کامیاب تدریس کے رہنما خطوط

مولانا عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

یہ سچ ہے کہ قحط الرجال کا دور ہے، طلبہ میں تحصیل علم کےلئے محنت اور دلچسپی زوال پذیر ہے،بلکہ روز بروز انحطاط بڑھتاہی جارہا ہے، استعدادیں کمزور ہورہی ہیں ،وجہ بہ ظاہر یہ سمجھ میں آتی ہے کہ طلبہ احساسِ زیاں سے بےشعوربلکہ ان میں سے اکثر مقصد تعلیم سے ہی ناواقف ہیں، زما نےکی نیرنگیوں سے طلبۂ علومِ دینیہ بھی تن آسان،سہولت پسند اورغفلت کا خوگر ہوگئے ہیں، سستی، بے فکری اورعدم توجہی کی اس تیرہ و تاریک فضا میں اساتذۂ کرام اورمدرسینِ علومِ نبویہ کی ذمہ داریاں پہلے سے کئی گنا بڑھ جاتی ہیں، لہذا اساتذہ ٔکرام کو ایسے اسباب وعوامل پرغورکرنے بلکہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے جن کو بر َت کروہ اپنے متعلّمین وتلامذہ میں علمی ذوق وشوق پیدا کرنے اور بڑھانے کے ساتھ ساتھ مقاصد ومنافعِ تعلیم بتلا کر ان کی صلاحیتوں کودوآتشہ کر سکتے ہیں، اس طرح طلبہ کو  استفادہ کرنا آسان ہوگا وہ اپنے لیے کامیابی وکامرانی کی راہیں ہموارکرپائیں گے اور ذوق وشوق کے بازؤوں سے علمی سفر کی منزلیں طے کریں گے اور  امتِ بیضا ءکو معتبررجال کا راورمستندافرادِ دین مہیا ہوسکیں گے، اس لئے ذیل میں اکابر واسلاف اور اساطینِ علم وفن کی تعلیمات وتجربات سے اخذ کردہ کچھ رہنمایانہ خطوط ذکر کئے جارہے ہیں جنھیں مدارسِ اسلامیہ کے اتالیق ومعلمین اپنا کر بامقصد تعلیم اور نتیجہ خیز تدریسی خدمات عمل میں لا سکتے ہیں۔

1- اخلاص وللہیت

ایک کامیاب معلم کے لئے سب سے پہلا اور ضروری وصف یہ ہے کہ وہ اپنی تدریس و تعلیم میں مخلص ہو، اور مقصدصرف حصول رضائے الٰہی،احیاءِ علومِ کتاب وسنت، شریعت اسلامیہ کی نشرو اشاعت،اصلاح معاشرہ، اور لوگوں کو شرک وکفر اور بدعات وخرافات سے نکال کر کتاب وسنت کی شاہراہ اورصراط مستقیم پر لگانے والی جماعت تیارکرنا ہو،اس سے ہٹ کر  کوئی دنیوی غرض،حصول مال ودولت،جاہ و منصب،معاصرین پر فوقیت ، شہرت ودنیاطلبی،طلبہ اور عوام کی بھیڑ جمع کرنا،دوسرے علماء کو شکست دے کر انہیں خاموش کر نا وغیرہ جیسے دنی اغراض نہ ہو۔اس لئے کہ تعلیم وتعلّم ایک عبادت ہے جیسا کہ حدیث’’مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِى بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللہِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللّٰهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلاَّ نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلاَئِكَةُ وَذَكَرَهُمُ اللّٰهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ .‘‘(رواہ مسلم ) سے معلوم ہو تا ہے،اور عبادت کی صحت اور قبولیت کے لئے اخلاص اور صحیح نیت شرط ہے؛ لہٰذا استاذ کے لئے اپنی خدمتِ تدریس میں اخلاص ایک کلیدی وصف ہے۔

حضرت مدنی  ؒ فرمایا کرتے تھے کہ تسخیر کائنات کا سب سے بڑا وظیفہ تقوی ہے ؛اس لئے استاذ جتنا زیادہ مخلص و متقی ہوگاتلامذہ اس کے لئے اتنے ہی مسخر ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اُسے تدریس کے نئے نئے طریقے سجھاتے رہیں گے ۔

2- اوقات کا پاس ولحاظ

 پابندیِٔ وقت ہر عقل مندانسان کی خوبی ہے،تھوڑے وقت میں زیادہ کام کرنے اور کروانے کا بنیادی اصول مقررہ وقت کا بھرپوراوردرست استعمال ہے،اپنے وقت کی کا مل حفاظت اور اُسے تول تول کر خرچ کرنا ہی کامیاب تدریس کی جانب پہلا قدم ہے۔اس حوالے سے ذراسی بے التفاتی وبے توجہی اورتساہل نہ صرف علمی ، عملی اور اخلاقی رویے کے منافی ہے؛بلکہ زیر تدریس شاگردوں پر بھی اس کے برے اور منفی اثرات پڑسکتے ہیں ؛  جو یقیناً ان کے بہترمستقبل کے حوالے سے زہرِ قاتل ہے، وقت کا التزام یہ تو اچھی اورقابلِ تحسین عادت ہے؛ البتہ اپنے گھنٹے سے قبل دوسرے استادکے گھنٹے کا وقت نہ لینااوراپنی گھنٹی کا مقررہ وقت ختم ہونے کے بعد دوسرے مدرس کے اوقات میں بے جادخل اندازی نہ کرنا ،متعین ساعتوں میں اپنی بات سمیٹنا اورتکمیل تک پہنچانا اخلاقاًوشرعاً ایک مدرس کی ذمہ داری ہے، اوریہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ جو استاذ وقت کا پابند ہوتا ہے وہ کبھی تکمیلِ نصاب میں پیچھے نہیں رہتا ؛بلکہ اسباق کی منصوبہ بندی کے ذریعہ اپنی کتاب کو پایہ تکمیل تک پہونچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

حضرت مولانا فضیل الرحمن ہلال عثمانی’’ میرے قابل احترام اساتذئہ کرام‘‘ کے سلسلہ مضامین میں   شیخ الادب والفقہ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب امروہی ؒکا تذکرہ کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں کہ:آپ نظم وضبط کے اور اوقات کے بہت پابند تھے، انتہائی مجبوری کے علاوہ کبھی سبق ناغہ نہیں کرتے تھے۔ جس دن آپ کی اہلیہ کا انتقال ہوا، تو ہم ساتھیوں نے سوچا کہ آج تو چھٹی رہے گی جنازے کے ساتھ ہم قبرستان گئے اور تدفین کے بعد کچھ ہم نے کھیلنے ویلنے کے پروگرام بنالیے؛ مگر کہاں جناب! ایک گھنٹہ کے بعد ہی چپراسی پیغام لے کر آیا کہ حضرت بلارہے ہیں ، آکر سبق پڑھ لو! ناسمجھی کا زمانہ تھا، ہماری کم فہمی دیکھئے کہ سوچتے رہ گئے کہ بڑے میاں کو آج بھی چین نہیں ہے، مگر سبق تو پڑھنا ہی پڑا، چہرے پر سوگواری ضرور تھی ؛مگر علم کا یہ شیدائی اپنے غم کو بھول کر دوسروں کو علم کی دولت بانٹنے میں لگا ہوا تھا۔

3-کتاب وفن کی تفہیم سے قبل تفَہّم

  وقت کو معتدل انداز میں اسی وقت اپنے لیے کارآمداورمفید بنایاجاسکتاہےجب استاذ تعلیم گاہ میں جانے سےقبل متوقع سبق کو خوب اچھی طرح دیکھ چکاہو،بسااوقات عبارت میں کسی قسم کی غلطی وابہام کی وجہ سے صحیح معنی اورمفہوم اخذ نہیں ہوپاتا؛چنانچہ اس مرحلے کو اگر پہلے ہی عبور کرلیا جائے تویقینا مکمل اطمینان و سکون اور پورے شرح وبسط کے ساتھ طلبہ کو سمجھایاجاسکتاہے۔اسی طرح عبارت کے مالھا وماعلیہا کی آگاہی اورواقفیت سے افہام کا راستہ آسان اورسہل ہوجاتاہے، سبق کی روانی اوررفتار بھی متاثرنہیں ہوتی۔

 معلّم کو چاہئے کہ وہ دو قسم کی تیا ری کرلے: پہلی تیا ری خود سمجھنے کے لئے اور اپنی معلو ما ت کو بڑھا نے کے لئے۔دوسری تیا ری سبق کو مربوط بنانے اور سہل ، موثر انداز میں طلبہ کے سامنے پیش کرنے کے لئے۔

یہ بات کس قدر معقول ہے کہ سمجھانے سے قبل سمجھنا،بولنے سے پہلے سوچنا اور کرنے سے پیشتر نتائج پہ نظر رکھنا، معلم  کے اندازِ تدریس اورمعیارِتعلیم پر خوش گوار اوردیرپااثرات ڈال سکتے ہیں ۔

4-اسلوبِ تدریس

  ہرانسان کو خالق کائنات نے مختلف خوبیوں اورمحاسن سے نوازاہے،یہ ضروری نہیں کہ ایک اچھائی اور خوبی کسی انسان میں ہوتولازماً دوسرے فردمیں بھی پائی جائے؛مگرچند ایسی صفات ضرورہیں جو مشترکہ طورپر ہرانسان کوقدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی ہوتی ہیں ،یہ الگ بات ہے کہ کون کتنا اور کس خوبی سے اس کو اپنے تصرف میں لاکراپنے لیے ترقی کی منزلیں قریب کرتاہے۔ ایک مقبول اورہردل عزیز استاذکی پہچان اور اُس کاتعارف یہ ہے کہ وہ سبق اوردرس کو شاگردوں کے ذہن وفہم کے قریب لے آئے، یہ قرب ونزدیکی اس قدر ہوکہ کوئی طالب علم اُس کتاب وسبق سے وحشت وتنگی اور بُعد محسوس نہ کرے ؛لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟جواب بہت سیدھا اور آسان ہے، درس ہمیشہ” تقطیع اورتجزّی“ کے اصول پر پڑھانا چاہیئے، یعنی دانش گاہ میں قدم رکھنے سے قبل ہی استاذ ذہناً اس بات کو مستحضر کرلیں کہ آج میرے سبق میں کتنی باتیں، کتنے مباحث، کتنے فائدے اور کتنے نکات ہوں گے؟اس تعین وتحدید کے بعد عبارت پر ان کو منطبق کردیں ۔انشاء اللہ العزیز کامیابی قدم چومے گی؛ورنہ بہ قو ل متنبی:

ولم أر فی عیو ب الناس عیباً

کنقص القا درین علی التمام

میں نے لو گوں کے عیوب میں سے اس سے بڑا کوئی عیب نہیں دیکھا ، کہ ایک کام کو اچھی طرح مکمل کرنے پر قدرت رکھنے کے با وجود اسے ناقص و نا تمام چھوڑ جا تے ہیں ۔

طریقۂ تدریس میں ان امور کا لحاظ رکھنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا:

1- کتاب کے مشکل مباحث کو سادے الفا ظ میں اور اختصار کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کرنا۔

2- تعبیر کے لئے عمدہ ،دل نشیں اور واضح طریقہ اختیارکرنا ۔

3- کتا ب کے حل کرنے میں قطعاً تسامح سے کام نہ لینا۔

4- حل کتاب کے بعد فن کی مہمات کی جانب طلبہ کو متوجہ کرنا۔

5- جس مشکل کی شرح کسی نے عمدہ پیرائےمیں کی ہو اس کا حوالہ دینااور طلبہ کو ان مآخذ سے روشناس کرانا

تاکہ مستعد و ذہین طلبہ اپنی معلومات وسیع کرسکیں ۔

6- فضول و بےکار مباحث میں طویل طویل تقریر کر کے طلبہ سے دادِ تحقیق حا صل کرنا یہ تدریس کا سب سے بڑا فتنہ ہے،اس کو ختم کیاجائے۔

علا مہ ابن خلدون رحمہ اللہ فرما تے ہیں :معلم کو چاہیئے کہ طلبہ کو بعد کی با تیں پہلے نہ پڑھائیں اس طر ح کرنے والے طُرق تدریس سے نا واقف ہیں ۔

5-طلبہ کی استعدادپر نظر

 بلاشبہ ہر اچھے مدرس کی تمنااور آرزوہوتی ہے کہ اس کے طلبہ علمی لیاقت اور فنی استعداد میں مضبوط اورپختہ ہوں ،اس خواہش کے شگوفے اسی وقت چٹکیں گے ،جب استاذ طلبہ کو بھی اپنی تدریسی عمل کا حصہ بنالے۔اس کی پہلی صورت تو یہ ہے کہ: روزانہ اُن سے عبارت خوانی کروائے۔”سب سےنہ سہی ،چندسے سہی،زیادہ نہ سہی، مختصر سہی “کے اصول اور ضابطے پر عمل کرکے بہت کچھ پایا جاسکتاہے ۔دوسری صورت یہ ہے کہ :گزشتہ سبق کا  حتی الامکان اعادہ کروائے،چاہے خود سن کر یا آپس میں تقسیم کرکے۔تیسری صورت یہ ہے کہ :ہفتے دوہفتے میں سابقہ خواندگی کا سرسری لیکن تنقیدی جائزہ لے ۔ان امور کی رعایت سے استاذ کے ذہن میں خود بھی نئی نئی باتیں اوراچھوتے اندازِ درس جنم لیتے ہیں ،جو عمل کی بھٹی سے نکل کر کُندَن کی صورت اختیار کرجاتے ہیں ؛ضرورت ہے فقط ہمت اورحوصلہ کی۔

6-علمی تشنگی کی آبیاری

حدیث مبارکہ میں رسول معلّم ﷺ نے اچھے اورنکتہ رس سوال کو ”آدھا علم“ فرمایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ طالبان علومِ نبوت میں اپنی علمی پیاس بُجھانے اور تشنگی دور کرنے کاداعیہ کیسے اورکیوں کرپیداہوسکتاہے؟ اس کے لئے کیا کیا جاسکتاہے؟اس کا حل احادیث مبارکہ کی کتب میں موجودہے۔حضرت عبداللہ ابن عمر ؓکی روایت ہے ایک مرتبہ آں حضرت ﷺ نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت سے ایک سوال فرمایا،کسی کو جواب نہ آیا ۔میں جان گیا کہ اس سوال کا کیا جواب ہے؛ لیکن شرم وحیا اور چھوٹے ہونے کی وجہ سے، مجھے بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ”الرسول المعلم…“ میں مندرجہ    حدیث شریف کے حاشیہ میں رقم طراز ہیں :”استاذکے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنے متعلّمین ومستفیدین سے ازخود سوال کرے ،جس کے ذریعے ان کے اندازِفہم کی جانچ وپرکھ کے ساتھ ساتھ، ان میں غوروفکر اور سوچ وبچار کی جانب رغبت وشوق پیداکرنے کی کاوش شامل ہو۔اگرچہ معلم طلبہ کے سامنے اس بات کو اس انداز میں بیان کرچکا ہوکہ وہ اپنی کم فہمی اورناسمجھی کی بناپر اس سوال کی گہرائی اورحقیقت تک نہ پہنچ سکے ہوں ۔“ (ص:108)

7-معتدل مزاجی

طلبہ کے ساتھ اعتدال ،میانہ روی اور دوستانہ رویہ ،ان کی فکری ،علمی اور ذہنی صلاحیتوں کو ابھارنے اورنکھارنے میں بے حد مفید ومعاون ثابت ہوتاہے۔جہاں خشک مزاجی،بے جاغصے کااظہار اورحدِ اعتدال سے بڑھی ہوئی سختی اور تشددمعلم سے طالب علمکو دور کردیتی ہے ،وہاں افراط کی شکار نرمی ،طبیعت میں عدم سلیقے کا عنصر اورطلبہ سے فضول گپ شپ بھی درس گاہ کے عمومی اور تدریس کے خصوصی ماحول کومتاثروبدنما کردیتی ہے، ایسی فضااورماحول جس میں توسط واعتدال کا رنگ نمایاں ہو،استاذ کی ذہنی پختگی اوربہترین انتظام کا مظہرمتصور ہوتی ہےورنہ اس معاملے میں کسی بھی قسم کی کمی یا کوتاہی سے پیداہونے والے نتائج کا سدِباب ناممکن اورمحال ہے۔

مو لا نا أبو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ (پرا نے چراغ ) میں ماضی قریب کی ایک عظیم شخصیت مو لا نامناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کے با رے میں لکھتے ہیں :

اس دورا ن قیام میں جو علمی مذاکرے ہو تے ان کی تو اس وقت کچھ زیادہ سمجھ نہ تھی اور نہ وہ محفوظ ہیں ،بس اتنا یاد ہے کہ ان کی با توں سے یہ احسا س نہیں ہونے پا تا تھا کہ کوئی شخص علم کے فلک چہا رم سے اہل زمین کو خطاب کر رہا ہے ، یا کوئی عالم نشست گا ہ کو درس گا ہ تصور کر کے سا معین کو درس دے رہا ہے۔ان سے مل کر ہم کو وہ دوری اور پستی نہ محسوس ہو تی جو مبتدی طالب علموں کو بڑے علما ء واساتذہ سے مل کر محسوس ہوا کرتی ہے۔دیکھنے میں یہ بات معمو لی ہے مگر بڑی غیر معمولی ہے، جس طرح بعض نو دولت حکام کو یہ مرض لا حق ہو جاتا ہے کہ وہ ہر جگہ یہاں تک کہ اپنے گھر میں اور اپنے بے تکلف احباب کے حلقہ میں بھی اپنے کو حاکم سمجھتے رہتے ہیں ، اسی طرح بعض علما ء اور ادباء اس کمزور ی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ ہر وقت اپنے کو معلم و مصلح یا ادیب و نقاد سمجھنے لگتے ہیں ، اور درسگاہ اور مسند درس کا تصور ان سے کبھی جدا نہیں ہو تا۔ مو لا نا کی مجلس میں بڑا انبسا ط تھا اور علمی ودرسی اصطلاح میں تنزل بھی تھا، لطائف بھی تھے ، واقعات بھی تھے ،اور چیدہ منتخب اشعار بھی اور وہ بھی ترنم کے سا تھ ، دل نوازی اور شفقت بھی تھی، اور علمی و تحقیقی شا ن بھی ،اور یہ سب اسی لطافت روح اور سبک جانی کا نتیجہ تھا ،جو ان کو عطا ہو ئی تھی اور اس بات کا ثبوت کہ علم ان کا ایسا جزو بدن ہو گیا تھا کہ ان کو اس کا احساس باقی نہیں رہا تھا اس لئے اس کے موقع بے موقع اظہار کی ضرورت نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے مولا نا کو اس لطافت سے خوب نوازا تھا اور اسی وجہ سے وہ اپنے حلقہ احباب میں بڑے محبوب اور اپنے حلقہ تلامذہ ومستفیدین میں بڑے مقبول تھے اور جوان کی صحبت میں ایک مرتبہ بیٹھ جاتا وہ یہ کہتا ہو اٹھتا : ’’بہت لگتا ہے جی صحبت میں ان کی ‘‘

8-بورڈ (تختہ سیا ہ ) کا استعمال

بورڈ کا استعمال قدیم وسائل تعلیم میں سے ہےاور تفہیم کا ایک مؤثر ذریعہ ہے جس کے استعمال سے معلّم کو کوئی زحمت نہیں ہوتی اور کوئی معلم اس سے مستغنی بھی نہیں ہوسکتا، البتہ اس کا صحیح استعمال جاننا لازمی ہے۔اگر معلّم ابتدا ئی درجوں کے طلبہ کے لئے سبق کا اجما لی خلا صہ اور اس کا نقشہ بورڈ پر لکھے اور پھر اس کی تشریح کر کے سمجھانے کی کوشش کرے تو یہ طریقہ بہت مفید ثا بت ہوتا ہے۔

 نبی کریم ﷺ نے بعض معنوی حقائق کو سمجھانے کے لیے یہ انداز بھی اختیار فرمایا ہے؛ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز نبی کریم ﷺ نے ایک مربع خط کھینچا، پھر اس مربع خط کے درمیان میں ایک خط کھینچا پھر اس درمیانے خط کے دونوں جانب چھوٹے چھوٹے خط کھینچے اور ایک خط مربع خط کے باہر کھینچا۔ پھر صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے فرمایا: جانتے ہو یہ کیا ہے؟ سب نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ درمیانہ خط انسان کی مثال ہے اور اس کے دائیں بائیں چھوٹے چھوٹے خطوط وہ عوارض ہیں جو اُسے زندگی میں پیش آتے ہیں، اگر ایک سے چھوٹ گیا تو دوسرا پکڑلیتا ہے اور جو مربع خط ہے یہ اس کی اجل ہے اور اس کے ساتھ جو خط باہر جارہا ہے، وہ اس کی اُمیدیں اور آرزوئیں ہیں۔ (مسندامام احمد:5/237)

اسی طرح استاذ درس گاہ میں داخل ہوتے ہی پہلے بورڈ پر اپنے فن کا نام لکھے اور اس کے نیچے جو کچھ پڑھا نا ہے وہ مو ضوع لکھیں پھر اس کو مثا لوں سے سمجھا کر کتا ب سے منطبق کردے،بورڈ استعمال کرنے سے معلومات ذہن میں راسخ ہو جاتی ہیں ، طلبہ درس کی طرف متوجہ رہتے ہیں بات کی وضا حت محض بو لنے تقریر کرنے کی    بہ نسبت اچھی طرح ہو جا تی ہے لہٰذا معلم اسے فضول سمجھ کر نظر انداز نہ کرے۔

9-طلبہ کے ساتھ نرم خوئی وملاطفت

ایک کامیاب معلم کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ بچوں کو مارنے سے حتی الامکان گریز کرے ؛ کیونکہ بعض بچے اسقدر حساس ہوتے ہیں کہ پٹائی کی وجہ سے ذہنی امراض اوردماغی خلجان میں مبتلاہوکر ترک تعلیم اور کبھی تاب نہ لاکر را ہ فرار اختیار کرلیتے ہیں ، اس لئے ایک ماہر نفسیات استاذ کی پہچان یہ ہے کہ وہ مار نہیں ، پیار کا کامیاب ترین نسخہ استعما ل کرے ۔غصہ اور طیش میں آکر کبھی بچوں کو سزا نہ دے کیو نکہ کوئی غصہ میں بھر ا ہو ا حکیم مریض کے مرض کو ختم نہیں کرسکتا، غصہ میں د ل قابو میں نہیں رہتا، جب استاذکا دل ہی قابو میں نہیں تو وہ شاگرد کو کیسے اپنے قابو میں لاسکتاہے اس میں تو اور خرابی کا اندایشہ ہے۔

تجربہ شاہد ہے کہ سخت کلمات کی بہ نسبت نرم کلمات زیا دہ مؤثر ہوتے ہیں ،نازیبا الفاظ اور کرخت لہجہ بسا اوقات طالب علم کو متنفر اور علم دین سے دور کردیتا ہے بلکہ کبھی کبھار توجرائم پیشہ بھی بنادیتاہے۔

 چھوٹے بچوں کے دل میں رعب اور خوف کا سمانا ایسا ہی براہے کہ جیسا نر م و نازک پودے پر باد صر صر کا تند جھونکا یا پھو لوں پر لو کا چلنا ،طالب علم کے ساتھ بد اخلاقی کے ساتھ پیش آنے کی وجہ سے اگرچہ عارضی طور پر فائدہ ہوجائے گالیکن مستقلاً یہ باعث فتنہ ہے او ر اس سے فائدہ کے بجائے الٹانقصان کا اندیشہ ہے جو استاذ اخلاقی برائیوں کو حسن خلق کے ذریعے رفع کرنے کی قا بلیت نہیں رکھتا وہ کامل استاذ کیسے کہلاسکتاہے۔

قرآن کریم میں خود معلم انسانیت ﷺ کو خطاب ہے:فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَو کُنْتَ فَظَّا غَلِیْظَ القَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِک(سورہ ٔ آل عمران )

10-دورانِ درس ناصحانہ کلمات

والد اوراستاذ کے مابین کلیدی فرق وامتیاز یہ ہے کہ باپ اپنے بچے کی مادی اورظاہری وجسمانی نشوونما کرتا ہے؛جب کہ ایک مشفق ومہربان استاذ اپنے شاگرد کی باطنی اورروحانی تربیت کافریضہ سرانجام دیتاہے، استاذ کی صرف یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ طلبہ کے ذہنوں کو کتابی معلومات سے بھر دے؛ بلکہ وہ معلم ہو نے کے ساتھ ساتھ مربی بھی ہے ، اس لئے استاذکو چاہیے کہ طالب علم کو فنی معلومات بھی پہنچائےاوراس کی عقلی، روحانی، جسمانی اور اصلاحی پہلوؤں پر بھی نظر رکھے ، اس کی شخصیت سازی کرے، شریعت کا پابند بنائے ،کمزوریوں کی نشاندہی کرےاور اس کی اصلا ح کےلئے مناسب راہنمائی بھی کرے۔

ہرباصلاحیت معلم اورجوہرشناس استاذکی نظر ہمہ وقت اپنی روحانی اولاد کی سیرت وکردارپہ رہتی ہے،اورکیوں نہ ہو ؟کہ اس قیمتی اور زریں دور کی کمی اورکجی پوری عمرکا روحانی روگ بن سکتی ہے؛اس لیے ضرورت ہے کہ حقیقت پسند اورنفسیات شناس مدرس اپنے آپ کو فقط کتاب کی تدریس و تعلیم تک محدود نہ کرے؛ بلکہ دورانِ درس کوئی نصیحت آموز کلمہ ،کوئی فکر انگیز واقعہ ،کوئی نظریہ ساز جملہ کہہ کر اپنے زیر تربیت نونہالوں کی عملی زندگی کا دھارا بدلنے میں مثبت اور نتیجہ خیز کرداربھی اداکرے۔

11-اساتذہ میں باہم جوڑواتفاق

کوئی ادارہ ،جماعت اور معاشرہ ایک فر د وانساں سے مکمل نہیں ہوتا،مختلف مزاج اور متفرق طبیعتیں مل کر ہی کسی مدرسہ ،اسکول اورگھر کو وجود بخشتے ہیں ۔ان الگ الگ مزاجوں اور طبیعتوں کا کسی امر پر متفق ومتحد ہوجانا ، اُس کی پائیداری ،مضبوطی اور پختگی کے لیے بنیادی وکلیدی اہمیت رکھتاہے؛ اس کے برعکس افتراق وانتشار ،فتنہ وفساد اور ٹوٹ پھوٹ کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ قابل ،محنتی اور مخلص استاذ ہمیشہ ایثار پیشہ ،منکسرالنفس اوراعمال صالحہ کا حریص ہوتا اور رہتاہے۔ اس کی ابتدا سے یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کی ذات ،کردار اورشخصیت؛ مدرسہ، اسکول اور ادارے کے مجموعی ماحول کے لیے تکدر اور خرابی کا باعث وسبب نہ بنے، اس کے کسی قول و عمل سے دوسرے کی دل آزاری اوردل شکنی نہ ہو۔ایک شخص اور فرد کا یہ عزم ،ارادہ اور نیت پورے ادارے اور جماعت کے استحکام ودوام کا ذریعہ بن سکتاہے، وگرنہ ایک چنگاری ہی پورے ڈھیر کو راکھ بنادینے کے لیے کافی ہوجاتی ہے۔اللہ رب العزت ہم سب کو صحیح معنوں میں دین کا خادم وسپاہی بنائے!آمین۔

تبصرے بند ہیں۔