ہینگر میں ٹنگی نظمیں

 وصیل خان

جذبات و احساسات کی تخلیق اور اس کے ترسیلی عمل کی صلاحیت قدرت نے ہر انسان کے دل میں بقدر استطاعت رکھ دی ہے اور ہر شخص اپنے اپنے دائرہ ٔکار میں رہ کر ان افکار و خیالات کی ترسیل کرتا ہے ۔اس تعلق سے غوروفکر اور تدبر کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔اشیاءکے حقائق کی تفہیم کیلئے فکری گہرائی اور جوش عمل دونوں کی ضرورت ہوتی ہے ،ان کے بغیر کسی انسان کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ حقائق پر پڑے ان دبیز پردوں کو چاک کرسکے اور حقائق و معرفت کی اس دنیا میں پہنچ جائے جہاں کچھ بھی مستور نہیں رہ جاتا ۔یہ صفت جہاں اللہ نے بڑے بڑے صاحبان فہم و ذکاء کو ودیعت کی ہے وہیں شعراءبھی اس نعمت سے سرفراز کئے گئے ہیں لیکن تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ فی زمانہ شعراء کی جو کھیپ تیار ہورہی ہے،اس کی ایک کثیر تعداد ان خصوصیات سے یکسر خالی نظر آتی ہے جن کی شاعری محض کچھ تک بندیوں تک محدود ہوتی ہے وہ بھی انتہائی کمزوراورمدقوق سطح کی ،لیکن خوش کن پہلو یہ بھی ہے کہ خال خال ہی سہی مضبوط و توانا شاعری بھی منظر عام ہوتی رہتی ہے جس نے شاعری اورفن شعر گوئی کا بڑی حد تک بھرم قائم رکھا ہے۔

فرحان حنیف ہمارے درمیان ایک ایسے ہی شاعر ہیں جنہوں نےاپنی محنت ، کلام کی بلوغت اور فکری رفعت کے سبب خود کو ا س صف میں شامل کرلیا ہے جن کےمتعلق  وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ شاعری کا بھرم قائم رکھیں گے ۔’ہینگر پر ٹنگی نظمیں ‘ان کا اولین مجموعہ انتخاب ہے جو بہت تاخیر سے شائع ہوا ہے اور اس تاخیر کا سبب وہی مالی وسائل کی عدم فراہمی ہے جو بہت سے اہل قلم و صاحبان فکر کیلئے مسئلہ بنا ہوا ہے، اس کے برعکس وسائل و ذرائع کے اغوائیوں کی ایک بڑی تعداد دیدہ زیب مگر خالی از فکرو نظر کتابیں دھڑا دھڑ شائع کرنے پر مستعد ہے ۔فرحان غزل بھی کہتے ہیں اور نظم بھی لیکن نظموں سے ان کی انسیت زیادہ ہے۔ان کی نظمیں نہ صرف معنویت سے بھرپور ہوتی ہیں بلکہ ان کا فکری عمق اس بات کو مبرہن کرتا ہے کہ وہ سوچتے زیادہ ہیں اور اس سے بھی زیادہ تیز ان کی قوت مشاہدہ ہے اور ان دونوں کی آمیزش سے جو نظم وجود میں آتی ہے وہ قاری کے اندرون فکری تموج اور انقلابی کیفیت کا سبب بنتی ہے۔ان کی نظموں کا مطالعہ اکثر غالب کے اس مصرعے ’ میں نے یہ جانا کہ شاید یہ بھی میرے دل میں ہے‘ کا آموختہ کرادیتا ہےاور میری دانست میں یہ صفت شاعری کیلئے ہی نہیں کسی بھی فن کی مقبولیت کی بڑی روشن دلیل ہے ۔وہ سماج میں رونما ہونے والے انتہائی چھوٹے چھوٹے واقعات جسے عام طور پر لوگ نظر انداز کردیتے ہیں وہیں سے کام کی باتیں اٹھالیتے ہیں اور پھر بڑی فنکاری سے نظموں کا موضوع بنالیتے ہیں۔

ان کی نظموں سے متاثر ہوکر عذرا عباس لکھتی ہیں ’’ان کی نظموں کا اتارچڑھاؤاور ان میں جو کیفیت ملتی ہے و ہ اس آدمی کی نہیں جس کے بارے میں میر نے کہا ہے، سرسری تم جہان سے گزرے ۔یہ میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں۔فرحان اپنے بچپن سے زندگی کو جس طرح دیکھ رہے ہوں گے ان کے لئے ہر جا جہان دیگر ہوگا ، ورنہ یہ نظمیں ان کو چھوکر گزرتی بھی نہیں، بہت ملائم لہجے میں زندگی کے ناگوار نکتے کو بیان کرنا اور ہرہر جگہ وہ اس پڑھنے والے سے قریب ہوجاتے ہیں جو کم و بیش ان کی طرح زندگی کو شاید جھیلتا اور اگر جھیلتا نہیں تو دیکھتا ضرور ہوگا ۔‘‘

زخموں سے رسنے والی رطوبت اور زخموں کے مہکتے پھول تو سبھی دیکھ لیتے ہیں لیکن اس سے اٹھنے والی ٹیس دکھائی نہیں دیتی، اس کا اندازہ اسی کو ہوسکتا ہے جو بذات خود اس دردمیں مبتلا ہویا پھر وہ صاحب  بصیرت انسان جو دیدہ بینا کے ساتھ دل بینا بھی رکھتا ہو۔ فرحان کی نظموں میں اس قسم کے ذاتی تجربات  کا عنصر شامل ہےجس کا مشاہدہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ وہ زخم و کرب بھی جھیلے ہوئے ہیں اور بصیرت مندی کے بھی قریب ہیں۔’ہینگر میں ٹنگی ان کی ایک ایک نظم یہی ثبوت فراہم کررہی ہے ۔انہوں نے کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ’’قارئین میری نظمیں شوق و ذوق سے پڑھیں اور احتیاط کے ساتھ اسی ہینگرمیں آویزاں کردیں‘‘  بشرط مطالعہ،  آپ اسے ہینگر سے اتاریں تو سہی ۔

نام کتاب:ہینگر میں ٹنگی نظمیں، شاعر:فرحان حنیف وارثی ( موبائل: 9320169397)، زیر اہتمام:عرشیہ پبلی کیشنز ، قیمت :200/-روپئے، صفحات:160، ملنے کے پتے: کتاب دار ممبئی ( موبائل : 022-23411854)مکتبہ جامعہ لمٹیڈ

تبصرے بند ہیں۔