محمد حسین آزاد کا تنقیدی شعور

(’آبِ حیات‘ کے تیسرے دور کے خصوصی حوالے سے) آخری قسط

صفدر امام قادری

        ’آبِ حیات‘ کے تیسرے دور کی تمہید میں شعرا کے استقبال کے لیے پہلا جملہ یوں کہا گیا ہے: ’’اس مشاعرے میں ان صاحب کمالوں کی آمد آمد ہے جن کے پا انداز میں فصاحت آنکھیں بچھاتی ہے اور بلاغت قدموں میں لوٹی جاتی ہے۔ ‘‘ ظاہر ہے، یہ جملہ مرزا مظہر، تاباں، ضاحک، میر سوز اور یہاں تک کہ خواجہ میر درد کے لیے نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ بات میر اور سودا کو چھوڑ کر اُس عہد کے کسی دوسرے شاعر کے بارے میں کہی جاتی تو وہ جھوٹ اور ناقابلِ یقین ہوتی۔ یہ سچّائی بھی ہے کہ کوئی زمانہ اپنے ممتاز افراد کے کارناموں سے پہچانا جاتا ہے اور اس کے معیار کی ضمانت بھی وہی چند منتخب اشخاص ہوتے ہیں۔ محمد حسین آزاد نے اسی لیے میر و سودا کا تذکرہ جی لگا کر اور قدرے تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ اس میں محبّت، خلوص اور اپنی زبان کے سربلندوں کے سامنے انکسارانہ انداز میں آداب بجا لانے کا انداز بھی دکھائی دیتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں ادبی Gossiping  نہیں ہے یا اس عہد کی ادبی اور علمی سیاست کے کچھ چھینٹے یہاں نہیں پڑے ہیں۔ ان سب باتوں کے بغیر محمد حسین آزاد کی نہ طبیعت سیر ہوگی اور نہ پڑھنے والوں کا ایک بڑا طبقہ انھیں میسّر آئے گا۔ اس لیے اُس عہد کو اصلی شکل میں دکھانے کے لیے قصّے کہانیاں، ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے کے معمولات ان دونوں شعرا کی زندگی کے احوال میں بھی موجود ہیں۔ لیکن آزاد کے ذہن کی بنیادی تنقیدی صفت پر توجّہ دیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ان شعرا کے بارے میں ان کے معروضات بڑے گہرے اور تنقیدی ہیں۔ ’آبِ حیات‘ کے بعد جو نئی تنقید پیدا ہوئی، میر اور سودا کے باب میں آزاد سے سب نے استفادہ کیا۔

        ’آبِ حیات‘ میں اکثر و بیش تر اس بات کا التزام ہے کہ شعرا کی شخصیت پر لازماً اظہار خیال کیا جاتا ہے۔ محمد حسین آزاد نے بھی شخصیت شناسی کے حصّے پر پوری توجّہ صرف کی بلکہ اس کتاب کی عوامی مقبولیت میں قدیم شخصیات کے مرقعے واقعتا بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ اکثر وبیش تر یہاں آزاد کی زبان اور انشا پردازی اپنے شباب پر ہوتی ہے۔ سودا کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہوئے مختلف لطائف اور واقعات پیش کرکے سودا کی شرافت اور صاف گوئی کی تفصیل بتائی گئی ہے۔ یہاں بادشاہ، نواب، شعرا، دوست، دشمن اور عام لوگوں سے ان کے تعلّقات کی نوعیت کا بھی پتا چلتا ہے۔ سودا کی ہجو گوئی کے بارے میں آج یہ بات سب جانتے ہیں کہ وہ اپنی طرف سے پہل نہیں کرتے تھے لیکن حقیقت میں اس بات کی مقبول ابتدا محمد حسین آزا د سے ہوتی ہے کیوں کہ اس سلسلے میں ’آبِ حیات‘ میں واضح جملے اس طور پر لکھے ہوئے ہیں :  ’’یہ بھی معلوم ہوا کہ ابتدا سودا کی طرف سے کم ہوتی تھی۔ ہاں کوئی چھیڑ دیتا تھا تو پھر یہ بھی حد سے پَرے پہنچا دیتے تھے۔ ‘‘

        سودا کی مرزا فاخر مکیں اور ضاحک سے معرکہ آرائیاں بہت مشہور ہیں۔ معرکوں کے بارے میں محمد حسین آزاد کوبڑھا چڑھا کر لکھنا پسند ہے لیکن اس وقوعہ نگاری میں بھی کیمرے کی آنکھ سودا کی شخصیت کے پہلو در پہلو روشن کرنے میں ہی کام آتی ہے۔ مرزا فاخر کے اشارے پر شہر کے بدمعاشوں نے سودا کو گزند پہنچائی تھی۔ سعادت علی خاں نے سزا کا فیصلہ کیا تو سودا نے جو کہا، وہ ان کی شخصیت کو روشن کرتا ہے۔ ’آب حیات‘ کی زبانِ دل پذیر میں وہ بات ملاحظہ ہو:

’’سودا کی نیک نیتی دیکھنی چاہیے۔ ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ جنابِ عالی! ہم لوگوں کی لڑائی کاغذ، قلم کے میدان میں آپ ہی فیصل ہوجاتی ہے، حضور اس میں مداخلت نہ فرمائیں۔ غلام کی بدنامی ہے۔ جتنی مدد حضور کے اقبال سے پہنچی ہے، وہی کافی ہے۔ ‘‘

        سودا کی شخصیت سازی کے ساتھ محمد حسین آزاد کا اصل کام  ان کے ادبی مقام و مرتبے کے مطابق پیش کرنے کا تھا۔ وہ جگہ جگہ ایسے جملے لکھتے چلتے ہیں جن سے سودا کا ادبی اور علمی مقام بہ آسانی متعیّن ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے سے سب سے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’آب حیات‘ کے بکھرے ہوئے جملوں کو ترتیب کے ساتھ مطالعہ کریں جس سے یہ جانچا جاسکتا ہے کہ محمد حسین آزاد نے سودا کو کس درجے کا شاعر قرار دیا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں :

(الف)  شہرِ دہلی کو  اُن کے کمال سے فخر ہے۔

(ب)   تھوڑی دیر کے لیے پُرانے محاوروں سے قطعِ نظر کرکے دیکھیں تو (ان کا کلیات) سرتاپا نظم اور انشاے اردو کا دستور العمل ہے۔

(ج)            زمینیں سنگلاخ ہیں اور ردیف قافیے بہت مشکل مگر جس پہلو سے انھیں جما دیا ہے، ایسے جمے ہیں کہ دوسرے پہلو سے کوئی بٹھائے تو تمھیں معلوم ہو۔

(د)             مرزا کی زبان کا حال نظم میں تو سب کو معلوم ہے کہ کبھی دودھ ہے کبھی شربت مگر نثر میں بہت بڑی مشکل ہوتی ہے۔ فقط مصری کی ڈلیاں چبانی پڑتی ہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ نثرِ اردو ابھی بچّہ ہے۔

(ہ)             ان کا کلام کہتا ہے کہ دل کا کنول ہر وقت کھِلا رہتا ہے۔

(ز)            کلام زورِ مضمون کی نزاکت سے۔ ۔ ۔ ۔ دست و گریباں ہے۔

(ح)            رنگینی کے پردے میں مطلبِ اصلی گُم نہیں ہونے دیتے۔

(ط)            ان کے ہم عصر استاد خود اقرار کرتے تھے کہ جو باتیں ہم کاوش اور تلاش سے پیدا کرتے ہیں، وہ اس شخص کے پیش پا افتادہ ہیں۔

(ی)            جن اشخاص نے زبانِ اردو کو پاک صاف کیا ہے، مرزا کا اُن میں پہلا نمبر ہے۔

(ک)   فارسی محاوروں کو بھاشا میں کھپاکر۔ ۔ ۔ ایک کیا ہے۔

(ل)            مرزا  اکثر ہندی کے مضمون اور الفاظ نہایت خفیف طور پر تضمین کرکے زبانِ ہند کی اصلیت کا حق ادا کرتے تھے۔

        سودا کے شایانِ شان اس سے بڑھ کراور کون سا توصیفی یا تنقیدی جملہ ممکن ہے کہ ’شہرِ دہلی کو اُن کے کمال سے فخر ہے‘۔ اسے ظاہر میں تو ایک ہی جملہ کہا جائے گا لیکن یہ مضامین اور کتابوں جیسا ہے۔ محمد حسین آزاد نے سودا کے کلّیات کو اردو شاعری کا ’دستورالعمل‘ کہا۔ اب کون سی زبان میں کوئی تنقید لکھے اور بتائے کہ سودا کا لکھا ہمارے لیے آئینِ زبان ہے۔ ان کے ہم عصروں کی زبانی انھوں نے کیا خوب صورت اعتراف کرایا کہ جو باتیں دوسرے مشقّت کے ساتھ شعر میں پیوست کرتے ہیں، وہ باتیں سودا فطری طور پر کس طرح سے پیش کرتے ہوں گے کہ کہا جا رہا ہے کہ ہم عصر شعرا کی ایجادیں سودا کے سامنے پیش پا افتادہ ہیں۔ اس بیان میں محمد حسین آزاد سودا کے شاعرانہ ذہن سے ان کے دیگر ہم عصروں سے موازنہ کرتے ہوئے اپنی بات پایۂ تکمیل تک پہنچا دیتے ہیں۔ اس دور میں رنگینیِ بیان کا چسکا بہت تھا اور قدرتِ کلام میں اس صفت کا بھی سکّہ بیٹھا ہوا تھا۔ سودا جب عہد ساز شاعر ہیں تو انھیں بھی یہ کام کرنا تھا لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کسی شاعر کا اصلی مرتبہ کن باتوں سے طے ہوگا۔ محمد حسین آزاد اٹھارویں صدی کی محمد شاہی روشوں کے قائل نہیں تھے۔ وہ ادب کے وسیع میدان میں سفر کرنے والے نقّاد تھے۔ اس لیے سودا کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے یہ جملہ بھی پیش کیا:  ’رنگینی کے پردے میں مطلبِ اصلی گُم نہیں ہونے دیتے‘۔

        ایسا نہیں ہے کہ محمد حسین آزادکو سودا کی حدود کا پتا نہیں۔ جب ان کے کلیات کو ’نظم اور انشاے اردو کا دستور العمل‘ کہا تو اس پر یہ شرط بھی عاید کی کہ ’تھوڑی دیر کے لیے پُرانے محاوروں سے قطعِ نظر کرکے دیکھیں۔ یعنی دوسرے معاملوں میں تو سودا کی شاعری دستورالعمل کا درجہ رکھتی ہے لیکن جب زبانِ قدیم کا رنگ سودا پر غالب آتا ہے تو سودا ہمارے لیے قابلِ اتباع نہیں ہوتے۔ سنگلاخ ردیف و قوافی اور زمینوں کی طرف سودا کی استادانہ توجّہ پر محمد حسین آزاد نے بجا اعتراض قائم کر رکھا ہے۔ سودا کی مثنویوں کے بارے میں بڑی صفائی سے تاثّر پیش کیا اور یہ کہہ دیا کہ عاشقانہ مثنویاں ان کے مرتبے کے لائق نہیں۔ میر حسن مرحوم تو کیا، میر صاحب کے ’’شعلۂ عشق‘‘ اور ’’دریاے عشق‘‘ کے مقام کو بھی نہیں پہنچتیں۔ اسی کے ساتھ آزاد نے سودا کی نثر نگاری کو بھی لائقِ توجّہ سمجھا۔ شمالی ہندستان کے اردو شعرا میں سودا اس اعتبار سے اوّلیت رکھتے ہیں کہ انھوں نے نثرِ اردو کی طرف توجّہ کی اور اپنے دیوان کے چند صفحات اس زبان میں رقم کیے لیکن محمد حسین آزاد نے صاف صاف کہا کہ سودا کی استادانہ حیثیت الگ مگر ان کی نثر پڑھنے سے پتا چل جاتا ہے کہ ’نثرِ اردو ابھی بچّہ ہے‘۔ سودا کی مرثیہ گوئی کے بارے میں بھی آزاد نے بڑی صفائی سے اپنی باتیں پیش کی ہیں۔ اس سلسلے سے جو جملے استعمال ہوئے ہیں ؛ اگر آزاد کے خیالات سودا کی قصیدہ گوئی اور غزلیہ شاعری کے بارے میں کسی شخص کو نہ معلوم ہوں تو اس کی نظر میں سودا ایک نہایت ہی معمولی شاعر قراردیے جائیں گے:

 ’’مرثیہ گوئی کی آج کی ترقّی دیکھ کر ان کا ذکر کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ شاید انھی مرثیوں کو دیکھ کر اگلے وقتوں میں مثل مشہور ہوئی تھی کہ ’’بگڑا شاعر مرثیہ گو اور بگڑا گویّا مرثیہ خواں ‘‘۔

        محمد حسین آزاد اپنے مطالعے میں لسانیاتی طَور کو ہمیشہ ترجیح دیتے ہیں۔ سودا کے احوال میں بھی اس پہلو سے انھوں نے اپنی توجّہ مبذول کی۔ فارسی محاوروں کو اپنی زبان میں کھپا کر سلیقے سے پیش کرنے کے لیے انھوں نے سودا کو داد دی ہے۔ زبان کی اصلاح کرنے یا نکھارنے میں سودا نے کیا کارنامہ انجام دیا، اس کے لیے ان کا مشہور جملہ ہے:  ’’جن اشخاص نے زبانِ اردو کو پاک صاف کیا ہے، مرزا کا اُن میں پہلا نمبر ہے‘‘۔ سودا  اور ان کے عہد کے دیگر بڑے شاعروں نے اس عہد میں زبان کے فروغ کے سلسلے سے جو کارہاے نمایاں انجام دیے، انھیں محمد حسین آزاد نے اپنے خاص انداز میں جائزہ لیتے ہوئے کچھ یوں کہاہے:

’’بہارِ سخن کے گلچینو! وہ ایک زمانہ تھا کہ ہندی بھاشا کی زمین جہاں دوہروں کا سبزۂ خودرَو اُگا ہوا تھا، وہاں نظمِ فارسی کی تخم ریزی ہوئی تھی۔ اس وقت فارسی کی بحروں میں شعر کہنا اور ادھر کے محاورات کو ادھر لینا اور فارسی مضامین کو ہندی لباس پہنانا ہی بڑا کمال تھا۔ اس صاحبِ ایجاد نے اپنے زورِ طبع اور قوتِ زبان سے صنعتوں اور فارسی کی ترکیبوں اور اچھوتے مضمونوں کو اس میں ترتیب دیا اور وہ خوبی پیدا کی کہ ایہام اور تجنیس و غیر صنائع لفظی جو ہندی دہروں کی بنیاد تھے، انھیں لوگ بھول گئے۔ ایسے زمانے کے کلام میں رطب و یابس ہوتو تعجب کیا، ہم اس الزام کا بُرا نہیں مانتے۔ ‘‘

        یہ اقتباس اس بات کا غمّاز ہے کہ مصنّفِ ’آبِ حیات‘ کی نگہہ میں زبانِ اردو کے ارتقا کی مختلف کڑیاں کس ترتیب اور سلیقے سے جمع ہیں۔

        اٹھارویں صدی کے شعرا کے بارے میں محمد حسین آزاد کا ذہن اتنا واضح ہے کہ انھیں ان کی قدر و قیمت پہچاننے میں کبھی کوئی خاص دشواری نہیں ہوئی۔ اوصاف کو شرح و بسط سے غور و فکر کا موضوع بنانے کا رجحان تو ’آب حیات‘ کے صفحات میں بھرا ہوا ہی ہے لیکن دَور اور اشخاص کے بارے میں تمہید میں جس طرح سے اجمالی گفتگو کا ہنر اس دور میں دیکھنے کو ملتا ہے، اسے انفرادی جائزوں میں بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ سودا پر تفصیل سے چھوٹی بڑی ہر بات کو سمیٹنے کی کوشش کے باوجود آزاد نے ان کے اجمالی مرتبے کی وضاحت میں جو چند جملے پیش کیے ہیں، اس کی مثال واقعتا کوئی کتاب کیا ہوگی؟ ملاحظہ کیجیے سودا کے کارناموں پر محمد حسین آزاد اپنی انشاپردازانہ تنقید سے کیا کہہ گئے ہیں :

’’ انھی کا زورِ طبع تھا جس کی نزاکت سے دو زبانیں ترتیب پاکر تیسری زبان پیدا ہوگئی اور اسے ایسی قبولیتِ عام حاصل ہوئی کہ آیندہ کے لیے وہی ہندستان کی زبان ٹھہری جس نے حکّام کے درباروں اور علوم کے خزانوں پر قبضہ کیا۔ اسی کی بدولت ہماری زبان فصاحت اور انشا پردازی کا تمغہ لے کر شائستہ زبانوں کے دربار میں عزّت کی کرسی پائے گی۔ اہلِ ہند کو ہمیشہ ان کی عظمت کے سامنے ادب اور ممنونی کا سر جھکانا چاہیے۔ ایسی طبیعتیں کہاں پیدا ہوتی ہیں کہ پسند عام کی نبض شناس ہوں اور وہی باتیں نکالیں جن پر قبولِ عام رجوع کرکے سالہا سال کے لیے رواج کا قبالہ لکھ دے۔ ‘‘

        ’آبِ حیات‘ کے تیسرے دور کی ایک منزل اگر مرزا محمد رفیع سودا ہیں تو اس کی آخری منزل محمد تقی میرؔ ہیں۔ انھی دونوں کے تذکرے کے لیے یہ پورا نظام کھڑا کیا گیا ہے۔ دونوں ہم عصر تو تھے ہی، قصیدہ اور غزل کا نقطۂ عروج بھی نہ صرف اس زمانے میں تسلیم کیے گئے بلکہ آج بھی پوری قوم کم و بیش اس راے پر قائم ہے۔ ’آبِ حیات‘ کے بعد سے اب تک میر کے سلسلے سے اس قدر تحقیق و تنقید ہو چکی ہے کہ ہم گذشتہ صدیوں کے ناقدوں کے مقابلے زیادہ واقف ہیں اور ہمارے علمی نتائج بھی خاصا اعتبار رکھتے ہیں۔ میر کے بارے میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کی تحقیق سے میر کی شخصیت اب زیادہ روشن ہے اور جیسے جیسے میر کے عہد سے ہماری دوری بڑھتی جارہی ہے، ہم میر شناسی کے فرائض میں زیادہ مستعد اور سرگرم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود ’آبِ حیات‘ کے صفحات میں میرؔ کے بارے میں جو باتیں درج ہوئی ہیں، وہ آج بھی اپنی تنقیدی اور انشا پردازانہ اہمیت کے اعتبار سے کار آمد ہیں۔ میر کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے آزاد نے جن مخصوص واقعات کو یہاں جمع کرکے میر کے شاعرانہ بُت کو قائم کرنے کی کوشش کی ہے، اسے آج بھی از کارر فتہ تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔

        محمد تقی میر کے جائزے میں شخصیت پر زور زیادہ ہے۔ میر کے مزاج کی کجی کس طرح مستحکم ہوتی چلی گئی، اس کا گوشوارہ یہاں موجود ہے۔ انھی واقعات کے بیچ میر کے شاعرانہ امتیازات اور تاریخی مقام کے سلسلے سے بھی گفتگو جاری رہتی ہے۔ میر کی شخصیت سازی میں انھوں نے ان کے دنیا زار اور بے دماغ و بددماغ ہونے کے سلسلے سے مصدّقہ واقعات پیش کرکے میر کی ویسی ہی شخصیت اُبھاری ہے جیسے کبھی میر تھے یا ہوں گے۔ کم وبیش ابھی تک ایسے ہی میر ہمیں دکھائی دیتے ہیں اور یہ بھی خوب کہ ایسے ہی میر سے لاکھوں شیدائی محبّت کرتے ہیں۔ بڑی کتابوں کا یہ بھی خاصا ہے کہ ان کے مشتملات عوامی طور پر اس طرح معروف ہوجاتے ہیں اور اعتبار حاصل کر لیتے ہیں جن کا کوئی بدل ممکن نہیں۔ تذکروں سے میر کی شخصیت کے بارے میں ہم تک جو کچھ بھی پہنچا، وہ اپنی جگہ لیکن ان باتوں کو جوڑ کر آزاد نے میر کی جو مکمّل شبیہہ تیار کی، وہ نہ صرف یہ کہ دل آویز ہے بلکہ وہ اس طرح سے ہمارے اجتماعی حافظے کا حصّہ ہے جیسے ہم سب نے کبھی نہ  کبھی میر کو دیکھا تھا۔

        ’آبِ حیات‘ میں شعرا کے مرقّعے ہر چند کہ آدھے ادھورے ہیں لیکن زبان اور واقعات کے زور سے وہ پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ آزاد  اگرانفرادی طور پر خاکہ نگاری کو موضوع بناتے یا ہر اہلِ قلم کا خاکہ لکھنا ہی طے کرتے تو یہ ممکن ہے کہ ان ادھورے مرقّعوں کی جگہ پوری تصویروں کی گنجایش نکل آتی۔ دیباچے میں آزاد نے ’آبِ حیات‘ کی تحریر کے بارے میں یہ جملہ لکھا ہے : ’’جہاں تک ممکن ہو، اس طرح لکھوں کہ ان کی زندگی کی بولتی چالتی پھرتی چلتی تصویریں سامنے آن کھڑی ہوں۔ ‘‘

        یہ سب کام انھیں ادبی تاریخ نویسی اور منضبط تذکرہ نگاری کے دائرۂ کار میں رہ کر کرنا تھا۔ اسی لیے تفصیل کے  بجاے انھیں بعض مقامات پراشارے اور کنایے میں اپنی بات مکمّل کرنی تھی۔ سب سے پہلے ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ میر کی ادبی شخصیت کو اُبھارنے کے لیے محمد حسین آزاد نے آخر کون سے حربے استعمال میں لائے اور کیا اِن واقعات سے میرویسے دکھائی دیتے ہیں جیسا کہ ’آبِ حیات‘کے مصنّف کو پیش کرنا تھا:

(1)            میر صاحب کی بلند نظری اس غضب کی تھی کہ دنیا کی کوئی بڑائی اور کسی کا کمال یا بزرگی انھیں بڑی دکھائی نہ دیتی تھی۔ اس قباحت نے ناز ک مزاج بنا کر ہمیشہ دنیا کی راحت اور فارغ البالی سے محروم رکھّا اور وہ وضع داری اور قناعت کے دھوکے میں اسے فخر سمجھتے رہے۔ ‘‘

(2)            ’’نتیجہ یہ کہ فاقے کرتے تھے، دکھ بھرتے تھے اور اپنی بد دماغی کے سایے میں دنیا واہلِ دنیا سے بے زار گھر میں بیٹھے رہتے تھے۔ ‘‘

(3)            ’’اپنی بے نیازی اور بے پروائی کے ساتھ دنیا ے فانی کی مصیبتیں جھیلیں اور جو  اپنی آن تان تھی، اسے لیے دنیا سے چلے گئے۔ ‘‘

        اس طرح میرؔ کی وہ شخصیت اُبھرتی ہے جِس نے اُنھیں اپنے مخصوص رنگ کا انسان بنایا۔ فاقہ مستی کی یہ لَے اُردو کی ادبی تاریخ میں شاید ہی کسی دوسرے شاعر کے یہاں موجود ہو۔ اِس کے لیے میرؔ کو اپنی زندگی میں جتنا چُکانا پڑا، اسے بھی آزادؔ نے اپنی صراحت میں جگہ دی ہے۔

        میرؔ کے شاعرانہ مقام کے بارے میں ’آبِ حیات‘ کی تصنیف کے زمانے میں بھی کوئی کلام نہیں تھا۔ محمد حسین آزاد نے ’آبِ حیات‘ میں جو تیسرا دور قائم کیا، وہاں بھی سودؔا اور میرؔ کا جائزہ ہی مقصود تھا۔ اس لیے آزادؔ نے میرؔ کے سلسلے سے واقعات اور تنازعات کے ساتھ اُن کے شاعرانہ مرتبے کی پیش کش کو بھی اُسی قدر اہمیت بخشی۔ میرؔ کا تعارف ابتدائی طور پر اُنھوں نے اِن لفظوں میں کرایا:

(الف) گنجفۂ سخن کی بازی میں آفتاب ہو کر چمکے۔ قدردانی نے اُن کے کلام کو جواہر اور موتیوں کی نگاہوں سے دیکھا اور نام کو پھولوں کی مہک بناکر اُڑایا۔ ہندستان میں یہ بات اُنھی کو نصیب ہوئی ہے کہ مسافر غزلوں کو تحفے کے طور پر شہر سے شہر میں لے جاتے تھے۔

(ب)   اُنھوں نے زبان اور خیالات میں جِس قدر فصاحت اور صفائی پیدا کی، اُتنا ہی بلاغت کو کم کیا ہے۔

(ج)            اُن کا صاف اور سُلجھا ہوا کلام اپنی سادگی میں ایک انداز دِکھاتا ہے اور فِکر کو بجاے کاہش کے لذّت بخشتا ہے۔ اِسی واسطے خواص میں معزّز اور عوام میں ہر دِل عزیز ہیں۔

(د)             دِل کے خیالات کو جو کہ سب کی طبیعتوں کے مطابق ہیں، محاورے کا رنگ دے کر باتوں باتوں میں ادا کردیتے ہیں اور زبان میں خدا نے ایسی تاثیر دی ہے کہ وہی باتیں ایک مضمون بن جاتی ہیں۔

(ہ)             مصیبت اور قِسمت کا غم جو ساتھ لائے تھے، وہ دُکھڑا سناتے چلے گئے جو آج تک دِلوں میں اثر اور سینوں میں درد پیدا کرتے ہیں۔

(و)            اُن کا کلام صاف کہے دیتا ہے کہ جِس دِل سے نکل کر آیا ہوں، وہ غم و درد کا پُتلا نہیں، حسرت واندوہ کا جنازہ تھا۔

(ز)            جو لفظ مُنہ سے نکلتا ہے، تاثیر میں ڈوبا ہوا نکلتا ہے۔

        میرؔکی شاعری کے سلسلے سے مذکورہ اقتباسات یہ واضح کرتے ہیں کہ محمد حسین آزادؔ نے اُن کے بارے میں جو  راے قائم کی، اُس میں ہمارے زمانے میں کچھ اضافے تو ضرور ہوئے لیکن بنیادی نکات کم و بیش وہی ہیں۔ آزاد بے شک سُنی سُنائی باتوں اور تذکروں کی آرا کو بنیاد بناتے ہیں لیکن وہ براہِ راست شاعرانہ نمونوں سے میرؔ کی خصوصیات اخذ کرتے ہیں جس کے سبب اُن کے نتائج سرسری نہیں ہوتے بلکہ اُن کے جملوں میں میر شناسی کے اوّلین نشتر چھُپے ہوئے ہیں جن سے استفادہ کرکے ہماری تنقید آگے بڑھتی ہے۔ آزادؔ کے اکثر تنقیدی نتائج سے اب بھی ہم زیادہ اختلاف نہیں کرتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میر شناسی کے لیے ہم نے یہیں سے اپنے چراغ روشن کیے۔ محمد حسین آزادؔ نے میرؔ کی شاعری کی اثرانگیزی اور زبان کی سادگی کو بنیادی اہمیت عطا کی۔ شایدہی کسی دوسرے نقّاد کو آزادؔ کی اِس راے میں کسی بنیادی تبدیلی کی ضرورت پڑے۔ اِسے تنقیدی کمال ہی کہنا چاہیے کہ آزاد نے جو باتیں کہیں، انھیں سب نے تسلیم کرلیا۔

        محمد حسین آزاد لسانی مباحث کو اپنی تنقید کا ایک حِصّہ سمجھتے تھے۔ میرؔ پر گفتگو کے دوران  انھوں نے زبان کی باریکیوں، تصرّفات اور دیگر مسئلوں کی طرف ہمارا دھیان مبذول کیا۔ فارسی سے ترجمہ تو اُس زمانے کی خاص روِش ہے، اُس کا بھی آزادؔ نے جائزہ لیا۔ وہ لکھتے ہیں :

(الف)  میرؔ صاحب نے اکثر فارسی کی ترکیبوں کو یا اُن کے ترجموں کو اُردو کی بنیاد میں ڈال کر ریختہ کیا۔ …… اکثروں کو جوں کا توں رکھا۔ بہت اُن میں سے پسندِ عام کے دربار میں رجسٹری ہوئیں اور بعض نامنظور۔

(ب)   قادر الکلامی کے تصرّف کرکے اپنے زورِ زبان کا جوہر دکھایا ہے۔

(ج)            ایسے تصرّفوں سے نہیں کہہ سکتے کہ اُنھیں اِس لفظ کی صحت کی خبر نہ تھی۔ سمجھنا چاہیے کہ زبان کے مالک تھے اور محاورے کو  اصلیت پر مقدّم سمجھتے تھے۔

(د)             میرکے کلام کے لیے فقط محاورۂ اہلِ اُردو ہے یا جامع مسجد کی سیڑھیاں۔

        عہدِ میرؔ کی زبان پر گفتگو کرتے ہوئے دوسروں بالخصوص سوداؔ سے میرؔ کو الگ کرتے ہوئے محمد حسین آزادؔ نے جو نتائج اخذ کیے ہیں، وہ آج ہمارے لیے ایک آفاقی حقیقت کی طرح ہیں۔ قاضی عبدالودود کے مضامین اور ڈاکٹر عبدالرشید کی کتاب ’’فرہنگِ کلامِ میرؔ‘‘ (چراغِ ہدایت کی روشنی میں ) کی اشاعت کے بعد میرؔ کی یہ صفت اور واضح ہوجاتی ہے اور تصرّفاتِ میرؔ کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمیں یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ میرؔ کی یہ صفات ہم تک سب سے بہتر طریقے سے محمدحسین آزادؔ نے پہنچائی تھیں۔

        میرؔ کے تصوّرِعشق پر طرح طرح کی باتیں اُس عہد کے کُتب ورسائل میں موجود ہیں۔ میرؔ کی شخصیت کو بعض مصنّفین نے صِرف اُسی حوالے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ محمد حسین آزاد نے غرور اور بددماغی پرتو توجّہ دی لیکن میرؔ کی عشق وضعی کو طول نہ دیا۔ شعر سے جو مفاہیم برآمد کیے، وہاں بھی لُطف اور اختصار کا آمیزہ تیار ہوتا ہے۔ ملاحظہ ہو :

’’اُن کا کلام کہے دیتا ہے کہ دِل کی کلی اور تیوری کی گِرہ کبھی کھُلی نہیں۔ باوجود اس کے اپنے مُلکِ خیال کے ایک بلند نظر بادشاہ تھے اور جتنی دُنیا کی سختی زیادہ ہوتی، اُسی قدر بلند نظری سے دماغ زیادہ بلند ہوتا۔ ‘‘

        اس تجزیے سے محمد حسین آزاد کی شخصیت شناسی کے تہذیبی پہلوئوں پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ بقا کے سلسلے سے تنازعات کو محمد حسین آزاد نے خاص اہمیت دی۔ ہم موضوع اشعار کے لیے اردو اور فارسی شعرا کی چند مثالیں بھی پیش کیں لیکن یہ اشارہ کردیا کہ میر کے تصرّف میں کوئی نئی بات لازماًاُبھر کر سامنے آگئی ہے۔ یہاں بھی ادبی نقّاد کا انھوں نے بہترین فریضہ ادا کیا اور میرؔ کی اُس صفت کی جانب ہمیں دھیان دِلایا کہ وہ مضامین تو دوسروں کا چُن سکتے ہیں لیکن اُنھیں پیش کرنے میں وہ اپنی انفرادی لَے کو کیوں کر بھُولیں۔ میر کی اولاد کے سلسلے سے ایسے مختصر اور دِل آویز جُملے نکلے جہاں لفظوں میں روح ڈال دی گئی ہے :  ’’میرؔ صاحب کے بیٹے لکھنو میں مِلے تھے۔ باپ کے برابر نہ تھے مگر بد نصیبی میں فرزندِ خلف تھے۔ ‘‘

        میر کے جائزے کو مکمل کرتے ہوئے ’آبِ حیات‘ کے دو مختصر اقتباسات لازم ہیں کیوں کہ یہاں اجمال میں آزادؔنے میرؔ کی شخصیت، شاعری اور عہد کا ایک ایسا حقیقت پسندانہ نقشہ پیش کیا ہے جو صِرف اور صِرف میرؔ سے ہی متعلّق ہو سکتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

(الف)  ’’جو  اشخاص اُس زمانے میں قدردانی کے خزانچی تھے، اُن کے خیالات اعلا اور حوصلے بڑے تھے۔ اس لیے یہ بے دماغیاں اُن کے جوہرِ کمال پر زیورمعلوم ہوتی ہیں۔ ‘‘

(ب)   ’’اُنھوں نے دنیا کے باب کی طرف نہ دیکھا۔ خُد انے اُن کے کلام کو وہ بہار  دی کہ سالہا سال گزر گئے، آج تک لوگ ورق اُلٹتے ہیں اور گلزار سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ ‘‘

        احوالِ میرؔ میں محمد حسین آزادؔ نے میرؔ شناسی کے بعض بنیادی امور بہت سلیقے سے اور مخصوص انداز میں پیش کرنے میں کامیابی پائی ہے۔ ادبی موشگافیوں پر حسبِ عادت یہاں بھی زور بہت ہے۔ اس کے باوجود محمد حسین آزادؔ نے میرؔ پر گفتگو کرتے ہوئے بہت ساری کام کی باتیں پیش کردی ہیں۔ اگر وہ میرؔ کے شاعرانہ امتیازات پر مزید توجّہ دیتے تو اُنھیں کلامِ میر میں کُچھ اور جواہر پارے ضرور حاصل ہوتے کیوں کہ’ آبِ حیات‘ کے بعد کی صدی میں جب میرؔ کے شعری طِلسم خانے کی سیر میں نقّاد اور محقّقین نے اپنی زندگیاں صَرف کیں تو ایک مختلف شاعر کے طور پر میرؔ کا ورودِ مسعود ہوتا ہے۔ تیسرے دور کے مطالعے سے سوداؔ کا مقام تو بہت حد تک متعیّن ہوجاتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ محمدحسین آزادؔ نے میرؔ کے باب میں قصّے، کہانیوں اور ادبی نوک جھونک پر زیادہ توجّہ کی اور میرؔ کے ضخیم ادبی سرماے میں گہرے اُتر کر کُچھ نئے گوہر ڈھونڈنے میں مشقّت کم اُٹھائی جِس کی وجہ سے ’آبِ حیات‘ کے مطالعے سے یہ پتا چلنا مشکل ہوتا ہے کہ میرؔ ہماری زبان کے ایسے عظیم غزل گو کیوں ہیں جنھیں غالبؔ نے بھی فنِ شعر کا استاد کہا اور پوری قوم رفتہ رفتہ اُنھیں اپنی زبان کا سب سے بڑا شاعر کہنے میں حق بہ جانب معلوم ہوتی ہے۔

        محمد حسین آزاد نے اَدوارتو ضرور قائم کیے اور ادب کے ایک سلسلے وار مطالعے کی طرف اہتمام سے قدم بڑھائے لیکن ان کے یہاں اجتماعی اور انفرادی ادبی خصوصیات کے باب میں شعرا کے بیچ موازنہ اور مقابلہ کرنے کی ایک مخصوص خواہش دکھائی دیتی ہے۔ ادوار کی خانہ بندی کے بعد کسی نقّاد سے یہ سوال ہو ہی سکتا ہے کہ ان منتخب شعرا میں کون خاص ہیں اور کس کے امتیازات سب سے بڑھ گئے؟اس کام کے لیے موازنہ اور مقابلے کی ضرورت پڑتی ہے۔ محمد حسین آزاد نے ہر دور کے شعرا کے درمیان موازنہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تحقیق کا موضوع ہے کہ شاعروں کے جو جوڑے مشہور ہوئے، ان میں کہیں ’آبِ حیات‘ کی بنیادی فہم تو شامل نہیں۔ یہاں بھی میر وسودا، میر حسن اور دیا شنکر نسیم، غالب و ذوق، انشا و مصحفی اور انیس و دبیر کی جفت قائم ہے۔ کبھی یہ مقابل ہیں، کبھی معاصر، کبھی حریف اور کبھی ہم چشم۔ ایک دوسرے کے مخالفانہ رویّوں اور معرکوں کو آزاد نے خاصی اہمیت بھی دی ہے۔ آزادکے بیان کا کیا جادو ہے کہ شاعروں کی چیقلش، آپسی نبرد آزمائیاں اور دوسرے کو کسی حال میں برداشت نہیں کرپا نے کی صورتِ حال کا نقشہ کھینچا جا رہا ہے اور پڑھنے والا زیرِ لب مسکراتے ہوئے اپنے اسلاف کی چلتی پھرتی زندگی کو بھرپور طریقے سے دیکھتے ہوئے خوش ہوتاہے۔ غور کریں تو شعرا کے ذکر کا یہ انداز ہمیں اُن سے مزیدمحبّتوں میں بھی گرفتارکر دیتا ہے۔ ہمیں یہ یاد بھی نہیں ہوتا کہ اپنے بزرگوں کی جنگ اور ان کی ذات سے وابستہ بُرائیوں کو پڑھ رہے ہیں بلکہ اس کے بر عکس ہوتا یہ ہے کہ بزرگ شعرا کے بارے میں ہمیں طرح طرح کی معلومات کا دلچسپ خزینہ ہاتھ آ جاتا ہے۔

        ’آبِ حیات‘ میں مختلف شعرا کے بیچ موازنہ و مقابلہ کی تو ضیح کی ایک دوسری صورت بھی سامنے آتی ہے۔ یہاں محمد حسین آزاد کی تنقیدی صفت زیادہ روشن معلوم ہوتی ہے۔ آزاد ادبی بُت قائم کرتے ہیں اور دوسرے بُتوں سے اُسے مسمار کرکے نئے بُت بناتے ہیں۔ ہر عہد میں انھوں نے پہلے کسی شخص کو قائم کیااور اس کے فضائل پیش کیے لیکن اگلے مرحلے میں ادبی زندگی بدلتی ہے اور اب نیا بُت قائم ہوجا تا ہے۔ اس ہار جیت اور قدر دانی کے منصب پر بٹھانے اور ہٹانے میں ’آبِ حیات‘ کب انجام تک پہنچ گئی، یہ پتا ہی نہیں چلتا۔ آزاد دلّی والے تھے اور دلّی کی زبان کا سکّہ اٹھارویں صدی پر اس طرح سے قائم ہے کہ ادبی مسلّمات سے انحراف کرنے کے لیے طرح طرح کے جواز اور دلائل و براہین لازم ہیں۔ ایک لسانیاتی رجحان بھی ہے جس کے سبب وہ دو شاعروں کے بیچ موازنہ کرتے ہوئے زبان کے ارتقائی سفر کو بنیاد بناتے ہیں۔ صَرف و نحو کے بدلتے زاویوں میں کسی زبان کے تخلیقی مراحل کے فرق کو جانچنا معمولی خطرے کا کھیل نہیں ہے۔ لیکن آزاد ٹھہر کر ہر دَور کا الگ الگ جائزہ لیتے ہوئے دو شاعروں کے بیچ مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ تقابل کا یہ خاص انداز نہایت دل پسند ہے اورا س سے ابتداً وہ چھوٹے چھوٹے نتائج اخذ کرتے ہیں اور پھر اجتماعی طور پر پوری اردو کی تاریخ کے بارے میں اپنا نتیجہ ظاہر کر دیتے ہیں۔

        محمد حسین آزاد کے اسلوبِ نگارش پر کوئی لکھے تو کیا لکھے۔ کون ہے جو  اُن کی عظیم انشاپردازانہ اہمیت کا قائل یا پرستار نہیں۔ بات جب ’آبِ حیات‘ کے اسلوب کے خصوصی حوالے سے ہو تو یہ ایسی ہی ہے کہ آفتاب کو روشن ہونے کی دلیل پیش کرنی پڑے۔ پھر کوئی مثال دے تو کہاں سے دے۔ ہر صفحہ اور ہر پیراگراف ان کے مخصوص اندازِ بیان کی چغلی کھا رہا ہے۔ ’آبِ حیات‘ میں الفاظ، فقرے اور جملے مخصوص ترتیب سے ہمارے سامنے آتے ہیں جیسے ہر پڑھنے والا یہ سمجھ جائے کہ یہ تحریر اور یہ اندازخاص محمد حسین آزاد کی جاگیر ہے۔ کون سی بات محمد حسین آزاد کیسے لفظوں اور تراکیب میں پیش کریں گیـ؛یہ ہمارے دلوں میں بَسا ہوا ہے۔ لیکن ادب کے طالب علم کی حیثیت سے ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس اسلوب کی تشکیل میں محمد حسین آزاد کے یہاں scheme of thingsکیا کیا ہیں۔ جب تک ان کی تحریر کی چند باتوں کا جائزہ نہ لے لیا جائے، اس وقت تک آزاد کے اس طلسمی نگار خانے میں داخلے کا لطف کم کم آئے گا۔ ہم خود کو تیسرے دور تک محدود رکھتے ہوئے چند مخصوص مثالوں کے حوالے سے اپنی گفتگو انجام تک پہنچائیں گے:

(الف)          41 برس کی عمر میں باپ مر گئے۔ اسی مشتِ خاک کو بزرگوں کے گوشہء دامن میں باندھ دیا۔ 30 برس کی عمر تک مدرسوں اورخانقاہوں میں جھاڑو دی اور جو  دن بہارِ زندگی کے پھول ہوتے ہیں، انھیں بزرگوں کے روضوں پر چڑھا دیا۔ (مرزا مظہرجان ِجاناں )

(ب)   نہایت افسوس ہے کہ وہ پھول اپنی بہار میں لہلہاتاگر پڑا۔ (تاباں )

(ج)            صحراے نامیں میں 79 منزلیں عمر کی طے کر 80 میں قدم رکھا تو دل کو آگاہی ہونے لگی کہ اب روحِ مسافر بدن کا بوجھ پھینکا چاہتا ہے۔ (مرزا مظہر)

(د)             سودا بہ موجب رسمِ زمانہ کے، اوّل سلیمان قلی خاں ودادکے، پھر شاہ حاتم کے شاگرد ہوئے۔ شاہ موصوف نے بھی اپنے دیوان کے دیباچے میں جو شاگردوں کی فہرست لکھی ہے، اس میں مرزا کا نام اس طرح لکھا ہے جس سے فخر کی خوشبو آتی ہے۔    (سودا)

(ہ)             پیشہ توکّل تھا اوربے دماغی سے اسے رونق دیتے تھے۔ (فاخر مکیں )

(و)            ان کی انشا پردازی کا حسن، تکلّف اور صنّاعیِ مصنوعی سے بالکل پاک ہے۔ اس خوش نمائی کی ایسی مثال ہے جیسے ایک گلاب کا پھول ہر ی بھری پر کٹورا سادَھرا ہے اور سر سبز پتّیوں میں اپنا اصلی جوبن دکھا رہا ہے۔ (میر سوز)

(ز)            میر صاحب کی بلند نظری اس غضب کی تھی کہ دنیا کی کوئی بڑائی اور کسی کا کمال یا بزرگی انھیں بڑی دکھائی نہ دیتی تھی۔ اس قباحت نے نازک مزاج بنا کر ہمیشہ دنیا کی راحت اور فارغ البالی سے محروم رکھا۔ اور وہ وضع داری اور قناعت کے دھوکے میں اسے فخر سمجھتے رہے۔ (محمد تقی میر)

        محمد حسین آزاد کے اسلو ب کی ایک بات تو بہت مشہور ہے کہ اس میں ہر کام کی تمثیل موجود ہے۔ ’آبِ حیات‘ کے پہلو بہ پہلو محمد حسین آزاد نے ’نیرنگِ خیال‘ کے مضامین کی طرف توجّہ کی۔ رسائل وجرائد میں ان کے وہ مضامین نظر آنے لگے جنھیں کبھی ہم ترجمہ بھی کہتے ہیں لیکن ان کی شناخت تمثیلی شذرات کے طور پر ہے۔ ان مضامین کو بعد کے زمانے میں بہ طورِ تمثیل سکۂ رائج الوقت کا درجہ حاصل ہوا۔ اسے ماننے میں کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے کہ تمثیل کی دنیا میں محمد حسین آزاد ’آبِ حیات‘ کے راستے سے’ نیرنگِ خیال‘ تک پہنچے تھے۔ ’آبِ حیات‘ کے صفحات میں اشخاص اور صفات دونوں امور میں تمثیلیں قائم کی گئی ہیں۔ یہاں مرئی اور غیر مرئی میں ایسا کھیل تماشا چلتا ہے کہ حقیقت اور گمان ایک دوسرے میں مدغم ہونے لگتے ہیں۔ حیات وکاینات کے اس محلول کی خوبی یہ ہے کہ اس انداز سے متن میں آزاد ایک ایسی کیفیت پیدا کردیتے ہیں جس میں پڑھنے والا اور دیکھنے والا عجیب وغریب ذائقہ محسوس کرنے پر مجبور ہو۔ حقیقت کو گمان بنادینا اور گمان کو حقیقت میں تبدیل کر دینا تمثیل نگاروں کا جوہر ہے لیکن اس میں محمد حسین آزاد اپنی زبان کی روایت اور اس کے جادو سے دوسروں سے بہت الگ طَور اپناتے ہیں۔ ’سب رس ‘کی عظمت کا کون انکاری ہوسکتا ہے لیکن تمثیلیں قائم کرنے کا محمد حسین آزاد نے جو ہنر پیدا کیا، اس میں عشق وعاشقی کے قصّوں کی کوئی بیساکھی نہیں ہے۔ اگر اخلاق کی تبلیغ محسوس ہوتی ہے تو اس کی پشت پر دلیل، منطق اور حقائق کے تجزیے کی دانش بھی قائم ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو ’نیرنگِ خیال‘ کو جانسن اور ایڈیسن کی پوٹلی قرار دے دیا جاتااور ’’آبِ حیات‘‘کی تمثیلوں کو تذکرہ نگاروں کے مرقّعوں کا اگلا قدم تسلیم کرکے خدا حافظ کہہ لیا جاتا۔

        محمد حسین آزاد حقیقت میں ہمارے سب سے بڑے رومانی نثر نگار ہیں۔ شبلی سے لے کر سجاد حیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری تک کون ہے جس نے آزاد سے استفادہ نہ کیا ہو ــ؟ ابوالکلام آزاد کی نثر پر بھی محمد حسین آزاد کی واضح پرچھائیاں دکھائی دیتی ہیں۔ محمد حسین آزاد انگریزی زبان اور مغربی روشنیوں سے استفادہ کے قائل تھے۔ مغرب کی رومانیت اور خاص طور پر اس کی شاعری میں پوشیدہ ماضی کی روایات اور رسومیات کو ’’آبِ حیات‘‘اور دوسری کتابوں کی نثر میں انھوں نے اس طرح سے سمویا ہے کہ اردو خواں آبادی نے زبان اور نفسِ مضمون کا ایک بالکل انوکھا ذائقہ پایا۔ تاریخ کی مہتم بالشان تفصیل سے عہدِ حاضر میں تخیّل سازی کی جاسکتی ہے، اسے محمد حسین آزاد نے ’دربارِ اکبری‘ اور ’سخن دانِ فارس‘ میں بھی کچھ سیکھ لیاتھالیکن ’’آبِ حیات‘‘ میں تخیل کو ہمارے عظیم شعرا شہ پر عطا کر دیتے ہیں۔ یہ تاریخ نگاری کا ایسا طَور ہے جہاں پڑھنے والے کو ہر لمحہ قومی زیاں کااحساس ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ ایسی کتابوں کو ڈوب کرپڑھتا ہے۔ آزاد اگر رومانی دبستان کے موجدیا تربیت یافتہ نہ ہوتے تووہ آخر اس کیفیت کو کس طرح قابو میں کر لیتے کہ ان کے عہد سے لے کر آج تک ہمارے ایسے ہزاروں بڑے اصحابِ قلم ہیں جنھوں نے ’’آبِ حیات‘‘کو دس بیس اور پچاس باریا اَن گنت بار مطالعے کا حصّہ بنایا۔ قدماکی کہانیاں موجود ہیں کہ کسی نے کہا کہ پچیس بار ’’آبِ حیات‘‘کا مطالعہ کرچکا ہوں تو اُس سے بڑے اہلِ قلم نے پہلے پر بدذوقی کی پَھبتی کَسی کیوں کہ اُن کا کہنا تھا کہ پچیس بار تو ’’د ربارِ اکبری‘‘ پڑھی ہے  اور’’ آبِ حیات‘‘کتنی بار پڑھی، اس کا اندازہ ہی ممکن نہیں۔ کیوں کہ یہ وہ کتاب ہے جس کے ساتھ ہمارے انشا پرداز وں کی صبحیں اور شامیں بسرہوتی ہیں۔ بہ قولِ چراغ حسن حسرت:  ’دن بھر غلط سلط اردو سنتے سنتے اور بولتے بولتے جب زبان خراب ہوجاتی ہے تو رات میں ’آبِ حیات‘ کے دو صفحے پڑھ لیتا ہوں ‘۔ اگر ہمارے سابقین میں محمد حسین آزاد کی نثر کے شیدائی نہ ہوتے تو نہ جانے ہماری نثر سے حقیقت نگاری کے نام پہ کب کی شگفتگی اور محبوبانہ توجّہ رخصت ہوچکی ہوتی۔

        محمد حسین آزاد میں حسِ لطیف اور حسِ مزاح کی مقدار کم نہیں تھی۔ عربی اور فارسی کی تعلیم وتدریس کے باوجود مولویانہ پَن تو انھوں نے کبھی اختیار ہی نہیں کیا۔ اس پر مستزاد، اس وقت انگریزی قمقے ادب اور سماج کی کیفیت تبدیل کررہے تھے۔ اپنے اسلوب میں انھوں نے مزاح المومنین کا ذائقہ اس طرح شامل کیا کہ جب ایک عہد یا ایک لکھنے والے کی زندگی کی کسی ناہمواری پر راے زنی کرنی ہو تو ایسا جملہ وضع کیا جس میں ایک ساتھ مزاح، طنز اور خلوص شیر وشکر ہوکر اصل حقیقت کا بدل بن جائیں۔ کبھی کبھی تو آٹھ دس لفظوں کے مختصر جملوں میں ایسی کیفیت بھر جاتی ہے کہ یقین نہیں آتا کہ جملے کے آغاز میں ہم اقرار کی جس کیفیت پر تھے، درمیان تک پہنچتے پہنچتے وہ کیفیت بدل گئی اور انجام تک تو زندگی کی ایک علاحدہ جنگ شروع ہوگئی۔ میر و سودا کے تراجم ملاحظہ کریں کیوں کہ یہاں زبان حیرت انگیز انداز میں ایسے لطیف پیراے میں ہمارے سامنے آتی ہے کہ اپنے سابقین کی زندگی کی رنگارنگی اور پھر پیش کش کے لیے محمد حسین آزاد کی قدرت پر محکم یقین آجاتا ہے۔ ’آبِ حیات‘کی زبان میں جو مختلف لذّتیں اور استعجاب کی کیفیات بھری ہوئی ہیں، ان میں اگر آزاد کے اسلوب کا یہ رنگ اور ذائقہ نہ ہوتاتو بھلا یہ کتاب’آبِ حیات‘کیوں کرکہی جاتی؟

        سوداکے بارے میں ان کے ہم عصروں کی راے کا اظہار کرتے ہوئے محمد حسین آزاد نے کہا تھا کہ ’’جو باتیں ہم کاوش اور تلاش سے پیدا کرتے ہیں، وہ اس شخص کے پیش پا افتادہ ہیں۔ ‘‘آزاد نے نہ جانے کس عالَم میں یہ جملہ نوکِ قلم سے ادا کردیا۔ اردو نثر کی تاریخ پر توجّہ دیں تو ’سب رس‘، ’نوطرزِ مرصع‘، ’باغ وبہار‘، ’فسانۂ عجائب‘ جیسی نادر کتابیں ہمارے پاس موجود تھیں جن میں زبان کا تخلیقی استعمال ایک خاص درجۂ کمال تک پہنچتا ہے۔ لیکن ان سے ’آبِ حیات‘کی نثر کا موازنہ کریں تو جو بات سودا کے لیے انھوں نے کہہ رکھی ہے، وہ خود انھی پر صادق آتی ہے۔ زبان اپنے آپ بڑھتی جاتی ہے، لفظ اپنے آپ آتے جاتے ہیں۔ اثر آفرینی اور کیف کا دریا نہ جانے کہاں سے رواں دواں ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ ایک بھی کوئی اسلوبیاتی تکلّف نہیں لیکن لکھنے والے کا کمال ہے کہ زبان اپنے ہنر کے عروج پر بیٹھی ہوتی ہے۔ پچھلے انشا پرداز اور صاحبانِ اسلوب سب نے مرصّع کاری اور اسلوبیاتی رمق کے لیے عربی اور فارسی تراکیب کو جمع کرنے کا منصوبہ بنایا اور کامیابی پائی۔ حد تو یہ ہے کہ سادہ نثر کے شہ کار’باغ وبہار‘میں میر اّمن کے یہاں ایک لہر عربی و فارسی سے گریز کی ہے، تو اُسی کے ساتھ ان زبانوں کے تکلّفات اور کشش انگیزی کا طلسم وہاں پردے سے جھانکتے ہیں۔ ’سب رس‘اور ’نوطرزِمرصع‘ یا’فسانۂ عجائب‘ پر تو قوم نے یوں بھی رنگینی کا ٹھپّا لگا رکھا ہے۔ فارسی اور عربی سرمایۂ الفاظ یا نحو میں ان سے تصرّف لینا تو کوئی ملّاوجہی، عطا حسین خاں تحسین اور رجب علی بیگ سرور سے سیکھے۔ محمد حسین آزاد عربی تعلیم کے پروردہ اوراسی زبان کے پروفیسر تھے لیکن اردو کے اگلے سفر کا انھیں راستا پتا تھا۔ وہ اردو کی ہندی نژاد گی کے پرستار تھے؛ اسی لیے ان کے اس اسلوب میں عربی اور فارسی زبانوں کا وہ دباو نہیں جس سے قدمانے اپنے جگر میں لہو بھر ا تھا۔ اسی لیے ’’آب حیات‘‘ایک نئی نثر کا آئینہ خانہ ہے۔

        ’’آبِ حیات‘‘صرف اردو شاعری کی تاریخ اور پانچ ادوار میں پھیلے منظر نامے کو سمیٹنے کا ایک ذریعہ نہیں۔ محمد حسین آزاد ’انجمنِ پنجاب‘ کے سکریٹری اور اردو میں نظمِ جدید کے بانیان میں سے ہیں۔ چاہے وہ شعرا پہ اجمالی گفتگو کررہے ہوں، یا اختصاصی ؛عہد کا تعارف کرارہے ہوں یا اردو ادب کے بارے میں کوئی خاص نقطۂ نظر واضح کررہے ہوں ؛ ہر جگہ ایک مستقبل پسندFuturisticرجحان قائم رہتا ہے۔ زندہ قومیں مستقبل پر اپنی نظر رکھتی ہیں۔ آزاد نے اپنے تنقیدی جائزے کی بنیاد اسی مستقبل پسندی پر قائم کی ہے۔ شاید ان کی تاریخ نویسی میں یہی وہ  Conecting lineہے جس سے وہ ماضی اور حال کو جوڑ تے ہوئے ادب اور سماج کے آنے والے دریچوں تک پہنچتے ہیں۔ سرسیّد کے یہاں بھی یہ نقطۂ نظر ہے لیکن ادبی روایت کے بارے میں وہ سُلجھا ہوا تصوّر وہاں موجود نہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ’ آبِ حیات‘ کا ہر فیصلہ اور اس کے ادبی تجزیے کاہر رُخ مستقبل کے معاشرے کو سامنے رکھ کر مکمّل ہوا ہے۔ اس سے ’’آبِ حیات‘‘کی دائمیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ’آبِ حیات‘سے چند جملے ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں :

(الف)  رنگین استعارات اور مبالغے کے خیالات گویا مثلِ تکیہ کلام کے زبانوں پر چڑھ گئے ہیں۔ یہ عادت چھڑانی چاہیے۔

(ب)   اس وقت زمینِ سخن میں ایک ہی آفت تو نہ تھی۔ اُدھر تو مشکلاتِ مذکورہ اِدھر پُرانے لفظوں کا ایک جنگل۔ جس کا کاٹنا کٹھن۔ پس کچھ اشخاص آئے کہ چند کیاریاں تراش کر تخم ریزی کرگئے۔ ان کے بعد والوں نے جنگل کو کاٹا، درختوں کو چھانٹا، چمن بندی کو پھیلایا۔ جو  اُن کے پیچھے آئے، انھوں نے روشِ خیاباں داربست گلکاری نہال، گلبن سے باغ سجایا۔ غرض عہد بہ عہد اصلاحیں ہوتی رہیں اور آیندہ ہوتی رہیں گی۔ جس زبان کو آج ہم تکمیلِ جادوانی کا ہار پہناتے خوش بیٹھے ہیں۔ کیا یہ ہمیشہ ایسی ہی رہے گی؟کبھی نہیں۔ ہم کس منہ سے اپنی زبان کا فخر کرسکتے ہیں۔ کیا دورِ گذشتہ کا سماں بھول گئے؟ذرا پھر کردیکھ تو اُن بزرگانِ متقدّمین کامجمع نظر آئے گا کہ محمد شاہی دربار کی کھڑکی دارپگڑیاں باندھے ہیں۔ پچاس پچاس گز گھیرکے جامے پہنے بیٹھے ہیں۔ وہاں اپنے کلام لے کر آؤ۔ جس زبان کو تم نئی تراش اور ایجاد اور اختراع کا خلعت پہناتے ہو، کیا وہ اسے تسلیم کریں گے نہیں، ہرگز نہیں۔

        ’آبِ حیات‘میں ہر دور کی جو مختصر یا تفصیلی تمہیدیں لکھی گئی ہیں، انھیں بھی محمد حسین آزاد کے اس مستقبل پسند تاریخی شعور کا حصّہ سمجھنا چاہیے جہاں ہربات تاریخ کے کسی بہتے دریا سے چھَن کر آتی ہے اور پھر زمانۂ حال کے اوبڑ کھابڑ کو اپنی بانہوں میں سمیٹتے ہوئے مستقبل کے سمندر میں ہمیں پہنچا دیتی ہے۔ تاریخ نویسی کا یہ شعور ایک طرف تو خلوص، اپنائیت اور بے پناہ دل پذیری رکھتا ہے؛ دوسری طرف ادب کے سلسلے وار ارتقا کے بہت سارے بنیادی عناصر کی شمولیت سے یہ تجزیہ اعتبار حاصل کرتا ہے۔ ہر شاعر کے ذکر میں اور اس کے کلام کے جائزے میں اردو کی ادبی روایت، زبان کے ارتقا کا عالمی تصوّر اور اپنی زبان کے مستقبل کی فکرمندی دکھائی دیتی ہے۔ مستقبل پسندی کا یہ شعور اُن کے اختتامیہ کلمات میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ کسی کسی دور میں تو واقعی بہت مختصر خاتمہ ہے لیکن ان کے لفظوں کو غور سے دیکھیے تو وہاں بھی تاریخ کا یہی شعور موجود ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آزادکے یہ سو سے پچاس الفاظ ہمیں قصیدہ کی گریز کے انداز سے ایک آن میں ایک دور کی کیفیت سے دوسرے دور میں پہنچا دیتے ہیں۔ نہ پچھلوں پہ زیادہ الزام اور نہ اگلوں کو بے وجہ تاج وافسر سے نوازنا کیوں کہ لکھنے والے نے یہ بنیادی اصول قائم کرلیا ہے کہ ہردور میں کوئی نہ کوئی ایسا اہلِ قلم ضرورسامنے آتا ہے جس نے اپنی بساط بھر بہترین کام کیا اور رخصت ہوگیا۔ آزاد کے خاتمۂ کلام سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ’آبِ حیات‘کس طرح مختلف نسلوں کے خواب، کارکردگیوں اور محرومیوں کا سنگم ہے:

(الف)  ’’ پہلا دور برخاست ہوتا ہے۔ ان مبارک صدر نشینوں کو شکر یے کے ساتھ رخصت کرنا چاہیے کہ مبارک جانشینوں کے لیے جگہ خالی کرکے اٹھے۔ ایجاد کے بانی اور اصلاح کے مالک تھے۔ ملک کی زبان میں جو کچھ کیا، اچھّا کیا ؛جو  کام باقی ہے، اچّھے نکتہ پر دازوں کے لیے چھوڑ چلے گئے۔ ہر مکان جلسے کے بعد درہم برہم معلوم ہوتا ہے مگر یہ اس طرح سجا کر چلے ہیں کہ جو  اُن کے بعد آئیں گے، آرایش وزیبایش کے انداز سوچ سوچ کر پیدا کریں گے‘‘۔ (پہلا دور)

(ب)   ’’اے فلک، نہ یہ جلسہ برہم ہونے کے قابل تھا، نہ آج رات کا سماں صبح ہونے کے قابل تھا۔ پھر ایسے لوگ کہاں ! اور ایسے زمانے کہاں ! سیّد انشا اور جرأت جیسے زندہ دل شوخ طبع باکمال کہاں سے آئیں گے؟‘‘(چوتھا دور)

(ج)            ’’اے ہمارے رہنماؤ! تم کیسے مبارک قدموں سے چلے تھے اور کیسے برکت والے ہاتھوں سے رستے میں چراغ رکھتے گئے تھے کہ جہاں تک زمانہ آگے بڑھتا ہے، تمھارے چراغوں سے چراغ جلتے چلے جاتے ہیں۔ اور جہاں تک ہم آگے جاتے ہیں، تمھاری ہی روشنی میں جاتے ہیں۔ ذرا ان برکت والے قدموں کو آگے بڑھاؤ کہ میں آنکھوں سے لگاؤں۔ اپنا مبارک ہاتھ میرے سر پر رکھو اور میرے سلام کا تحفہ قبول کرو۔ ‘‘(پانچواں دور)

        مذکورہ اقتباسات سے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ ’آبِ حیات‘ کی تصنیف میں آزاد نے ادبی تاریخ نویسی کی بنیاد کچھ طَے شدہ اصولوں پر رکھی۔ جن کی روح تاریخ کے اس تصوّر میں پوشیدہ ہے کہ بہ قول ِاستادِ آزاد :

یہ چمن یوں ہی رہے گا اور سارے جانور

اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے

        اسی لیے ایک توازن اور انضباط کی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ یہیں محمد حسین آزاد کی تاریخ نویسی کا ایک دوسرا اصول سامنے آتا ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ادب کے منظرنامے پر جو بزرگان کارہاے نمایاں انجام دیتے ہیں، ان کی قدرو قیمت وہ کس طَور پر سمجھتے ہیں۔ انھوں نے خود چوتھے دور کے اختتامیے میں لکھا :

’’میرا  دل خدا جانے کس مٹّی کا بنا ہے۔ کسی کی جدائی کا نام لیا، یہ پگھل گیا۔ کسی عزیز کا ذکر کیا، اس سے خون ٹپک پڑا اور سخت جانی دیکھو کہ نہ پانی ہو کر بہہ جاتا ہے، نہ خاک ہو کر رہ جاتا ہے۔ تماشا یہ ہے کہ کتنے کتنے صدمے اٹھا چکا ہے، پھر بھی ہر داغ نیا ہی صدمہ دیتا ہے۔ مگر انصاف کرو، وہ  عزیز بھی تو دیکھو، کیسے تھے اور کون تھے (عالَم کے عزیز تھے) اور ہر دل کے عزیز تھے۔ اپنی باتوں سے عزیز تھے۔ ‘‘

        ’آبِ حیات‘ کی تنقیدی اور تحقیقی خامیوں کے باوجود اس کی بے پناہ مقبولیت پر غور کرتے ہوئے اکثر ناقدین اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ آج جب کہ ہماری تنقیدی اور تحقیقی بنیادیں مضبوط اور مستحکم ہوتی گئی ہیں اور ادبی تاریخ نویسی یا تکنیکی بنیادوں پر شعر فہمی کی مشق بھی زیادہ ہو چلی ہے؛ اس کے باوجود ’آبِ حیات‘ کو قوم کیوں دل میں بسائے پھرتی ہے۔ اس بات کا جو  اصل جواب ہے، وہ مذکورہ اقتباس میں اصول کی طرح سے پیوست ہے۔ ’آبِ حیات‘ ہمارے بزرگ شعرا کا میکانکی تذکرہ نہیں ہے جہاں ایک سلسلے سے لوگ آئے اور ان کی تفصیل بتائی گئی، پھر دھیرے دھیرے وہ رخصت ہوتے گئے۔ ’آبِ حیات، ایک ایسی تاریخی کتاب ہے جس کا مصنّف ہر بزرگ شاعر کے گزرنے پہ خون کے آنسو  روتا ہے۔ ایک ایک کا داغ اس کے سینے پہ چسپاں ہے۔ دل کے ان داغوں سے صرف میرؔ کی غزلیں تیار نہیں ہوئیں۔ ہماری زبان کا یہ بھی مقدّر ہے کہ اس میں انھی زخموں سے ایک تاریخی اور تنقیدی کتاب لکھی جاتی ہے جسے مصنّف نے کسی غیر معمولی لمحے میں ’آبِ حیات‘ کے نام سے پکارا۔ بڑا اہل قلم اپنے عہد اور کبھی کبھی آنے والے دور کے مسلّمات کو توڑ دیتا ہے اور خود کو ایسے پیش کرتا ہے کہ اس کے پڑھنے والے اسے آخری اصول کی طرح پہچانیں۔ ’آبِ حیات‘ میں شعرا کا جائزہ تحقیق، تاریخ، تنقید سے بڑھتے بڑھتے تہذیبی وقوعہ اور اپنے اسلاف کا روشن ماتم خانہ بن جاتا ہے۔ ایسی کوئی کتاب نہ ماضی میں لکھی گئی تھی اور نہ حال میں کسی کو ایسا قلم نصیب ہوا جس کی روشنائی میں اسلاف کا لہو اور اپنا خونِ جگرایک ساتھ صَرف ہوا ہو۔ اسی لیے ’آبِ حیات‘ ہماری زبان کی تاریخ میں ایک ایسا مینارۂ نور ہے جس سے ایک طرف دور تک نئے ادب کی روشنی پھیلتی چلی جاتی ہے اور دوسری طرف جو  اندھیرا ہے، اس میں ہمارے اسلاف کی بہترین کاوشیں اور ان کی معمار سازی کا اعتماد ان کے گزرنے کی سسکیوں کے ساتھ ہمارے مطالعے کے لیے رکھی ہوئی ہیں۔ محمد حسین آزاد ان دونوں سِروں کو جوڑ کر واقعی ہمیں ’آبِ حیات‘ پیش کر دیتے ہیں۔

(ختم شدہ)

تبصرے بند ہیں۔