مستقبل کا بھارت

سہیل بشیر کار

زیر تبصرہ کتاب انتہائی اہمیت کی حامل کتاب ہے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ راشٹریہ سویم سنگھ (جو اگر کہا جائے کہ فی الوقت ہندوستان کی سب سے بڑی تنظیم ہے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا) کیا کرنا چاہتی ہے اور کیوں کرناچاہتی ہے۔ان کے منصوبے کیا ہیں۔سنگھ کیوں ہندوتو کی بات کرتا ہے اور سنگھ کے سامنے بھارت کا وژن کیا ہے۔کتاب کی اہمیت اس وجہ سے بڑھ جاتی ہے کہ یہ سربراہ تنظیم ڈاکٹر موہن راؤ بھاگوت کی تقاریر ہیں۔ ڈاکٹر موہن راؤ بھاگوت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ( آرایس ایس ) کے سنگھ پالک (صدر) ہیں۔ وہ اس عہدہ پر کے ایس سدرشن کے بعد مارچ 2009 سے براجمان ہیں۔ ان کی پیدائش 11 ستمبر 1950 کو چندر پور بمبئی (مہاراشٹر) میں ہوئی۔ انھوں نے ویٹنری سائنس اینڈ انیمل ہز بنڈری میں گریجویٹ(Bvsc) کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر موہن راؤ بھاگوت کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا گیا ہے۔کتاب کا حسن ہے کہ اس کا ترجمہ ایک ذمےدار شخص ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کیا ہے۔

ڈاکٹر صاحب  اردو کے ممتاز دانشور، معلم، فلسفی، مفکر اور معروف نثر نگار ہیں۔انھوں نے دہلی یونیورسٹی سے ایم اے، ایم فل اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ستیہ وتی کالج دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں درس و تدریس سے وابستہ رہے اور اس کے صدرشعبہ بھی رہے ہیں، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان میں ڈائرکٹر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ یہ کتاب آر ایس ایس کو سمجھنے میں بنیادی ماخذ ہے۔ڈاکٹر منموہن وید، سیکرٹری آر ایس ایس لکھتے ہیں: "مستقبل کا بھارت – راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا نظریہ کے موضوع پر قابل احترام سر سنگھ چالک ڈاکٹر موہن راؤ بھاگوت کے ذریعے 19 تا17 تمبر 2018 وگیان بھون میں ایک لیکچر سیریز کا انعقاد کیا گیا تھا۔ سماج کے مختلف حلقوں کی نمائندہ اور بااثر شخصیات کو اس میں مدعو کیا گیا تھا۔ سماج کی ان قابل قدر شخصیات نے لگا تار تین دن آکر اس لیکچر سیریز کے تئیں جس گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا وہ بھارت کے روشن مستقبل کے تئیں ان کے اعتقاد اور فکر کی عکاسی کرتا ہے۔اس سے ہمارے حوصلہ اور یقین میں اضافہ ہوا ہے۔”(صفحہ x111) مترجم کتاب ڈاکٹر عقیل احمد لکھتے ہیں:”اس دوران انھوں نے جہاں دیگر اہم موضوعات پر گفتگو کی وہیں بالخصوص مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے موضوعات پر بھی کھل کر اپنی بات رکھی۔ ان کی یہ تقریر اپنے موضوع پر مکمل اور جامع ہے جس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مددملتی ہے کہ سنگھ بھارت کو کس نظر سے دیکھتا ہے اور اس ملک کی تعمیر وترقی کے لیے اس کے پاس کیا منصوبے ہیں۔اسی طرح اس ملک میں پائے جانے والے دیگر مذہبی فرقوں کے تئیں سنگھ کے نظریات سے بھی ہمیں واقفیت ہوتی ہے۔ ان کی تقاریر اور اجلاس کے اواخر میں ہونے والے سوالات و جوابات کتابی شکل میں ہندی زبان میں شائع کیے گئے ہیں۔ چونکہ اردو زبان میں آر ایس ایس کے تعلق سے بہت کم  مواد موجود ہے۔اس وجہ سے اردو طبقہ آر ایس ایس کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتا اور نہ جاننے کی وجہ سے بھی بہت سی بد گمانیاں پیدا ہوگئی ہیں، اس لیے ڈاکٹر موہن راؤ بھاگوت کی اس تقریری مجموعے کا ہندی سے اردو ترجمعہ شائع کیا جارہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ سنگھ کو کما حقہ سمجھنے اور اس کے تعلق سے پھیلی ہوئی بہت سی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں یہ کتاب معاون ثابت ہوگی.”ڈاکٹر منموہن وید مزید لکھتے ہیں:”اس لیکچر سیریز میں پہلے دو دن کا خطاب اور تیسرے دن سامعین کے ذریعے دلچسپی کے ساتھ پوچھے گئے سوالات کے جوابوں کو ایک جگہ جمع کر کے کتا بچے کی شکل میں قارئین کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ اس لیکچر سیریز کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں اور سماج میں بھی اچھی اور صحت مند بحث چل پڑی ہے۔ اس کا ہم استقبال کرتے ہیں۔ اس کتابچے کے ذریعے بھی یہ بحث آگے بڑھے گی اور اپنے وطن عزیز کے تئیں ایک مساوی نظر میں ابھر کر سامنے آئے گا اور امید ہے کہ اس سے ہمیں بھارت کے روشن مستقبل کی طرف بڑھنے کا رخ اور حوصلہ ملے گا۔”

کتاب کے پہلے باب جو ڈاکٹر موہن راو بھاگوت کی پہلے دن کی تقریر ہے “مستقبل کا بھارت، سنگھ کا نظریہ”میں ڈاکٹر صاحب نے آر ایس ایس کو 29 صفحات میں خوب سمیٹا ہے۔یہ 29 صفحات آر ایس ایس اور اس کے نظریات کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب خطبہ کے آغاز میں کہتے ہیں: "اس پروگرام کا انعقاد سنگھ کو سمجھنے کے لیے ہوا ہے کیونکہ سنگھ آج ایک طاقت کے روپ میں اس ملک میں موجود ہے، ایسا تجربہ ساری دنیا کو ہورہاہے۔ فطری طور پر اس کی چرچا ہوتی ہے ہونی بھی چاہیے، مگر چرچا  کرنے کے لیے صحیح صورت حال کا بھی پتا ہونا چاہیے۔ چرچا کیسی چلے وہ چرچا کرنے والوں کا حق ہے مگر حقیقت کیا ہے یہ جان کر چرچا ہوتی ہے تو اس کے غیر جانبدارانہ نتائج نکلتے ہیں۔”(صفحہ 1) مزید لکھتے ہیں:”ہمارے ریاست دہلی کے کارکنان نے سوچا کہ سنگھ کی حقیقت کیا ہے اس کے بارے میں باضابطہ طور پر دہلی کے با اثر قابل احترام طبقے کو بتایا جائے۔ اس پر کچھ سوال جواب ہو اور اس کے لیے یہ وقت منتخب کیا گیا۔ کیونکہ صحیح صورت حال جاننا ضروری ہے۔ یہی صورت حال میں آپ کے سامنے بیان کرنے والا ہوں۔ آپ کے سامنے صحیح صورت حال رکھتے وقت میرا مقصد آپ کو اپنی رائے کا موافق بنانا نہیں ہے۔ موافق ہونا یا نہ ہونا یہ آپ کا حق ہے۔ سنگھ جیسا ہے ویسا ہی میں بتاؤں گا۔ آپ کے سوالوں کا اپنے علم کے مطابق جواب دوں گا۔ اس پر ریسرچ یا ترمیم سب آپ کر سکتے ہیں یہ آپ کا حق ہے۔ لیکن اس کے بعد آپ کے ذریعے جو بھی چرچا ہوگی وہ سنگھ کی اتھرائزڈ جانکاری کی بنیاد پر ہوگی۔ یہی ہمارا مقصد ہے۔”(صفحہ 2)

اس تقریب اور اس کتاب کا مقصد مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے،یہاں وہ سنگھ کے بانی ڈاکٹر ہیڈ گیوار کا تعارف کراتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جس کو بھی آر ایس ایس سمجھنا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ڈاکٹر ہیڈ گوار کو سمجھے، مصنف یہاں تنظیم کے بانی کا تعارف کراتے ہوئے ان کی طالب عالمانہ زندگی، ان کی عوامی زندگی، ان کی سماجی بیداری کے چار مراحل، ان کے تعلقات اور سنگھ کی تاسیس پر مختصر مگر جامع روشنی ڈالتے ہیں، اس مختصر تعارف سے بانی آر ایس ایس کی زندگی کے اہم شعبہ جات کی جانکاری قاری کو ملتی ہے، تعارف کے بعد آر ایس ایس کیا ہے پر بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: "راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کیا ہے؟ یہ ایک طریقہ کار ہے اور کچھ نہیں ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نام کی تنظیم ہے؟ وہ شخصیت سازی کا کام کرتا ہے کیونکہ کام کاج کے اخلاق واطوار میں ہم آج بھی کئی طرح کی تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ ہمیں بھید بھاؤ سے فری سماج ہوا ہے، مساوات سماج چاہیے لیکن یہ جاننا چاہیے کہ صرف ایسا کہنے سے نہیں ہوگا۔سماج کا کردار نمونوں کی موجودگی سے بدلتا ہے۔ ہمارے یہاں آئیڈیلز میں عظیم لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔”(صفحہ 12)

سنگھ کے مقصد کے بارے میں لکھتے ہیں:”سنگھ کا مقصد ہر گاؤں ہر گلی میں اچھے رضا کار تیار کرنا ہے۔اچھے رضا کار کا مطلب ہے وہ جس کا اپنا کردار قابل اعتماد ہو، خالص ہو۔ جو پورے سماج اور ملک کو اپنا مان کر چلتا ہو۔کسی کو بھید بھاؤ سے عداوت کے جذبے سے نہیں دیکھتا ہو اور اس طرح جس نے سماج کی ہمدردی اور اعتماد حاصل کیا ہو۔ ایسے اطوار و کردار والے لوگوں کی ٹولی ہر ایک گاؤں میں ہر محلے میں کھڑی ہو۔ یہ منصوبہ 1925 میں سنگھ کے روپ میں شروع کیا گیا۔ سنگھ بس اتنا ہی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔”(صفحہ 13) تقریر کے دوران وہ ہندتو کیوں، مختلف نظریات میں توازن، جوڑنے والی تہذیب اور سنگھ کے طریقہ کار پر روشنی ڈالی ہے، سنگھ کے طریقہ کار کے تحت بتاتے ہیں: “سنگھ ایسی اوپن تنظیم ہے۔ یہاں ہر سویم سیوک پوچھ سکتا ہے۔ ہر سویم سیوک سوچتا ہے۔ تبادلہ خیال کرتا ہے۔ ہر سویم سیوک کی بات چرچا میں آنے کی روایت ہے۔ اب لاکھوں سیوئم سیوک ہیں،ان سب کی میں اکیلا نہیں سنتا ہوں لیکن شاکھا کی سطح پر ایسا انتظام ہے کہ ہر ایک کی رائے اوپر تک پہنچتی ہے اور پھر عام اتفاق رائے ہوتا ہے، جس راۓ پر اتفاق ہوتا ہے اسی میں سب لوگ اپنی اپنی رائے کو ضم کر دیتے ہیں۔سب سے زیادہ جمہوری تنظیم اگر آپ کو دیکھنی ہے تو آپ سنگھ میں آئیے۔”(صفحہ 22) یہاں وہ تنظیم کو چلانے والے وسائل پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں: “سنگھ میں خرچ خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ سنگھ کا کام کرنے کے لیے باہر سے ہم ایک پائی بھی نہیں لیتے۔ کسی نے لاکر دیا تو ہم لوٹا دیتے ہیں۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سویم سیوکوں کے باہمی تعاون سے چلتا ہے۔ سال میں ایک بار بھگوادھوج کو گرو مان کر اس کی پوجا میں اس کو نذر گزارتے ہیں۔”(صفحہ 23) مزید لکھتے ہیں: "سویم سیوک سماجی خدمت کا جو کام کرتے ہیں ان کے لیے لوگوں کا تعاون لیتے ہیں، ان کے ٹرسٹ بنے ہوۓ ہیں، وہ با قاعدہ نجی طور پر آڈٹ کر تے ہیں، اس کا حساب رکھتے ہیں، ساری باتیں وہ قانون کے حساب سے کرتے ہیں لیکن راشٹریہ سویم سیوک سنگھ باہر سے پیسہ نہیں لیتا ہے۔ دیا جائے تو بھی نہیں لیتا ہے۔ سنگھ کو چلا رہے ہیں سنگھ کے سویم سیوک؛ ایسی خود کفیل ہماری تنظیم اور ثقافتی کام ہے۔”(صفحہ 25 )

اس تقریر میں انہوں نے ایک اہم بات کی ہے جس پر سب کو عمل کرنا ہوگا۔مصنف”شہرت کی بھوک "کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: “کبھی کبھی لوگ کہتے ہیں کہ آپ سبھی اچھے لوگوں کو بے شناخت بنا رہے ہو ہاں بھئی بات صحیح ہے۔ ہم بے چہرہ بنتے ہیں تا کہ یہ بھی غرور نہ ر ہے کہ فلاں کام میں نے کیا ہے۔ اس کی وجہ سے کچھ مشکلات بھی آتی ہیں لیکن ایک خاص قسم کا انسان سماج میں تیار ہو، اس کے لیے ہم نے یہ کام شروع کیا ہمیں اور کچھ نہیں چا ہیے۔”(صفحہ 26) مزید لکھتے ہیں: “ اگر سنگھ کے لوگ بڑے بڑے کام کرتے ہیں تو یہ کسی پر احسان ہے کیا؟ یہ تو اپنا سماج ہے اس کے لیے کرنا ہے۔ ضرورت پڑنے پر اپنے سماج کے لیے قربانی کی بھی تیاری رکھنی چاہیے۔ تو زندہ رہ کر اگر دو چار اچھے کام کر لیے تو اس میں پیٹھ تھپتھپانے جیسی بات کیا ہے؟ بے غرضی کے ساتھ ملک کی خدمت کرو سب مل کر کرو اور اس لیے اجتماعیت سنگھ میں آپ کو قدم قدم پر ملے گی۔ سنگھ کے کتنے سویم سیوک ہیں، کام بھی بہت سے لوگ کرتے ہیں۔ لیکن مشہور سب نہیں ہوتے۔ دنیا داری میں چلتا ہے تو سنگھ کا ذمے دار ہونا پڑتا ہے پھر بڑا بن  گیا ہے تو میڈیا کے لوگ پیچھے پڑتے ہیں دکھاتے ہیں، اس لیے کسی کو سامنے آنا پڑتا ہے۔ نہیں تو ڈاکٹر موہن راؤ بھاگوت سر سنگھ چالک بن گیا اور روز اس کی تصویریں چھپ رہی ہیں۔ یہ ڈاکٹر موہن راؤ بھاگوت کے لیے بہت پریشانی کا سبب ہے۔ کیونکہ یہ سنگھ کی روایت نہیں ہے۔”(صفحہ 26) تقریر میں انہوں نے سنگھ میں خواتین کی صورتحال پر بھی بحث کی ہے۔

دوسرے باب میں سنگھ کے بارے میں غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے، سنگھ اور سیاست، خواتین کے بارے میں سنگھ کا نظریہ، ہندتو، ہندو لفظ کیوں، دھرم، ریلیجن، ترقی کا نظریہ، دستور کے تحت بہت ساری غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہیے, واضح رہے کہ سنگھ کے کاموں میں مردوں کے لیے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے رہنمائی ملتی ہے جبکہ خواتین کو راشٹریہ سیویکا سمیتی سے ملتی ہے۔ یہ دونوں ایک ساتھ چلیں گے۔ ایک دوسرے کے شعبہ عمل میں دخل نہیں دیں گے۔ ایک دوسرے کی ہمیشہ مدد کریں گے۔ یہ اس وقت طے ہوا۔ ایک لاکھ ستر ہزار سے اوپر چھوٹے بڑے خدمت کے پروجیکٹ پر کام کرتے ہیں۔ یہ آٹھ سال پہلے کے اعداد و شمار ہیں، آر ایس ایس چونکہ اپنے آپ کو معاشرتی تنظیم کہتی ہے لیکن بی جے پی کو آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم کہا جاتا ہے، سیاست کے بارے میں سنگھ کیا کہتی ہے، وہ کہتے ہیں: "میں یہ بات تھوڑے لفظوں میں پھر اس لیے بتا رہا ہوں کہ کئی بار ہم سے سوال کیا جاتا ہے کہ سنگھ کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟ کیا سنگھ کے سیاسی عزائم ہیں؟ کیونکہ آج کل کے تقریباً عام رحجان سے ایسا لگتا ہے کہ انسان کسی قابل ہو جاتا ہے اور اس شعبے میں کچھ کرلیتا ہے۔ جہاں سے اسے یہ قابلیت ملی ہے۔ تو وہ سیاست میں جانا چاہتا ہے۔ لیکن سنگھ کو پورے معاشرے کو جوڑنا ہے اور سیاست معاشرے اور زندگی کے بہت سے موضوعات کو لیتی ہے۔ ان موضوعات میں اختلافات پائے جاتے ہیں، یہ ہونا فطری بھی ہے۔ کیونکہ خیالات مختلف اقسام کے رہتے ہیں جس کی وجہ سے گروپ بندی ہوجاتی ہے الگ الگ پارٹیاں بن جاتی ہیں اور ان کے درمیان آپسی مخالفت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ سیاست، جماعت اور پورے معاشرے کو جوڑنے کا کام ایک محدود دائرے میں ہی ایک ساتھ چل سکتا ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں اس لیے سنگھ نے اپنے قیام کے بعد سے ہی یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہماری تنظیم سیاست سے دور رہے گی۔ مسابقت کی سیاست نہیں کرے گی، انتخابات نہیں لڑے گی، سنگھ کا کوئی بھی عہدے دار کسی بھی سیاسی پارٹی میں عہدے دار نہیں بن سکتا، سنگھ کو الیکشن اور ووٹوں کی سیاست سے دور رہنا ہے۔”(صفحہ 32)

اس سوال کے جواب میں کہ آخر سنگھ کے لوگ کیوں بی جے پی میں ہی جاتے ہیں ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں:”سویم سیوک ایک خاص پارٹی میں ہی کیوں ہیں؟ اس پارٹی کے بہت سے عہدے داران، موجودہ وزیر اعظم صدر سویم سیوک ہیں؟ اس لیے لوگ جب یہ قیاس لگاتے ہیں کہ نا گپور سے فون جاتا ہوگا اور بات ہوتی ہوگی، یہ بالکل غلط ہے۔ ایک تو وہاں کام کرنے والے سیاسی کارکنان یا تو میری عمر کے ہیں یا مجھ سے بھی سینئر ہیں اور سنگھ کے کاموں کا میرا جتنا تجربہ ہے اس سے کہیں زیادہ تجربہ انھیں سیاست کا ہے۔ ان کو اپنی سیاست کے لیے کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ہم انھیں کوئی مشورہ دے بھی نہیں سکتے۔ جان پہچان ہے تو حال چال پوچھ لیتے ہیں۔ ان کو کوئی مشورہ چاہے تو وہ کچھ لیتے ہیں اور ہم اگر کوئی مشورہ دے سکتے ہیں تو دے دیتے ہیں مگر ان کی سیاست پر ہمارا کوئی اثر نہیں ہے۔ سرکار کی پالیسیوں پر ہمارا کوئی اثر نہیں ہے۔ وہ ہمارے سویم سیوک ہیں ان کو نظر و فکر حاصل ہے اور وہ اپنے اپنے شعبہ عمل میں انھیں استعمال کرنے کی صلاحیت اور اختیار رکھتے ہیں۔ اس آزادی، استقلال اور خود انحصاری کے ساتھ ان کا کام چلتا ہے اور چلنا چاہیے ہم یہی چاہتے ہیں۔ ملک میں اور ملک کے سسٹم میں پاور نام کی جو چیز ہے اس کا جو مرکز دستور سے طے ہوا ہے وہی رہے گا۔ کوئی باہر کا دوسرا مرکز کھڑا ہو ہم اسے غلط لکھتے ہیں۔ اس لیے ایسا ہم کرتے بھی نہیں ہیں”سب جانتے ہیں 2014 سے بی جے پی اپنے عروج پر ہے اس کے باوجود آر ایس ایس کوئی ایسا بیان نہیں دیتی جس سے یہ ظاہر ہو کہ بی جے پی اس کی سیاسی ونگ ہے بلکہ اس کے برعکس مسلمان جذباتی قوم ہے، ہم اگر اپنے آس پاس مجموعہ دیکھتے ہیں تو اپنے آپ کو امیر المومنین کے منصب پر فائز سمجھتے ہیں اور لوگوں سے اس کا عہد لیتے ہیں، ہندوستان کی تعریف اور باقیوں کی تنقید یوں کرتے ہیں "ہم دنیا میں جہاں بھی گئے ہیں لڑے نہیں، ہم نے کسی کا ملک فتح نہیں کیا۔ ہم نے کسی کی جائیداد نہیں لوٹی۔ جہاں بھی گئے علم دیا تہذیب دی۔ دوسرے ممالک کے لوگ آ کر اپنے ملک میں بااثر بن جاتے ہیں اور بعد میں واپس چلے جاتے ہیں۔ تو ان کی یادگار اچھی نہیں رہتی۔ دوسرے ممالک سے لوگ آئے، انھوں نے ہم پر حکومت کی، چلے گئے۔ ممالک کے لوگ آئے، ہم پر اثر انداز ہوئے، چلے گئے۔ اس کو اچھا نہیں کہا جاتا لیکن واحد ہندوستان ہے، جس کا دنیا کے جن ممالک میں ظہور ہوا، اس کی یادوں کو وہاں کے لوگ خوشی سے احترام کرتے ہیں۔ آج بھی اس کی باقیات چل رہی ہیں۔ کہیں مجھے ملتے ہیں، کہیں دستکاری نئے سرے سے کھڑی کی گئی ہیں، مہا بھارت اور رامائن کی کہانیاں چلائیں۔ رام لیلائیں چلائیں، خوشی سے چلتی ہیں۔ عبادت کا طریقہ بدل گیا۔ بعد میں وہ شیور ہے، نہ بودھ رہے۔ وہ آج مسلمان ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے اسلاف نہیں بدلے۔”(صفحہ 43)

باربار ڈاکٹر صاحب کوشش کرتے ہیں کہ سب ان کا ساتھ دیں، سب لوگ ہندوستان کی ترقی میں اپنا رول نبھائیں، اس سلسلے میں جو وہ کہتے ہیں بڑا پن دکھائی دیتا ہے۔ دستور کے تحت لکھتے ہیں:”ہندتو عالمی کہنے کی بات کرتا ہے۔ جس دن ہم کہیں گے کہ صرف یہ چلیں گے وید کو نہ ماننے والا بدھ مذہب نہیں چلے گا، اس دن وہ ہندتو نہیں رہے گا۔ کیونکہ ہمارے ملک میں سچائی کی مستقل تلاش جاری ہے اور اس وجہ سے بہت سارے فلسفے اور نظریات پیدا ہوئے ہیں۔ ان سب کی اپنی اہمیت اور قدر و قیمت ہے، وہ سب سچ ہیں، ایسا سب مانتے ہیں اور ماننا چاہیے۔ ہم اس ہندتو کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں کیونکہ یہی واحد نظریہ ہے جو اس بھائی چارے کو نظریاتی بنیاد دیتا ہے۔”(صفحہ 48)۔

ملک کا پورا سماج تمام تر امتیازات و مفادات کو فراموش کر کے منظم ہوکر اپنے ملک کے لیے جینے مرنے کا عہد کرتا ہے۔ تب ہی ملک کی تقدیر بدلتی ہے۔ جو ممالک آج تک دنیا میں ترقی کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، آپ سب کی تاریخ دیکھ لیجیے کم از کم سو سال ایسی کوششیں مسلسل کی گئیں۔ اس کے بعد وہ ملک زوال سے عروج کی طرف گامزن ہوا اور ساری دنیا کے سر کا تاج بن گیا۔ چاہے وہ انگلینڈ ہو، امریکہ ہو، فرانس ہو، کیوبا ہو، جاپان ہو یا چین ہو۔ ان سب کی اپنی تاریخ لکھی گئی ہے۔ میں نے خود پڑھا ہے۔ اس کے حتمی نتائج کی بنیاد پر میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں۔”(صفحہ 49)

اس کتاب میں اہم معلومات بھی ہیں۔عام طور پر آر ایس ایس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سب کو دینا چاہتے ہیں۔دوسروں سے کچھ نہیں لیتے اس سلسلے میں وہ جاپان کے بارے میں لکھتے ہیں:”میں ایک  مثال دوں گا  جاپان کے بارے میں ایک کتاب لکھی گئی ہے ‘دی انکریڈیبل جاپانیز’ جاپان اس وقت دنیا کے بازاروں کا بادشاہ تھا۔ اس کا مطالعہ دو ماہرین سماجیات اور دو معاشی ماہرین نے کیا اور ایک کتاب لکھی۔ کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔ کتاب کے آخری صفحے پر انھوں نے نو نتائج بیان کیے ہیں۔ ان نو نتائج میں سے پہلے پانچ معاشیات سے متعلق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جاپان کے عوام نظم و ضبط کے عادی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اتنے ترقی پذیر ہیں۔ دوم وہ کہتے ہیں کہ جاپان کے عوام جب اپنے مفاد کے بارے میں سوچتے ہیں، تو وہ صرف اپنے مفاد کو نہیں سوچتے۔ کم از کم وہ اپنے گاؤں کی بھلائی سوچ کر کوئی منصوبہ بناتے ہیں۔ تیسری بات انھوں نے  یہ لکھی ہے کہ جاپان کے عوام اپنے ملک کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ چوتھی بات انھوں نے لکھی کہ جاپان کے عوام اپنے ملک کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے کو ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں اور پانچویں بات یہ کہ جاپان کے عوام اپنے ملک کا ہر کام بہترین اور اعلی طریقے سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں”۔(صفحہ 50)

تیسرے باب”تجسس – حل "میں ڈاکٹر موہن راو بھاگوت نے ان سوالات کا جواب دیا ہے جو سنگھ کی پالیسیوں کے بارے میں کیے جاتے ہیں۔ ذات پات کے بارے میں کہتے ہیں:”پہلی بین ذات شادی 1942 میں مہاراشٹر میں ہوئی۔ یہ پہلا واقعہ تھا اور اچھے پڑھے لکھے لوگوں کا تھا، اسی وجہ سے یہ مشہور ہوا۔ اس وقت ان کے پاس جو اچھے اور مبارکبادی کے پیغامات آئے تھے، ان میں قابل احترام ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کا پیغام بھی شامل تھا اور شری گرو جی کا بھی۔ گرو جی نے اس پیغام میں کہا تھا کہ آپ کی شادی کی وجہ صرف جسمانی کشش نہیں ہے، آپ یہ بھی بتانا چاہ رہے ہیں کہ سماج میں ہم سب ایک ہیں، اسی وجہ سے آپ یہ شادی کر رہے ہیں۔ میں اس کے لیے آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور آپ کے لیے ازدواجی زندگی میں ہر خوشی کی تمنا کرتا ہوں۔”(صفحہ 57) کیا سنگھ صرف اپر کاسٹ ہندوؤں کی تنظیم ہے، اس سلسلے میں وہ سنگھ کے ماحول کا نقشہ ایک واقعہ سے یوں کھینچتے ہیں:”جب میں پہلی بار سرکار یہ واہ منتخب ہوا۔ تو ہمارے سریش جی سونی معاون سرکار یہ واہ مقرر  ہوئے تھے تو میڈیا نے یہ کہا کہ یہ بھاگوت گروپ کی جیت ہے لیکن اوبی سی کو نمائندگی دینی ہے۔ لہذا سونی کا تقرر کیا گیا ہے۔ تو میں نے سونی جی سے پوچھا کہ سونی جی! آپ او بی سی سے آتے ہیں؟ تو وہ تھوڑا سا مسکرائے اور جواب نہیں دیا۔ ابھی بھی مجھے نہیں معلوم کہ سونی جی کس برادری سے آتے ہیں۔ یہ سنگھ کا ماحول ہے۔ لہذا اگر ہم اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو تبدیلی واقع ہوگی۔ میں ناگپور میں پڑھتا تھا۔ تو اس وقت ناگپور سنگھ کے تقریبا تمام افسر ادھیکاری ایک ہی ذات کے، یعنی برہمن تھے۔ لیکن جب میں 80 کی دہائی میں ناگپور پر چارک کی حیثیت سے واپس آیا تو جگہ جگہ جتنی بستیاں تھیں، وہاں اس طرح کا ایک ایگزیکٹو تھا۔ اسی لیے ہماری شاخیں بڑھا دی گئیں، ہم اس بستی میں پہنچ گئے، ہم نے کام بڑھایا، اس میں سے کارکنان تیار ہوئے، وہ آگے آئے۔ اگر کوٹہ سسٹم کریں گے تو ذات پات باقی رہے گی۔ آسان عمل کے ذریعے لاتے وقت لانے والوں کے دل میں یہ احساس ہونا چاہیے کیونکہ فطری طور پر ایک انسان کا مزاج اپنے جیسے کو پکڑنے کا ہوتا ہے۔ ہمیں صرف اپنے جیسے کو نہیں، سب کو پکڑنا ہے۔ یہ دھیان رکھ کر اگر کام چلتا ہے تو ایسا ہوتا ہے۔”(صفحہ 59)

کتاب میں excellence پر بہت زور دیا گیا ہے۔تلک جی کے حوالے سے لکھتے ہیں: "تلک جی کے لڑکے نے کہا کہ مجھے فلاں فلاں چیز پڑھنی ہے تو تلک جی نے انھیں ایک خط لکھا کہ زندگی میں کیا پڑھنا ہے اس کے بارے میں خود سوچو۔ تم اگر کہتے ہو کہ میں جوتے بنانے کا کاروبار کروں گا تو وہ بھی مجھے قبول ہوگا۔ لیکن یہ بات ذہن میں رکھو کہ تمھارا سلا ہوا جوتا اتنا عمدہ ہونا چاہیے کہ پونے شہر کا ہر آدمی کہے کہ جوتا خریدنا ہے تو تلک جی کے بیٹے سے خریدنا ہے۔پھر بتاتے ہیں: "لوگ ہمارے اعلی تعلیمی اداروں سے ڈگری لے کر آتے ہیں لیکن وہ ملازمت کے قابل نہیں رہتے۔ ڈگریاں بہت مل رہی ہیں، اعلی تعلیم کے انسٹی ٹیوٹس چل رہے ہیں۔ لیکن تحقیق کم ہورہی ہے۔ مضمون کو پڑھانے والے اساتذہ کم ہور ہے ہیں۔اس نقطہ نظر سے ہمیں جامع نظریہ اختیار کر کے ہر سطح پر تعلیم کا ایک اچھا ماڈل بنانا ہوگا۔ لہذا تعلیم کی پالیسی کا ایک بنیادی خاکہ ہونا چاہیے اور اس میں ضروری تبدیلیاں لانی چاہئیں، یہی سنگھ کئی سالوں سے کہہ رہا ہے۔ اور اس کے لیے مقرر تمام کمیشنوں کی رپورٹس بھی ایسی ہی ہیں۔ اب امید ہے کہ ان سب چیزوں کا اثر نئی تعلیمی پالیسی پر پڑے گا۔'(صفحہ 62)

ایک ہی زبان کیوں کے بارے میں کہتے ہیں: "آخر ایک زبان کی بات ہم کیوں کر رہے ہیں، اس لیے کہ ہمیں ملک کو جوڑنا ہے۔ ایک زبان بنانے سے اگر ملک میں ایک یورپ کھڑا ہوتا ہے تو اس سے ہمارے درمیان تلخی پیدا ہوگی، تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اپنا ذہن کیسے بنائیں۔ میرا تجربہ کہتا ہے کہ ہندی ٹھیک ہے۔ لیکن زیادہ تر حصوں میں ہندی میں کام کرنا پڑتا ہے اس لیے دوسرے صوبوں کے لوگ بھی ہندی سیکھ رہے ہیں۔ ہندی صوبوں کے لوگوں کا کام ہندی میں چل جاتا ہے، لہذا وہ دوسری زبانیں نہیں سیکھتے۔ ہندی بولنے والے لوگوں کو دوسرے صوبے کی زبان سیکھنا چاہیے۔ تو یہ من ملاپ جلد ہوجائے گا، ہماری ایک قومی زبان اور اسی میں سارا کاروبار ہو، یہ کام جلد ہی ہو جائے گا۔ ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔”(صفحہ 65)

اب رہی بات "بنچ آف تھاٹس” کی تو جو باتیں بولی جاتی ہیں وہ خاص حالات و اشخاص کے تعلق سے بولی جاتی ہیں؛ وہ ابدی نہیں رہتی ہیں۔ ایک بات تو یہ ہے کہ گروجی کے جو لازوال افکار ہیں ان کا ایک مجموعہ مشہور ہوا ہے؛ "شری گرو جی، وژن اینڈ مشن“۔اس میں ہم نے ان تمام چیزوں کو حذف کر دیا ہے جو فوری سیاق و سباق میں تھیں اور ان کے ان خیالات کو جمع کیا ہے جو دائمی معنویت کے حامل ہیں۔ آپ اسے پڑھیے، اس میں آپ کو وہ باتیں ملیں گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ سنگھ کوئی بند تنظیم نہیں ہے۔ ڈاکٹر ہیڈ گیوار نے کچھ کہا، اب ہم ہمیشہ اس کو لے کر چلیں ایسا نہیں ہے۔ وقت بدلتا ہے تنظیم کے حالات میں تبدیلی ہوتی ہے۔”(صفحہ 78) اسی طرح دفعہ 370، یکساں سول کوڈ، دفعہ 377 کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کا جواب دیا گیا ہے۔

یہ کتاب ایک منظم اور مضبوط تنظیم کو سمجھنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔اردو داں طبقہ ڈاکٹر شیخ عقیل کا شکر گزار ہے کہ اس اہم کتاب کا انہوں نے ترجمہ کیا۔یہ کتاب ‘قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان’ نئی دہلی نے شائع کی ہے۔قیمت 70 روپے بھی مناسب ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب ‘ای کتاب ایپ’ پر پڑھی جاسکتی ہے۔کتاب فون نمبر 49539000 سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔