عوام الناس کے صدر: ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام

سہیل بشیر کار

"چھوٹا مقصد بنانا جرم ہے، زندگی میں کچھ پانے کے لے ہمیشہ عظیم مقصد کو ہر انسان کو اپنا خواب بنانا چاہیے۔ خواب وہ نہیں ہے جو آپ نیند میں دیکھیں، بلکہ خواب وہ ہے جو آپ کو نیند نہیں آنے دے۔ ” ایسی باتیں صرف بڑے لوگ ہی کہہ سکتے ہیں۔ یہ باتیں مشہور و معروف سائنس دان اور سابق صدر ہند اے پی جے عبدالکلام کے ہیں۔ ابو الفاخر زین العابدین عبد الکلام (مختصراً: اے پی جے عبد الکلام) بھارت کے سابق صدر اور معروف جوہری سائنس دان، جو 15 اکتوبر1931ء کو ریاست تمل ناڈو میں پیدا ہوئے اور 27 جولائی 2015ء کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوا۔ عبد الکلام بھارت کے گیارہویں صدر تھے، انہیں بھارت کے اعلٰی ترین شہری اعزازات پدم بھوشن، پدم وبھوشن اور بھارت رتن بھی ملے۔ آپ کی شخصیت غیر معمولی تھی؛ ان کی شخصیت سمجھنے کے لیے ان کی آپ بیتی موجود ہے لیکن مرحوم کے بارے میں بہت کچھ ان کے احباب و اقرباء کو ہی علم ہے جوکہ وضاحت سے ان کی زندگی کی ترجمانی کرسکتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ان کے صدارتی دور کی اہم باتیں بیان کرتی ہے۔ کتاب کے مصنف ،ایس ایم خان ہے جو کہ ڈاکٹر صاحب کے صدارتی دور میں پرسنل سیکرٹری رہے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کو ان پر کافی اعتماد بھی تھا لہذا کتاب کی اپنی اہمیت ہے، کتاب کے ابتدائیہ میں ان کے بھائی اے پی جے ایم مرائکائیر لکھتے ہیں: ” پر ایک الگ زاویۂ نگاہ سے لکھنے کا ارادہ کیا ہے۔

یہ کتاب ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو عوام الناس کے صدر ،یکجہتی کے علم بردار، سائنسداں ،ساتھی ، دوست ،رہبر اور ایک عام انسان کے طور پر پیش کرتے ہوئے ان کی زندگی کے چند یکتہ و یگانہ ٔروزگار حقائق کو منظرِ عام پر لاتی ہے۔ مسٹر خان میرے بھائی کے گھریلو نوعیت کے معاملات سے بھی منسلک ہو گئے تھے جس میں رامیسورم سے خاندان کے اراکین کا یہاں آنا بھی شامل تھا۔ یہ کتاب راشٹر پتی بھون میں ہماری آمد کے واقعے کا تذکرہ بھی بہت مثبت انداز میں پیش کرتی ہے۔ ہمارے خاندان کی پانچ پیڑھیوں پر مبنی 53 افراد بھائی کے مدعو کرنے پر دہلی آئے تھے۔ جتنا میرے بھائی نے خاندان کے ہر ایک رکن کا فرداََ فرداََ خیال رکھا ،اس کی کوئی دوسری مثال نہیں مل سکتی۔ ان کے عملے نے بھی جس میں مسٹر خان بھی شامل تھے ،ہمیں ذرا بھی اجنبی محسوس نہیں ہونے دیا۔ "مزید لکھتے ہیں :

” یہ کتاب اے پی جے عبدالکلام کے عرصۂ صدارت اور ان کے عہدِ مابعدِ صدارت کی ایک جھلک پیش کرتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کتاب سے ، بہت سے نوجوان ذہنوں کو اپنے مستقبل کی تعمیر و تشکیل کرنے میں بڑی ترغیب ملے گی۔ "کتاب کے دیباچہ میں مصنف لکھتے ہیں:” پریس سکریٹری کے طور پر جوائن کرنے کے بعد ان سے پہلی ملاقات ہی میں انھوں نے مجھے بتا دیا تھا کہ ’’ میں راشٹر پتی بھون کو ہندوستان کی عوام الناس کے لئے ایسا ٹھکانا بنانا چاہتا ہوں ،جہاں ملک کے لاکھوں مفلوک الحال لوگوں کی آواز سنی جائے اور اس پر ایکشن ہو۔ ‘‘ دراصل وہ اس اعلیٰ منصب پر بنا کسی ذاتی مفاد کو ذہن میں رکھے ، محض ملک کی خدمت کرنے کے لئے ہی یہاں آئے تھے۔ وہ ایک ایسا دلکش مجسمہ تھے جسے ہر ہندوستانی پیار کرتا تھا اور ستائش کرتا تھا۔ ڈاکٹر کلام ملک کے عوام ،بالخصوص نوجوان نسل کی امیدوں اور آرزوؤں کی علامت بن گئے تھے۔ بعد از مرگ بھی وہ آج کروڑوں ہندوستانیوں کے لئے ایک شمعِ ہدایت ہیں۔ "اس سے ڈاکٹر صاحب کی ہر دلعزیزی معلوم ہوتی ہے جب عہدے کے سبکدوشی کے بعد ماتحت افسر مثبت گواہی دے تو یہ گواہی معتبر بن جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے پرسنل سیکرٹری لکھتے ہیں:”جب خان صاحب نے بطور سیکرٹری جوائن کیا پہلی ملاقات کے بعد اپنے تاثرات یوں بیان کرتے ہیں: "یہ میری خوش نصیبی تھی کہ مجھے ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے ساتھ اپنی عمر عزیز کے پانچ برس تک کام کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ یہ تجربہ میری زندگی کا ایک بیش بہا خزانہ ہے اور رہے گا۔مزید لکھتے ہیں: "طے شدہ وقت پر میں ان کے چیمبر میں حاضر خدمت ہوا۔ وہ اپنی ٹیبل پر کام میں منہمک تھے اور میں ان کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔ انھوں نے کہا میں راشٹر پتی بھون کو عوام الناس کا مسکن بنانا چاہتا ہوں ، جہاں لاکھوں غریب و بے بس لوگوں کی آواز کو سنا جاۓ اور اس پر عمل درآمد ہو۔ صدر جمہوریہ ہند کے اس بڑے دفتر کو مکمل طور پر ملک کے عوام الناس کے ساتھ ہم آہنگ دیکھنا چاہتا ہوں۔ بیس منٹ کے بعد میں جب ان کے کمرے سے باہر نکلا تومجھ پر ان کا مشن اور وژن بڑا واضح ہو چکا تھا۔ وہ اس اعلی ادارے میں کسی بھی ذاتی مفاد یا لالچ سے نہیں بلکہ محض ملک کی خدمت کے نصب العین سے آۓ تھے۔ "(صفحہ 3)

166 صفحات کی کتاب میں مصنف نے خوبصورتی سے ڈاکٹر کلام کے بطور صدر ہند اور اس کے بعد کے دور کو پیش کیا ہے۔ انہوں نے مثالوں سے سمجھایا ہے کہ کس طرح وہ عجز و انکساری کا ہیولہ تھے اور عوام الناس کے صدر ہونے کے علاوہ بہترین قانون دان، مربی، بحیثیت کامیاب ڈپلومیٹ، بہترین خطیب، سفارت کار اور باہمت مرد تھے۔ ڈاکٹر عبد الکلام کو اگرچہ ہند کے سابقہ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے کیبنٹ منسٹر کی آفر کی تھی لیکن کلام صاحب اس وقت سائنس کے میدان میں مصروف تھے اور انہوں نے انکار کیا،وہ جب صدر بنے اس وقت ان کے ذہن میں قوم کی خدمت تھی، چونکہ آپ ایک visionary شخصیت تھے لہذا وہ ان میدانوں میں لوگوں کو کام کرانا چاہتے تھے جن کی بدولت سے ملک ترقی کر سکتا تھا، آج کا دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور تھا مصنف اس سلسلے میں ڈاکٹر کلام صاحب کے حوالے سے لکھتے ہیں: "18 نومبر 2002 کو انھوں نے پیر جنگ دی ڈیجیٹل ڈیوائیڈ مہم کا کیرالہ میں آغاز کیا جسے وہاں ‘آکشیا’ نام سے موسوم کیا جا تا ہے۔ آکشا مہم کا مقصد تھا ہر گھر سے کم از کم ایک شخص کوعملی طور پر انفارمیشن تکنالوجی سے واقفیت رکھنے والا فرد بنانے کا ہے۔ اس طرح کیرالہ دنیا کی سوفیصد انفارمیشن تکنالوجی جاننے والی ریاست بن سکی۔”(صفحہ 15) ،بچوں اور نوجوان ان کے خصوصی فوکس تھے وہ چاہتے تھے کہ نوجوانوں میں عزم، لگن، محنت کی صفات پیدا ہو؛ مصنف لکھتے ہیں:” ڈاکٹر کلام نے نوجوان طبقے کوخبر دار کیا ہے کہ ”کامیابی ہمیں اپنے سامنے در  پیش مقصد کو پورا کرنے کے لئے ایک جسارت مندانہ وار فتگی ہی کی بدولت حاصل ہوسکتی ہے۔ تمھیں قوم کی تاریخ میں اس ایک صفحے کی تخلیق کے لئے یاد رکھا جاۓ گا ، چاہے وہ صفحہ ایک مندرجہ فہرست ہو ؟ ایجاد ہو، کھوج ہو یا نا انصافی کی جنگ ہو۔“(صفحہ 38) لیکن ڈاکٹر صاحب کی خاص خوبی یہ تھی کہ وہ سچے معنوں میں عوام الناس کے صدر تھے۔ کتاب کے مصنف ایس ایم خان لکھتے ہیں: "ڈاکٹر کلام صحیح معنوں میں عوام الناس کے صدر تھے۔ وہ ایسے واحد صدر ہند  رہے ہیں جنھیں میڈیا اور عوام کے ذریعہ یہ لقب ملا ہے۔ جب سے انھوں نے صدارت کا عہد لیا تھا تب ہی سے یہ بالکل واضح ہو گیا تھا کہ ان کی یہ خواہش تھی کہ راشٹر پتی بھون عوام الناس کا مسکن ہو، جہاں ان کی شکایات کو سنا جائے۔ انھوں نے اپنے نجی اسٹاف کو کہا ہوا تھا کہ جتنی زیادہ تعداد میں ممکن ہوسکے ،لوگوں کو ملنے کا پروانہ دیا جائے۔ ہر ہفتے اسکولی طلباء کو مدعو کیا جا تا تھا۔انھیں پہلے بچوں کی گیلری میں لے جایا جاتا تھا جو ڈاکٹر کلام نے راشٹر پتی بھون میں بنوائی تھی ،اور پھر اس کے بعد وہ صدر کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ ان کا بچوں کے ساتھ مباحثے پرمبنی اجلاس تقریباً ایک گھنٹے تک چلتا تھا۔ "(صفحہ 53) ڈاکٹر کلام اگرچہ بڑے سائنس دان اور بہترین منتظم تھے اس کے باوجود دین سے عملی لگاو تھا، ان کے سیکرٹری اور کتاب کے مصنف نے بہت سے واقعات کا تذکرہ کیا ہے لکھتے ہیں:” ایک بار انھوں نے دنیا کے مختلف علاقوں کے قارئین کی قرآت کا اہتمام بھی کروایا تھا، جو نئی دہلی میں بین الاقوامی قرآت قرآن کے مقابلے میں حصہ لینے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ اس پروگرام میں انڈونیشیا،ملیشیا؛ سری لنکا؛ مصر اور ہندوستان کی کئی ریاستوں سے قرا  نے شرکت کی تھی۔ اس طرح راشٹر پتی بھون میں ایک قرآت کا پروگرام منعقد ہوا تھا۔ ڈاکٹر کلام نے سورۃ فاتحہ خود پڑھ کر اس پروگرام کا افتتاح کیا تھا۔ "(صفحہ 59)

البتہ وہ ظاہر سے زیادہ پریٹکل انسان تھے لکھتے ہیں:” نومبر 2002 میں رمضان کا مہینہ آ گیا۔ ہر سال راشٹر پتی بھون میں سیاست دانوں، سرکاری افسروں اور سفارت کاروں کے لیے روایتی افطار پارٹی کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ڈاکٹر کلام نے اس معاملے میں مجھ سے اور اپنے سیکریٹری سے بات کی۔ ان کا خیال تھا اس میں کچھ بھی مذہبی نہیں تھا اور یہ ایک مکمل طور پر سماجی تقریب تھی۔ لہذا یہ رقم رمضان کے اصل مقصد عبادت کے علاوہ خیرات میں بھی صرف کی جانا چاہیے۔انھوں نے فیصلہ کیا کہ یہ رقم مختلف یتیم خانوں اور بچوں کے گھروں میں چاول ،دالیں کمبل اور سویٹرس جیسے سامان کی شکل میں ان کی ضروریات پوری کرنے میں لگا دینی چاہئے۔ انھوں نے ہمیں یہ بھی کہا کہ سرکاری خزانے کی اس رقم کے ساتھ ہی وہ خود اپنا ذاتی پیسہ بھی دیں گے۔ اٹھائیسں یتیم خانوں، بچوں کے گھروں اور مدرسوں میں وہ سامان تقسیم کر دیا گیا۔ میں ذاتی طور پر بڑی تعداد میں دہلی اور اس کے نواحی علاقوں غازی آباد، میرٹھ اور ہاپوڑ کے مختلف فلاحی اداروں میں ان اشیا کی تقسیم کی غرض سے گیا تھا۔ان کے پانچ سال کے عرصہ صدارت میں ہر سال یہ سلسلہ جاری وساری رہا۔ "(صفحہ 70) زکوٰۃ اسلام کا اہم ترین رکن ہے۔ بہت سارے لوگ زکوٰۃ نہیں دیتے جس کی وجہ سے امت مسلمہ مفلسی کی زندگی گزار رہی ہے، مصنف لکھتے ہیں:” ڈاکٹر کلام خود اپنی زکوٰۃ (اپنی کمائی اور مال و اسباب سے بچنے والی رقم کا 2۔5 فیصد) رمضان کے مہینے میں ہر سال مستحق طبقے کے لیے نکال کر ادا کر تے تھے۔” (صفحہ 70)

ایسے ہی کئی واقعات مصنف نے کتاب میں بیان کیے ہیں، عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ سائنس دان حضرات مادیت پر یقین رکھتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب کے ہاں ایسا بلکل نہیں تھا جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ایک طرف اس پیمانے کے سائنس دان ہے وہی روحانیت پر بھی یقین رکھتے ہیں تو ان کا جواب یہ تھا: "سائنسداں اور روحانی پیشوا ایک ہی چیز تو کرتے ہیں۔ یعنی کہ سچ کی جستجو اور سماجیاتی بدلاؤ۔ ان میں سے ایک تکنالوجی کے بوتے پر ایسا کرتا ہے اور دوسرا عبادت وریاضت کے توسط سے۔ اس میں کوئی متضاد بات نہیں۔ سائنس بھی تلاش حق کا دوسرا نام ہے۔ ماہر فلکیات اور معروف مصنف کارل سیگان نے کہا تھا: سائنس روحانیت کے ساتھ نہ صرف ہم آہنگ ہے بلکہ یہ روحانیت کے حصول کا ایک موثر ذریعہ بھی ہے۔ میں دھرم گروؤں سے ملاقات کرتا ہوں ، اس لئے کہ وہ اپنے معتقدین میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور میں ان سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے پیغام کو عام کرنے کی اور مختلف مذاہب کے درمیان رابطہ سازی کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔”(صفحہ 84)

ڈاکٹر صاحب کی خاص خوبی ان کی انسان دوستی تھی سماج کے کمزور طبقات کی مدد کا ان کے ہاں جنون تھا، معذوروں کے متعلق ان کے رویہ پر مصنف روشنی ڈالتے ہیں:” مختلف طور پر معذور لوگوں کی ضروریات کے معاملے میں وہ بڑے حساس تھے۔ مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ جب راشٹر پتی بھون کے زرد مہمان خانے میں وزارت صحت کی جانب سے ضعف بصارت کے شکار لوگوں کے موضوع پر ایک پروگرام چل رہا تھا۔ اس وقت کے سکریٹری برائے صحت نے اپنے تعارفی کلمات میں بصارت سے محروم لوگوں کے لیے جیسے ہی لفظ ’اندھے‘ کا حوالہ دیا تو ڈاکٹر کلام بڑے غضب ناک ہو گئے تھے۔ انھوں نے فوری طور پر سکریٹری برائے صحت کو بولنے سے روک دیا اور اس سے کہا کہ یہ لوگ اندھے نہیں ہیں اہم عام بشر اندھے ہیں جو چیزوں کو صحیح ، نقطہ نظر سے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ "(صفحہ 60) وہ جانتے تھے کہ سب سے اہم چیز عزت نفس ہے اپنے ہاں کام کرنے والے ان کو مصروفیات کے باوجود بھول نہیں گیے؛ لکھتے ہیں:”ایک بار جب سردی کے دنوں میں وہ راشٹرپتی بھون کے آنگن میں ٹہل رہے تھے جیسا کہ وہ پابندی کے ساتھ کیا کرتے تھے،ان کا دھیان اس بات پر گیا کہ حفاظتی عملہ جس کیبن میں کھڑا ہوکر اپنا فرض ادا کرتا ہے اسے گرم اور ٹھنڈا رکھنے کے لیے کوئی سہولیت فراہم نہیں کی گئی تھی۔ رات میں نگہبانی کرتے وقت یہ لوگ سردی سے کانپنے لگتے تھے ، اس سے نہ صرف انکی مستعدی متاثر ہورہی تھی بلکہ انکی صحت پر بھی خراب اثرات پڑسکتے تھے۔ انھوں نے متعلقہ افسروں کو بلایا اور اس کیبن میں موسم سرما میں چھوٹا ہیٹر اور موسم گرما میں ایک پنکھا لگوانے کی ہدایت دی۔ یہ حفاظت کے لیے تعینات عملے کے لئے ایک بڑی راحت تھی اور بعد میں دوسری جگہوں پربھی اس پرعمل کیا گیا۔ "(صفحہ 63) سابق صدر سے جب سوال کیا گیا کہ آپ کی زندگی میں سب سے زیادہ خوشی کا لمحہ کون ہوتا تھا؟ ان کا جواب تھا:” مجھے سب سے زیادہ خوشی اس وقت ملتی ہے جب میں جسمانی طور پر معذور بچوں کو (ایف آر او) ہلکی فلور ری ایکشن آرتھوسس کیلپیرس لگائے آسانی کے ساتھ چلتے پھرتے دیکھتا ہوں۔ ” (صفحہ 65)

انسان تو انسان ڈاکٹر صاحب  جانوروں اور پرندوں کا بھی خیال رکھتے تھے: "وہ جانوروں اور پرندوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ ایک دفعہ ، وہ مغل گارڈن میں ٹہل رہے تھے کہ انھوں نے ایک مور دیکھا جو اپنا منہ کھول نہیں پا رہا تھا۔ انھوں نے فوراً ہی جانوروں کے معالج میجر ( ڈاکٹر) واۓ سدھیر کمارکو مور کے طبی معائنے کے لیے راشٹر پتی بھون میں بلوایا۔ انھوں نے تشخیص میں پایا کہ اس مور کے منہ میں ٹیومر تھا۔ جس کے سبب وہ منہ کھول اور بند نہیں  کرپا رہا تھا۔ وہ کچھ کھانے کی حالت میں بھی نہیں تھا اور شدید تکلیف میں مبتلا تھا۔ ڈاکٹر کمارات اسپتال لے گئے اور اسکا فوری طور پر آپریشن کیا گیا۔ ٹیومر نکال دیا گیا۔ مور کو چند روز آئی سی یو (انتہائی دیکھ بھال کی یونٹ ) میں رکھا گیا اور بعد میں اسے گارڈن میں چھوڑ دیا گیا۔ "(صفحہ 64) ،

ڈاکٹر صاحب کے اقوال زریں مشہور ہے۔ کتاب میں بھی یہ اقوال جگہ جگہ ملتے ہیں، لیڈر کیسا ہو اس بارے میں ڈاکٹر صاحب کہتے:” ڈاکٹر کلام کے مطابق لیڈر میں ایک وژن کا ہوناضروری ہے۔ اس میں، نا قابل تسخیر راہوں پر سفر کرنے کی قابلیت ہونا چاہیے۔ اسے کامیابیوں اور ناکامیوں کے در میان گزرنا پڑتا ہے اور اس میں فیصلے لینے کی جسارت ہونا چاہیے۔ لیڈر کو لوگوں کے تئیں جواب دہ ہونا چاہیے اوراسے ثابت قدمی کے ساتھ کام کرنا آنا چاہیے۔ "(صفحہ 77)،ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام اچھے مقرر تھے نپے تلے الفاظ میں وہ اپنا مدعا بیان کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ مصنف نے اس پہلو کو بھی کتاب میں جگہ جگہ اجاگر کیا ہے یورپی یونین میں جب انہوں نے تقریر کی تو” یوروپین یونین کے صدر ہانس گرٹ پوٹرنگ نے ڈاکٹر کلام کا شکریہ ادا کیا اور کہا: ‘ہم نے کبھی بھی ایسی تقریر نہیں سنی۔ یہ تو الہامی نوعیت کی تقریر تھی۔ تقریر کے اختتام پر اراکین نے کھڑے ہوکر بڑے پر جوش انداز میں ان کا استقبال کیا۔ ” (صفحہ 67) ایسا ہی احوال مصنف سوڈان کا پیش کرتے ہیں:” جیسے ہی انھوں نے سوڈانی پارلیمنٹ میں اپنی تقرریر مکمل کی ،اراکین نے کھڑے ہوکر اور تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ ڈاکٹر کلام کو دادتحسین پیش کیا۔ اراکین پارلیمنٹ نے اس ملاقات کو اپنی زندگی کا نہ بھلا پانے والا واقعہ قرار دیا۔” (صفحہ 116)

مصنف نے نہ صرف ڈاکٹر کلام کے دور صدارت کی خوبصورت تصویریں قارئین تک پہچائی ہیں بلکہ دور صدارت کے بعد بھی ان کے جہد مسلسل کو پیش کیا ہے؛ لکھتے ہیں:” 25 جولائی 2007 کو وہ ہندوستان کے عہدہ صدارت سے دستبردار ہو گئے لیکن ڈاکٹر کلام کی ہر دلعزیزی ویسی ہی رہی جیسے پہلے تھی۔ نو جوانوں کے ساتھ مباحثہ کرنے اور انھیں بڑے خواب دیکھنے کو اکسانے کے لیے ، جو ان کا سب سے پسندیدہ مشغلہ تھا ، وہ اب پہلے کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ آزاد ہو گئے۔ انہوں نے  2020 تک ایک ترقی یافتہ ہندوستان کے نصب العین کو آگے بڑھانے کی خاطر ،طلبا اور دیگر لوگوں تک پہنچانے کے لیے ایک بار پھر ملک بھر میں سفر کرنے کا منصوبہ بنایا۔ "(صفحہ 151) اس باب میں مصنف نے بعد صدارت کے اہم واقعات کو پیش کیا ہے۔

کتاب میں ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے یادگار تصاویر ہیں جن سے کتاب کی دلچسپی میں اضافہ ہوتا ہے۔ کتاب بنیادی طور انگریزی میں لکھی گئی ہے اور کتاب کا ترجمہ سید وجاہت مظہر نے کیا ہے۔ اگر مترجم کا نام کتاب پر نہیں ہوتا تو معلوم نہیں چلتا کہ کتاب کو انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے، مسلمانوں کے ہاں ترجمہ کا فن صدیوں سے ہے۔ کتاب ‘قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان’ (NCPUL) نے بہترین طباعت سے شائع کی ہے اور قیمت صرف 125 روپے ہے۔ کتاب فون نمبر 49539000 سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ کتاب NCPUL کی ایپ؛ ای کتاب پر پڑھی جا سکتی ہے۔

رابطہ : 9906653927

تبصرے بند ہیں۔