ماہ نامہ زندگی نو (نومبر 2022)

سہیل بشیر کار

ماہ نامہ زندگی نو کا شمارہ ایک بار پھر اپنی اسی شان سے شائع ہوا ہے، جیسا کہ گزشتہ تین سالوں سے شائع ہوتا آرہا ہے۔ اس ماہ مختلف موضوعات کے تحت 11 مضامین کو خوبصورتی سے رسالے کی زینت بنایا گیا ہے۔ انتخاب میں مولانا سید جلال الدین عمری کی کتاب "غیر مسلموں سے تعلقات” سے ایک خوبصورت اقتباس رکھا گیا ہے۔ اس کو پڑھ کر ہی کتاب کا مقصد قاری کی سمجھ میں آجاتا ہے، درج ہے: ‘‘اسلامی تعلیمات تو اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ اسلام نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان اجنبیت کی دیوار نہیں کھڑی کی ہے، بلکہ ان تعلقات کو وہ ایک سماجی، معاشرتی اور معاشی ضرورت سمجھتا ہے۔’’ (ص 4)

اشارات میں ڈاکٹر محی الدین غازی نے ملت اسلامیہ ہند کو درپیش چیلنجز اور ان کے عملی حل کو بیان کیا ہے۔ صرف چھ صفحات میں ڈاکٹر صاحب نے موضوع کا بہترین انداز میں احاطہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ‘‘موقع بموقع حکومتِ وقت سے گفت و شنید کے لیے نمائندہ گروپ تشکیل دیے جاسکتے ہیں، جو ہر طرح کے ذاتی اور جماعتی مفادات سے بلند ہوکر دین اور ملّت کے موقف کو حکومت کے سامنے پیش کریں۔ لیکن سب سے بڑھ کر ضروری یہ ہے کہ ملت کی مستقل بہبود کے لیے ضروری میدانوں کا تعین ہو اور ان میدانوں میں بھرپور کوششیں کرنے پر سب کا اتفاق ہوجائے۔’’ (ص 10) موصوف نے جہاں چیلنجز اور ان کے حل بتائے ہیں وہی امت مسلمہ کو حوصلہ بھی دیا ہے، وہ لکھتے ہیں: ‘‘اب تک بعض جزوی اور فروعی مسائل بہت سی جماعتوں کی دل چسپی کا محور رہے اور ان میں ان کی توانائی صرف ہوتی رہی۔ لیکن اب صورت حال تبدیل ہوئی ہے اور نظری طور پر سبھی لوگ وقت کی ان بڑی ضرورتوں کا ادراک کر رہے ہیں۔ اس فکری یک جہتی کے بعد عملی کوششوں میں اتحاد بہت ممکن ہوگیا ہے۔’’ (ص 10)

 حال ہی میں عالم اسلام کے عظیم عالم دین، فقیہ اور قائد علامہ یوسف القرضاوی کا انتقال ہوا ہے۔ ان کی کتاب ‘‘دین میں ترجیحات’’ سے ماخوذ یہ خوبصورت انتخاب ہے۔ اس میں عمدہ رہنمائی ملتی ہے۔ اس میں امت مسلمہ کے اکابرین کو سمجھایا گیا ہے کہ ‘‘ایک غلطی جس کا ارتکاب تحریک اسلامی سے بھی ہوسکتا ہے، یہ ہے کہ ایسے اہم فیصلے جو تحریک کے لیے زندگی اور موت کی حیثیت رکھتے ہوں صرف رائے عامہ کے جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے ہی کر ڈالے جائیں۔ بعض ممالک میں یہ بھی ہوا ہے کہ بعض قائدینِ تحریک صرف اسٹریٹ پاور اور عوامی رجحان کے پیش نظر ہی ایسے ایسے سیاسی معرکوں میں پوری قوت و توانائی کے ساتھ کودے، جن کے لیے ابھی تحریک کی فکری، سیاسی اور فنی صلاحیتیں مطلوبہ معیار تک نہیں پہنچی تھیں، اس طرح وہ اپنی استطاعت سے زیادہ بوجھ اٹھانے کے درپے ہوئے اور یقینی ناکامی سے دوچار ہو گئے۔ عام طور پر اس طرح کے اقدامات یا تو عجلت کی وجہ سے اٹھالیے جاتے ہیں یا نتائج کے متعلق غلط اندازوں کی وجہ سے اور یا پھر اپنی صلاحیتوں، اپنی قوتوں کے متعلق مبالغہ آمیزیوں اور مخالفین کی صلاحیتوں کو بے حد حقیر سمجھ لینے کی وجہ سے۔’’(ص 13) امت مسلمہ میں جب سے ترجیحات بدل گئیں تو انسانی وسائل کے بجائے عمارتوں پر توجہ دی گئی۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں: ‘‘مخلص داعیانِ اسلام اور ماہرینِ دین کا اس بات پر اجماع ہے کہ انسان کی تعمیر مساجد کی تعمیر سے بھی زیادہ اہم ہے اور خاص طور پر ایسے انسانوں اور ایسے افراد کی تعمیر کہ جن کے ہاتھوں تہذیب انسانی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے، جن کی مدد و نصرت سے پیغام رسالت و نبوت کام یاب ہوتا ہے، جن کی کوششوں اور جن کے اخلاص عمل سے معاشرے کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، جن کے ذریعے مسجدیں بارونق ہوتی ہیں اور جن کے وجود سے اسلامی تحریکیں پروان چڑھتی ہیں۔ دعوت اسلامی کے ایسے مراکز قائم کرنا کہ جن کے ذریعے مسلمانوں کی تربیت ہو انھیں فہم دین حاصل ہو، جن کے ذریعے نوجوانوں میں صحیح اسلامی افکار پھیلائے جاتے ہوں اور ان کے عقائد درست کرنے کے لیے جد و جہد کی جاتی ہو، ان کی تعمیرِ اخلاق ہوتی ہو اور ان کے دلوں میں دین اسلام پر فخر، اس سے محبت اور اس کے لیے غیرت کے جذبات پیدا کیے جاتے ہوں اور ان مقاصد کے حصول کے لیے مختلف تربیتی کیمپ لگانا، لیکچروں اور تقاریر و دروس کا اہتمام کرنا یہ سب کام بھی اللہ تعالی کی قربت حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہیں، ان سے بھی خدمت اسلام کا فریضہ ادا ہوتا ہے۔ اس لیے ان سرگرمیوں میں انفاق فی سبیل اللہ کرنا بھی اولین دینی ضرورت اور عظیم ترین نیکی ہے۔’’(ص 14)

 خواتین کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ خواتین میں دعوت تب ہی کامیاب ہو سکتی ہے جب خواتین کی قیادت خواتین ہی کریں۔ امت مسلمہ میں خواتین کی حالت کو یوں بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ‘‘میری رائے کے مطابق خواتین میں دعوتِ اسلامی تب ہی کام یاب و کامران ہو گی جب ان میں اسلامی نسوانی قیادت وجود میں آئے گی جو دعوت، نظریات، تربیت اور علم و ادب کے میدانوں میں خواتین کی قیادت کر سکتی ہو اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کام کوئی ناممکن یا بہت ہی زیادہ دشوار بھی نہیں ہے، کیوں کہ خواتین میں بھی مردوں ہی کی طرح انتہائی ذہین و دانا بہنیں ہوتی ہیں۔ غیر معمولی ذہانت صرف مرد حضرات ہی کا حصہ نہیں ہے۔’’ (ص 17) اس سلسلے میں وہ خواتین کو بھی اپنی ذمہ داریوں سے واقف کراتے ہوئے لکھتے ہیں: ‘‘7 کی دہائی کے وسط میں مجھے کئی برس تک اسلامک اسٹوڈنٹس یونین کی کانفرنسوں کے سلسلے میں امریکا اور کینیڈا جانے کا موقع ملتا رہا ان کانفرنسوں میں تحریکی بھائیوں کے ساتھ ہی ساتھ تحریکی بہنیں بھی شریک ہوتی تھیں۔ وہ ساری تقاریر اور عام اجتماعات میں شریک رہتی تھیں۔ مختلف مسائل پر ہونے والے سوالات و جوابات سنتیں، اسلام کی روشنی میں مختلف فکری، علمی، معاشرتی، تربیتی، سیاسی مسائل پر تبصرے سنتیں اور پھر خواتین کے خصوصی مسائل کے متعلق ایک خصوصی نشست کا بھی اہتمام کرتیں جو صرف خواتین ہی کے لیے ہوتی۔ لیکن جب 80 کے عشرے میں امریکا و یورپ کی مختلف اسلامی کانفرنسوں میں شریک ہوا تو مردوں اور خواتین کے پروگرام مکمل طور پر علیحدہ علیحدہ ہو چکے تھے۔ ہمارے بھائیوں کے لیے جو بہت سی تقاریر، اجتماعات اور بحث و مباحثہ ہوتا تھا ہماری بہنیں اس سے مکمل طور پر محروم ہو چکی تھیں۔ مجھ سے کئی بہنوں نے شکایت بھرے لہجے میں کہا کہ اب تو ہمارے سارے کے سارے پروگرام صرف ‘خواتین کے مسائل’ ان کے ‘حقوق’ ان کی ‘ذمے داریوں’ اور ‘اسلام میں ان کے مقام’ کے موضوعات تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ مسائل و موضوعات اتنی بار دہرائے جاچکے ہیں کہ اب ان پروگراموں میں شرکت سزا سی محسوس ہونے لگتی ہے۔’’(ص 18)

معروف دانشور اور قائد انجینئر سید سعادت اللہ حیسنی نے اشارات تو نہیں لکھے، البتہ ان کی ایک تقریر "قرآن اور سائنس” کو مضمون کی شکل دی گئی ہے۔ اس میں انہوں نے قرآن اور سائنس میں مطابقت و عدم مطابقت اور باہمی تعاون کے راستے بیان کئے ہیں۔ سعادت بھائی نے اس سلسلے میں امت میں موجود چار رجحانات (متجددین،Rejection ،موکلین اور اعتدال پسند) کا تذکرہ کیا ہے، وہ اعتدال پسند رجحان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، مضمون میں مصنف نے ان تین طریقوں کو بیان کیا ہے جن کے بدولت سائنس پروان چڑھا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ قرآن مجید نے غور و فکر کے عمل کی ہمت افزائی کی ہے۔ کائنات اور مظاہر کائنات کو اللہ کی نشانی آیات اللہ قرار دیا ہے۔ کثرت سے مظاہر کائنات کو زیر بحث لایا ہے اور ان پر غور و فکر کے لیے بہ تکرار ابھارا ہے۔ دوسرے یہ کہ قرآن نے کائنات اور وسائل کائنات کی تسخیر و امانت کا نظریہ پیش کیا۔ تیسرے یہ کہ قرآن مجید نے منطق استقرائی  (inductive logic)کو فروغ دیا۔ کلاسیکی علمی روایات زیادہ تر ارسطو کی منطق استخراجی (Aristotelian deductive logic) یا Syllogism پر مبنی تھی۔ قرآن کے طریقہ استدلال سے متاثر ہوکر جابر بن حیان، الکندی اور پھر بو علی سینا جیسے مسلمان فلسفیوں نے استقرائی منطق کے وہ طریقے ایجاد کیے جنھوں نے تجرباتی سائنس کی راہیں ہم وارکیں۔’’ (ص 27)

 عالم اسلام کے عظیم مفکر حسن نصر کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں: ‘‘پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی اسلامی عقلی روایت کی جڑوں سے پیوستہ رہتے ہوئے جدید سائنس پر مکمل دسترس حاصل کریں۔ پھر اگلا قدم اسلامی فریم ورک کے اندر رکھیں، جدید سائنس کے فریم ورک کے اندر نہ رکھیں۔ کوئی مسلمان طبیعیات داں یہ ہرگز نہیں کہے گا کہ وہ کوانٹم میکانیات کی دریافتوں کی پروا نہیں کرتا، یہ فضول بات ہے۔ ضرورت جس بات کی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے کوانٹم میکانیات کو سمجھا جائے۔ پھر اُس کی تشریح اُس طریق سے سے بالکل مختلف طریقے سےکی جائے جس طریق سے کوپن ہیگن اسکول نے کی تھی۔ یعنی ڈیکارٹ کے فلسفۂ ثنویت کے اُصول پر جس کی بنیاد پر جدید سائنس کا سارا کارخانہ کھڑا کیا گیا ہے۔ اگر ہم ایسا عقلی سطح پر کرسکیں اور عالم خارجی کا مستند اسلامی فلسفہ یا مابعد الطبیعیات تخلیق کرسکیں اور دوسرے یہ کہ ہم اپنی سائنسی روایت اور مغربی سائنس دونوں کے امتزاج سے عالم خارجی کی اسلامی سائنس وضع کرسکیں اور تیسرے یہ کہ مغربی سائنس کو ہم اپنی سائنسی روایت میں جذب کرسکیں تو پھر ایسی سائنس کی بنیاد پر ہمارے لیے اپنی ٹکنالوجی پیدا کرنا ممکن ہوسکے گا۔’’(ص 28)

 صلاح الدین شبیر نے دہشت گردی، سماج اور مذہب کے حوالے سے مختصر مگر اہم موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔ محترم محی الدین غازی گزشتہ کئی ماہ سے خواتین کے حوالے سے لکھ رہے ہیں۔ اس ماہ انہوں نے سماجی خدمت کے حوالے سے مسلم خواتین پر مضمون لکھا ہے۔ اس میں انھوں نے خدمت خلق کے بہت سے ذرائع مثلاً، قانونی مدد، اہل اختیار پر اثر اندازی، مالی مدد، سماجی خدمت بذریعہ ہنر مندی، کونسلنگ کی ترغیب دی ہے۔ ہر عنوان کے تحت موصوف نے تاریخ کے درخشاں پہلو سے روشناس کرایا ہے۔ مضمون پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ  معاشرہ میں کیسے خواتین سرگرم رول ادا کر سکتی ہیں۔

 ڈاکٹر احمد علی اختر نے دین، شریعت اور فقہی مسلک کی وضاحت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر مسلمان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دین کیا ہے؟ شریعت کیا ہے اور فقہی مسلک کیا ہے؟ مرکزی تعلیمی بورڈ نئی دہلی کے ڈائریکٹر سید تنویر احمد نے اساتذہ کے لیے اہم ترین مضمون "کم زور طلبہ کی سطح کیسے بلند کریں” کے عنوان سے لکھا ہے۔ اس میں موصوف نے علمی اور عملی طریقہ بتایا ہے کہ کس طرح اے آئی سی یو (انتہائی تعلیمی نگہداشت کا مرکز) اور طلبہ کے گروپ کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ ہر استاد کو یہ مضمون پڑھنا چاہیے۔ مضمون میں انہوں نے چند لنکس بھی دیے ہیں۔

 ام مسفرہ مبشرہ بچوں کے حوالے سے اہم ترین مضامین لکھ رہی ہیں۔ اس شمارے میں انہوں نے ‘جذباتی ذہانت اور ہمارے بچے’ کے عنوان سے اہم مضمون لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں: ‘‘جذباتی ذہانت کہتے ہیں اپنے جذبات کو سمجھنے، ان کا صحیح استعمال کرنے اور ان پر کنٹرول کرنے کی اُن تمام مہارتوں کو جو انسان کی شخصیت میں اعتدال قائم رکھنے کے لیے اہم سمجھی جاتی ہیں۔ واضح رہے کہ ماہرین نفسیات کے مطابق ذہانت کی پیمائش ‘آئی کیو’سے زیادہ جذبات کی پیمائش ‘ای کیو’ زندگی کے مختلف شعبوں (خاندان، سماج) اور راہوں (تعلیم و تعلم، روزگار) میں کام یابی کے لیے ذمہ دار ہوتا ہے۔ کچھ محققین کا ماننا ہے کہ یہ صلاحیت پیدائشی ہوتی ہے۔ دیگر محققین کا دعویٰ ہے کہ یہ صلاحیت پروان چڑھائی جا سکتی ہے۔ چوں کہ جذباتی ذہانت کے راستے سے اپنے اور دوسروں کے جذبات اور احساسات کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور مثبت روی اپناتے ہوئے رویوں اور ردعمل کو سمت ملتی ہے، اس لیے کام یابی کے حصول کے حوالے سے یہ ایک اہم موضوع ہے۔” (ص 76)

ام مسفرہ  اپنے مضمون کا خوبصورتی سے یوں اختتام کرتی ہیں: ‘‘اللہ نے انسانی قلب کو جذبات سے معمور کیا ہے۔ غصّہ، خوف، اندیشے، خوشی، مسرت، مایوسی ہر ایک جذبہ اللہ کی نعمت اور انسان کے لیے بہت مفید ہے۔ ان جذبات کا ہونا زندگی کی علامت ہے۔ لیکن ان جذبات کا اس قدر بے قابو ہوجانا کہ انسان اپنے اور دوسروں کے لیے تکلیف دہ اور نقصان دہ ہوجائے، بڑی خرابی ہے جس کی اصلاح پر ضرور توجہ ہونی چاہیے۔ اچانک بھڑکنے والی ان جذباتی کیفیات پر قابو پانے کے لیے ذہانت اور مشق دونوں ہی ضروری ہیں۔ ’’ (ص 86)

زندگی نو کی خاص دریافت مشہور سائنس داں ڈاکٹر محمد رضوان صاحب ہیں۔ انہوں نے اردو زبان میں سائنس کے حوالے سے کچھ ایسے مضامین لکھے ہیں، جو اردو میں پہلی بار لکھے گئے۔ اس ماہ ان کے مضمون ‘‘جنسیت اور جدید بیانیہ’’ کی تیسری قسط شامل اشاعت ہے۔  LGBTQ، کا انہوں نے سائنسی بیانیے کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ اپنے مضمون کا اختتام وہ ایک بڑے محقق ایس مارک بریڈیو کے اقتباس سے یوں کرتے ہیں: ‘‘ہم میں سے اکثر حیرت میں پڑ جاتے ہیں جب ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے رویہ کا کتنا حصہ حیاتیاتی عوامل (جیسے جینیات اور رحم مادر میں ہارمون کے ارتکاز اور اس طرح کے عوامل) پر منحصر ہے۔ اکثر یہ فطرت کی نسبتی شراکت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے یعنی ‘فطرت اور اکتساب’ یا ‘جینیات بمقابلہ ماحولیاتی اثرات’ لیکن اس طرح کے بیانیوں کا سرسری تجزیہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جیسے جیسے آپ اس (موضوع) کی گہرائیوں میں جاتے ہیں، اس طرح کی تفریق مشکل سے مشکل تر ہوتی جاتی ہے۔” (ص 95)

 ڈاکٹر عرفان وحید کے ہم بے حد شکر گزار ہیں وہ ڈاکٹر جیفری لینگ کی تحریروں کا اردو ترجمہ مسلسل کر رہے ہیں۔ اس ماہ مضمون کی اٹھارہویں قسط شامل ہے۔ اس بار حدیث کی تشریعی حیثیت پر دل اور عقل سے لکھی گئی تحریر کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں کئی سوالات کو اٹھایا گیا ہے جن کا جواب آنے والی قسط میں ہوگا۔ معروف دانشور اور فقہیہ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے رسائل و مسائل کے تحت ‘‘بیوی کے انتقال کے بعد اس کے مہر کی ادائیگی کیسے ہو’’، ‘‘طلاق کے بعد رجوع کیسے کیا جائے’’، "عقیقہ کا گوشت تقسیم کرنے کا طریقہ اور ‘‘نو مولود کی نماز جنازہ ’’ پر بصیرت افروز جواب دیے ہیں۔

اس ماہ انجینیر ایس امین الحسن اور شیخ طنطاوی کے مضمون کی کمی محسوس ہوئی۔ امید ہے آئندہ ان مضامین کو بھی شامل کیا جائے گا۔

اس مؤقر رسالے کا درج ذیل لنک کے ذریعے مطالعہ کیا جا سکتا ہے:

http://www۔zindgienau۔com/Issues/2022/November2022/default_print۔asp

تبصرے بند ہیں۔