محسن عثمانی ندوی: دل درد مند اور فکر ارجمند کا نمائندہ

محمدصابر حسین ندوی

پروفیسر ڈاکٹر محسن عثمانی صاحب ندوی دامت برکاتھم مقیم حال حیدرآباد نے ۲۸ فروری ۱۹۶۷ء میں آب و گل کا پہلا سورج دیکھا، مکمل تعلیم قدیم صالح جدید نافع کا علمبر دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنوء سے حاصل کی، اور ام المدارس دارالعلوم دیوبند سے دورہ حدیث کے بعد عصری علوم میں بھی بہت سی سندیں حاصل کیں، جیسے پٹنہ یونیورسٹی سے ایم، اے(عربی)، اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پی، ایچ، ڈی وغیرہ۔ دراصل یہ نام ایک ایسا نام ہےجس نے اپنی فکر و تحریر اور درد وسوز سے ایک چمن کو گل گلزار کیا ہے، جس کی تحریروں میں مثنوی کا ساز، اقبال کی بلند حوصلگی، ایمانی محبت، شاہین کی پرواز، حکومت و خلافت ’’ان الدین عند اللہ الاسلام‘‘ کا مضراب، اور دین کی جامعیت و ابدیت کا دعوت پنہا ہوتی ہیں، آپ کی نگارشات میں گہری فکر، امت مسلمہ کیلئے مستقبل کا لائحہ عمل کے ساتھ درد دل اور سوز درون کا سنگم ہوتا ہے، ورق پر لکھی گئی عبارتیں اگر کسی قلبی خوردبین سے دیکھی جائیں؛ تو اس پر دل پارہ و شہ پارہ کی صورت میں نظر آئے گا، اپنا جگر کاٹ کاٹ کر صفحات پر پروئے جاتے ہیں، خون کا قطرہ محسوس بھی نہ ہو اور ذہن ودماغ پر ایمان ویقین کاسرخ رنگ چڑھاجاتے ہیں، عزم واستقلال اور صبر و استقامت کا سبق پڑھا جاتے ہیں، آپ اگرچہ نثر نگار ہیں؛ لیکن گویا شعرکو نثر کے جامہ اور عباء میں ملبوس کر دیتے ہیں، اوراسے  جام سبو میں اتار کر عجب نشہ پیدا کردینے اور اصحاب نظر و اصحاب حل وعقد کو مخمور کردینے میں صد فیصد کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں، ان کی تحریروں کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے، فکر و خدشات اورپیغام دل کی گیرائی میں اتر جاتے ہیں، شاید ہی کوئی بد ذوق ہو یا کوئی لطافت ونکتہ سنجی کے اشتیاق سے محروم ہو؛ جو ایسی نعمت بیش بہا سے حرماں کا مقام پائے۔

  آپ کی فکروں میں ’’وجعلناکم امۃ وسطا ‘‘کا انوکھا رنگ ہوتا ہے، متوازن رائے، وسعت نظری اور وسعت قلبی کا آئینہ ہوتا ہے، سچی بات تو یہ ہے کہ ندوی دبستان کا یہ کمزور و ضعیف گوشت و پوست کا بزرگ نوجوان، سفید ریش شہزادہ اپنے اندر ایک عالم سجائے ہوئے ہے، اس کے اندر شبلی اور سلیمان کی تحقیقاتی و تحلیلی نظر کا وافر حصہ پایا جاتا ہے، وہ عبد الباری ندوی کے فلسفے کا ایک شاگرد اور مسعود عالم ندوی کی ادبیت کا پرتو ہے، ان سب سے بڑھ کر سیدی ابوالحسن علی ندوی کا حقیقی جاں نشین، نور نظر اور علمی ورثہ کا وارث ہے۔ مرحوم ہی کے نقش قدم اور فکر وتربیت کو آنکھوں کا سرمہ اور مقدر کا تحفہ سمجھتے ہیں، ان کی باتیں اور نگارشات سیدی ابولحسن علی ندوی ؒ کے حوالوں اور اقتباسات کے بغیر شاذ ونادر ہی پائی جاتی ہیں، مجلسوں اور محفلوں میں ان کا تذکرہ اور چھوٹوں، شاگردوں اور محبین کے مابین ان کے حوالے ایسے نقل کرتے ہیں؛گویا آپ نے اپنے مرشد کو اپنےدل وجگر میں اتار کر سراپا وجود بنالیا ہو، وہی عالمی منظر نامہ پر تشویش اور امت کے احوال پروہی درد و فغا ں کا سلسلہ رہتا ہے، اور اسی کرب واضطراب سے چور و مسحور رہتے ہیں۔

آپ عالم عرب یا یوں کہئے عالم اسلام پر پوری بصیرت و بصارت کے ساتھ رائیں قائم کرتے ہیں، حالات کی سنگینی اور اس کی باریکی کو سمجھ کر ایک ماہر و نباض طبیب کے مثل دوا تجویز کرتے ہیں، جو بر وقت ایسا نسخہء کیمیا ہوتا ہے؛جس سے دیرپا نتائج کی امیدیں ہوتی ہیں، جو اعلائے کلمۃ اللہ اور عہد رفتہ کی بازیابی کی یقین دہانی کراتی ہیں، وہ خلافت اسلامیہ کے وجود کے ساتھ اسلامی معاشرہ اور صالح شخصیت کی نمائندہ ہوتی ہیں، آپ کے درد کا محور اکثر وہ مظلوم ہوتے ہیں؛ جو صہیونی و صلیبی (جدید) جنگوںکا لقمہ تر بن چکے ہیں، جن کے خوفناک اور وحشتناک حملے اسلام پروروں کیلئے موت کا پیغام لاتے ہی رہتے ہیں، جو ہر وقت محاذ جنگ پر صف بستہ کھڑے ہوئے ہیں، عورتیں اور بچے اذیت و تکالیف کی شدت سے بلکتے رہتے ہیں، جو دشمنان اسلام کی توپوں اور ڈرون حملوں کے زیر سایہ شب وروز کرتے ہیں؛لیکن ان کے دل اسلامی غیرت و خودداری اور عشق نبوی صلی اللہ، جذبہ جہادفی سبیل اللہ اور شوق جنت، رضائے الہی سے معمور ہوتے ہیں، اوران کے حق میں اللہ سے بس یہی دعا کرتے ہیں:

میرے قافلہ میں لٹادے اسے

لٹادے ٹھکانے لگادے اسے

آپ نے عالم عرب کے کردار اور مسلمانوں کی ان سے توقعات پر ہمیشہ لب کشائی کی، عمومی علمائے ہند بلکہ علمائے اسلام کی طرح مصلحت کی چاروں میں لپٹ کر اسلام مخالف تحریکات کا چراغاں نہ دیکھتے رہے؛بلکہ اس کے پس حجاب ظلمت کی دبیز پردوں کو قلمی جولانی سے چاک کرتے رہے، چانچہ جب مصر میں اخوان المسلمین کے خلاف اورجائز و قانونی راہ پر قائم دین پرور، انسانیت نواز حاکم صدر مرسی کی حکومت کو دجال وقت سیسی نے مار آستین بن کر اور غداری کر کے بغاوت کی؛ تو آپ کی ایمانی جولان کا لاوا قلمی صورت میں قہر بن گرا، اخبارات و رسائل کے ذریعہ نوجوانان اسلام میں ایک لہر سی دوڑادی جیسے کسی نے رگوں میں نیا خون جاری کردیا ہو، بالخصوص جب اس مہم میں سعودی عربیہ کا دوغلاکردار منظر عام پر آیا؛تو آپ نے ان کے چوغہ، جبہ دستار کی فکر نہ کی، خادم حرمین کے لقب اور اس کی آڑ میں اسلامی حقانیت کے استیصال کی کوششوں کو روا نہ رکھا، اور پھر آپ نے ان کے خلاف گویا ایک جنگ کا اعلان کردیا، سعودی عرب کی اسلامی ریشہ دوانیوں کو اجاگر کرنے اور ان کی اسلام مخالف پالیسیوں کی مزاحمت کے ساتھ ساتھ خطرناک صورت حال کی نشاندہی کرنے میں کسی کی کوئی رو رعایت نہ کی اور نہ کرتے ہیں، حالانکہ آپ نے اس سلسلہ میں اپنوں ہی سے زخم کھائے، قدم قدم پرکانٹے بچھائے گئے، اور ریال پسند طبقوں نے وہ سب کچھ کیا جو ایک دشمن بھی نہ کرے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ ہی کیلئے علامہ اقبال نے کہا تھا:

آئینہ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی 

اللہ کے شیروںکو آتی نہیں روباہی

حقیقت یہ ہے کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے، چنانچہ آپ وسیع الصدر اور ذوق و ظرافت اور اسلام محبت، خدا پرستی اور عشق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہوتے ہوئے؛ اسی کے ہو کر رہ گئے ہیں، اسلام کی سربلندی و سرفرازی کی کوششیں آپ کے دین وایمان اور حیات مستعار کا جزء لاینفک ہے، باطل کے ہر تیر وخنجر پر اپنا سینہ آگے کردینا، اور اسلام کے حق میں ڈھال بن جا نا ہی ان کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے، وہ کسی لحظہ باطنی یا خارجی نقص کو، معاشرتی یا ملکی فسادکو، متدین یاغیر متدین طبقہ میں افراط وتفریط کو قبول نہیں کرتے؛بلکہ ان کی سوزش قلب اور غیرت ایمانی کا بے لاگ اقدام انہیں برداشت کرنا پڑتا ہے، اگرچہ یہ ضعیف مجاہد اپنی پیری و ضعفی اور لاغر جسم کی بنا پر فقہی اعتبار سے جہاد کا مکلف نہ رہا ہو ؛لیکن وہ حتی المقدور جہادی فریضہ کو ایسے انجام دیتے ہیں؛گویا کہ کسی نو عمر اور نواجوان نے بھلا کیا انجام دیا ہو!، ان کی زبان ہی غیراللہ پر تیر وتفنگ کی برسات کرتے ہیں، ان کا قلم ہی شمیشیر بے نیام کا کردار ادا کرتا ہے، خلیجی ایوان (مارآستین کہئے یا منافقین اسلام ) کےشیطانی مجلس شوری میں یہی قیامت برپا کرتے ہیں، مغربی تہذیب وثقافت کی پرت ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں، اس کی شہ رگ پر اس تندہی سے حملہ ور ہوتے ہیں؛ کہ اس کا عیب جگ ظاہر ہوجاتا ہے، اوروہ اظہرمن الشمس ہوکر اصحاب نظر کیلئے اس کا ظاہری ہنر محض نقالی کی صورت میں عیاں ہوتا ہے، اس کا وہ زاغ جس نے طاوس کے پر لگا رکھے ہیں، اپنی ہیئت میں رونما ہوکر بدنمائی کا مجسمہ بن کر رہ جاتا ہے۔  آپ کی علمی جد وکد اور عملی کا وشون کو دیکھتے ہوئے برملاکہا جاسکتا ہے:

میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی

میں اسی لئے مسلماں، میں اسی لئے نمازی

   آپ صرف قلم کے غازی، زبان کے شہسوار ہی نہیں؛بلکہ کردار کے سپاہی بھی ہیں، حسن اخلاق، حسن عمل سے سرشار ہیں، ملنساری، قدردانی، انکساری وتواضع، ضیافت وظرافت، ہمہ خوبی و ہمہ محبوبی کے پیکر ہیں، چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور بڑوں کے ساتھ عقیدت ومحبت کا اظہار، اجنبیوں کو بھی اپنا بنا لینا ان سے جلد از جلد مانوس ہو کر یا کرکے فکری و مطالعاتی گفت و شنید کرنا، حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال کرتے ہوئےمہمانوں کی آراء جاننا، اور انہیں موجودہ صورت حال پر توجہ دلانا بھی انہیں کا خاصہ ہے، آپ کی سادگی، بے غرضی اور فرط محبت کو دیکھتے ہوئے بس یہی کہا سکتا ہے کہ آپ کے عقیدہ میں یہ شاعر کا یہ تخیل کارفرما ہے:

تیری بندہ پروری میں میرے دن گزر رہے ہیں

نہ گلہ ہے دوستوں کا، نہ شکایت زمانہ

آپ کی یکسوئی اور علم وعمل سے مستانہ لگاو کو دیکھتے ہوئے ایسا قطعا گمان نہ ہو؛ کہ آپ نے زمانے کی خاک نہ چھانی، مسافتوں کو نہ روندا ہو، جس نے علم کے ثریا کو پا لیا ہو اس کیلئے خانہ خراب کی قناتیں کیونکر نہ لپیٹ دی جائیں؟چانچہ آپ نے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کے طرفین ملادیا ہے، امریکہ اور لندن کی آرائش و زیبائش اور اسلام بغاوت دیکھی، ترکی میں اسلامی خلافت، اسلامی دور کا سنہرا پرچم دیکھا، مصر، شام اور اردن کی سرزمین پر بھی قدم رکھا اور اس کا بغور مشاہدہ کیا، وہاں فرعونیت کا عروج اور دجالوں کے خروج کا بغائر مطالعہ کیا، ایران کی چوکھٹ پر بھی پیر رکھے اور سلمان فارسی ؓ، مجوسیت، شیعت کے مراکز اور اسلامیت کےا مکانات کو سمجھااور ان سب کا حسین مجموعہ ’’دنیا کو خوب دیکھا‘‘ کے نام سے قارئین کی نظر کیا، اور یہ کہہ گئے!:

بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے

ہوتا ہے شب وروز تماشہ میرے آگے

اگر یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ اگر کسی کتاب و مطالعہ کے شوقین اور حالات حاضرہ پر واقفیت کے مشتاق نے جناب موصوف کی کتابیں اور کاوشیں نہ پڑھیں؛ تو گویا اس نے علم کے ایک بحر بیکراں سے غفلت کی، اگر علم کے شیدا کی لائبریری اور میزیں ان کی کتابوں سے خالی ہیں ؛تو بلا شبہ وہ ایک عظیم دانشکدہ اور مشعل انسانی سے محروم ہے، کیونکہ آپ کی کتابیں محض صفحات اور جلد و اوراق کا نام نہیں؛بلکہ وہ اسلامی حمیت کا آئینہ اور سوز دل کا نمائندہ ہیں، ذرا غور کیجئے! جب آپ نے سلمان رشدی کی ناہنجاری اور شورہ بختی کا ادراک کیا اور شاتمین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کمر بستہ ہوئے تو ’’اسلام میں اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا‘‘ نامی کتاب منظر عام پر آئی۔

دیکھئے اس بحر کی تہ سے اچلتا ہے کیا

گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا

زمانہ قریب میں واقع عالم عرب (شام، لیبیا، یمن، مصر، تیونس) کے انقلابات پر اسلامی نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے ’’انقلابات عرب دنیا میں۔ ۔ اسلامی نقطہ نظر‘‘ کی وضاحت کی اور خدشات و توقعات کو اجاگر کرتے ہوئے؛ایک نئی اساس و بنیاد حکومت کی طرف اشارہ کیا، نیز ظلم کے خلاف آواز ایک صدائے احتجاج کے طور پر مصر کے ساتھ ہوئے دوغلہ پن اور اخوان کے ساتھ ظلم کی داستان پر نگارش کی، جس کا نتیجہ ’’ترکی، مصر، سعودی عرب اور اخوان‘‘ نامی کتاب منظر عام پر آئی، بلکہ اس موضوع پر آپ کے دل کا لہو ’’سفینہ غم دل ‘‘ کے نام سے نکلا، اور مشرق وسطی بالخصوص شام کے لہولہان اورظلم و تشدد کے طوفان کی کہانی ہر ایک کو سنائی، اور ہر دل کو جھنجھوڑا، اور اسے لٹتے ہوئے جزیرہ عرب کی داستان گوش گزار کی۔

سچ تو یہ ہے کہ آپ نےعربی و اردو پر مشتمل علم سینہ کو علم سفینہ پر اس قدر جاںفشانی اور تعداد میں اتارا ہے؛ کہ فردا فردا ہر ایک کا تذکرہ مشکل امر ہے، جیسے ’’قضیۃ البعث الاسلامی‘‘، ’’’یحدثونک عن السید ابی الحسن الندوی‘‘، ’مصر کی عربی صحافت‘‘، ’’وحیدالدین خاں :علماء اور دانشوروں کی نظر میں‘‘، ’’دعوت اسلام اقوام عالم اور برادران وطن کے درمیان‘‘، ’’ہندو مذہب :مطالعہ اور جائزہ‘‘، ’’حالات بدل سکتے ہیں‘‘، ’’حادثہ کربلا اور اس کا پس منظر‘‘ وغیرہ، ان کتابوںمیں ایک کتاب’’مشاہیر علوم اسلامیہ اور مفکرین و مصلحین‘‘ ہے جودو سو شخصیات اور ان کے علمی، کارناموں کے تذکرہ پر مبنی ہے، یہ حقیقتا دریا کو کوزہ میں بند کرنے کے مثل ہے، یہ ایک جام جمشید ہے جس میں اسلامی دنیا کی علمی اور دینی خدمات کا پورا منظر نامہ موجود ہے، امید ہے کہ ارباب ذوق وشوق آپ کی شخصیت اور علمی کارناموں سے خوب خوب استفادہ کریں گے، اور آپ کے وجود کو آنکھوں کا سرمہ، دل کی ٹھنڈک اور احسان الہی سمجھیں گے۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

تبصرے بند ہیں۔