مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی

عزیر احمد

یہ نہایت ہی افسوسناک بات ہے کہ جس قوم کی ابتداء ہی "اقرأ” سے ہوتی ہے، وہی قوم تعلیمی میدان میں سب سے زیادہ پسماندہ دکھائی دیتی ہے، گریجویٹ لیول تک پہونچنے والوں کی تعداد تو افسوسناک حد تک کم ہے، اور اس کے ذمہ دار زعماء قوم، اور عمائدین ملت ہیں۔

آزادی کے بعد سے لے کر آج تک 70 سال ہوگئے ہیں، ہم لوگ اپنی کوئی اسٹریٹجی ہی نہ بنا سکے، ہمارا تعلیمی معیار کیا ہو، قوم کے نونہالوں کی صحیح رہنمائی کیسے ہو، انہیں تعلیمی میدان کا ہیرو کیسے بنایا جائے، انہیں حکومتی ایوانوں تک کیسے پہونچایا جائے، ان کی ترقی کے لئے کون سے راستے اختیار کئے جائیں، کون سے اسباب و وجوہات کی تلاش کی جائے جس کو اختیار کرکے ہمارے نوجوان دین پہ بھی رہیں، اور دنیا میں فوز و فلاح کے مالک بنیں، ان ساری چیزوں پہ تو کبھی ہم نے غور ہی نہیں کیا، کبھی ہم نے خیالوں میں بھی نہیں سوچا کہ ہمیں کچھ کرنا چاہیئے، ملک کے لئے، قوم و ملت کے لئے، انہیں ایک نئی سوچ اور نیا احساس دینے کے لئے۔

میں نے غور کیا ہے ہمارے مسلم بچے جو پڑھتے بھی ہیں، وہ یا تو مدرسوں میں پڑھتے ہیں، یا عصری علوم حاصل کرتے ہیں، مدرسوں سے علم حاصل کرنے کے بعد ان کی کوئی صحیح رہنمائی کرنے والا نہیں ہوتا ہے، اور نہ ہی انہیں کوئی بتانے والا ہوتا ہے کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں، ابھی تعلیم کے مراحل اور بھی بہت کچھ ہیں، جیسے تیسے عالمیت مکمل کرتے ہیں، گھر کی حالت بھی نازک ہوتی ہے، کسی طرف سے آمدنی کی امید نہیں ہوتی ہے، اس لئے وہ بھی اس دنیا کی بھیڑ میں گم ہوجاتے ہیں، اسی طرح ایک بہت اچھا اور اعلی دماغ جو قوم کا سربراہ بن سکتا تھا، ضائع ہوجاتا ہے۔

دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو عصری تعلیم حاصل کرتے ہیں، تو وہ لوگ بھی تقریبا ضائع ہی ہوجاتے ہیں، الا ما شاء اللہ، کیونکہ ان کو بچپن سے اسلامی ماحول اور اسلامی کتابوں سے دور کردیا جاتا ہے، مغربی ماحول میں پرورش پاتے ہیں، اور ہمارے علماء کرام بھی ان لوگوں کی اصلاح پہ خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے، نتیجۃ وہ اے۔ پی جے عبد الکلام تو بن جاتے ہیں، مگر ایک مسلمان نہیں بن پاتے، الحادیت اور لادینیت کی راہ پہ اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ پھر ان کی واپسی مشکل ہوتی ہے، الا ماشاء اللہ۔

اس لئے ضرورت اس بات کی ہے دونوں پر توجہ کیا جائے، مدرسوں سے پڑھنے والوں مزید پڑھائی کے حصول پہ ابھارا جائے، ان کی صحیح رہنمائی کی جائے، اچھے کورسوں کے بارے میں بتایا جائے، ان کو عربی، اردو، فارسی اور اسلامیات کے علاوہ دوسرے کورسوں کے بارے میں بھی بریف کیا جائے، ان کو پالٹیکل سائینس کے بارے میں بتایا جائے، ان جو سوشل سائنس پڑھنے پر ابھارا جائے، انہیں معاشیات، تاریخ و دیگر کورسوں کے بارے میں بتایا جائے، انہیں الحادیت کے دور میں روشنی کا چراغ بننے پر ابھارا جائے، ان کی علمی اور عملی صلاحیتوں کو پروان چڑھنے کا موقع دیا جائے، ان کی معاشی مدد کی جائے، مدراس کے بچے بہت کچھ کرسکتے ہیں، بس انہیں رہنمائی کی ضرورت ہے، وہ IAS، IPS بھی بن سکتے ہیں، وہ ڈاکٹر بھی بن سکتے ہیں، وہ اسلامی اسکالر بھی بن سکتے ہیں، وہ عالمی سیاست کے ماہر بھی بن سکتے ہیں، سوشلسٹ اور پالیٹیشین بھی بن سکتے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک بہتر عالم دین اور داعی بن سکتے ہیں، ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔

اسی طرح وہ بچے جو عصری تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان کا دیکھ بھال کرنا، انہیں اسلامی ماحول مہیا کرانا، ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کرنا، ان کے لئے مختلف اسلامی پروگرام کروانا، ان کے لئے ایسے اسکولوں اور کالجوں کو بنوانا جہاں وہ دنیا کے ساتھ دین کا بھی علم حاصل کریں، جہاں ان کا دین بھی نہ چھوٹے اور دنیا بھی نا۔

مجھے بہت افسوس ہوتا ہے جب میں ہندوستان پہ نظر ڈالتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ ہم نے تو جگہ جگہ مدارس کا جال بچھادیا ہے، ندوہ، دیوبند، سلفیہ، جامعۃ الفلاح، مدرسۃ الاصلاح، سنابل اور جامعہ ابن تیمیہ جیسی عظیم الشان عمارتیں تعمیر کردیں، لیکن آج تک ہم ملک کے نونہالوں کے لئے اس قسم کا کوئی بھی کالج، کوئی اسکول نہیں کھول پائے، جہاں بچے سائنس بھی پڑھیں، اور اسلامی نظریہ بھی جانیں، معاشیات اور اقتصادیات بھی پڑھیں، اور اسلام کے اصولوں کو بھی ذہن میں رکھیں، کلاس بھی کریں اور مسجدوں بھی جائیں، ٹیچر کے لکچرز بھی سنیں، اور امام کے وعظ و نصائح اور خطبوں سے بھی فائدہ اٹھائیں، عصری تعلیم ہو، مگر اسلامی ماحول ہو، اور بالکل ہوسکتا ہے، ہمارے علماء اور قائدین بالکل کرسکتے ہیں، یہ کوئی خیالی پلاؤ نہیں ہے، اس کی سب سے بڑی مثال مولانا ولی رحمانی ہیں جنہوں نے رحمانی-30 کے نام سے غریب اور نادار مسلمانوں کے لئے فری IIT کوچنگ کورس کی 2010 میں شروعات کی، اور اب تک 182 سے زیادہ اسٹوڈنٹ کو IIT، اور NIT میں بھیج چکی ہے، 2016 میں ان کے کوچنگ کے 80 میں سے 46 اسٹوڈنٹ نے کامیابی حاصل کی۔

اس کے علاوہ دوسری بڑی مثال زکوۃ فاؤنڈیشن کی ہے، جس نے مسلم IAS، اور IPS دینے میں نیا ریکارڈ قائم کیا، 2016 میں 35 کامیاب مسلم امیدواروں میں سے 17 مسلم امیدوار اسی کے تھے۔

جب کچھ لوگ تن تنہا اس طرح کے کام انجام دے سکتے ہیں، تو پھر جتنی مسلم تنظیمیں ہیں، چاہے وہ جماعت اسلامی ہو، یا جماعت اہل حدیث، یا جمیعت علماء، کیوں نہیں انجام دے سکتی ہیں۔

کوئی بھی کام مشکل نہیں ہوتا ہے، یہ ہم لوگ کی سوچ ہوتی ہے جو اسے مشکل اور ناکامیاب بناتی ہے، اگر ہندوستان میں تعلیمی ترقی چاہئیے، تو اس طرح کے کاموں کو جلد شروع کرنا پڑے گا، نہیں تو اس طرح کی رپورٹیں سامنے آتی رہیں گی، اور پڑھ کے ہم الٹا حکومت پہ الزام لگاتے رہیں گے، کہ رپورٹ تیار کرنے میں انہوں نے صاف نیتی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے متعلق جو رپورٹ پیش کی گئی ہے، وہ بالکل صحیح ہے، بس ہمیں صاف دلی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، اور دل پہ ہاتھ رکھ کر سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم تعلیمی میدان میں کتنے آگے ہیں۔

ہم یونیورسٹیوں کا جائزہ لے لیں، عربی، فارسی، اردو کے علاوہ ڈپارٹمنٹ میں جامعہ اور علیگڑھ کے سوا دیگر یونیورسٹیوں میں ہمیں اکا دکا مسلم پروفیسر نظر آئیں گے، مسلم IFS، IPS، IAS، آٹے میں نمک کے برابر، حکومتی اداروں میں ہماری شمولیت ایک پرسنٹ دو پرسنٹ، پولیس کے اعلی عہدوں پہ پورے ہندوستان میں ایک دو مسلمان، سیکریٹری لیول پہ ہماری شراکت کچھ بھی نہیں، میڈیا میں ہمارا نام و نشان نہیں، آخر ہم کہاں اور کس میدان میں آگے ہیں، اس پہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔