ماہِ رمضان اور قرآن

ریاض فردوسی

خوار از مہجوری قرآں شدی

شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی

اے چو شبنم بر زمیں افتندۂ

در بغل داری کتابِ زندۂ

علامہ اقبالؔ

’’(اے مسلمان!) تیری ذلت اور رسوائی کا اصل سبب تو یہ ہے کہ تو قرآن سے دُور اور بے تعلق ہو گیا ہے‘ لیکن تو اپنی اس زبوں حالی پر الزام گردشِ زمانہ کو دے رہا ہے! اے وہ قوم کہ جو شبنم کے مانند زمین پر بکھری ہوئی ہے (اور پاؤں تلے روندی جا رہی ہے)!اٹھ کہ تیری بغل میں ایک کتابِ زندہ موجود ہے (جس کے ذریعے تو دوبارہ بامِ عروج پر پہنچ سکتی ہے)

”.The inner core of the Western Civilization is Quranic”’’مغربی تہذیب کا باطن قرآنی ہے.‘‘ (علامہ اقبال)

توجس شخص کواللہ تعالیٰ چاہتاہے یہ کہ اسے ہدایت دے،اس کاسینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اورجسے وہ چاہتاہے کہ اسے گمراہ کردے اس کاسینہ تنگ،نہایت گھٹاہوابنادیتاہے گویا کہ وہ مشقت سے آسمان میں چڑھ رہاہے،اس طرح اللہ تعالیٰ گندگی ڈال دیتاہے اُن لوگوں پرجوایمان نہیں لاتے۔(سورہ الانعام۔آیت۔125)

سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کو نبی اکرم ﷺ نے وصیت کی کہ”اے ابن مسعود! اللہ تعالیٰ جس کا سینہ اسلام کے لئے کشادہ کر دیتا ہے وہ شخص اپنے رب کے نور کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ جب دل میں نورآجاتا ہے تو دل کھلا اور کشادہ ہو جاتا ہے”حضرات صحابہ ؓنے عرض کیا  ”یارسول اللہ ﷺ! اس کی کوئی علامت بھی ہے؟  آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں ! دارالغرور (فریب کے گھر یعنی دنیا) سے کنارہ کشی، دارالخلا یعنی بہشت بریں کی طرف رغبت اور موت کے آن پہنچنے سے پہلے اس کے لئے آمادگی۔ پس جو شخص دنیا میں زہد اختیار کرتا ہے وہ اپنی آروزوؤں کو تازہ کر دیتا اور اسے دنیا کے طلبگاروں کے لئے رہنے دیتا ہے۔سینہ کھول دینے سے مراد اسلام کی صداقت پر پوری طرح مطمئن کردینا اور شکوک و شبہات اور تذبذب و تردد کو دور کر دینا ہے۔قرآن مجید دراصل کلام الہٰی ہے،اس لئے ازل سے لوح محفوظ میں موجود ہے۔(بلکہ یہ قرآن مجید ہے،لوح محفوظ میں ۔سورہ البروج) پھر لوح محفوظ سے اس کا نزول دو مرتبہ ہوا ہے،ایک مرتبہ یہ پورے کا پورا آسمانِ دنیا کے بیتِ عزت میں نازل کردیا گیا تھا،بیتِ عزت (جسے بیت المعمور بھی کہتے ہیں ) کعبۃ اللہ کے محاذات میں آسمان پر فرشتوں کی عبادت گاہ ہے،یہ نزول لیلۃ القدر میں ہوا تھا،پھر دوسری مرتبہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تھوڑا تھوڑا کرکے حسبِ ضرورت نازل کیا جاتا رہا،یہاں تک کہ تقریباََ ۲۳سال میں اس کی تکمیل ہوئی،نزولِ قرآن کی یہ دو صورتیں خود قرآن کریم کے اندازِ بیان سے بھی واضح ہیں ،اس کے علاوہ نسائی،بیہقی اور حاکم وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے متعدد روایتیں نقل کی ہیں ،جن کا خلاصہ یہی ہے کہ قرآن کریم کا پہلا نزول یکبارگی آسمانِ دنیا پر ہوا اور دوسرا نزول بتدریج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر۔ (الاتقان41,1۔معارف القرآن:25,1)

حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’آ گاہ ہو جاؤ‘ایک بڑا فتنہ آنے والا ہے!‘‘میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! اس فتنہ کے شر سے بچنے اور نجات پانے کا ذریعہ کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’کتاب اللہ! اس میں تم سے پہلی اُمتوں کے (سبق آموز) واقعات ہیں اور تمہارے بعد کی اس میں اطلاعات ہیں (یعنی اعمال و اخلاق کے جو دُنیوی و اُخروی نتائج و ثمرات مستقبل میں سامنے آنے والے ہیں ‘ قرآن مجید میں ان سب سے بھی آگاہی دے دی گئی ہے) اور تمہارے درمیان جو مسائل پیدا ہوں قرآن میں اُن کا حکم اور فیصلہ موجود ہے۔(حق وباطل اور صحیح و غلط کے بارے میں ) وہ قولِ فیصل ہے‘ وہ فضول بات اور یاوہ گوئی نہیں ہے.جو کوئی جابر و سرکش اس کو چھوڑے گا (یعنی غرور و سرکشی کی راہ سے قرآن سے مُنہ موڑے گا) اللہ تعالیٰ اس کو توڑ کے رکھ دے گا،اور جو کوئی ہدایت کو قرآن کے بغیر تلاش کرے گا اس کے حصہ میں اللہ کی طرف سے صرف گمراہی آئے گی (یعنی وہ ہدایتِ حق سے محروم رہے گا) قرآن ہی حبل اللّٰہ المتین (یعنی اللہ سے تعلق کا مضبوط وسیلہ)ہے! اور محکم نصیحت نامہ ہے‘ اور وہی صراط مستقیم ہے‘ وہی وہ حق مبین ہے جس کے اتباع سے خیالات کجی سے محفوظ رہتے ہیں ‘ اور زبانیں اس کو گڑبڑ نہیں کر سکتیں (یعنی جس طرح اگلی کتابوں میں زبانوں کی راہ سے تحریف داخل ہو گئی اور محرفین نے کچھ کا کچھ پڑھ کے اس کو محرف کر دیا اس طرح قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہو سکے گی۔(رواہ الترمذی والدارمی)

حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا،روزہ اور قرآن بندے کے حق میں شفاعت کریں گے۔روزہ کہے گا: پروردگار! میں نے تیرے اِس بندے کو دن کے وقت کھانے پینے سے اور اپنی خواہشاتِ نفس پوری کرنے سے روکے رکھا‘ تو میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما! قرآن کہے گا: پروردگار! میں نے تیرے اِس بندے کو رات کے وقت سونے سے روکے رکھا‘ تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما! پس دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی.‘‘(رواہ احمد والطبرانی والبیھقی)

کتب سماویہ کے لیے قرآن مجید میں جو مشترک لفظ استعمال ہوا ہے وہ ‘صحف’ ہے جو صحیفہ کی جمع ہے۔صحیفہ اس چیز کو کہتے ہیں جو پھیلی اور کشادہ ہو۔ اسی لیے صفحہ کو بھی جس پر لکھا جاتا ہے، صحیفہ کہتے ہیں ۔ نامہ کو بھی صحیفہ کہا جاتا ہے (سنن ابی داؤد، باب الزکوٰۃ، ومسند ابن حنبل4/181)اہل لغت نے قرآن کے لغوی معنیٰ میں مختلف اقوال بیان کیے ہیں ۔قرآن ’’قرائت‘‘ کرنے کے معنیٰ میں ہے؛ کیوں کہ اس کو کثرت سے پڑھا جاتا ہے۔ قرآن ’’قرن‘‘ سے ہے بمعنیٰ ملانا اور اس کی آیات ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں ؛ اس لیے اس کو قرآن کہتے ہیں ۔قرآن جمع کرنے کے معنیٰ میں ہے؛ اس لیے کہ اس میں تمام سورتوں کو جمع کیا گیا ہے۔(معلم التجوید (ص: 19)

وہ لوگ جو ہم سے ملاقات کی امید نہیں رکھتے (تم سے) کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی قرآن لاؤ یا اس میں تبدیلی کرو”(سورہ یونس آیت۔15)

قرآن مجید رب العالمین کا نازل کردہ کلام حق ہے (آل عمران 3:60)

قرآن سے ملنے والا علم وہ حق ہے جس کے مقابلے  میں ظن و گمان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ (النجم 53:28)

قرآن مجید کلام الٰہی ہے اور اس کے کلام الٰہی ہونے  میں کوئی شک نہیں ۔ یہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرہ 2:2)

اس کلام کو اللہ نے نازل کیا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرے گا۔(الحجر15:99)

قرآن ایسا کلام ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں جو بالکل سیدھی بات کرنے والا کلام ہے (الکہف 18:1,2)

قرآن کو واضح عربی کتاب کہا گیا کہ لوگ سمجھ سکیں (یوسف18:1,2)۔

 باطل نہ اس کلام کے آگے سے آ سکتا ہے نہ پیچھے سے۔ (الفصلت 41:42)

یہ کتاب میزان ہے۔ یعنی وہ ترازو ہے جس میں رکھ کر ہر دوسری چیز کی قدر وقیمت طے کی جائے گی۔ (الشوریٰ42:17)

یہ کتاب فرقان یعنی وہ کسوٹی ہے جو کھرے اور کھوٹے کا فیصلہ کرتی ہے۔(الفرقان 25:1)

 تمام سلسلہ وحی پر مہیمن یعنی نگران ہے۔ (المائدہ5:48)

قرآن کریم  لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لیے اتاری گئی ہے۔ (البقرہ2:213)

یہی وہ کتاب ہدایت ہے جس کو ترک کر دینے کا مقدمہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخاطبین کے حوالے سے پیش کریں گے۔ (الفرقان25:30)

اُم القریٰ میں ولید بن مغیرہ جیسے نقاد ادب نے اس کو سنا تو بے اختیار کہہ اٹھا،بخدا تم میں سے کوئی شخص مجھ سے بڑھ کر نہ شعر سے واقف ہے نہ رجز ہے،اور قصیدہ سے اور نہ جنوں کے الہام سے،خدا کی قسم! یہ کلام جو اس شخص کی زبان پر جاری ہے ان میں سے کسی چیز سے مشابہ نہیں ہے،بخدا،اس کلام میں بڑی حلاوت اور اس پر بڑی رونق ہے،اس کی شاخیں ثمر بار ہیں ،اس کی جڑیں شاداب ہیں ،یہ لازماً غالب ہوگا،اس پر کوئی چیز غلبہ نہ پاسکے گی اور یہ اپنے نیچے ہر چیز کو توڑ ڈالے گا‘‘(السیرۃ النبویہ،ابن کثیر۔4991)

شعرائے سبعہ معلقہ میں سے لبید اُس وقت زندہ تھے،یہ وہی شاعر ہیں جن کے ایک شعر پر فرزدق جیسا شاعر سجدہ ریز ہوگیا،لیکن وہ بھی اس کے سامنے اس طرح گنگ ہوئے کہ جب سیدنا فاروقؓ نے شعر سنانے کی فرمائش کی تو فرمایا: بقرہ وآل عمران کے بعد اب شعر کہاں ،ماکنت لاقول شعرًا بعد ان علمنی اللّٰہ البقرۃ وآل عمران (الاستیعاب بہامش الاصابہ:3?237۔میزان,17)

امام جعفر صادق ؓ جس وقت قرآن کی تلاوت کرنا چاہتے تھے تو قرآن کو دائیں ہاتھ میں لیتے اور ایک دعا پڑہتے تھے، ” اے میرے رب! میں نے تیرے عہد اور کتاب کو کھولا ہے۔ خدایا! اس کتاب میں  میرے دیکھنے کو عبادت، میری قرائت کو تفکر، اور میرے تفکر کو درس عبرت قرار دے۔ خدایا! مجھے ان میں سے قرار دے جو تیری نصیحت کو قبول اور تیری نافرمانی سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنی کتاب کی تلاوت کے دوران میری دل اور کان پر مہر نہ لگانا اور آنکھوں پر پردے نہ ڈالنااور میری قرائت کو تدبر سے خالی قرار نہ دینا بلکہ مجھے ایسا بنا کہ اس کی آیات و احکام میں غور و فکر اور تیرے دین کے قوانین پر عمل کروں اور اس کتاب میں میری نگاہ کو غافل اور میری قرائت کو بیہودہ اور بے فائدہ قرار نہ دے.”(بحارالانوار، ج 95، ص 5)

قرآن اللہ کے بندوں کے درمیاں مضبوط عہد ہے۔اس میں غور و فکر کرنا  اور اس کے پیغام اور احکام پر پابند رہنا چاہئے۔جس قدر گردوغبار ہمارے قرآن پر جما رہے گا اسی قدر ہمارے دل غم و الم سے دوچار ہوں گے۔ہم لوگ اپنی مصروفیات میں قرآن کو سب سے آخری نمبر پر رکھتے ہیں جب مصروفیات زیادہ ہوجاتی ہیں تو قرآن کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں ، جس کے نتیجے میں وقت میں بے برکتی ہونے لگتی ہے اور ہمارے دل تنگی اور بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔تین مقامات پر اپنے دل کو تلاش کریں :

1- قرآن سنتے وقت

2- ذکر کی مجلسوں میں

3- تنہائی کے اوقات میں

اگر ان مقامات پر اپنے دل کو نہ پائیں تو اللہ تعالی سے دل مانگیں کیونکہ ہمارے پاس دل ہے ہی نہیں ۔یعنی اگر قرآن اور ذکر و اذکار کی باتیں سنتے وقت ہمارے دل پر کوئی اثر نہ پڑے تو گویا ہمارے پاس دل ہی نہیں ۔قرآن کریم  ایک ایک حرف پر دس دس نیکیاں ، اہل ایمان کے لیے باعث شفاء، قوموں کے عروج و زوال کا سبب، بروز قیامت بندے کے لیے سفارش، دلوں کے سکون و اطمینان کا سرچشمہ اور اس سے اعراض و کنارہ کشی دنیا و آخرت کی تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ہیں ۔اس لیے قرآن کو بالائے طاق نہ رکھیں ۔

”امام حسن بصری رحمہ اللہ سے کسی نے کہا فلاں تو قرآن کا حافظ ہے! تو انہوں نے کہا: بلکہ قرآن خود اس کا محافظ ہے”اگر آپ اپنے وقت میں اور کام میں خیر و برکت چاہتے ہیں تو قرآن کو بھی وقت دیں ، پابندی سے اس کی تلاوت کریں کیونکہ قرآن پڑھنے سے دل کو سکون ملتا ہے، خوشحالی آتی ہے اور مصیبت و بلا دور ہوتی ہے۔تعجب ہوتا ہے اس شخص پر جسے ہر چیز کے لیے وقت مل جاتا ہے مگر اسے وقت نہیں ملتا تو صرف قرآن کی تلاوت کے لئے۔ اللہ کی قسم! ایسا شخص محروم بدنصیب ہے۔ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قرآن کی آیات سے دلوں کو زندگی ملتی ہے جس طرح پانی سے زمین کو زندگی ملتی ہے۔

یہی وہ قرآن کو جبریل علیہ سلام لے کر اترے جو فرشتوں میں سب سے افضل ہیں ،اور روح الامین کے لقب سے سرفراز ہوئے۔یہی قرآن جب امت محمدیہ کے لئے اتارا گیا تو یہ امّت تمام امتّوں میں سب سے افضل قرار پائی۔یہی قرآن جب رمضان میں اترا تو رمضان تمام مہینوں میں سب سے افضل قرار پایا۔یہی قرآن جس رات میں اترا وہ رات شب قدر کہلائی اور تمام راتوں میں اس سب سے افضل قرار پائی۔اگر یہی قرآن ہم اور آپ کے دل میں اتر جائے اور اس کی محبت رچ بس جائے تو اس وقت ہمارے دلوں کا اور ہماری زندگیوں کا کیا عالم ہو گا؟

جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سنتے وقت انسان کو یہ تصور کرنا چاہیے گویا اللہ تعالیٰ قرآن کے ذریعے اس سے ہم کلام ہے۔ اس طرح جب قرآن سنا جائے گا تو قرآن کے معانی و مفاہیم، اس کی باریکیوں اور اس کے عجائبات سے اس کا دل لطف اندوز ہو گا۔اگر تمہیں اپنے قرآن کے غلاف پر گرد و غبار ملے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے دل پر اس سے کہیں زیادہ گرد جم چکی ہے۔سچ ہے قرآن دل ودماغ کو کھول دیتا ہے مگر اس کے لیے قرآن کھولنا ضروری ہے۔

قرآن کریم نفع دینے والا، شفا دینے والا، سفارش کرنے والا، رفعت و بلندی سے سرفراز کرنے والا ہے۔ اس لئے قرآن برابر پڑھتے رہو۔

اگر قرآن کو کماحقہ نہیں پڑھ سکتے تو کم ازکم اتنا پڑھو جتنا تمہارے لیے میسر ہو سکے۔ اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو قرآن کو خاموشی سے دل لگا کر سنو۔ مقصد یہ ہے کہ قرآن سے اپنا رشتہ جوڑے رکھو اسے بالائے طاق نہ رکھو۔

کسی نے اپنی دادی جان سے پوچھا: دادی جان! آپ پیسے کیوں قرآن کے اندر چھپاتی ہیں ؟

دادی نے جواب دیا: میں نے تم لوگوں کو دیکھ لیا ہے کہ تم لوگ قرآن نہیں کھولتے۔

اگر آپ کا موبائل صاف ستھرا اور آپکا قرآن غبار آلود ہے تو جان لیجئے کہ آپ کا تعلق اور لگاؤ خالق سے کم مخلوق سے زیادہ ہے۔

قرآن کی تلاوت کو روزانہ کا معمول بنا لیجیے۔

ایک نوجوان ٹیکسی میں بیٹھا تو ریڈیو میں قرآن کی تلاوت چل رہی تھی۔ نوجوان نے ڈرائیور سے پوچھا:  کوئی مر گیا ہے کیا؟

ڈرائیور نے جوابا کہا: ہاں تیرا اور میرا دل مر گیا ہے۔

  علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں : اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے اور اس میں غور و فکر کرنے میں کیا لطف اور کیافائدے ہیں تو وہ ساری چیزوں کو چھوڑ کر قرآن میں مصروف ہوجائیں ۔امام صادق فرماتے ہیں :جس قرآن کو پڑھا نہیں جاتا اور اس پر  غباربیٹھ جاتا ہے وہ قیامت کے دن اللھ کی بارگاہ میں شکایت کرے گا۔

ماز قرآں مغزہا برداشتیم

اُستخواں پیشِ سگاں انداختیم

مولانا رومؔ

ترجمہ۔ہم نے قرآن سے اس کا مغز حاصل کر لیا ہے‘ ہڈی کا گودا تو ہم نے لے لیا ہے اور جو ہڈی تھی وہ کتوں کے آگے ڈال دی ہے. تو انسان قرآن کے مغز تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ اس کا باطن پاک نہ ہو.

تبصرے بند ہیں۔