کچھ ارضیاتِ غالب کے بارے میں

حفیظ نعمانی

ہمارے پاس جو دیوانِ غالب ہے وہ 312  صفحات کا ہے جسے تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور نے 1930 ء میں شائع کیا ہے اس میں گنے تو نہیں کتنے شعر ہیں لیکن وہ غزلیں بھی ہیں جو دو صفحات میں ہیں اور وہ بھی ہیں جو ایک صفحہ میں دو ہیں آخر میں قصیدے، سہرا، قطعات اور متفرق اشعار بھی ہیں۔ سہیل کاکوروی نے غالب کی سو غزلوں کی زمین میں ہل چلایا ہے۔ اور دو سو برس قدیم زمین پر ہمت کی ہے کہ وہ جتنا بھی ممکن ہو اُچک اُچک کر غالب کو چھولیں۔ غالب نے کتنا کہا یہ تو شاید عالم الغیب کو ہی علم ہوگا لیکن جتنے کو اپنا کہا اور جسے دنیا کے سامنے پیش کیا اس میں بھی اختلاف ہے۔ مثلاً میرے پاس دیوان 1930 ء کا ہے اس کے بارے میں تاج کمپنی کے مالک عنایت اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ ’دیوان غالب کی وہ طبع جو اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے سارے سابقہ ایڈیشنوں سے سبقت لے جاتی ہوئی نظر آئے گی اور دقیقہ شناس اس کو حرزِ جاں بناکر رکھیں گے۔‘

غالب کے زمانہ میں یا ان کے بعد اگر کوئی غالب جیسے شعر کہنے میں کامیاب ہوجاتا تو پھر غالب غالب کہاں رہتے؟ غالب کا جو کلام سامنے ہے اسے پڑھ کر ہمارے جیسے غیرشاعر اور کم علم کو بھی محسوس ہوتا ہے کہ شعر برسے نہیں ہیں بلکہ نگینہ کی طرح جڑے گئے ہیں۔ میرے جیسے عام آدمی کو تو محسوس ہوتا ہے کہ غالب شعر تو ایسے ہی کہتے ہوں گے جیسے دوسروں نے کہے لیکن ان کی تراش خراش اور حروف کی تبدیلی سے ایک ایک غزل کو ہفتوں میں ایسا بناتے ہوں گے کہ کہہ سکیں۔

؎   دیکھیں اس سہرے سے بڑھ کر کوئی کہہ دے سہرا

سہیل کاکوروی نے بلاشبہ بہت ہمت کی ہے کہ غالب کی پتھریلی زمین میں ہل چلانے کی جرأت کی۔ اگر وہ بھی ایک ایک شعر پر اتنا ہی وقت صرف کرتے کہ زمین کے سو ٹکڑوں میں اور زیادہ قریب آنے کی کوشش اس وقت تک کرتے جب تک آدھے بال سفید نہ ہوجاتے۔ تو نتیجہ بھی کچھ اور ہوتا۔ ہم نے بہت بڑے شاعروں میں جگر صاحب کو دیکھا ہے کہ وہ مرضی کے مطابق ایک مصرعہ پر کاپی کے 10  ورق اور زندگی کا ایک ہفتہ قربان کردیتے تھے اسی کا نتیجہ ہے کہ عمر کا بڑا حصہ شاعری میں گذارا اور صرف شعلۂ طور اور آتش گل انہوں نے اُردو کو دیئے ہیں۔

سہیل کاکوروی نے جتنا کچھ بھی کیا ہے اس میں ہر شعر دیوناگری میں بھی چھاپ دیا ہے اور ہر شعر کا انگریزی ترجمہ بھی کیا ہے۔ غالب کے زمین میں شعر کہنا جتنا حوصلہ کا کام ہے انگریزی میں شعر کا ترجمہ اس سے کم اہم نہیں ہے۔ لکھنؤ کے کبھی کے ایک ممتاز وکیل چودھری بدرالزماں ایڈوکیٹ جو تعلقہ دار بھی تھے اور چودھری خلیق الزماں کے بھتیجے بھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ سیاست اور زمینداری کی وجہ سے ہم نے وکالت کو چھوڑا اور جب ہمیں ضرورت پڑی تو وکالت نے ہمیں چھوڑ دیا۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موصوف کو فرصت رہنے لگی۔ غالب سے ان کو بھی عشق تھا انہوں نے غالب کو انگریزی میں منتقل کرنا شروع کردیا اور جب ان کے نزدیک کافی ہوگیا تو چاہا کہ سرکاری امداد سے اس کی اشاعت کا راستہ نکل آئے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین خاں سے ان کی دوستی تھی اور وہ اس وقت نائب صدر تھے۔ چودھری صاحب نے اطلاع کی اور جب انہیں بلایا تو دہلی روانہ ہوگئے۔ دوسرے دن ناشتہ پر ڈاکٹر صاحب نے معلوم کیا کہ میرے لائق کوئی خدمت؟ وکیل صاحب نے مسودہ کا لفافہ پیش کردیا اور درخواست کی اس پر ایک نظر ڈال لیجئے پھر بات کروں گا۔ ذاکر صاحب نے اسے دیکھا اور دوسری صبح ناشتہ پر اسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ جس زبان میں کام کیا جائے اس کے لئے ضروری ہے کہ اسی زبان میں سوچا بھی جائے۔ اس میں جو کچھ ہے وہ اُردو میں سوچا ہے اور انگریزی میں منتقل کردیا ہے۔ اس جواب سے سمجھنے والوں نے سمجھ لیا کہ مزید محنت نہ کیجئے۔

ہم ڈاکٹر ذاکر صاحب کیا چودھری بدرالزماں صاحب جتنی بھی انگریزی نہیں جانتے اس لئے سہیل کاکوروی کے اس کارنامہ سے مرعوب تو ہوسکتے ہیں ان کی محنت کی تعریف بھی کرسکتے ہیں لیکن اس پر کوئی رائے نہیں دے سکتے۔ مگر اتنا ضرور کہیں گے کہ یہ کوئی مقابلہ نہیں ہے اور ہندی جاننے والے مشکل الفاظ ہندی میں پڑھ لیں گے اور پھر بھی سمجھ میں نہ آئے تو انگریزی سے معنیٰ سمجھ لیں گے اس لئے سہیل کاکوروی کو جتنی داد دی جائے کم ہے اور ان کی ہمت کی جتنی تعریف کی جائے وہ بھی کم ہے۔ قادر مطلق سے دعا ہے کہ وہ اگر مزید غزلوں پر طبع آزمائی کریں تو وہ غالب سے اور زیادہ قریب نظر آئیں۔

ارضیاتِ غالب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ دونوں طرف سے کھلتی ہے ہم نے اسے دونوں طرف سے پڑھا اور اپنے کالم کے پیٹ کے بقدر کچھ شعر منتخب کرکے یہ سوچ کر پیش کرنے کا ارادہ کیا کہ یہ ثابت کرسکیں کہ شارب ردولوی، عارف نقوی، منظر سلیم اور احمد جمال پاشا جیسے دوستوں کے ساتھ رہ کر اور عمر انصاری، نشور واحدی سے حضرت جگر تک دوستی اور نیازمندی میں گذارکر کسی حد تک کالے گورے میں امتیاز کرنا آگیا ہے یا نہیں؟ اسی کوشش میں دیکھا کہ صفحہ 71 پر غالب کا ایک شعر ہے   ؎

تمنائے چیدن تماشائے گلشن

بہار آفرینہ گنہگار ہیں ہم

اس زمین میں سہیل نے 9 شعر کہے۔ اس کے بعد صفحہ 75 پر پھر یہی شعر ہے ایک حرف بھی بدلا ہوا نہیں ہے اور سہیل نے اس کا بھی حق ادا کیا اور اسی زمین میں 6 شعر پھر کہہ دیئے اور مقطع بھی دوسرا کہہ دیا جس سے ان کی قادر الکلامی اور زود گوئی تسلیم کرنا پڑے گی۔

ارضیاتِ غالب کو اگر انگریزی کی طرف سے کھولیں تو صفحہ 323  پر نعت غالب کا ایک شعر فارسی میں ہے اور قربان جایئے سہیل کے علم اور حوصلہ پر کہ انہوں نے بھی نعت کے 6 شعر کہے اور فارسی میں ہی کہے اس کے بعد ہی خیال آیا کہ ارضیات میںجو غالب کے سو شعر زمین کے طور پر نقل ہوئے ہیں ان میں ایسے متعدد اشعار ہیں جیسا شعر اوپر درج کیا یا جیسے

شمارِ صبحہ مرغوب بت ِ شکل پسند آیا

جس میں فارسی ہو یا فارسی کے چند لفظ ہوں لیکن سہیل نے جو اپنی سو غزلیں کہی ہیں ان میں فارسی برائے بیت ہے اگر وہ تھوڑی سی محنت اور کریں اور بالوں کی سفیدی سے خوفزدہ نہ ہوں اور ہر غزل میں کم از کم دو شعر ایسے بھی کہہ دیں جس میں فارسی کے گل بوٹے بھی ہوں تو وہ غالب سے اور زیادہ قریب نظر آئیں گے۔

مجھے نہیں معلوم کہ پروردگار نے میرے قلم سے وہ کون سے مضامین نکلوائے جن کی وجہ سے سہیل کاکوروی جیسے ممتاز شاعر اور مختلف زبانوں پر اتنا عبور رکھنے والے کہ اسی میں سوچ بھی سکیں اور اسی میں مادری زبان کی طرح لکھ سکیں بھی اصرار کریں کہ ارضیاتِ غالب جیسی کتاب کے بارے میں تعارف کے طور پر کچھ لکھوں۔ میں نے جس قدر ممکن تھا معذرت کی۔ لیکن جب تعلق کی نازک ڈور کا وجود بھی خطرہ میں محسوس ہو تو نو من تیل کے بغیر بھی ناچنا پڑتا ہے۔

کتاب پڑھ کر اندازہ ہوا کہ جتنی محنت اور صلاحیت اس کی تصنیف میں استعمال ہوئی ہے۔ اس سے زیادہ ہر صفحہ پر تین اور اگر فارسی کو بھی شامل کرلیا جائے تو چار زبانوں کو ان کے حق کے مطابق ہر صفحہ کی زینت بنانا اس سے بھی زیادہ مشکل کام تھا جسے برائے نام اغلاط کے ہوتے ہوئے انجام دے دیا۔ دعا ہے کہ پروردگار اسے مقبولیت عطا فرمائے اور سہیل کی عظمت کا باعث بنائے۔

تبصرے بند ہیں۔