ماہِ مبارک!

حفیظ نعمانی

حضرت سلمان فارسیؓ کی روایت سے حدیث کی متعدد کتابوں میں منقول ہے کہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہؐ نے ہمارے سامنے ایک تقریر فرمائی جس میں آپؐ نے فرمایا:

اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس مبارک مہینہ کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینہ کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے اور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے (یعنی نماز اور تراویح پڑھنے) کو نفل عبادت قرار دیا جس کا بہت ثواب بتایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ جس نے اس مہینہ میں کسی روزہ دار کو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے افطار کرایا تو اس کے لئے گناہوں کی مغفرت اور آتش ِ دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور روزے دار کے برابر ثواب ملے گا۔ سلسلۂ کلام کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے گا اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض کوثر سے ایسا سیراب کرے گا کہ اس کے بعد اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔

رمضان شریف کے بارے میں ہر اُردو اخبار میں اس کی فضیلت اور روزوں کے انعام کی تفصیل چھپتی رہتی ہے۔ اسی طرح شب قدر کی جو تفصیل چھپتی ہے اس کی حیثیت تو ایسی ہے کہ اس سے بڑا بدنصیب مسلمان کوئی نہ ہوگا جس کی زندگی میں رمضان آئیں اور وہ اس کے آخری عشرہ کی راتوں میں اس رات میں اپنے گناہ معاف نہ کرالے۔ یوں بھی بہت کچھ سننے کو ملتا ہے لیکن جب جیل میں تھے تو پرانے بندیوں سے سنا کرتے تھے کہ فلاں جج کے سامنے اگر کیس آگیا تو بچنا مشکل ہے اور فلاں کے سامنے آگیا تو بچنے کی کافی اُمید ہے۔ اسی طرح وہ نئے آنے والوں کو مشورہ دیتے تھے کہ لالو شرما یا غلام حسنین میں سے کسی کو وکیل کرلو تو وہ یا تو چھڑا دیں گے یا سزا کم کرادیں گے۔ آج ہم اپنے اسی مشاہدہ کی بناء پر کہتے ہیں کہ اگر کسی جج کی طرف سے یہ اعلان کردیا جائے کہ جیل میں جتنے بھی ملزم ہیں انہوں نے چاہے قتل کیا ہو، ڈاکہ ڈالا ہو، کسی کی آبروریزی کی ہو، بڑی سے بڑی چوری کی ہو، یتیموں کا مال کھایا ہو، شراب میں ڈوبے رہے ہوں ، غبن کیا ہو اور والدین کو تکلیف پہونچائی ہو غرض کہ کوئی بھی قصور کیا ہو اگر وہ فلاں مہینے میں روزہ رکھے رات کو نفل پڑھے اور سچے دل سے وعدہ کرے کہ آئندہ وہ کوئی گناہ نہیں کرے گا اور زندگی میں جو بھی گناہ کیا ہے اس کی معافی مانگے گا تو اس کے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ ملزم جیل کا پھاٹک توڑکر بھاگ آئیں گے۔ چاہے وہ بعد میں عہد توڑد دیں ۔

ہم مسلمانوں کے لئے یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ ہر سال رمضان کا چاند ہوتے ہی ہر طرف اس کی ضرورت کا سامان نظر آنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ امیر ہو یا غریب غیب سے اس کے افطار اور سحری کا انتظام فرما دیتے ہیں ۔ یہ تو حضور اکرمؐ نے بھی فرمایا ہے کہ رمضان میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ ہر مسجد میں اجتماعی افطار ہوتا ہے ہم نے ایسے مسلمان گھروں کو بھی دیکھا ہے جن کے پاس اپنے کھانے کے لئے نہیں ہے وہ اس کی جدوجہد کررہے ہوتے ہیں کہ کہیں سے مزدوری مل جائے تو مسجد میں افطاری بھیج دیں ۔

رمضان کی عبادت میں تراویح فرض نہیں ہے لیکن رات میں اللہ کے لئے کھڑے ہونے اور عبادت کرنے کا کامیاب نسخہ ہے۔ آج یہ بتانے اور سمجھانے کیلئے دلیلیں دینے کی ضرورت نہیں ہے کہ بیت اللہ اور مسجد نبویؐ کے علاوہ مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، ریاض اور جدہ میں کوئی مسجد ہماری اطلاع کی حد تک ایسی نہیں ہے جس میں پانچ پارے یا تین پارے روز پڑھ کر چھ رات یا دس راتوں میں کام تمام کردیا جائے اور پھر رمضان کی مبارک راتوں میں تفریح کی جائے اور بازاروں میں گھوما جائے۔ تراویح میں ایک قرآن کا پڑھنا کسی حدیث میں ہمیں نہیں ملا۔ ہم نے ایسی مسجدیں بھی دیکھیں کہ شاید پورے رمضان میں ایک قرآن بھی نہ پڑھا جاتا ہو لیکن وقت اس سے بھی زیادہ لگتا ہے جتنا ہندوستان میں پانچ پارے والی مسجدوں میں لگتا ہے۔

05 فروری 2005 ء کو میری ٹانگ کی ہڈی کے ایک حادثہ میں چار ٹکڑے ہوگئے جو مسجد میرے کمرہ سے صرف سو قدم کے فاصلہ پر ہے میں وہاں جانے سے بھی اس لئے محروم ہوگیا کہ اس کے دو راستے ہیں اور دونوں طرف سیڑھیاں ہیں ۔ گذشتہ سال میرے بیٹے ہارون میاں نے کہا کہ لکڑی کے تختوں کا ایک پلیٹ فارم بنواکر دیکھتے ہیں تاکہ آپ وہیل چیئر سے جاسکیں اور گذشتہ رمضان میں اس کا تجربہ ہوا تو تراویح کے لئے میں 27  دن گیا۔

جس نے برسوں تراویح میں قرآن سنایا ہو اور جسے مولانا منظور نعمانی، مولانا ڈاکٹر سید عبدالعلی اور مولانا علی میاں کو تراویح میں پورا قرآن سنانے کی سعادت حاصل ہوئی ہو اور ان میں سے کوئی نہیں تھا جس نے ٹوکا ہو کہ جلدی کیوں کررہے ہو اس نے جب اپنی مسجد میں تراویح کی نیت باندھی اور قرآن سنا تو یہ محسوس ہوا کہ یہ قرآن عظیم تو نہیں ہے البتہ ایسی ہی کوئی چیز ہے جو پڑھی جارہی ہے۔ اور پھر میں نے پیار سے سمجھایا کہ کیسے پڑھا جائے کیونکہ قرآن عظیم وہ کلام ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا حضرت محمدؐ پر رفتہ رفتہ نازل کیا۔ اور خود حضور اکرمؐ کا معاملہ یہ تھا کہ وہ اس کی پوری پابندی فرماتے تھے جو قرآن والے پروردگار نے ’’ورتِّل القرآنَ تَرتیلا‘‘ بتایا ہے کہ اس طرح پڑھو کہ سننے والے کو ہر حرف الگ الگ سنائی دے۔

ہم مسلمانوں کے اختیار میں یہ تو نہیں ہے کہ مسجد کے متولیوں کو پابند کریں کہ وہ اس طرح قرآن شریف پڑھوائیں کہ 29 ویں رات کو ختم ہو۔ لیکن یہ تو اختیار میں ہے کہ جہاں قرآن عظیم کی گت بنائی جارہی ہے اس مسجد میں نہ جائیں ۔ ندوہ کے حدیث کے ممتاز استاذ جو بخاری شریف اور ترمذی پڑھاتے ہیں انہوں نے ایسے ایک حافظ سے جو کلام اللہ کی ہوائی اُڑا رہا تھا فرمایا تھا کہ اس طرح پڑھنا بھی گناہ ہے اور سننا بھی۔ ہم اپنے ہر اس بھائی سے جو یہ دلیل دے کہ مرکز کی مسجد میں بھی تو تین پارے پڑھے جاتے ہیں عرض کرتے ہیں کہ مرکز اگر قرآن کی عظمت سے کھلواڑ کرے تو اس پر بھی لعنت بھیج کر ایسی مسجد میں جانا چاہئے جہاں قرآن عظیم کو اللہ کا کلام سمجھ کر پڑھا جارہا ہو۔ ہم جب قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو اللہ رب کریم سے اسی کو دہراتے ہیں جو اسکا کلام ہے۔ اگر میری بات مجھے بتائی جائے اور ایسے بتائی جائے کہ ایک لفظ بھی سمجھ میں نہ آئے تو کیا میں گھنٹوں اس بکواس کو سنتا رہوں گا؟

(نوٹ: میرا معمول یہ ہے کہ میں روزہ کی وجہ سے دوائوں کا وقت تبدیل کردیتا ہوں ۔ مجھے جو لکھنا ہوتا ہے وہ عام دنوں میں صبح کو لکھتا ہوں لیکن رمضان شریف میں اپنے آپ کو پابند کرتے کرتے وقت لگتا ہے اس لئے ہر سال دو چار دن جتنا ممکن ہوتا ہے قرآن عظیم کی تلاوت کرتا ہوں پھر طبیعت میں ٹھہرائو آجاتا ہے تو قلم بھی ہاتھ میں لے لیتا ہوں ۔ اگر دو چار دن میرا کالم خالی رہے تو معاف فرما دیجئے گا۔)

تبصرے بند ہیں۔