صلاحیتوں کا ارتقاء

سہیل بشیر کار

                صحیح مسلم میں رسول رحمت ﷺ نے ارشاد ہے:’’بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر کام کو اچھے طریقے سے کرنا ضروری قرار دیا ہے، پس جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور جب (جانور) ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو۔ ‘‘ دینِ اسلام، جو جانور ذبح کرنے کے لیے بھی احسن طریقہ چاہتا ہے،کیسے ممکن ہے کہ وہ زندگی کے جملہ شعبہ جات کے بارے میں بہتری (احسان) نہ چاہے؟ہر کام میں بہتری اور نفاست کو پسند کیا جاتا ہے اور اسلام نے بھی اس بات کو پسند کیا ہے کہ مومن اپنے ہر کام میں ترقی کے اعلیٰ معیار کو پالے، چاہے وہ عبادات سے متعلق ہوں یا معمولاتِ زندگی سے متعلق۔ اصل میں یہی احسان ہے جو انسان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں معاون ہوتاہے جس سے کہ نہ صرف وہ شخص خود فائدہ حاصل کرتا ہے بلکہ پوری انسانیت اس کی صلاحیتوں سے مستفید ہوتی ہے۔ جس شخص میں احسان کی صفت پائی جاتی ہے، وہ بہر صورت اپنی صلاحیتوں کے ارتقاء کی فکر میں ہمیشہ رہتا ہے اور صلاحیتوں کے ارتقاء سے ہی متمدن قومیں اور تہذیبیں وجود پاتیں اور دوام حاصل کرتی ہیں۔

                 زیر تبصرہ کتاب’’ صلاحیتوں کا ارتقاء‘‘ جناب انجینئر ایس امین الحسن کی ایک منفرد تصنیف ہے۔ اس کی اہمیت اس وجہ سے بڑھ جاتی ہے کہ فاضل مصنف اس میدان کے ماہر ہیں۔ انجینئر ایس امین الحسن نے انجینئرنگ کی تعلیم کے بعد سائیکالوجی میں ماسٹرس کیا ہے۔ آپNLP  Trainer   ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اعلیٰ اکیڈمک کیریئر کے ساتھ ساتھ آپ عملی میدان سے وابستہ ہیں۔

                مشہور و معروف عالمِ دین اور فقیہ ڈکٹر محمد رضی الاسلام ندوی اس کتاب کے بارے میں رقم طراز ہیں :’’اس کتاب کی حیثیت ایک گائیڈ بک کی ہے، جو قاری کو صلاحیتوں کے ارتقاء کی فکر کرنے کے لیے نہ صرف بے چین کردیتی ہے، بلکہ اس کے لیے عملی رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے۔ ایک فرد کیسے اپنی صلاحیتوں کا ارتقاء کرے، اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان خود ہی دیکھے کہ اس کے اندر کون سی صلاحیت رکھی گئی ہے۔‘‘

                 کتاب کو7 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پیش لفظ میں درج ہے:’’صلاحیتوں کے ارتقاء کے ضمن میں پہلا کام بنیادی طور پر ہر فرد کے ذہن میں یہ بات پیوست کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر صلاحیتوں کا خمیر رکھا ہے۔ دنیا میں کوئی انسان ایسا پیدا نہیں ہوتا جو بالکل ہی بے صلاحیت ہو۔ اب انسان کا یہ کام ہے کہ وہ اپنے اندر کی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچانے، انھیں بروئے کارلائے اور انھیں تعمیر وترقی کے کام میں لگائے۔ دنیا میں انسانوں کو ایک دوسرے پر جو فضیلت حاصل ہے وہ صلاحیتوں کی بنیاد پر ہے۔ اسی کی بنیاد پر کاروبار دنیا کا انتظام چل رہا ہے۔ کوئی اعلیٰ اور کوئی ادنیٰ ہے تو اس کی بنیاد پر معاشی زندگی کا پہیہ چلتا ہے۔‘‘(ص 7)

                فاضل مصنف صلاحیتوں کی اہمیت کے بارے میں لکھتے ہیں :’’ جو جتنی صلاحیت رکھتا ہے، دنیا میں آمدنی کے وسائل و ذرائع اس کے لیے اتنے ہی آسان ہوتے ہیں اور سماجی زندگی میں ترقی کے زینے طے کرنا آسان ہوتا ہے۔ سماج میں جو نظریاتی کش مکش ہوتی ہے، اس میں بھی صلاحیتوں ہی کی مسابقت ہوتی ہے۔ آج امریکا اگر اقوام کی امامت کرتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ دنیا بھر سے صلاحیتوں کو اس نے جمع کیا اور ان کے اظہار کے مواقع فراہم کیے۔ دنیا میں عروج، برتری اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو چار چاند لگائے۔ امت مسلمہ کا بھی جب چہار عالم میں ڈنکا بجتا تھا، اس وقت ان کی صفوں میں بڑے بڑے مفکر، دانش ور، سائنس دان، تاجر، دنیا کو کھنگالنے والے جنگی مہارت رکھنے والے اور علوم کی دنیا میں جاہلیت کو دعوت مبارزت دینے والے پائے جاتے تھے۔ آج امت کے زوال کے اسباب میں یہ بات مسلم ہے کہ تعلیم، مہارت اور ذہانت کے میدان میں وہ بہت پیچھے ہوگئی۔ اس کی نشاۃ ثانیہ کی راہ یہ بتائی جاتی ہے کہ علوم پر اس کا دست رس پھر سے بحال ہو۔ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تعصب برتا جاتا ہے، مگر واقعہ یہ ہے کہ ذہانت کے خلاف کہیں تعصب نہیں ہوتا۔ آج بھی صلاحیتوں کی قدر ہر جگہ ہوتی ہے۔‘‘(ص 8) لہٰذا ہر سطح پر صلاحیتوں کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں :’’ صلاحیتوں کی نشو و نما تحریک کے ایک کارکن سے لے کر ہر سطح کے قائدین کی ضرورت ہے، جس پر فرد اگر توجہ دینے لگے تو مجموعی طور پر تحریک صلاحیتوں کے میدان میں کافی آگے بڑھ سکتی ہے۔‘‘(ص 5)

                پیش لفظ ہی میں مصنف ان چار باتوں کا ذکر کرتے ہیں، جو صلاحیتوں کے ارتقاء کے لیے ضروری ہیں : پہلی بات ہر فرد کو جاننا ضروری ہے کہ تربیت کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اپنی ہمہ جہت تربیت کا سامان خود کرنا ہے۔ دوسری بات یہ کہ فرد جس بھی سطح کا ہو ہمارے لیے سرمایہ ہے۔ تیسری بات یہ ہے جو جس چیز میں ماہر ہے، اس سے بلا لحاظ مذہب و ملت استفادہ کرنا ہے، معاشرہ میں صلاحیتوں کے فروغ کے لیے جس طرح کی بھی کوشش ہو رہی ہوں ہمیں چاہیے کہ ان کوششوں میں ہم شامل ہوں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ صلاحیتوں کے فروغ کے لیے ہمیں انتہائی محنت اور جنون پیدا کرنا ہوگا۔ فاضل مصنف لکھتے ہیں :’’کچھ بننے سنور نے اور کچھ صلاحیت اور مہارت پیدا کرنے کے لیے اندر سے ایک آگ چاہیے، جس کی گرمی اور حرارت ہمیں متحرک اور سرگرم کر دے۔ جن کی زندگیوں میں یہ آگ سرد پڑجائے، وہ راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ تنظیمی زندگی کے نتیجے میں ہمارے اندر کی وہ چنگاری کبھی ٹھنڈی ہونے نہیں پاتی۔ اگر کہیں ایسا ہو چکا ہے تو ضروری ہے کہ پھر سے اس چنگاری کو آگ میں تبدیل کیا جائے۔ اندر کی وہ آگ جلتی رہے تو یہ بات یقینی ہے کہ ہم خود ہی متحرک رہیں گے اور اپنے لیے خود مہمیز کا کام کریں گے۔ اور اس آگ سے ہم خود اپنی ایک نئی شخصیت ڈھالیں گے اور سماج کو کوئی نئی چیز دے سکیں گے، انشاء اللہ۔ ہمارا اجتماعی ماحول کسی کے اندر کی آگ کو سرد ہونے نہیں دے گا بلکہ ایک دوسرے کے لیے مہمیز کا کام کرے گا۔‘‘(ص 12)

                فاضل مصنف حضرت موسیٰ  ؑ کے واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قاری کی امنگ پیدا کرتے ہیں، وہ لکھتے ہیں : ’’ایک آگ موسی علیہ السّلام کو دور سے دکھائی دی اور وہ اس کے قریب گئے، تا کہ وہ یا تو سردی میں گرمی کا سامان فراہم کر سکیں یا آگے کا راستہ معلوم کر سکیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو موسوی مشن کے علم بردار ہوتے ہیں خود ان کے سینے کے اندر ایک آگ ہوتی ہے، جس سے وہ اپنے لیے گرمی اور حرارت بھی پاسکتے ہیں اور آگے کا راستہ بھی روشن کر سکتے ہیں۔ ‘‘(ص 12)

                برادر ایس امین الحسن چوں کہ موٹیویشنل اسپیکر بھی ہیں، لہٰذا وہ اپنی بات بہترین طریقے سے رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ کتاب کے پہلے باب’’ صلاحیتوں کا فروغ۔ضرورت اور حکمت عملی‘‘کے آغاز میں بہت ہی اہم بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا میں آدمی کا وزن اور اعتبار اس کی صلاحیتوں کے حساب سے ہوتا ہے، اس لیے اپنی صلاحیتوں کو اپ ڈیٹ کرنا اور اپ گریڈ کرنا عقل مندوں اور دنیا میں کچھ کر گزرنے کا شیوہ ہوتا ہے۔‘‘(ص 15) اس باب میں مصنف سمجھاتے ہیں کہ اپنی صلاحیتوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور یہ کام موجودہ دور ہی میں اہم نہیں ہے بلکہ قرآن کریم میں پیغمبروں کے تذکرہ میں کہا گیا ہے کہ ان کے ہاں بھی اونچے معیار کو پالینے کا تصور تھا۔ وہ لکھتے ہیں :’’ قرآن مجید میں جا بجا انبیائے کرام علیہم السلام کی زندگی کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ ان میں کسی جگہ ان کی دعوت نمایاں ہے تو کسی جگہ ان کی گھریلو زندگی کے کچھ پہلو سامنے آئے ہیں۔ انھوں نے اللہ تعالی سے جو دعائیں کیں، قرآن نے انھیں بھی ابھار کر پیش کیا ہے‘‘ (ص 15)

                 فاضل مصنف قرآن مجید سے خصوصی شغف رکھتے ہیں اور اپنے لیکچرز میں قرآن کریم کے اہم رموز کو بیان کرتے ہیں۔ کتاب میں بھی اس کے خوبصورت اشارے ملتے ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں :’’ دل چسپ بات جس کی طرف لوگوں کا ذہن کم جا تا ہے۔ وہ یہ ہے کہ قرآن نے ان کی مخصوص صلاحیت کا ذکر کیا ہے، جو ان کی شناخت کا حصہ ہے۔ یعنی رہتی دنیا تک وہ اس صلاحیت کے حوالے سے بانی وموجد کی حیثیت سے جانے جاتے رہیں گے۔ جیسے حضرت نوح علیہ السلام بحیثیت کشتی ساز، حضرت ابراہیم علیہ السلام عالمی دعوت کا نقشۂ کار بنانے والے، حضرت داؤد علیہ السلام زرہ ساز، حضرت یوسف علیہ السلام بحیثیت ماہر پلاننگ اور مینجمنٹ وغیرہ۔‘‘(ص 16)

                 صلاحیتوں کے فروغ کی اہمیت کے حوالے سے وہ قاری کو دورِ رسالت میں لے جاتے ہیں۔ لکھتے ہیں : ’’صحابہ میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ اورحضرت عمر ؓ رائے اور مشورے کے لوگ تھے۔ نبی اسلام ان سے قبائلی سیاست، جنگی اسٹریٹجی، جنگ میں استعمال ہونے والے نئے اوزار اور ہتھیار کے سلسلے میں مشورہ کیا کرتے تھے۔ حضرت عمرو بن العاص ؓ اورحضرت خالد بن ولید ؓ میدان جنگ کے ماہرین تھے۔ ان سے جنگی مہمات کی قیادت کا کام لیا کرتے تھے۔ حضرت علی ؓ اسلام کے اول مفتی اور قاضی تھے، سرور کونینﷺنے اپنی نگرانی میں انھیں مقدمات کے فیصلے کی ٹرینگ دی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اورحضرت ابی بن کعب ؓ قرآن کے پہلے مفسرین تھے۔ آپ نے لوگوں سے کہہ رکھا تھا کہ ان حضرات سے قرآن سیکھا کریں۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓ  بہترین کمیونی کیشن کے آدمی تھے، ان سے ڈپلومیسی کا کام آپ نے لیا۔‘‘(ص16) آگے اس باب میں متنوع صلاحیتوں کی اہمیت، صلاحیتوں کے فروغ کے لیے حکمتِ عملی پر قیمتی نکات بیان کرتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ صلاحیتیں خود بہ خود پیدا نہیں ہوتیں، اس کے لیے محنت کرنا لازمی بھی ہے اور مستقل کام بھی۔

                دوسرے باب میں مصنف نے سیرتِ نبویؐ  کی روشنی میں انسانی صلاحیتوں کے فروغ کے سلسلے میں اہم بحث کی ہے،وہ لکھتے ہیں :’’انسانی صلاحیتوں کے فروغ کے سلسلے میں نبیﷺکا فارمولا کچھ اس طرح سے تھا، جس کا ذکر اس سے پہلے ہو چکا ہے کہ Buy, Build and Borrowیعنی صلاحیتوں کو نشوونما دینا، سماج کے باصلاحیت افراد کو متاثر کرنا اور بعض مخصوص صلاحیتوں سے بہ وقت ضرورت استفادہ کرنا۔ ‘‘(ص 29)

                صحیح بخاری کی وہ حدیث جس میں کہا گیا کہ’’ لوگوں کی مثال کانوں کی سی ہے (کسی میں اچھا مال نکلتا ہے کسی میں برا) سے دو اہم نکات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’انسانوں میں سب سے زیادہ قیمتی وہ لوگ ہیں، جن کے پاس اعلی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ وہ دائرۂ اسلام میں ہیں یا اس سے باہر ہیں۔ صرف صلاحیتیں انسانیت کے لیے مفید نہیں ہوتیں، اگر وہ ایمان اور تقوی سے عاری ہوں۔ سب سے زیادہ اچھے انسان وہ ہیں جن میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا خوف پایا جاتا ہو۔‘‘ (ص 30) اسی طرح وہ حدیث مبارکہ جس میں کہا گیا ہے کہ ’’جو انوں میں سے جو جاہلیت میں سب سے بہتر تھے، اسلام میں بھی بہتر رہیں گے‘‘کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’انسانی صلاحیتوں کے فروغ کے ضمن میں سب سے پہلا ضروری کام یہ ہے کہ اپنی ہی صفوں میں جو مخلص کارکنان جو ہمہ دم دین کے ہر کام کی انجام دہی کے لیے تیار رہتے ہیں اور اپنی زندگی اسی کاز کے لیے وقف کر دینے کا تہیہ کیے ہوئے تحریک میں شامل ہوتے ہیں، ان پر پہلی توجہ دی جائے۔ ان کا تزکیہ ہو، ان کی صلاحیتیں پروان چڑھیں، ان کی شخصیت سازی ہو اور وہ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچانیں تا کہ انھیں درجۂ کمال تک پہنچاسکیں۔ اسی کا نام تزکیہ ہے۔‘‘(ص 32) یہاں مصنف اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں اپنے کارکنان کی صلاحیتوں کو بڑھانا چاہیے اور ساتھ ہی واقعۂ ہجرت سے  استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ہجرت کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے غیر مسلم بدو، عبد اللہ بن اریقط کی خدمات حاصل کیں، تاکہ وہ غیر معروف راستے سے یثرب کی طرف لے جائیں۔ روانگی کے لیے مقررہ وقت پر ابن اریقط اونٹوں کے ساتھ غار میں ان سے ملنے آیا، اور وہ سیدھے شمال کی سمت میں یثرب کی طرف جانے کے بجائے جنوب مغرب کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ بہت ہی پر خطر سفر تھا۔ اور دوسری طرف قریش انھیں گرفتار کرنے کی ہرممکن کوشش کر رہے تھے۔ نبی ﷺ اور آپ کے ساتھی نے خود کو خدا کے سپرد کر دیا تھا، تاہم انھوں نے راستہ بتانے والے کی مدد حاصل کرنے میں دریغ نہیں کیا، وہ شخص دشمنوں کا ہم مذہب یعنی مشرک تھا، لیکن وہ اسے اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ قابل اعتماد بھی ہے اور راستوں کا غیر معمولی جان کار بھی ہے۔ اس لیے اس پر اعتمادکیا اور راستہ بتانے والے کی حیثیت سے اس کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا گیا۔ آپ ؐ صلاحیتوں کی قدر کرتے تھے اور ان سے تحریک کے لیے خدمات حاصل کرنے میں دریغ نہیں کرتے تھے۔‘‘(ص 36)

                 تیسرے باب میں مصنف نے سیرت نبویؐ کی روشنی میں بتایا ہے کہ آپ نے اس دور میں کس طرح صلاحیتوں کی نشوونما کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے دس صلاحیتوں کے تحت نشونما کا تذکرہ کیا ہے۔ مقررین کی نشونما کے تحت وہ حضرت جعفر بن طیار کے نجاشی کے دربار میں تقریر کے تحت لکھتے ہیں :’’حضرت جعفر طیار نے نجاشی کے دربار میں جس شان دار انداز سے تقریر کی، انھیں آج ہم پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ دربار نجاشی میں اس کی کیا گونج رہی ہوگی اور سامعین کے حواس پر کیا اثرات مرتب کی ہوگی۔ ‘‘ (ص 47)

                 انجینئر ایس امین الحسن نے کتاب میں سیرت النبیﷺکو سمجھنے کے لیے نئے اہم زاویے بیان کیے ہیں۔ کاش ہمارے معاشرہ میں سیرت کے ان عملی پہلوؤں سے عوام الناس کو روشناس کیا جاتا۔ کتاب کے چوتھے باب میں مصنف نے تحریک اسلامی کی چار خصوصیات کی تفصیل بیان کی ہے۔ فاضل مصنف نے آج کے حالات میں کون سی صلاحیتیں پیدا کرنی چاہیے؟اس سوال کے تحت چار اہم صلاحیتوں کی طرف توجہ دلائی ہے، جن کی امت مسلمہ کو سخت ضرورت ہے۔

                دنیا کی آدھی آبادی صلاحیتوں کے ارتقاء سے محروم ہے۔ ظاہر ہے اس کا متحمل کوئی بھی معاشرہ نہیں ہو سکتا، یہی وجہ ہے کہ رسول رحمت ﷺ نے خواتین کی صلاحیتوں کے ارتقاء پر خصوصی توجہ دی۔ اس معاشرہ میں خواتین چلتی پھرتی نظر آتی تھیں، مگر دھیرے دھیرے مسلم خواتین معاشرہ کی تعمیر میں وہ رول ادا نہ کر سکیں، جو ان سے مطلوب تھا۔

                فاضل مصنف نے پانچویں اور چھٹے باب میں خواتین کے حوالے سے صلاحیتوں کے ارتقاء پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ پانچویں باب میں مصنف نے نسوانی صلاحیتوں، ازدواجی زندگی کا استحکام، تعلقات کا فن اور پرورش کے فن اور کمیونکیشن کے فن پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ چھٹے باب میں مسلم خواتین کا مطلوبہ کردار اور مطلوب صلاحیتیں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس باب میں مصنف نے کئی خواتین، جو عملی میدان میں سرگرم ہیں اور معاشرہ کی تعمیر میں جن کا رول ہے، کی مثالیں پیش کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں : ’’شاہدہ البغدادی دسویں صدی کی عراق کی ایک معروف اسلامی اسکالر ہیں۔ فاطمہ سمرقندی بارہویں صدی کی اسلامی اسکالرتھیں۔ اس طرح اور بے شمار خواتین ہیں، جن کا نام تاریخ میں ملتا ہے کہ وہ یونیورسٹیوں اور مساجد میں بھی علوم اسلامیہ اور اس زمانے کی جدید سائنس پر لیکچر دیا کرتی تھیں، جن سے استفادہ کرنے والوں میں مردوخواتین دونوں شامل ہیں۔ ‘‘(ص 85)

                کتاب کے آخری باب میں مصنف نے امت مسلمہ کے قائدین اور کارکنان کی صلاحیتوں کو بڑھانے  پر گفتگو کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :’’ معلوم ہونا چاہیے کہ قائدین اس وقت سب سے زیادہ مضبوط نظر آتے ہیں، جب وہ خود سیکھ رہے ہوتے ہیں اور کیڈر سے بھی اس کا مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ‘‘ (ص 86)

                مصنف نے سیکھنے کے مراحل کی خمیدہ لکیر(learning curves) کے تحت، علم کا علم، لا علمی کا علم، علم کی لاعلمی اور لاعلمی کی لاعلمی کے تحت اہم نکات واضح کیے ہیں۔ اس باب میں مصنف بار بار یہ سمجھاتے ہیں کہ انسان چاہے کسی بھی لیول کا ہو اس کو سیکھنا لازمی ہے۔ کبھی بھی کسی فرد کو یہ سمجھنا نہیں چاہیے کہ وہ کسی فیلڈ میں ماہر ہوگیا ہے۔اب اس کو سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں بھی مصنف نے قصہ موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر کے قرآنی واقعہ سے اہم نکات بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :’’یہ اصول آپ کی زندگی میں کہیں بھی قابل اعتبار اور مکمل طور پر لاگو ہے، بند اور سخت رہنے سے آپ جہاں ہیں وہیں رہیں گے، جب کہ نئی تعلیم اور تبدیلی کھلا پن یقینی طور پر بہتر نشوونما اور صحت مند تبدیلی کے لئے ایک انتہائی ضروری پلیٹ فارم مہیا کرے گا اور ترقی کی راہوں پر آپ گام زن ہوں گے۔‘‘(ص 96) مصنف نے جہاں جاہلیت پر تنقید کی ہے وہی امت مسلمہ میں رائج کمزور پہلوؤں کی بھی نشاندہی کی ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :’’ صرف مغربی تعلیم کو دوش دینا نا انصافی ہوگی۔ دینی تعلیم کے نام پر دین کا جو سطحی علم رائج کیا گیا اس کا بھی یہ نقصان ہوا کہ شادی کے دوسرے ہی دن سے حقوق وفرائض کی جنگ چھیڑ دی جاتی ہے۔ جب کہ ازدواجی زندگی کی خوشیاں حقوق وفرائض کے خانوں میں تقسیم نہیں ہوتیں، بلکہ اخلاق اور احسان کی شیرینی سے حاصل ہوتی ہیں۔ وہ گھر جہنم نما ہے، جہاں صبح شام تُو تو میں میں ہوتی ہو اور جوتیوں میں دال بٹتی ہو۔ عورت کو اپنے Resourcefulness کی پہلی صلاحیت سے واقفیت ہونی چاہیے۔ ازدواجی زندگی کے استحکام میں اسے جو کردار ادا کرنا چاہیے وہ معلوم ہو۔‘‘(ص 65)

                 مصنف نے 96 صفحات کی اس مختصر سی کتاب میں بہت سارے قیمتی مباحث کو خوبصورتی سے سمیٹا ہے۔اس کتاب کو صرف ایک بار پڑھنا کافی نہیں ہے، بلکہ ر بار بار استفادہ کرنا ہوگا۔

                کتاب کا ٹائٹل بہت خوبصورت ہے۔ مشہور و معروف ادارہ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرزدہلی نے شاندار گیٹ اپ پر طبع کیا ہے۔ کتاب کی قیمت 70 روپے بھی مناسب ہے۔ یہ کتاب اس نمبر: 7290092403 سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

                مبصّر سے رابطہ:9906653927

٭٭٭

2 تبصرے
  1. بشری ناہید کہتے ہیں

    ماشاء ﷲ ‘ نہایت اہم کتاب پر بہترین تبصرہ
    جزاک ﷲ خیر الجزاء

  2. بشری ناہید کہتے ہیں

    ماشاء ﷲ ‘ نہایت اہم کتاب پر بہترین تبصرہ
    جزاک ﷲ خیر الجزاء ۔۔

تبصرے بند ہیں۔