ماحولیات اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں

قمر فلاحی

جب ہم ماحولیات سےEnvironmet متعلق قرآن مجید میں رہنمائ تلاش کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اس تعلق سے بڑی ذمہ داری عطا فرمائ ہے مگر انسان اپنی ناسمجھی اور ناعقلی کی وجہ سے اس فریضہ کی ادائگی سے محروم ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

﴿وَلاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾. سورة الأعراف: آية 85.

زمین میں اس کی اصلاح کے بعد بگاڑ پیدا نہ کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا اگر تم باتوں کو مان لو۔زمین کی اصلاح اللہ تعالی نے فرما دی ہے، پھر جب انسانوں نے شیطان کے بہکاوے میں آکر اس میں بگاڑ پیدا کی تو انبیاء کرام نے اس میں اصلاح فرمادی، پھر شیطان نے انسانوں کو بہکاکر بگاڑ پیدا کی ہے تو اب دوبارہ بنی نوع انسان میں مومنوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بگاڑ سے اس زمین کو روکے مگر وہ ایسا نہیں کر رہا ہے، اس جماعت نے اللہ تعالی کے سامنے سجدہ ریزی کو عبادت اور خلافت سمجھ رکھا ہے، جبکہ نہ یہ مکمل عبادت ہے اور نہ فریضہ خلافت کی ادائیگی۔آپ اس شخص کو کیا کہیں گے جسے آپ نے چوکیدار بنایا ہو اور وہ نگرانی اور چوکیداری چھوڑ کر صرف آپ کے نام کی تسبیح خوانی شروع کردے کہ میرا مالک بہت اچھاہے، مجھے خوب کھلاتا ہے۔ ۔۔۔۔ بس یہی حال آج مسلمانوں کا بھی ہوگیا ہے،ماحولیات کے تعلق سے جو اس کی بنیادی ذمہ داری تھی اسے فراموش کر بیٹھا ہے۔

وقال جلَّ شأنه: ﴿وَلاَ تَعْثَوْاْ فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ﴾، سورة البقرة: آية 60. وقال تعالى: ﴿وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ﴾ سورة القصص: آية 77

اور اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ  زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو اور نہ زمین میں فساد پھیلانا چاہو کیوں کہ اللہ تعالی فساد اور بگاڑ والوں کو پسند نہیں کرتا۔

فطری نظام کے اندر چھیڑ چھاڑ کرنا فساد کہلاتا ہے، یعنی اللہ تعالی نے جس طرح یہ دنیا سجائ ہے اسی طرح سجی رہنے دو اپنے خواہش کی تبدیلی فساد اور بگاڑ ہے، مثلا جنگل اجاڑنا،پرندوں کو قید کرنا،جانوروں کی رہائش تباہ کرنا،پانی کو مکدر کرنا،فضاء آلود کرنا یہ سارے فساد فی الارض کی فہرست میں آتے ہیں۔

یہ بات قابل غور ہے کہ جس طرح انسان اللہ کی مخلوق ہے اسی طرح جنات، ندی، سمندر،پہاڑ، نباتات، جمادات، جانور،حشرات الارض وغیرہ بھی اللہ کی مخلوق ہے جسے اللہ تعالی نے  انسانوں کے ماتحت کیا ہے تاکہ انسان اسے برتے نہ کہ اس پہ ظلم کرے اور اسے تباہ کرے، یہ اللہ تعالی کو ہرگز پسند نہیں ہے۔انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تمام مخلوقات کی محافظت کرے ورنہ وہ اللہ تعالی کے ہاں جواب دہ ہوگا۔انسانوں کی یہ محافظت بھی تقوی اور عبادت ہے مگر انسانوں نے تقوی اور عبادت کا مفہوم ہی محدود کر دیا ہے۔

اسلام نے طہارت پہ بہت زور دیا ہے، اور تمام فرائض کی ادائیگی  کیلئے اسے شرط  قرار دیا ہے اس کا مقصد خود صاف ستھرا رہنا اور ماحولیات کو صاف ستھرا رکھنے کی طرف ہی اشارہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«غسل الجمعة واجب على كلّ مُحتلم» رواه مالك وأحمد وأبو داود والنسائي وابن ماجه عن أبي سعيد الخدري، صحيح الجامع، رقم 4155.

«حقّ على كلّ مسلم في كل سبعة أيَّام يغسل فيه رأسه وجسده متفق عليه من حديث أبي هريرة، اللؤلؤ والمرجان، رقم492.

–«تسوَّكوا فإنَّ السواك مطهرة للفم، مرضاة للربِّ، وما جاءني جبريل إلاَّ أوصاني بالسواك حتَّى لقد خشيت أن يفرض علي وعلى أمَّتي»رواه ابن ماجه، الطهارة باب 7، حديث رقم 289. المسند 6/121.

وكان النبيّ صلعم لا يرقد من ليل أو نهار فيستيقظ إلاَّ تسوك، فقد ثبت في الرواية أنّه صلعم «كان إذا قام من الليل يشوص فاه بالسواك»، كما أمر بالمضمضة والاستنشاق في الوضوء، وأمر بنظافة الشعر «من كان له شعر فليكرمه». رواه أبو داود، 4163.

 كما أمر بإزالة شعر الإبط والعانة وتقليم الأظافر، ففي الصحيحين وغيرهما أن النبيّ صلعم قال: «الفطرة خمس ـ أو خمس من الفطرة ـ: الختان والاستحداد ونتف الإبط وتقليم الأظفار وقصّ الشارب». «إن الله طيب يحب النظافة، جواد يحبّ الجود، فنظفوا أفنيتكم، ولا تشبهوا باليهود»، رواه الترمذي وحسنه الألباني في مشكاة المصابيح.

 فاليهود كانوا يُفرِّطون في نظافة بيوتهم من القمامة والفضلات، قوله تعالى: ﴿إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴾.  سورة البقرة: 222

اسلام نے اس قد ر صفائ ستھرائ  پہ اس لیے زور دیا کیوں کہ گندگی جراثیم کی پیدائش کا ذریعہ ہے اور جراثیم بیماریوں کی پیدائش کا باعث ہوا کرتی ہیں۔

انسان کی تخلیق کے وقت شیطان نے کہا تھا کہ یہ زمین میں فساد پھیلائگا اور خون بہائے گا، اور ہم تو تسبیح و تقدیس کرتے ہی ہیں تو پھر انسانوں کو پیدا کرنے کی کیا وجہ ہے۔ اور آج حقیقت ہے کہ انسانوں نے خلافت چھوڑ دی اور تسبیح و تقدیس کو عین دین سمجھ لیا اور زمین میں بگاڑ کا باعث بن رہا ہے۔

قــال تعالى: ﴿وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾، سورة الأعراف: آية 85.

اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اس نے تمہیں معمار  بنایا ہے تاکہ تم  تعمیری کام  کرو، توڑ پھوڑکرنے والا نہیں کہ  فساد پھیلاتا پھرو۔

{هُوَ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا۔ }

جو اللہ تعالی نعمتوں میں تبدیلی کریگا اس کی اپنی حالت پہ باقی نہیں رہنے دیگا وہ یہ جان لے کہ اللہ تعالی بڑی پکڑ والا ہے۔
قال تعالى:

﴿وَمَنْ يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَاب﴾، سورة البقرة: 112.

اللہ تعالی نے فرمایا کہ اللہ تعالی کی رزق میں سے کھائو پیو مگر زمین میں فساد نہ پھیلائو۔

 وقال تعالى: ﴿كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ وَلا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ﴾، سورة البقرة: 60. وقال تعالى: ﴿وَلا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفاً وَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ﴾. سورة الأعراف: 56.

اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ خشکی اور تری میں فساد کی وجہ انسانوں کی اپنی کرتوت ہے۔

 وقال تعالى: ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ. سورة الروم: 41.

اللہ تعالی نے عارضی طور پہ انسانوں کو یہاں بسایا ہے، اس کے جانے کے بعد دوسری ٹولی بھی آکر یہاں بسے گی لہذا اسے چاہیے کہ وہ آنے والی ٹولی کیلئے ماحول کو ساز گار رہنے دے۔

﴿وَلَكُمْ فِي الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ﴾سورة البقرة: آية 36.

اسی طرح جب ہم ماحولیات کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن مجید کا مزید مطالعہ کرتے ہیں انتہائ حیرت ناک نکات ہمارے سامنے آتے ہیں کہ بہت ساری سورتوں کے نام ماحولیات سے متعلق ہیں جو اس کی حفاظت اور دیکھ ریکھ کی طرف اشارہ کرتے ہیں مثلا:

بہت ساری سورتوں کے نام حیوانات کے نام پر ہیں، حشرات کے نام پر ہیں،نباتات اور معادن کے نام پر ہیں۔ جیسے:

حیونات : سورة البقرة، وسورة الأنعام، وسورة الفيل، وسورة العاديات وهي الخيل…
حشرات : ونجد سورة النحل، وسورة النمل، وسورة العنكبوت.
معدنیات : ونجد في القرآن سورة التين وهو من النباتات، وسورة الحديد.
ظواہر طبعیات : ونجد سورة الرعد، وهو من الظواهر الطبيعية، وسورة الذاريات، وهي الرياح التي تذرو الأشياء، وسورة النجم، وسورة الفجر، وسورة الشمس، وسورة الليل، وسورة الضحى، وسورة العصر،.

مقامات و اماکن : ونجد سورة الطور، وهو يعني الجبل مطلقا أو جبلا معينا، وسورة البلد، والمراد به مكة البلد الحرام، وسورة الأحقاف، وهي في الجزيرة العربية، وسورة الحجر، وسورة الكهف.

اگر ہم اور آپ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ غور کریں تو بہت ساری روایات ہمیں ماحولیات سے متعلق مل جائیں گی جس میں پیڑ پودے لگانا،کھیتی کرنا،بلا وجہ اسے نہ کاٹنا، وغیرہ شامل ہے اور اسے صدقہ جاریہ میں شامل کیا گیا ہے مثلا:

عن أنس بن مالك t قال: قال رسول الله صلعم: «ما من مسلم يغرس غرساً أو يزرع زرعاً فيأكل منه طير، أو إنسان، أو بهيمة إلا كان له به صدقة» رواه البخاري، واللفظ له في كتاب المزارعة، باب فضل الزرع والغرس إذا أكل منه برقم (2152)، ومسلم في كتاب المساقاة، باب فضل الغرس والزرع برقم (2901)، والترمذي في كتاب الأحكام عن رسول الله، باب ما جاء في فضل الغرس برقم (1303)، وأحمد في مسند أنس بن مالك برقم (12038)، والدا رمي في كتاب البيوع، باب في فضل الغرس برقم (2496).

کسی گوریا کا بھی ناحق قتل نہ کرو کہ وہ اللہ تعالی کے نزدیک فریاد کر دے کہ اس نے مجھے بلاوجہ قتل کر ڈالا۔ اور اللہ تعالی کا موخذہ ہوجائے۔

وقال رسول الله صلعم: «ما من إنسان يقتل عصفوراً فما فوقها بغير حقها إلاّ سأله الله عزّ وجل عنها يوم القيامة, قيل: يا رسول وما حقها؟ قال: حقها أن يذبحها فيأكلها، ولا يقطع رأسها فيرمي به».  أخرجه الإمام عبد الرزاق في مصنفه، 4/450، رقم (8414)، البيهقي في السنن الكبرى 3/163، باب إباحة أكل العصافير، الحديث رقم 4860، والحاكم في المستدرك 4/261، كتاب الذبائح، الحديث رقم (7574)، وقال: “هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه”.

وقال رسول الله صلعم: «من قتل عصفورا عبثاً عج إلى الله عزّ وجل يوم القيامة يقول: يا ربّ، إنّ فلاناً قتلني عبثاً، ولم يقتلني لمنفعة» أخرجه الإمام البيهقي في السنن الكبرى 3/73، من قتل عصفوراً بغير حقها، الحديث رقم (4535)، وابن حبان في صحيحه، 13/214، ذكر الزجر عن ذبح المرء شيئاً من الطيور عبثاً دون القصد في الانتفاع به، الحديث رقم (5894)، الطبراني في المعجم الكبير 22/245، رقم (638)، قال الهيثمى في مجمع الزوائد 4/30: “رواه الطبراني في المعجم الكبير، وفيه جماعة لم أعرفهم”.

اگر قیامت آن چلی ہو اس وقت بھی اگر ہاتھ میں کوئی پودا ہے تو انسان کو چاہیے کہ اسے لگا دے اگر وہ ایسا کر سکتا ہو۔

وقال رسول الله صلعم: «إن قامت الساعة وفي يد أحدكم فسيلة فإن استطاع أن لا تقوم حتَّى يغرسها فليغرسها». أخرجه الإمام البخاري في الأدب المفرد 1/168، رقم (479)، والإمام أحمد في مسنده 3/183، رقم (12925)، قال الهيثمى في مجمع الزوائد 4/63: “رواه البزار ورجاله أثبات ثقات”.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے منع فرمایا ہے رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے،کہ اس میں لوگ غسل کریں گے۔

ونهى كذلك أن يبال في الماء الراكد، فقد روي عن جابر  عن النبيّ صلعم قَال: «لا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ في الماءِ الدَّائم الذي لا يجرِي ثُمَّ يَغْتَسِلُ فيه». البخاري، كتاب الوضوء، باب البول في الماء الدائم، الحديث رقم236، 1/94. ومسلم، باب فضل الوضوء، باب النهى عن البول في الماء الراكد، الحديث رقم282، 1/235.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خار دار چیزوں کو راستے سے ہٹا دینا مغفرت کا باعث ہے۔

وعن أَبِي هريرةَ أَنَّ رسولَ اللَّه صلعم قَالَ: «بينما رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ وجد غُصْنَ شَوْكٍ علَى الطَرِيقِ فَأَخَّرَهُ فشكر اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ» صحيح البخاري، 1/233، كتاب الجماعة والإمامة، باب فضل التهجير إلى الظهر، الحديث رقم (624)، وصحيح مسلم، 3/1521، كتاب الإمارة، باب بيان الشهداء، الحديث رقم (1914).

نوٹ : مضمون کا کثیر تر حوالہ درج ذیل مقالہ سے ماخوذ ہے اہل علم کو چاہیے کہ اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

{البيئة والحفاظ عليها في الشريعة الإسلامية*إعداد: عصام الدين مصطفى الشعار}

تبصرے بند ہیں۔