نمرہ اور نمل!(دوسری قسط)

عالم نقوی

’’کیا ہم نے آپ کے سینے کو کشادہ نہیں کیا ؟اور اس بھاری بوجھ کو آپ کے اوپر سے نہیں اٹھا یا جو آپ کی کمر کو جھکائے دے رہا تھا اور ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا ۔پس بے شک سختی ( تنگی ) کے ساتھ آسانی ہے اور بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے (الم نشرح آیات ایک تا ۶)سینہ کشادہ کرنے (کھول دینے ) کا لفظ قرآن میں جن مواقع پر آیا ہے اُن پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس کے دو معنی ہیں ۔ایک تو یہ کہ ہر قسم کے ذہنی خلجان اور تردُّد سے پاک ہوکر انسان  اس بات پر مطمئن ہو جائے کہ اسلام کا راستہ ہی بر حق ہے ۔اِنَّ ا لدِّینَ عندَ ا للہِ ا لاِسلام ۔اللہ کے نزدیک دین تو بس اسلام ہے (آل عمران ۔19) اور جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے ۔۔اور یہ آپ کے رب کا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے (الا نعام آیات 125۔126)کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہو اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی میں چل رہا ہو ،اُس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے اِن باتوں سے کوئی سبق ہی نہ لیا ہو ؟تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے، جن کے دل سخت ہو گئے ہیں وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں ( الزمر ۔22) اور دوسرے  یہ کہ آدمی کا حوصلہ بلند ہو جائے کسی بڑی سے بڑی مہم پر جانے اور کسی سخت سے سخت کام کو انجام دینے میں بھی اسے ذرا تامُّل نہ ہو ۔ اور جو یہ دعا کرتا ہو کہ ’’پروردگارمیرا سینہ کھول دے ۔اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ سلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں (طہٰ آیات 25 تا 28)

نمرہ احمد نے نمل میں لکھا ہے کہ بعض لوگ۔ ان مع ا لعسر یسرا ۔کا ترجمہ’تنگی کے ساتھ فراخی‘ (یا آسانی ) کے بجائے  ’تنگی کے بعد آسانی‘ کرتے ہیں جو درست نہیں ۔دوسرے یہ کہ یہاں یہ آیت بلا فصل دہرائی گئی ہے ’’بے شک ہرتنگی کے ساتھ آسانی ہے بے شک ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے‘‘یہ تو  کم و بیش سب جانتے ہیں کہ عربی زبان میں  ’اَل ‘ وہی کام کرتا ہے جو انگریزی لفظ ’دی‘یعنی ٹی ایچ ای ’دی یا دا ‘ (دونوں تلفظ صحیح ہیں ) سے لیا جاتا ہے  ۔جب ہم کسی  اِسمِ عام کو  اِسمِ خاص بنا نا چاہتے ہیں تو انگریزی میں اُس کے پہلے ’دِی ‘لگا دیتے ہیں جیسے’’دی مَین‘‘ ! عربی یہی کام’ اَل‘ سے لیا جاتا ہے جیسے ’اَلاِنسان ‘ یا ’ اَلکِتاب ‘ ۔ لیکن عربی زبان کا ایک اور اُصول  بھی ہے کہ جب ایک فقرے میں ایک لفظ خاص ہو اور ایک لفظ عام اور وہی بات اگلے فقرے میں مِن وَ عَن دہرا دی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دوسرے فقرے میں جس خاص چیز کی بات ہورہی ہے وہ تو وہی پہلے فقرے والی خاص چیز ہے مگر عام چیز پہلے فقرے والی نہیں ہے ۔یہ عام چیز نئی ہے ،مختلف ہے ۔ اگر یہ آیت صرف ایک ہی بار ہوتی تو اس کا مطلب ہوتا کہ ’’ہر تنگی کے ساتھ آسانی ( بھی) ہے ۔‘‘

لیکن دہرائے جانے سے اس کا مفہوم یہ ہو گیا ہے کہ’ جس تنگی کی بات دونوں آیتوں میں ہوئی ہےوہ تو ’’ایک ‘‘ ہی ہے مگر اُس کے ساتھ  دو دفعہ جس آسانی کی بات ہوئی ہے وہ ،دو مختلف آسانیاں ہیں ! مطلب یہ کہ ’’ بے شک ایک تنگی کے ساتھ ایک آسانی ہے ،پھر اسی تنگی کے ساتھ ’’ایک اورآسانی ‘‘ ہے  ۔دونوں آیتوں میں ایک ہی تنگی کی بات ہورہی ہے مگر ان کے ساتھ جُڑی آسانیاں  الگ الگ ہیں۔ بات یہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ ’لوگو !جب تم پر کوئی ایک مشکل آئی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہم تمہیں ایک آسانی بھی دیتے ہیں اور پھر ’’اُسی ‘‘ مشکل کے ساتھ ایک دوسری آسانی بھی  ہم تمہیں عطا کر دیتے ہیں ۔ مطلب یہ کہ اس آیت کے صرف یہ معنی نہیں ہیں کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے بلکہ آیت کی تکرار سے یہ معنی پیدا ہوتے ہیں کہ مشکل بھلے ہی ایک ہو مگر انسان کو اس کے ساتھ بار بار ،مختلف آسانیاں بھی ملیں گی ۔یعنی’ مشکل ایک مگر آسانیاں کئی ! ‘ ایک ’عُسر ‘ مگر ایک سے زیادہ ’یُسر ‘‘ !

مگر ہوتا یہ ہے کہ ہم مشکل حالات میں انتظار کرتے ہیں کہ بھئی تنگی کے بعد آسانی آئے گی جبکہ ’آسانیاں ‘ تو اللہ نے تنگی کے ساتھ ہی فراہم کی ہوئی ہوتی ہیں مگر ہم ان کی طرف  متوجہ ہی نہیں ہوتے ۔ہم مشکل کو دیکھتے اور بس اُسی کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں نتیجے میں اُُن ڈھیر ساری آسانیوں سے کوئی فائدہ  نہیں اُٹھاتے جو  رحمن و رحیم اللہ نے اُسی مشکل کے ساتھ ہمیں دی ہوئی ہوتی ہیں !(نمل ج 3 ص 1220 تا 1223)

مثال کے طور پر  گزرے ہوئے تین برسوں ہی کو دیکھ لیں !  اس دوران صرف مشکلوں ہی میں اضافہ نہیں ہوتا رہا  ،غفلت کے ماروں کو ہوشیار کرنے ،سوئے ہوؤں کو جگانے اور مستقبل کے لیے صحیح راستے کا انتخاب کرنے کےلیے مواقع بھی فراہم ہوتے رہے لیکن ہم خود کشی  ہی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے سے کون روک سکتا ہے ؟ پہلی بات یہ کہ ہم ویسے مسلمان نہیں ہیں جیسا ہمیں ہونا چاہیے ۔صرف اپنے ہی لیے نہیں پوری انسانیت کے لیے مفید ۔ اس دنیا میں دَوام اُسی کو ہے جو سب کے لیے مفید ہے اور ہم ؟ ہم تو خود اپنے لیے مفید نہ رہے ! تو دوسرے مصیبت زدوں ،آفت کے ماروں ،نسل پرستی کے شکار لوگوں  غریبوں اور مظلوموں کی کیا مدد کرتے ! نتیجے آج ہم پوری دنیا میں مُستضعِف بنا کر رکھ دیے گئے ہیں !

 سب سے بڑھ کے یہ کہ ہم نے قرآن کو مہجور بنا رکھا ہے جس میں ہمارے ہر مسئلے کا حل موجود ہے ۔جو ہدایت تو ہے ہی ،شفا بھی ہے اور رحمت بھی (سورہ یوسف 111)۔ ’’کون ہے وہ جو لاچار اور مضطر کی فریاد سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے ؟ اور اس کی مصیبت کو دور کردیتا ہے اور وہ بناتا ہے تمہیں اس زمین کا وارث ! بھلا وہ کون ہے جو خشکی اور تری کی تاریکیوں میں تمہاری رہنمائی کرتا ہے اور بارش سے پہلے بشارت کے طور پر ہوائیں چلاتا ہے کیا اللہ کے سوا کوئی اور بھی معبود ہے ؟ یقینا ً وہ اللہ ان تمام مخلوقات سے کہیں زیادہ بلندچ و بالا ہے جنہیں یہ لوگ اس کا شریک بنا رہے ہیں (النمل آیات 62۔63)

دعا کرنے والا مضطر اور لاچار جب رو رو کر ،گڑ گڑا کر اپنے اللہ سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ ’اے اللہ! اے گمراہوں کو راستہ دکھانے والے !ہماری ہدایت کر ،ہمیں اس مصیبت سے نکلنے کا راستہ دکھا اور ظالموں سے ہمیں نجات دے ۔اور یہ کہ ۔۔’’اللہ تو کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ہر نفس کے لیے اُس کی حاصل کی ہوئی نیکیوں کا فائدہ بھی ہے اور اُس کی کمائی ہوئی برائیوں کا بدلہ بھی ۔پروردگار ! ہماری بھول ،چوک اور ہماری خطاؤں کا ہم سے مواخذہ نہ کرنا ! بار الٰہا ہم پر ویسا بوجھ نہ ڈال جیسا پچھلی اُمتوں پر ڈالا گیا  ۔اور پالنے والے !ہم پر وہ بوجھ بھی نہ ڈال جس کو اُٹھانے کی ہم میں طاقت ہی نہ ہو ۔ پالنے والے ہمیں معاف کردے ! ہمیں بخش دے ! اور ہم پر رحم کر تو ہی ہمارا مالک اور مولیٰ ہے ان کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر (بقرہ ۔286)تو اس کا ایمان یہی ہوتا ہے کہ وہ جس سے مانگ رہا ہے وہی یہ سب دے سکتا ہے اُس کے سِوَا اور کسی کے بس میں نہیں کہ وہ ظالموں کے مقابلے مظلوموں کی اِس طرح مدد کرے جو مدد کرنے کا حق ہے ۔

’’چاہے لوگ کچھ بھی کہیں ۔سائنس کچھ بھی کہے ۔اس  کے دل کو یقین رہتا ہے کہ بس اسی سے مانگنا ہے جس کے اختیار میں سب کچھ ہے چاہے دنیا کچھ بھی کہے ۔ وہی اسے سخت آزمائشوں اور نت نئے فتنوں سے بھی بچائے گا اور وہی اس کو دل کو سکون بھی عطا کرے گا ۔ دعا  اللہ سے بات کرنا ہے ۔۔کچھ تو کاش اللہ سے بھی سیکھا ہوتا ہم نے ۔جانے والوں کو وہ روکتا نہیں ۔لیکن جو واپس آجائے اس کے لیے سارے دروازے کھول دیتا ہے ۔اور ہم جب واپس آتے ہیں تو بس  ایک ہی کام کرتے ہیں کہ اس کے سامنے سر نگوں ہو جاتے ہیں اور اس سے دعا کرتے ہیں  لیکن وہ رحیم و کریم اور ستر ماؤوں سے زیادہ مہربان اور شفیق آقا  اس  دعا کے جواب میں تین کام کرتا ہے ایک : اُس کی دعا کا جواب دیتا ہے ۔ پھر اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے ۔ اور پھر اگر ہم ثابت قدم رہیں تو ہمیں اس زمین کا وارث بھی بنا دیتا ہے ۔ (نمرہ احمد ،نمل ج 3 ص 1534۔1536)

ہم کمزوروں ،دبے کچلے ہوئے ظلم کے شکار لوگوں کو  جو اہل ایمان کے دائمی دشمنوں کے علاوہ یوسف ؑ کے بھائیوں اور منافقوں کے دائرہ شر میں پھنسے ہوئے ہیں اگر کوئی چیز اتھارٹی ،طاقت اور انصاف دلا سکتی ہے تو وہ دعا ہے ،صرف دعا ۔جب کمزوروں کی کمزوری ،لاچاروں کی لاچاری اور مصیبت کے ماروں کی مصیبت دور ہوگی تبھی اُنہیں زمین کی وراثت اور خلافت بھی ملے گی جو قرآن کو مہجور بنا دینے اور اوراسلام میں پورے کے پورے داخل نہ ہونے  اور قرآنی معیار کے مؤمن نہ ہونے کی وجہ سے ہماری  دسترس سے باہر ہے ۔ جبھی ہم زمین کے تمام ظالموں  فسادیوں اور اپنے درمیان ذوا لقرنین کی دیوار کھڑی کر پائیں گے ۔ وہ اختیار پانے کے لیے ہمیں اپنی استطاعت بھر قوت حاصل کرنا ہوگی(الانفال 60) ہر طرح کی قوت جسمانی اور روحانی ،دینی اور دُنیَوی ظاہری اور باطنی،علمی اور ذہنی جبھی ہم اپنے  سبھی کھلے اور چھپے دشمنوں کے ساتھ اللہ کے دشمنوں  کو بھی خوفزدہ رکھ سکنے میں کامیاب ہو سکیں گے !

فھل من مدکر ؟

تبصرے بند ہیں۔