محمد شفیع جرال: بیباک قلم کار

ایم شفیع میر

 کسی نے ادب میں نام کمایا تو کسی نے صحافت میں ،کسی نے رپورٹنگ میں شہرت پائی تو کسی نے کالم نگاری میں ،کسی کی صاف گوئی پہچان بنی تو کسی کی بے باکی۔مگر محمد شفیع جرال ایسی شخصیت ہیں جس نے ادب ،صحافت اور بحیثیت استاد بیک وقت اپنی شناخت حاصل کی ۔قلم جب بھی اُٹھا صاف گوئی و بے باکی وجہ مقبولیت بنی۔انکی تحریروں کے خاص پہلو ادبی ، تہذیبی و تمدنی رحجان،اپنے جنم بھومی سے لگاؤ،بلند خیالی،چھوٹوں پر شفقت جرال صاحب کی زندگی کے اہم اصول ہیں ۔ جرال صاحب علاقہ گول کی بڑی ہی پہلو دار ممتاز شخصیت ہیں ،بڑی تقاریب کے کامیاب منتظم کی حیثیت سے بھی حلقے میں اپنا خاص مقام رکھتے ہیں ۔ ہر میدانِ شعبہ میں شہرت کی بلندیوں پہ راج کر نے کے باوجود انکا عاجزانہ ،دھیما ،میٹھا لب و لہجہ اور اخلاق و اطوار قابل رشک ہے۔اِن کی دوستی کی بات کی جائے تو’’قابل اعتبار، رہنمائی کرنے کی صلاحیتوں کے مالک، دوسروں کی مدد پر ہر وقت کمر بستہ اوردل پُرخلوص گہری محبت سے بھرپور ‘‘انہیں کا خاصہ ہیں ۔

 جرال صاحب نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول گول سے حاصل کی، دسویں میں کامیاب ہونے کے بعد ڈگری کالج ادھم پور میں گیارہویں جماعت میں داخلہ لیا ۔اسی دوران جرال صاحب کی کی بحیثیت مدرس سلیکشن ہوئی یہیں سے جرال صاحب نے تعلیم کو عام کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ جرال صاحب کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ دوران ملازمت بحیثیت استاد انھوں نے اپنے علاقہ کو تعلیم کے نور سے منور کرنے میں اہم کردار نبھایا جو ناقابلِ فراموش ہے ۔چونکہ کے علاقہ کے لوگوں نہایت ہی سادہ لوح تھے لیکن تعلیمی طور لوگوں کو بیدار کرنے کا جو کارنامہ جرال صاحب نے انجام دیا ہے اسی کا صلہ ہے کہ موجودہ دور میں علاقہ کو ایسے سپوت نصیب ہیں جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عہدوں پر ہوتے ہوئے اپنے علاقے کا نام روش کئے ہوئے ہیں ۔جرال صاحب کی اپنی قوم کے تئیں تعلیمی بیداری کی فکر مندی معاشعرے میں اُن کی عزت کا احترام اورمقام کاباعث بنا ہوا ہے۔

بزبان جرال صاحب ’’لکھنے کا شوق تو بچپن سے ہی تھا لیکن 1970ء میں جب میرا ایک مزاحیہ کالم’’زیور تعلیم ‘‘ ادھم پور سے شائع ہونے والے ایک ہفت روزہ رسالے میں شائع ہوا تو لکھنے کا شوق مزید پروان چڑھا…لکھنے کی تحریک مجھے راہی غلام رسول وانی صاحب سے ملی ۔وانی صاحب اُس وقت کے معروف شاعر و ادیب کے طور جانے جاتے تھے ۔اُن کا لکھا ہوا ایک کتابچہ ’’اک خطہ ہے یہ بھی وادی کشمیر کا‘‘پڑھ کر میں اُن سے کافی متاثر ہو ا۔1975ء میں ریاسی میں زیر تربیت تھا تو جموں آنا جانا لگا رہا اس دوران کلچرل اکیڈمی میں لکھنا شروع کیا۔ مختلف ریاستی و غیر ریاستی اخبارات اور جرائد میں جگہ عنایت ہوتی گئی اور لکھنے کا حوصلہ ساتھ ساتھ بڑھتا گیا ۔ دوست و احباب کے لگاتار سراہے جانے اور اخبارات و جرائد میں لگاتار جگہ ملنے کی وجہ سے بلآخر سن 1980ء میں جرال صاحب کاایک افسانوی مجموعہ’’روتے دل افسانے‘‘ منظر عام آیا۔

اس افسانوی مجموعے کو کافی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی ۔’’روتے دل افسانے‘‘ کے اس مجموعے نے جرال صاحب کی قلم کو مزید رفتار بخشی ۔’’افسانوی مجموعہ  ’’مایوس چہرہ ‘‘ جرال صاحب کا وہ شاہکار تھا جسے ’’مانوی پبلیکیشن جموں ‘‘ نے شائع کیا اور اس کے بعد جرال صاحب کا تیسرا افسانوی مجموعہ’’ ارمانوں کے مزار‘‘ بھی ’’ مانوی پبلیکیشن جموں ‘‘کے دفتر کی زینت بن گیا اور موجودہ وقت میں وہ تمام مسودہ اُن کے ہی پاس ہے۔گو کہ ’’مانوی پبلیکشن جموں ‘‘ کی بے رخی سے جرال صاحب کو مایوسی کا سامنا رہا لیکن لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کے بعد جرال صاحب نے’’ گول کی زیارت گاہیں ‘‘اور ’’گھوڑا گلی‘‘ کے شکل میں دو کتابچے تحریر کئے ۔

جرال صاحب سے یہ پوچھے جانے پر کہ بحیثیت استاد آپ کا زیادہ تر دھیان کن معاملات پر رہا۔ تو اُن کا کہنا تھا کہ بحیثیت استاد میرا زیادہ تر دھیان ایک ایسی تعلیم کو فروغ دینا تھا جس سے علاقہ کا نام روشن ہو جائے اس کیساتھ ہی میری کوشش رہی ہے کہ علاقہ ادبی لحاظ سے بھی آگے آئے ۔میری سب سے زیادہ کوشش یہی ہوتی تھی غریب بچوں کو تعلیم دی جائے کیونکہ میں نے غربت کو بہت ہی قریب سے دیکھا تھا ۔کسی غریب بچے کو سکول نہ جاتے ہوئے دیکھ کر میں خود کو ایک ناکام اور نامکمل معلم تصور کرنے لگتا تھالیکن میں اپنے اس مشن میں کسی حد تک کامیاب ہوا کہ غریب بچوں کو تعلیمی کی طرف متوجہ کر کے انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ اسی بنیاد پر سرینگر کی ایک بہت بڑی تقریب میں مجھے’’بہترین استاد‘‘ ایورڈ سے نوازہ گیا اس کے بعد ڈگری کالج ادہم پور میں بھی ’’بہترین استاد‘‘ ایوارڈ سے نوازہ گیا یہی وجہ ہے کہ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں ’’تعلیمی و ادبی فروغ‘‘ کے اپنے مشن میں خود کو کسی حد تک کامیاب سمجھتا ہوں ۔بحرحال اس کاصحیح فیصلہ تو اہلیان گول گلاب گڑھ کے ہاتھ ہے وہی صحیح بتا سکتے ہیں کہ میں کس حد تک اپنے مشن میں کامیاب ہوا ہوں ۔

 ایک سوال کے جواب میں کہ …ادبی رجحان ماضی میں زیادہ تھا یا موجودہ دور میں ہے ؟؟ تو جرال صاحب کا کہنا تھا کہ ……’’ میرا ماننا ہے کہ ماضی میں زیادہ رجحان تھا،گو کہموجودہ وقت قلمکار بہت زیادہ ہے لیکن ایسے قاریوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہیں جو کہ قلمکاروں کو پڑھیں اور اُن کی حوصلہ افزائی کریں یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں ادب کے تئیں عام لوگوں کا رجحان نا کے برابر ہے۔ماضی میں اپنے آبائی گائوں سے شائد میں واحد شخص تھا جواخبارات میں لکھتا تھا تو ادبی کے تئیں لوگوں کا رجحان صاف طوراس بات سے معلوم ہوتا تھا کہ اپنے دوست احباب یا رشتہ دار یاگائوں کا کوئی بھی شخص اگر کسی کام سے جموں ہوتا تھا تو جس اخبار پر انہیں میرا کوئی مضمون دکھائی دیتا تو پیار و محبت سے اُسے اپنے ساتھ لا کر مجھے تھما دیتے گو کہ یہی ادب کے تئیں ہمدردی اور حوصلہ افزائی تھی لیکن موجودہ دور میں اس طرح کی حوصلہ افزائی مکمل طور سے ختم ہو چکی ہے ایسا لگ رہا ہے گویا ادب سے لوگوں کا دور دور کا واسطہ نہیں ۔

آخر میں جرال صاحب سے یہ کہنے پر کہ اپنے شاگردوں یا نئے آنے والوں کیلئے کوئی کامیابی کا گرہی بتا دیں ؟؟……تو جرال صاحب کا کہنا تھا ………اصل میں ’’گُر ‘‘وغیرہ کچھ نہیں ہوتا، یہ تو فطرت کی طرف سے کی گئی آپ کی تربیت،آپ کی تہذیب ہوتی ہے جو آپ کو اس راہ پر لئے چلی جاتی ہے ۔ کہنے کا مقصد یہ کہ فطرت ہے جس کی یہ ساری دین ہوتی ہے۔ تاہم میں پھر بھی ان لوگوں کے لیے جو ادب،صحافت اور شعر سے محبت رکھتے ہیں اور جن کا مجھ سے بھی ایک تعلق خاطر ہے میری ان کے لیے گزارش ہے یہی ہے کہ اپنا نام کمانا چاہتے ہیں تو مطالعہ کریں اور اپنی زندگی کے تجربات اور نچوڑ کو بیان کرنے کی کوشش کریں ،یقیناکامیابی قدم چومے گی۔

تبصرے بند ہیں۔