ماہِ صفر : چند غلط فہمیوں کا ازالہ

مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری

 ماہ و سال، اور دن و رات  اللہ تعالی کے بنائے ہوئے ہیں، جس طرح پوری کائنات کا خالق اللہ ہے، اسی طرح ماہ و سال کو پیدا کرنے والا بھی اللہ تعالی ہے۔ مہینوں کی گنتی جو بارہ ہے یہ ترتیب بھی اللہ تعالی کی بنائی ہوئی ہے۔ جس طرح قدرت کے کارخانے میں کوئی چیز نکھمی نہیں اور بے مقصد نہیں، اسی طرح ماہ و سال بھی اپنی ایک اہمیت رکھتے ہیں، اور اس کے بھی فضائل و خصوصیات بنی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بتلائیں ہیں۔ مہینوں کی عظمتوں کے سلسلہ میں شروع سے افراط و تفریط چلاآیا ہے۔ اسی لئے اﷲ تعالی نے خاص کر فرمایا کہ:ان مہینوں کے معاملہ میں اپنی جانو ں پر ظلم نہ کرو۔ (التوبہ :۳۶)زمانۂ جاہلیت میں مہینوں کے معاملے میں دو خرابیا ں خاص کر پائی جاتی تھیں۔ ایک حرمت والے مہینوں کی ترتیب میں الٹ پھیر، دوسری بعض مہینو ں اور دنوں کو نامبارک اور منحوس سمجھنا۔ قرآن و حدیث نے ان دونوں چیزوں کو ختم کیا، اور تمام بری رسموں و روایتوں کا خاتمہ کیا۔

 لیکن ان برائیوں کے جرثومے اب تک بھی معاشرہ میں موجود ہیں، اور لوگ ماہ و سال اور دن و رات کے بارے میں اب بھی بے اعتدالیوں کا شکار ہیں۔ البتہ انداز کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ اب ہمارے پاس محرم الحرام کا مہینہ غم و ماتم کی نظر ہوگیا، ہر خوشی کے کا م کو ناجائز سمجھ لیا گیا۔ اور صفر کا مہینہ کئی وجوہ سے منحوس تصور کرلیاگیا، اور اس میں نہ خوشی کی تقریبا ت انجام دی جاتی ہیں، نہ ہی اچھے کاموں کی شروعات کی جا تی ہے۔ دنوں اور تاریخوں کے ساتھ بھی بڑا ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ بہر حال ذیل کی سطور میں ماہ صفر المظفر کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا جائز ہ لیتے ہیں، اور اس کا شر عی حل بھی ملاحظہ کرتے ہیں۔

 ماہ ِ صفر کا تعارف:

  صفراسلامی مہینوں میں دوسرا مہینہ ہے، ماہِ صفر کو صفر کیوں کہا جاتا ہے اس میں محدثین کے مختلف اقوال ہیں۔ ماہ صفر چوں کہ حرمت والے مہینوں کے بعد آتا ہے اور اشہر ِ حرم میں لوگ جنگ و جدال اور قتل و قتال سے باز رہتے اور صفر کے مہینہ کے آتے ہی سلسلہ شروع ہوجاتا اور گھر خالی ہوجاتے اس لئے بھی اس کو صفر کہا جاتا ہے۔ (اسلامی مہینوں کے فضائل و احکام:۴۶)

 زمانۂ جاہلیت میں لوگ ماہ ِصفر کے متعلق بہت ساری باتوں کو منسوب کر رکھے تھے، اور مختلف وجوہ سے اس کو منحوس سمجھتے، صفرپیٹ کے  کیڑے کو قرار دیدتے، صفر کے بارے میں گمان تھا کہ پیٹ میں ایک سانپ ہے جو بھوک کے وقت ڈستا ہے۔ اور بڑی بات یہ تھی کہ اکثر صفر کے معاملہ میں تقدیم و تاخیر کیا کرتے۔ نبی ﷺ نے ان تمام توہمات کی تردیدکرتے ہوئے فرمایا ولا صفر(۔ (بذل المجہود ۱۶/۲۴۳ بیروت)

ماہ ِ صفر کی عظمت

  اسلام کے تمام مہینے اس بنیاد پر تو اہمیت رکھتے ہیں کہ اس کا خالق بھی رب العالمین ہے، جس کی پیدا کی ہوئی کوئی چیز بھی بے سود نہیں ہے۔ لیکن بعض اوقات اللہ تعالی اس کی عظمت کو دوچند کرنے لئے تاریخی واقعات کو رونماں کردیتے ہیں۔ چناں چہ ماہِ صفر المظفرکی آخری تاریخ ہی میں نبی کریم ﷺ نے ہجرت کے قصد سے مکہ مکرمہ کو الوداع کہا اور تین دن غار ِ ثور میں قیام فرماکر مدینہ منورہ کا سفر شروع فرمایا۔ سیرت ِ رسول ؐکے معروف مصنف قاضی سلیمان منصورپوری ؒ لکھتے ہیں کہ:یہ چاند اور سورج دونوں تین روز تک اسی غار میں رہے…..چوتھی شب ابو بکرؓ کے گھر سے دو اوٹنیاں آگئیں …..مدینہ کی جانب یکم ربیع الاول روز دوشنبہ (سوموار)(۱۶ستمبر ۶۲۲ء) کو روانہ ہوئے۔ (رحمۃ اللعالمین۱/۱۰۹)اور بھی دیگر سیرت نگار حضرا ت اس پرمتفق ہیں کہ یکم ربیع الاول کو آپ نے غار ِ ثور سے مدینہ منورہ کے سفر کا آغاز فرمایا، اس لحاظ سے ۲۷ صفر المظفر کی تاریخ ا س تاریخی اور انقلابی سفر کا نقطہ ٔ آغاز بنی۔ اسی طرح ہجرت ِ مدینہ کے بارہ مہینے بعد پہلاغزو جس میں آپ بذات ِ خود موجود رہے’’ غزوۂ ابواء‘‘ ماہ ِ صفر ہی میں پیش آیا۔ (زاد المعاد:۳/۱۴۸بیروت)

 اس غزوہ کے بعد ہی غزوۂ بدر کبری کا عظیم معرکہ پیش آیا۔ یہ عظیم واقعات دراصل اس ماہ کی عظمت کو بھی بلند کرتے ہیں کہ تاریخی اسلامی کے انقلابی واقعات کی شروعات اسی ماہ سے ہوئی۔ اسی لئے بھی اس ماہ ِ صفر کے ساتھ المظفر کا اضافہ بھی ہواجو اس بات کی علامت بن گیا کہ یہ ظفرمندی و کامیابی کامہینہ ہے۔

بے بنیاد روایت کی حقیقت

     ماہِ صفر کی اہمیت کو متاثر کرنے اور نحوست کا تصور پیش کرنے کے لئے جن چیزوں کا سہارا لیا گیا اس میں ایک روایت کا حوالہ بھی ہے کہ:من بشرنی بخروج صفر بشرتہ بدخول الجنۃ۔ کہ جو مجھے ماہِ صفر کے چلے جانے کی خوش خبری سنائے گا میں اسے دخول ِجنت کی خوش خبری دوں گا۔ جب کہ اس کے بارے میں ائمہ حدیث نے موضوع ہونے کا حکم لگا یا ہے۔ چناں چہ علامہ صنعانی ؒنے( موضوعات الصنعانی :۱/۶۲)میں، محمد بن طاہر پٹنیؒ نے (تذکرۃ الموضوعات:۶۴)اورملا علی قاری(م ۱۵۱۴ھ)ؒ نے ’’ولا اصل لہ ‘‘قرار دیا۔ (الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ:۱۱۱)لہذا اس بنیاد پر ماہ ِ صفر کو منحوس بتلانے کی کوشش کرنا وہ بھی رسول کریمﷺ کی جانب روایت کو منسوب کرتے ہوئے بلاشبہ بڑی جسارت ہے۔

ماہِ صفر اور نحوست کا تصور

 ماہ ِ صفر کو زمانہ ٔ جاہلیت میں بھی منحوس تصور کیاجاتا تھا، لیکن  نبی کریم ﷺ  نے ان تمام توہمات اور باطل خیالا ت کی زبردست تردید فرمائی، اور قرآن و حدیث میں نحوست کے تصور کو ختم کیا گیا، اور ماہ ِ صفراور دیگر توہمات کے بارے میں خاص کر فرمایا کہ :ولا عدوی ولاطیرۃ ولاھامۃ ولا صفر(بخاری:۵۳۴۳)یعنی مرض کی تعدی کوئی چیز نہیں ہے، نہ ہی بد فا لی کو ئی چیز ہے، نہ الو کی نحوست کو ئی چیز ہے، اور نہ صفر کے مہینہ کی نحوست کوئی چیز ہے۔

موجودہ دور میں بھی مسلمان اس مہینہ کو نامبارک اور منحوس سمجھتے ہیں، اور بہت سارے خوشی کے کاموں او رمسرت کی تقریبوں سے گریز کرتے ہیں جب یہ تمام خلاف ِ دین چیزیں ہیں۔ نحوست تو در اصل انسان کے اعمال میں ہے۔ اگر عمل اچھا ہو تویہ بلا شبہ انسان کا بہت ہی خوشی و مسرت کا دن ہے اور اگر عمل دین اور تعلیمات ِ دین کے خلاف ہو تو یہ اس کے لئے نامبارک اور وبال کا سبب ہوگا۔ قرآن میں اللہ تعالی نے قوم عادکو عذاب دیئے جانے والے دن کے بارے میں کہا کہ انا ارسلنا علیہم ریحا صرا صرا فی یوم نحس مستمر(القمر:۱۹)( ہم نے ایک مسلسل نحوست کے دن میں ان پر تیز آندھی والی ہواچھوڑدی تھی)۔ علامہ قرطبی نے اس کی تفسیر میں فرمایاکہ:جیسے وہ منحوس ایام جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے وہ قوم عاد کے کفار پر منحوس تھے نہ کہ ان کے نبی کے حق میں نہ ان پر ایمان رکھنے والوں کے حق میں۔ (قرطبی :۲۰/ ۸۸ بیروت)علامہ آلوسی نے یہ وضاحت بھی فرمادی کہ جس پر اللہ کا انعام ہو گا وہ دن کے لئے مبارک ہوگا، اور جس پر عذاب ہو گا وہ اس کے حق میں منحوس، اور یہ مبارک و منحوس ہونا اوقات کی خصوصیا ت کی وجہ سے نہیں ہوگا جیسا کے لوگوں نے گمان کر رکھا ہے۔ (روح المعانی:۲۴/۱۱۲ بیروت)مفتی عبد الرحیم لاجپوری ؒ فرماتے ہیں کہ :واقع میں دن، مہینہ، یا تاریخ منحوس نہیں ہوتے، نحوست تو بندوں کے اعمال وافعال پر منحصر ہے۔ ۔ ۔ ۔ ماہ ِ صفر اور اس کے ابتدائی تیرہ دنوں کو منحوس سمجھ کر شادی منگنی(خطبہ)سفر وغیر ہ کامو سے رک جا نا سخت گناہ کا کام ہے۔ ( فتاوی رحیمیہ :۲/۶۷)بہر حال اسلام نے نحوست کے ہر تصور کا خاتمہ کیا، اور اس طرح کی سوچ و فکر رکھنے سے سختی سے منع کیا۔ اوہام پرستی یا  نحوست کا تصور در اصل ایمان کی کمزوری کی بھی علامت ہے۔ جو اللہ تعالی کو خیر و شر کا مالک اور ساری کائنات کا خالق نہیں مانے گا وہ یقینا اس طرح کی گمراہیوں کا شکا ر ہوگا۔

تیرہ تیزی

   ماہِ صفر کے پورے مہینہ کوتو منحوس سمجھا ہی جاتا ہے لیکن خاص کر ابتدائی تیرہ دنوں کو نہا یت منحوس قرار دیا جا تا ہے، اور ان تیرہ دنوں میں آفتوں اور مصیبتوں کے اترنے کا تصور ذہن و دماغ میں پیوست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے گھرانوں میں تیرہویں تا ریخ کو  مخصوص چیزیں فقراء میں صدقہ کی جا تی  ہیں اور سمجھا جا تا ہے اب بلا ئیں ٹل جائیں گی، اور مصیبتیں دور ہوجائیں گی۔ جب کہ یہ بھی خالصۃ مشرکانہ تصور ہے، اسلام میں اس کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے۔

آخری چہارشنبہ

ماہ ِ صفر میں انجام دی جانے والی خرافات او ر واہیات میں ایک مہینہ کا آخری چہا رشنبہ بھی ہے۔ جس کے بارے یہ خیال ہے کہ نبی کریم ﷺ نے آخری چہارشنبہ کو غسل ِ صحت فرمایا، سیر و تفریح فرمائی اور ہریالی پر قدم رنجہ ہوئے۔ یہ بھی بالکل بے سروپا بات ہے، بلکہ یہ سراسر خواہشات کی پیروی اور دل لگی ہے، کیوں کہ تاریخی حقائق تواس کے برخلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے آخری چہارشنبہ کو غسل ِ صحت نہیں فرمایا بلکہ آپ ؐ کی بیماری  کے ایام شروع ہوئے اور اسی بیماری میں خلاصۂ کائنات ﷺدنیا سے تشریف لے گئے۔

علامہ ابن کثیرؒنے لکھا ہے کہ : ماہ  صفر کی دو راتیں باقی تھیں یا ربیع الاول کی ابتدا ء کہ رسول اللہ ﷺ کی بیماری شروع ہوئی۔ ( البدایہ و النہا یہ:۸/۲۶)تاریخ طبری (۳/۱۸۴  مصر)میں بھی یہی لکھا ہے۔ ابن حبا نؒ نے لکھا ہے کہ :سب سے پہلے جو رسول اللہؐ کو بیما ری کی شکایت پیدا ہوئی وہ چہارشنبہ کا دن تھا، جب کہ صفر کے مہینہ کے صرف دو دن باقی تھے۔ (ثقات ابن ِ حبان :۲/۱۳۰بحوالہ جواہر ِ شریعت۲/۳۴۵)ابن ہشام ؒ نے لکھا ہے کہ :آخر صفر یا شروع ربیع الاول میں رسول اللہ ﷺ کی وہ علالت شروع ہوئی جس میں آپؐ جوار ِ رحمت ِپروردگار کی طرف رحلت فرمائی۔ ( سیرت ابن ہشام:۲/۴۱۴مترجم)

 مفتی محمد شفیع صاحب ؒ لکھتے ہیں کہ:۲۸صفر ۱۱ھ چہارشنبہ کی رات میں آپ نے قبرستان بقیع غرقد میں تشریف لے جاکر اہل ِ قبور کے لئے دعا ئے مغفرت کی۔ ۔ ۔ وہاں سے تشریف لائے تو سر میں درد تھا اور بخار ہوگیااور یہ صحیح روایات کے مطابق تیرہ روزمتواتر رہااور اسی حالت میں وفا ت ہوگئی۔ ( سیرت خاتم الانبیاء:۱۰۲)

 ان حقائق کی روشنی میں آخر ی چہارشنبہ کسی بھی اعتبار سے آپ کے غسل ِ صحت فرمانے کا نہیں ہو سکتا، بلکہ آپ کے مرض کی ابتداء ہوئی ہے لیکن نادان مسلمان اس کو خوشی کا سبب سمجھ کر گھومنے اور تفریح کرنے کی بنیاد بنا چکے ہیں۔ مفتی رشید احمد لدھیانویؒ نے لکھا ہے کہ :یہ غلط اور منگھڑت عقیدہ ہے۔ اس لئے ناجائز اور گناہ ہے۔ ( احسن الفتاوی:۱/۳۰۶)

 مولانااحمد رضا خان صاحب نے بھی اس کی تردید فرمائی ہے، لکھتے ہیں کہ:آخری چہارشنبہ کی کوئی اصل نہیں، نہ اس دن صحت یابی حضور سید عالم کا کوئی ثبوت ہے بلکہ مرض اقدس جس میں وفات ِ مبارکہ ہوئی اس کی ابتداء اسی دن سے بتلائی جاتی ہے۔ (احکام ِ شریعت۲/۵۰بحوالہ فتاوی رحیمیہ ۲/۶۹)

آخری بات:

 ماہ ِ صفر سے متعلق یہ چند تصورات ہیں جو ہمارے مسلمان معاشرہ میں آج بھی پائے جاتے ہیں، جن کا ازالہ بہت ضروری ہے اورایمان و عقیدہ کی سلامتی بھی اسی میں ہے کہ جاہلی تصورات اور اوہام پرستی سے کنارہ کشی اختیار کی جائے، جو حقیقی تصور قرآن و حدیث میں پیش کیا گیا ہے اسی کے مطابق عمل پیرا ہوں، اورہر چیز کے تصور میں اور خیر و شر کے وجود میں آنے میں امر ِخدا ہی کو مؤثر سمجھیں، اورماہِ صفر کی عظمتوں کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جس طرح دیگر مہینے محترم ہیں اسی طرح یہ بھی احترام و عظمت کا حامل ہے، اس کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا جائے۔

تبصرے بند ہیں۔