حج اور تزکیہ نفس

ذوالفقار علی  

            حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے، یہ بندہ مومن کے نفس کے تزکیہ کا جامع ترین ذریعہ ہے۔ اس لئے کہ اس میں نماز بھی ہے، انفاق یعنی صدقہ وخیرات بھی ہے، اس کے اندر روزہ بھی ہے اور اس کے اندر جد وجہد اور ترک دنیا کی تعلیم بھی ہے، اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس میں توحید کا سب سے بڑا درس بھی ہے۔    فریضہ حج کی ادائے گی کے لئے جب ایک مومن احرام میں داخل ہوجاتا ہے تو اس کی زبان پر بس لبیک اللھم لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد و النعمۃ لک  و الملککی صدا جاری رہتی ہے یہاں تک کہ وہ بیت اللہ شریف کی زیارت سے مشرف ہوجاتا ہے۔ اور یہ توحید کی سب سے بڑی تعلیم ہے۔

             حج کے اندر نماز بھی ہے مراسم حج بالخصوص طوا ف بیت اللہ کے بعد مقام ابراہیم کے پاس پڑھی جاتی ہے۔ یہ فریضہ جسمانی مشقتوں سے بھی پر عبادت ہے، جس میں سفر کی طویل مسافت کے علاوہ تمام مراسم حج کی ادائے گی بھی مشقتوں سے پر ہے، اس لئے حج کے تمام مراسم کو ایک صحت مند انسان ہی صحیح طریقہ سے اور کما حقہ ادا کرسکتا ہے، اس طرح یہ حج جسمانی مشقت اور جہد و جہاد بھی ہے۔ نیز یہ حج یہ بھی درس دیتا ہے کہ اگر مراسم ادا کرتے ہوئے کسی سے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو اس پر صبر کرو اور اپنے بھائی سے عفو ور گزر کا معاملہ کرو، اس طرح یہ حج بندہ مومن کو صبر کی بھی تعلیم دیتا ہے۔

             فریضہ حج کی ادائے گی میں بندہ مومن ایک خطیر رقم خرچ کرتا ہے، یہ صرفہ بھی بندہ کے اندر مال کے بجائے رب کی محبت پیدا کرتا ہے، اسی طرح حج کا لباس بھی بندہ کے اندر دنیا سے بے رغبتی اورآخرت کی یاد پیدا کرتی ہے، اسے موت کی یاددلاتی ہے کہ کفن کی مانند دو بغیر سلے کپڑے زیب تن کرکے اپنے رب کے دربار میں حاضر ہوتا ہے اور اپنی مکمل سپردگی کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ حج کا لباس بندے کو دنیا کی چمک دمک سے بھی مرعوب نہ ہونے تعلیم دیتا ہے۔

            سفر حج کے دوران بندوں کی زبان پر جاری رہنے والئے کلمات سارے ہی مومنین کو یہ سبق یاد دلاتے رہتے ہیں کہ تم سب کا رب ایک ہے، تم سب اسی کی مخلوق اور اس کے بندے ہو  اور تم سب کا دین بھی ایک ہی ہے کہ دیگر ارکان اسلام کی طرح اس حج کو بھی ایک ہی طریقہ سے ایک ہی تاریخ میں ایک ساتھ بجالاتے ہو۔ نیز یہ بھی کہ تم سب برابر ہو اور کی کو کسی پر کوئی فضیلت یا برتری نہیں ہے۔

            حج کے کچھ مخصوص تقاضے بھی ہیں قبل از سفر، دوران سفر اور بعد از سفر کے ہیں اختصار کے ساتھ ان کی وضاحت کی جارہی ہے، امید ہے کہ اگر ان کا لحاظ کیا جائے تو وہ مراد بر آئے گی جس کی تمنا ایک بندہ مومن کے اندر ہوتی ہے۔ جو شخص ان جذبات واحساسات کے ساتھ حج کا سفر کرے وہ گویا اپنی اس جد وجہد میں کامیاب ہوا اور اس نے اپنے اس سفر کی مراد پائی یعنی وہ اپنے نفس کا تزکیہ کرنے میں کامیاب ہوا۔

1۔ دنیاوی معاملات کا تصفیہ:            ایک عازم حج کے لئے ضروری ہے کہ جو حقوق العباد اس کے اوپر عائد ہوتے ہیں سفر حج سے پہلے ہی ان کا تصفیہ کرلے، اور اپنے گناہوں سے بھی سچی توبہ کرلے اور پھر احرام لگا لے تاکہ پورے طور پر اس فریضہ کی ادائے گی کے ماحول میں داخل ہوجائے۔

2۔ شرک کے ہر شائبہ سے اپنے دل اور عمل کو پاک کرنا :           عازم حج کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے دل کو شرک کے ہر شائبہ سے پاک کرلے، اسی طرح اس کا عمل بھی شرک کے ہر شائبہ سے پاک ہوجائے، تلبیہ کے کلمات ہمیں اسی کی تعلیم دیتے ہیں جس میں ہم بار بار اقرار کرتے ہیں کہ  اے میرے مولا میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں، تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں اور تمام نعمتیں بھی تیری ہیں اور بادشاہی بھی مکمل تیری ہی ہے۔ اسی طرح حج کے جو اذکار اور دعائیں ہیں وہ ساری ہمیں اسی کی یاد دلاتی ہیں، مگر افسوس کہ اکثر حجاج ان اذکار کے معانی ق مفہوم کے سمجھنے سے عاری ہوتے ہیں جس کے نتیجے حج کا مقصود حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

            کیا ہی بہتر ہوتا کہ مروجہ زبانوں میں رہنمائے حج کی کتاب تیار ہوجاتی اور تمام علاقے کے عازمین حج کو اس کی تربیت دی جاتی، اس طرح مقاصد حج برآتے اور امت کے اندر ایک بہت بڑی مثبت تبدیلی آجاتی۔

3۔ اللہ کی خشیت، اس سے اظہار محبت اور اسی کی طرف انابت:    ایک زائر بیت اللہ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جب وہ سفر پر روانہ ہو تو اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی بے پناہ خشیت ہو، اور ہر ہر قدم پر وہ یہ دیکھتا چلے کہ کہیں انجانے میں بھی کسی حکم الہی کی خلاف ورزی تو نہیں ہورہی ہے، ہر ھال میں حدود اللہ کا پاس و لحاظ رکھے۔ اللہ کی محبت  اوربیت اللہ کی زیارت کا شوق اس کے دل کی گہرائی میں اترا ہوا ہو، ایک انتہائی محبوب کے گھر کی زیارت کے شوق میں اسے اس کا سفر لمبا محسوس ہو اور منزل تک پہنچنے کا شوق اسے بے چین کئے ہوئے ہو، اس کے دل میں ہر لمحہ اللہ کی یاد بسی ہوئی ہو اور اس کی طرف انابت اس کو ہر چیز سے بے نیاز کئے ہوئے ہو، راستہ کی دشواری اس کے شوق کو اور بھی دوبالاکئے دیتی ہو، ان کیفیات کے ساتھ حج کو جو سفر ہوگا وہ بندہ کے اندر حقیقی تزکیہ کا سامان پیدا کرسکتا ہے۔

4۔ کبر وغرور سے اجتناب، عاجزی اور فروتنی کا اظہار اور کسی بھی طرح کے امتیاز کے خود کو بچاکر رکھنا:    ایک عازم حج کے لئے ضروری ہے کہ اپنے نفس کو ہر طرح کے کبر و فخر سے پاک رکھے بلکہ اس کا شائبہ تک اپنے دل میں نہ آنے دے، اپنے رب کے سامنے عاجزی اور فروتنی کی مکمل تصویر بنا ہوا ہو، اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور اپنی بے بسی کا دل کی گہرائی سے اسے احساس ہو، اور خود کو دیگر زائرین کے مقابلے میں کسی بھی طرح کے امتیاز سے دور رکھے، اس کا حرام اسے ہر لمحہ خود کو دیگر زائرین کے برابر ہونے کا احساس دلاتا رہے، مناسک حج کی ادائے گی کے دوران خود کے لئے دیگر زائرین سے ذرا بھی مراعات خیال اس کے دل میں نہ آئے، بلکہ حج کی ادائے گی کے ساتھ ہی یہ احساس اس کے دل میں مکمل ہو جائے کہ ہم سب کلمہ گو ایک ہیں، یہ وہ کیفیات ہیں جو تزکیہ نفس کے اسباب میں سے ہیں۔

5۔ صبرو شکیبائی کی جیتی جاگتی تصویر:       سفر حج اور مناسک کی ادائے گی کوئی پھولوں کی سیج اورعیش و آرام کا مرقع نہیں بلکہ یہ قدم قدم پر مشکلات سے پر سفر ہے اور عیش و راحت سے دور کا مدت قیام ہے، اسی طرح مناسک کی ادائے گی مشقت سے پر مراحل ہیں، جہاں اسے کسی طرح کے آرام کا تصور نہیں کرنا چاہئے، منی کا قیام عرفات جانا اور وہاں کا قیام اور واپسی، رمی جمرات اور طواف و سعی یہ تمام امور ایک حاجی سے ہر طرح کی مشقت کا مطالبہ کرتے ہیں، بلکہ ان مراحل کو مشقتوں کے ساتھ انجام دینے ہی میں حج کا اصل سبق ہے، ان تمام مراحل میں اسے اپنے بھائیوں سے کسی نہ کسی طرح کی تکلیف پہنچ جاتی ہی ہے، ان تکالیف پر صبر کرلینا، عفو درگزر کرنا اور مسکراتے چہرے کے ساتھ اپنے بھائی کو نظر انداز کردینا حج میں ایک بندے سے عین مطلوب ہے۔

6۔ شعائراللہ کا احترام:          حج کے تمام ہی مقامات اللہ کی نشانیاں ہیں، انہیں دیکھ کر اور ان کی زیارت کرکے ایک زائر کے دل میں ان کے تئیں احترام کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے، جو کوئی بھی اللہ کے ان شعائر کا احترام کرے تو اس کا تعلق دل کے تقویٰ سے ہے، لہذا جب ایک زائر ان مقامات کی زیارت کرے تو اس کے دل اللہ کی یاد سے آباد ہوجائیں اور اللہ کی حمد وثنا میں وہ رطب اللسان ہوجائے، خواہ منیٰ ہو یا مزدلفہ، عرفات ہویا جمرات، بیت اللہ، حجر اسود ہو یا مقام ابراہیم اور صفا و مروہ، ان سب کی زیارت سے ایک بندے کے دل کی دنیا بدل جائے اور چشم تصور سے کبھی بھی اوجھل نہ ہو سکے تو سمجھ لیجئے کہ اس نے مراد پالی، ورنہ جو ان کو محض ایک تاریخی مقامات کے طور پر دیکھے تو اس کا مطلب ہوا کہ وہ مراد سے کوسوں دور رہ گیا۔

7۔ خواہشات نفس پر قابو:     سفر حج سے وہی لوگ اپنا تزکیہ کر سکیں گے جنہوں نے اپنے نفس پر مکمل قابو پالیا ہو، اپنے آپ کو تمام طرح کے دجل و فریب اور جدال و شقاق سے پاک کر لیا ہو، جن کے نفس پر خوف الٰہی کا پہرہ دار ہر وقت پہرہ دے رہا ہو، جیساکہ ارشاد باری کا مفہوم ہے کہ حج کے چند متعین مہینے ہیں تو جو کوئی بھی ان میں اپنے اوپر حج فرض کر لے تو اس میں بیہودگی، حدود الٰہی سے تجاوز اور لڑائی جھگڑا سے احتراز کرے، اور تم جو بھی نیکی کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے اورزاد راہ  لے لو، سب سے بہتر زاد راہ تقویٰ ہے، اور اے عقل والو مجھ سے ڈرتے رہو۔

8۔ حرص و طمع سے آزادی:            ایک عازم حج کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ہر طرح کی لالچ اور طمع سے آزاد کرلے، سفر شروع کرنے سے پہلے ہی اپنے اوپر عائد حقوق کو ادا کرکے اللہ کی طرف مکمل طور سے یکسو ہو جائے، یہاں تک کہ راستے میں اگر قیمتی سے قیمتی چیز بھی گری پڑی نظر آئے تو اس سے اپنی نگاہ پھیر لے اور آگے بڑھ جائے، اپنی ساری امیدیں بس اللہ سے وابستہ کرلے اور محض اسی کی عنایتوں پر نظر ہو۔

9۔ احکام الٰہی کے آگے مکمل سپردگی:            ایک حج کا مسافر اس وقت تک اپنے نفس کے تزکیہ میں کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک کہ خود کو مکمل طور سے اللہ کے احکام کے آگے نہ ڈال دے، اس سفر کا مقصود اس کے نزدیک اللہ کی رضا کے علاوہ کچھ اور نہ ہو، جیسا کہ حکم ہے کہ واتمو الحج العمرۃ للہ( اپنا حج و عمرہ اللہ کے لئے پورا کرو) اس سے واضح ہو گیا کہ مناسک حج کی ادائے گی کا مقصود صرف اور صرف اللہ کی رضا ہو،۔ حج کے ذریعہ بندے کو اپنی پوری زندگی اور اس کا ایک ایک لمحہ اللہ کے احکام کے مطابق گزارنے کا سبق ملتا ہے، اس سبق کو بندہ اپنے رب کے حضور اپنی قربانی پیش کرتے ہوئے یاد کرتا ہے کہ میں نے اپنا رخ اس زات کی طرف کرلیا جس نے مجھے پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں، بیشک میری نماز، میری قربانیاں، میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔

10۔ اللہ ہی سے طلب اور ما سوا اللہ سے مکمل بے نیازی:  سفر حج میں تلبیہ ایک طرح سے اللہ کی طلب و جستجو ہے اور جب تک اسے بیت اللہ کا دیدار نصیب نہیں ہوجاتا تب تک یہ صدا لگاتا رہتا ہے اور جیسے ہی بیت اللہ کا دیدار نصیب ہو جاتا ہے تو سمجھو کہ وہ اپنی طلب کو پاگیا اور اس کی جستجو رک گئی گویا اس نے اپنے رب کو پالیا، اس سے ایک بندہ مومن کو یہ سبق ملتا رہتا ہے کہ بندے کو ہر وقت اللہ ہی سے طلب کرنا ہے اور اس کے ما سوا سے مکمل طور سے بے نیاز ہوجانا ہے۔

11۔ سفر حج اور اس کی برکتوں اور فوائد کو یاد کرنا اور اپنے دل کو ہمیشہ اس کی یاد سے آباد رکھنا:     ایک حاجی کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ حج کا سفر کرلے اور اس کو بھول جائے، بلکہ یہ ضروری ہے کہ بیت اللہ کی زیارت سے واپسی کے بعد بھی شعائر اللہ کو یاد رکھے، اس زیارت سے حاصل ہوناے والے اسباق اور فیوض و برکات کو اپنے ذہن و دماغ میں تازہ کرتا رہے، وہ اپنے تصور کی دنیا میں یہ دیکھتا رہے کہ کس طرح اس نے سفر کی تیاری کی تھی، کیا جذبات و احسات سفر سے پہلے اس کے دل میں پیدا ہوئے تھے، وہاں جاکر کیا کیا دیکھا کس طرح مراسم حج ادا کئے، کن کن مقامات کی زیارت کی اور کون کون سے اعمال انجام دئے اور وہان سے کیا کیا سبق حاصل کئے، ان ساری باتوں کو یاد کرکے اپنے رب سے اپنے تعلق کو زندہ کرتا رہے۔

            اس کا فائدہ حاجی کو یہ ہوگا کہ حج سے حاصل ہونے والے اسباق اس کے لئے تربیتی اسباق بنے رہیں گے، جس کی روشنی میں ا س کی زندگی کی گاڑی اللہ سے محبت، اس کے خوف اور اسی سے امید کے سائے میں رواں دواں رہے گی، یہاں تک کہ اللہ کی طرف سے بلاوا آجائے اور وہ اپنے رب سے اس حال میں ملے کہ اللہ اس سے راضی اور وہ اپنے رب سے راضی۔

            مگر افسوس کہ اکثر حجاج کرام مجموعی طور پر یہ تو سمجھتے ہیں کہ وہ بیت اللہ کی زیارت کو جارہے ہیں، اس لئے کہ رب کی طرف سے حاضری کا بلاوا آگیا ہے، مگر حج کے ان تفصیلی اسباق سے وہ کوسوں دور ہوتے ہیں، نہ ہی انہیں شعائراللہ کی عظمت کا شعور ہوتا ہے، نہ ہی ان مقامات سے ملنے والے اسباق کا علم ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں نہ وہ مطلوبہ فوائد حاصل ہوتے ہیں اور نہ ان کی زندگی پر کوئی اثر ہوتا ہے،

            اس لئے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مکمل ارکان اسلام کا شعور اور فہم ہر مسلمان کے اندر پیدا کیا جائے تاکہ وہ باشعور مسلمان بن سکیں اور خاص طور پر جب اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو اپنے دربار کی زیارت کے لئے بلائے تو اس وقت حج کے بارے مکمل طور سے تعلیم اور تربیت دی جائے تاکہ حج کے مکمل فوائد اور فیوض وبرکات حاصل کرسکیں اور ان کی زندگی نور توحید کا پرتو بن سکے۔

تبصرے بند ہیں۔