لقمان سے پوچھا تو انہوںنے کہا کہ قے کی دوا دے کر سب کو قے کرائی جائے چنانچہ ایساہی ہو ااور سب کے پیٹ سے مال حرام برآمد ہوگیااور لقمان کی عزت میں اضافہ ہوگیا۔(انوارالقرآن ،ترجمہ وتفسیر علامہ ذیشان حید ر جوادی ،ناشر انصاریان پبلیکیشنزقم ،ایران)

اپنے فرزند کوچند منتخب نصیحت

بیٹا ! خبردارکسی کو اللہ کا شریک نہ بنانا کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔(سورہ لقمان ؍13)

بیٹا ! اللہ کو پہچانو ۔(تفسیر جلالین :علامہ جلال الدین محلی و علامہ جلال الدین سیوطی ،جلد ۵ صفحہ ؍۶۹مکتبہ ،دارالاشاعت اردو بازار ایم اے جناح روڈ ،کراچی ،پاکستان )

بیٹا ! یاد الٰہی سے غافل مت ہو۔

بیٹا ! اللہ تعالیٰ سے ڈرواور ریاکاری مت کروتاکہ لوگ اس کی وجہ سے تمہاری عزت کرنے لگیں جبکہ حقیقت میںتمہارا دل گنہگار ہو۔

بیٹا !اللہ سے صدق ،نفس سے قہر ،مخلوق سے انصاف ،بزرگوں سے خدمت گزاری چھوٹوں پر شفقت ،درویشوںکی موافقت ،دشمنوںسے بر دباری ،علماء سے تواضع اور جاہلوںکو نصیحت کرتے ہوئے زندگی گزارو ۔(تفسیر جلالین :علامہ جلال الدین محلی و علامہ جلال الدین سیوطی ،جلد ۵ صفحہ ؍۷۰مکتبہ ،دارالاشاعت اردو بازار ایم اے جناح روڈ ،کراچی ،پاکستان )

بیٹا !۔۔۔اللہ کو ہر جگہ یاد کرواس لئے کہ اس نے تمہیںہوشیار کیاہے اورآگاہ بھی ۔

بیٹا !اللہ سے اس طرح ڈرو کہ اس سے رحمت سے مایوس نہ ہواور اس سے اس طرح امید لگائے رہو کہ اس کے عذاب سے مطمئن نہ ہو۔

بیٹا !وہ کون شخص ہے جس نے اللہ کی عبادت کی ہواور اس نے اس کی مدد نہ کی ہو؟وہ کون شخص ہے جس نے اللہ کو تلاش کیاہواور اسے نہ پایا ہو؟ وہ کون شخص ہے جس نے اللہ کو یاد کیا ہواور اس نے اسے یاد نہ کیاہو؟وہ کون شخص ہے جس نے اللہ پر توکل کیاہواوراس نے اسے دوسروںکے حوالہ کردیاہو ؟وہ کون شخص ہے جس نے اللہ کی باگاہ میںتضرع کیاہواوراس نے اسے اپنی رحمت اورلطف کا حق دار نہ قرار دیاہو؟

بیٹا !کیا کسی شخص نے اللہ کوڈھونڈااور نہ پایاہو؟کیا کسی شخص نے اللہ کی پناہ لی اوراس نے اس کی پشت پناہی نہ کی ہواور کیاکسی شخص نے اس پر توکل کیا اوراس نے اسے بے نیاز نہ کیاہو؟

بیٹا ! اللہ سے اپنی حاجات طلب کرو۔وہ کون ہے جس نے اس نے طلب کیاہواوراس نے اسے عطا نہ کیا ہو یاوہ کون ہے جس نے اس پر اعتماد کیاہواوراس نے اسے نجات کی راہ نہ دکھائی ہو؟

اخلاق

بیٹا !تم ہرگز غیر سنجیدہ ،بد اخلاق اور پست حوصلہ مت بنو ۔اس لئے کہ بری عادتیں اختیار کرنے کے بعد تمہارا کوئی دوست باقی نہیں رہے گا۔اپنے نفس کوآمادہ رکھو کہ وہ ہر معاملہ میں صابراورباحوصلہ رہے۔ مشکلات دور کرنے میں اپنے بھائیوںکو صبراور تحمل کا خراج دو۔ہر ایک کے ساتھ اچھااخلاق رکھو۔اگر تم قرابت داروں سے صلح رحمی اوردوستی کا رابطہ نہیں رکھ سکتے ہوتو بھی خوش اخلاق اور کشادہ روئی کو تر ک نہ کرو۔اس لئے کہ جو شخص اپنے اخلاق کو بہتر بناتاہے اسے اچھے لوگ دوست رکھتے ہیں اور برے لوگ اس سے دوری اختیار کرتے ہیں ۔(بحارالانوار جلد 13صفحہ 419)

تبصرے بند ہیں۔