مسلم امت کا ایک سنگین مسئلہ غیر مسلموں  سے شادی (آخری قسط)

محمد طارق اعظم 

پہلی کی دو قسطوں  میں  یہ بات آئی تھی کہ اس فتنے سے نبرد آزمائی کےلئے ضروری ہے کہ مسلمانوں  میں  اسلام اور اسلامی احکام کی اہمیت اور عظمت کو ان کے دلوں  میں  جاگزیں  کیا جائے اور بٹھایا جائے ۔ کہ ایک مسلمان کےلئے سب سے بڑی دولت اور اہمیت رکھنے والی چیز اسلام ہے ۔ عدل و احسان کے  اصول پر اسلامی احکام کی بنیاد ہے ۔ انسانی مصلحتوں  اور تقاضوں  کی مکمّل رعایت پر مبنی یہ قانون ہے ۔۔اس لیے اسلامی احکام کی بجا آوری ہر ایک مسلم کےلئے ضروری ہے ۔۔۔

غیر مسلموں  سے شادی کو اسلام نے منع کیوں  کیا ۔اس کی تفصیل پیش کرنے سے قبل ضروری سمجھتا ہوں  کہ اس سے متعلق اسلامی نظام نکاح کے پہلو کو پیش کروں ، تاکہ اس مسئلے کی بھی مکمل وضاحت ہوجائے اور احکام اسلام کی جامعیت کا ایک نمونہ بھی سامنے آ جائے ۔۔۔

اسلام نے جہاں  نکاح کو ایک نعمت قرار دیا ہے اور اس کے کرنے کی ترغیب دی ہے اور تاکید کی ہے وہیں  اس کےلئے کچھ حدود اور شرطیں  بھی مقرر کی ہیں  ۔ ان میں  سے ایک اہم شرط یہ ہےکہ نکاح ان عورتوں  سے نہ کیا جائے جن سے نکاح کرنے کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے ۔ اصولی طورپر حرمت کی دو شکلیں  ہیں  ۔ اول ابدی اور دائمی یعنی وہ عورتیں  جن سے نکاح کرنا ہمیشہ کےلئے حرام ہے۔ دوم عارضی اور وقتی یعنی وہ عورتیں  جن سے کسی وجہ اور علت کے سبب وقتی طورپر نکاح حرام ہے ۔ حرمت کے کل نو اسباب ہیں  ۔ ان میں  سے تین اسباب ایسے ہیں  جن سے حرمت ابدی ( ہمیشہ ) طورپر ثابت ہوتی ہے اور چھ اسباب ایسے ہیں  جن سے حرمت عارضی اور وقتی طورپر ثابت ہوتی ہے ۔

ابدی حرمت کے تین سبب یہ ہیں :

1۔نسب: اس سے مراد وہ نسبی رشتے ہیں  جن کو قرآن مجید نے نکاح میں  مانع ( رکاوٹ ) قرار دیا ہے، یہ رشتے اس میں  شامل ہیں : اصولی رشتہ دار ( ماں  اور باپ کا پورا سلسلۂ اجداد )، فروعی رشتہ دار ( بیٹے اور بیٹی کا پورا سلسلۂ اولاد )، ماں  باپ کے بھائی بہن، اور خود اپنے بھائی بہن۔ { نساء 23}

2۔ صہر: اس سے مراد سسرالی رشتہ داری ہے، سسرالی رشتہ داروں  میں  شوہر اور بیوی کے اصول ( آبائی سلسلہ) اور فروع ( اولادی سلسلہ ) حرام ہے ۔ { نساء 23 }

3۔ رضاعت: اس سے مراد وہ حرمت ہے جو دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے ۔اور اس میں  اصول یہ ہےکہ دودھ پلانے والی عورت کے تمام اصول ( آبائی سلسلہ)،  فروع ( اولادی سلسلہ) اور شوہر دودھ پینے والے پر حرام ہوں  گے لیکن دودھ پینے والے کے دوسرے بھائی بہن اور رشتہ دار سے کوئی حرمت قائم نہ ہوگی ۔{ نساء 23 }

ان قریبی رشتہ داروں  سے نکاح کو حرام کیوں  قرار دیا گیا؟  اس کی اصل وجہ اور حقیقی علت اور سبب کو تو اللّٰہ تعالی ہی بہتر جانتے ہیں  ۔مگر کچھ باتیں  ایسی ہیں  جن کو معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے ۔ ایک یہ کہ ان قریبی رشتہ داروں  سے ازدواجی اور جنسی تعلقات قائم کرنے کےلئے خود انسانی فطرت اور طبیعت آمادہ نہيں  ہوتی ہے۔ یہاں  تک کہ بےدینوں  اور لامذہبوں  کا گروہ بھی سوائے ان کے جن کی فطرت ہی مسخ ہوچکی ہے اسے ناپسند اور شرم و حیا کے خلاف سمجھتا ہے ۔ دوسرا یہ کہ ان قریبی رشتہ داروں  میں  تقدس اور پاکیزگی کا جو ہالہ قائم ہے، اور رحمت و شفقت اور محبت و الفت کے جن اعلیٰ جذبات پر اس کی بنیاد ہے، اس کی بقا کےلئے ضروری ہے کہ ان کے درمیان حرمت کی دیوار کھڑی کردی جائے،  تاکہ نفسانی خواہشات اور سفلی جذبات کا تصور تک ان رشتوں  سے ختم ہوجائے اور آپسی اعتبار و اعتماد اپنی مضبوط بنیادوں  پر باقی رہے ۔

نیز جدید ماہرین طب نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ انتہائی قریبی رشتہ داروں  کے درمیان ازدواجی تعلقات، پیدا ہونے والی اولاد کےلئے انتہائی مضر اور شدید قسم کے امراض بالخصوص جنون اور عقلی توازن سے محرومی کا باعث ہوسکتے ہیں  ۔( حلال و حرام 286 )

عارضی اور وقتی حرمت کے چھ سبب یہ ہیں :

1۔ جمع: جیسے چار عورتوں  سے زیادہ کو ایک نکاح میں  جمع کرنا،  اسی طرح ایک نکاح میں  ایسی دو عورتوں  کو جمع کرنا کہ ان میں  سے اگر ایک کو مرد مانا جائے تو دونوں  کا آپس میں  نکاح کرنا حرام ہو جیسے دو حقیقی بہنیں  کہ ان میں  سے ایک کو اگر مرد مانا جائے تو یہ دونوں  حقیقی بھائی بہن ہوں  گے اور ان دونوں  کا آپس میں  نکاح کرنا حرام ہے ۔

2۔ تقدیم: جیسے آزاد عورت کے نکاح میں  رہتے ہوئے باندی سے نکاح کرنا حرام ہے ۔

3۔ دوسرے کا حق متعلق ہونا: دوسرے کی بیوی یا معتدہ ( عدت والی عورت ) سے نکاح کرنا حرام ہے ۔

4۔ ملکیت: جیسے مرد کا اپنی باندی سے نکاح کرنا حرام ہے ۔

5۔ تین طلاق: مرد کا اپنی تین طلاق شده بیوی سے نکاح کرنا حرام ہے، جب تک کہ وہ حلال نہ ہوجائے ۔

6۔ اختلاف دین : جیسے کافر اور مشرک سے نکاح کرنا حرام ہے، سوائے کتابیہ ( عیسائی اور یہودی ) عورتوں  کے ۔( الفقہ الحنفی و ادلتہ ج 2 ص 152 – 160 )

مذکورہ چھ قسموں  کی حرمت عارضی اور وقتی ہے، یعنی وجہ حرمت ختم ہوجائے تو ان سے نکاح کرنا حلال ہوجائے گا ۔ جیسے کافر اور مشرک مسلمان ہوجائے تو اب ان سے وجہ حرمت ختم ہوجانے کی وجہ سے نکاح کرنا حلال ہوجائے گا……….

ان میں  سے ہر ایک سبب کی دلیل اور حکمت پر گفتگو کی جائے تو بات بہت لمبی ہوجائے گی گوکہ ویسے ہی بات لمبی ہوچکی ہے ۔ اس لیے طوالت کے اندیشے کے پیش نظر صرف موضوع بحث مسئلہ ہی پر اکتفا کرتے ہیں  ۔

قرآن مجید میں  صراحت کےساتھ مشرک مرد و عورت کےساتھ نکاح کو منع کیا گیا، ارشاد باری ہے: وَ لَا تَنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکٰتِ حَتّٰی یُؤۡمِنَّ ؕ وَ لَاَمَۃٌ مُّؤۡمِنَۃٌ  خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِکَۃٍ  وَّ لَوۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ ۚ وَ لَا تُنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَتّٰی یُؤۡمِنُوۡا ؕ وَ لَعَبۡدٌ مُّؤۡمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِکٍ وَّ لَوۡ اَعۡجَبَکُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ یَدۡعُوۡنَ  اِلَی النَّارِ ۚۖ وَ اللّٰہُ  یَدۡعُوۡۤا اِلَی الۡجَنَّۃِ وَ الۡمَغۡفِرَۃِ  بِاِذۡنِہٖ ۚ وَ یُبَیِّنُ  اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ  یَتَذَکَّرُوۡنَ ﴿221﴾ (البقرة)

ترجمہ: اور مشرک عورتوں  سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ یقینا ایک مومن باندی کسی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے، خواہ وہ مشرک عورت تمہیں  پسند آرہی ہو، اور اپنی عورتوں  کا نکاح مشرک مردوں  سے نہ کراؤ جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ اور یقینا ایک مومن غلام کسی بھی مشرک مرد سے بہتر ہے خواہ وہ مشرک مرد تمہیں  پسند آرہا ہو۔ یہ سب دوزخ کی طرف بلاتے ہیں  جبکہ اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور اپنے احکام لوگوں  کے سامنے صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔ (آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)

یہ حکم کس قدر اہميت کا حامل ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں  کہ قرآن نے صرف حکم ہی بیان کرنے پر اکتفا نہيں  کیا بلکہ مومن مرد اور عورت کو جدا جدا خطاب کرکے منع کےساتھ اس کی حکمت اور وجہ ترجیح کو بھی بیان کیا ۔

اول تو مشرک مرد و عورت سے نکاح کو منع کیا جب تک وہ ایمان قبول نہ کرلیں ۔ پھر فوراﹰ ہی فیصلہ کن انداز میں  ترجیحی صورت کو بھی بیان کردیا کہ کافر و مشرک جاہ و جلال حسن و جمال اور حسب و نسب کے اعتبار سے تمہیں  کتنا ہی پسند کیوں  نہ آئے، اس کے مقابلے میں  دنیاوی اعتبار سے سے کم حیثیت والا مومن ہی تمہارے لیے ہزار درجہ بہتر ہے قرآن نے اپنے بلیغ اسلوب میں  اس کو یوں  بیان کیا: ‌‌”‌‌ ایک مومن غلام اور باندی مشرک مرد و عورت سے بہتر ہے ” ۔ اس کی اصل حکمت یہ بیان کی کہ یہ کافر اور مشرک دوزخ اور جہنم میں  لے جانے والے ہیں  اور اللّٰہ تعالی اپنے ارشاد سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے ۔ اصل ناکامی اور کامیابی ہی یہی ہے۔اس لیے اخیر میں  شفقت بھرے لہجے میں  ارشاد فرمایا کہ یہ احکام صاف صاف اس لیے بیان کیے جاتے ہیں ، تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں  ۔ اس اسلوب سے اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ مخاطب کے فائدے کے پیش نظر ہی مذکورہ حکم دیا گیا ہے۔

مفتی شفیع عثمانی صاحب ؒ اس حکم کی حکمت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں : "کیوں کہ ازدواجی تعلقات، آپس کی محبت و مودت اور یگانگت کو چاہتے ہیں ، اور بغیر اس کے ان تعلقات کا اصلی مقصد پورا نہيں  ہوتا، اور مشرکین کےساتھ اس قسم کے تعلقات قریبہ محبت و مودت کا لازمی اثر یہ ہےکہ ان کے دل میں  بھی کفر و شرک  کی طرف میلان پیدا ہو یا کم از کم کفر و شرک سے نفرت ان کے دلوں  سے نکل جائے، اور اس کا انجام یہ ہےکہ یہ بھی کفر و شرک میں  مبتلا ہوجائیں ، اور اس کا نتیجہ جہنم ہے ۔ اس لیے فرمایا گیا کہ یہ لوگ جہنم کی طرف دعوت دیتے ہیں  اور اللّٰہ تعالی انسان کو جنت اور مغفرت کی طرف دعوت دیتا ہے، اور صاف صاف اپنے احکام بیان فرما دیتا ہے تاکہ لوگ نصیحت پر عمل کریں  "۔( معارف القرآن ج 1 ص 540 )

مشرک سے نکاح کرنا اسلامی روایت اور تہذیب و تمدن کے اعتبار سے کس قدر سنگین ہے اور اس کے اثرات بد کتنے مہلک اور تباہ کن ہیں ،  اس کو بیان کرتے ہوئے اور تاریخی شہادت کےساتھ اس کا تجزیہ کرتے ہوئے حضرت مولانا امین احسن اصلاحی ؒ مذکورہ آیت کی تفسیر کے ذیل میں  لکھتے ہیں  : ” پھر اس کا فلسفہ بتایا کہ رشتے ناطے کے اثرات زندگی پر سطحی اور سرسری نہیں  ہوتے بلکہ بڑے گہرے ہوتے ہیں  ۔اگر آدمی ان چیزوں  میں  عقائد و اعمال کو اہميت نہ دے صرف حسن یا مال، یا خاندان یا مصلحت ہی کو سامنے رکھے تو ہوسکتا ہےکہ وہ اپنے ہی خرچ پر اپنے گھر میں  ایسی بلا پال لے جو صرف اسی کے نہيں  بلکہ اس کی آئندہ آنے والی نسلوں  کے ایمان و اسلام کا بیج بھی مار دے ۔ شادی بیاہ کے تعلقات نے مذہب، روایات اور تہذیب و تمدن میں  جو عظیم تبدیلیاں  کی ہیں ، اس کی عملی مثالوں  سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔ بنی اسرائیل کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر بےشمار عقائدی گمراہیاں  ان عورتوں  کے ذریعہ سے پھیلیں  جو وہ دوسری بت پرست قوموں  میں  سے بیاہ کر لائے ۔ اسی طرح ہمارے یہاں  مغل سلاطین ہندو راجاؤں  کے ہاں  سیاسی مصالح کے تحت جو شادیاں  کیں  تو ان کی لڑکیوں  کے ساتھ ساتھ ان کے عقائد،  اوہام، رسوم اور عبادت کے طریقے بھی اپنے گھروں  میں  گھسا لائے، آج بھی جو لوگ قوموں  اور مذہبوں  کے امتیازی نشانات و نظریات کو ختم کرنے کے درپے ہیں  وہ اس کا سب سے زیادہ کارگر نسخہ آپس کی شادیوں  ہی کو سمجھتے ہیں  ۔ اس وجہ سے ایک مسلمان کو اس معاملے میں  بےپروا اور سہل انگار نہيں  ہونا چاہیے، بلکہ اس معاملے میں  اس عظیم حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ جس رب پر وہ ایمان رکھتاہے اس کی دعوت مغفرت اور جنت کی طرف ہے ۔اور جو لوگ اس ایمان سے محروم ہیں  وہ جہنم کی طرف بلانے والے ہیں  عام اس سے کہ مرد ہوں  یا عورت "۔( تدبر قرآن ج 1 ص 520 )

البتہ حکم مذکور  سے کتابیہ ( پاک دامن یہودیوں  اور عیسائیوں  کی عورتوں  ) کو الگ رکھا گیا اور ان سے نکاح کرنے کی اجازت دی گئی۔ ارشاد باری ہے: "والمحصنٰت من الذین اوتوالکتٰب من قبلکم ۔ اور ان کی پاک دامن عورتیں  جن کو تم سے پہلے کتاب مل چکی ہے، تمہارے لیے حلال ہیں ” ۔( سورہ مائدہ 5 )

اور اہل کتاب سے سے مراد وہ لوگ ہیں  جو ایسی کتاب کے ماننے کے مدعی ہوں  جس کا آسمانی کتاب اور وحی الٰہی ہونا قرآن و سنت سے ثابت ہو ۔ اس وقت ایسی کتاب تورات اور انجیل ہی ہیں  اور انہی کتابوں  کے ماننے والوں  کو یہودی اور عیسائی کہتے ہیں  ۔ یہ اجازت صرف مسلمان مردوں  کو دی گئی ہے، بہرحال مسلمان عورت کےلئے کسی بھی صورت میں  کسی بھی غیر مسلم سے نکاح کرنے کی اجازت نہيں  ہے خواہ کتابی ہو یا غیر کتابی ۔

تاہم اس کے باوجود جمہور صحابہ کرام اور تابعین ان سے نکاح کے نتیجے میں  پیدا ہونے والی خرابیوں  کے باعث اس کو ناپسند فرماتے تھے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ تو اس کو ناجائز ہی سمجھتے تھے،  اور کوئی اس بابت دریافت کرتا تو جواب دیتے ہوئے کہتے کہ اس مسئلے میں  اللّٰہ تعالی کا ارشاد واضح ہے کہ مشرک عورتوں  سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ، اور میں  نہيں  جانتا کہ اس سے بڑا کونسا شرک ہوگا کہ وہ عیسیٰ بن مریم یا کسی دوسرے بندۂ خدا کو اپنا رب اور خدا قرار دے ۔ ( احکام القرآن جصاص بحوالہ معارف القرآن ج 3 ص62 )

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ تو دارالکفر کی کتابیہ عورتوں  سے نکاح کو ہی منع کرتے تھے ۔ حضرت عمر ؓ کا واقعہ تو اس تعلق سے مشہور ہےکہ جب ان کو اطلاع ملی کہ حضرت حذیفہ بن یمان ؓ نے مدائن پہنچ کر ایک یہودی عورت سے نکاح کرلی ہے تو آپ ؓ نے خط لکھ کر ان کو طلاق دینے کا حکم دیا ۔حضرت حذیفہ ؓ نے جواب میں  لکھا کہ کیا وہ میرے لیے حرام ہے؟ تو دوبارہ حضرت عمر ؓ نے اس مضمون کا خط حضرت حذیفہ ؓ کو تحریر فرمایا: ‌‌”‌‌ آپ کو قسم دیتا ہوں  کہ میرا یہ خط اپنے ہاتھ سے رکھنے کے پہلے ہی اس کو طلاق دےکر آزاد کردو ۔ کیوں کہ مجھے یہ خطرہ ہےکہ دوسرے مسلمان بھی آپ کی اقتدا نہ کریں  ۔اور اہل ذمّہ اہل کتاب کی عورتوں  کو ان کے حسن و جمال کی وجہ سے مسلمان عورتوں  پر ترجیح دینے لگے تو مسلمان عورتوں  کےلئے اس سے بڑی مصیبت کیا ہوگی۔ ” ( کتاب الاثار بحوالہ معارف القرآن ج 3 ص62 )

اسی وجہ سے عام فقہائے کرام اس کی کراہت کے قائل ہیں  ۔ اس واقعے کی روشنی میں  ماضی اور حال کا موازنہ کرتے ہوئے حضرت مفتی شفیع عثمانی صاحب ؒ لکھتے ہیں : "فاروق اعظم ؓ کا زمانہ خیرالقرون کا زمانہ ہے ۔ جب اس کا کوئی احتمال نہ تھا کہ کوئی یہودی، نصرانی عورت کسی مسلمان کی بیوی بن کر اسلام اور مسلمانوں  کے خلاف کوئی سازش کرسکے ۔ اس وقت تو صرف یہ خطرات سامنے تھے کہ کہیں  ان میں  بدکاری ہوتو ان کی وجہ سے ہمارے گھرانے گندے ہوجائیں  ۔ یا ان کے حسن و جمال کی وجہ سے لوگ اس کو ترجیح دینے لگیں  ۔ جس کا نتیجہ یہ ہو کہ مسلمان عورتیں  تکلیف میں  پڑ جائیں  ۔ مگر فاروقی نظر دوربیں  اتنے ہی مفاسد کو سامنے رکھ کر ان حضرات کو طلاق پر مجبور کرتی ہے ۔ اگر آج کا نقشہ ان حضرات کے سامنے ہوتا تو اندازہ کیجیے کہ ان کا اس کے متعلق کیا عمل ہوتا ۔ اول تو وہ لوگ جو آج اپنے نام کےساتھ مردم شماری کے رجسٹروں  میں  یہودی یا نصرانی لکھواتے ہیں  ۔ ان میں  سے بہت سے وہ لوگ ہیں  جو اپنے عقیدہ کی رو سے یہودیت و نصرانیت کو ایک لعنت سمجھتے ہیں  ۔ نہ ان کا تورات و انجیل پر عقیدہ ہے نہ حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام پر ۔ وہ عقیدہ کے اعتبار سے بالکل لامذہب اور دہریے ہیں  ۔ محض قومی یا رسمی طورپر اپنے آپ کو یہودی اور نصرانی کہتے ہیں  ۔

ظاہر ہےکہ ان لوگوں  کی عورتیں  مسلمان کےلئے کسی طرح حلال نہيں  ۔ اور بالفرض اگر وہ اپنے مذہب کے پابند بھی ہوں  تو ان کو کسی مسلمان گھرانہ میں  جگہ دینا اپنے پورے خاندان کےلئے دینی اور دنیوی تباہی کو دعوت دیناہے ۔ اسلام اور مسلمانوں  کے خلاف جو سازشیں  اس راہ سے اس آخری دور میں  ہوئیں  اور ہوتی رہتی ہیں ، جن کے عبرتنامے روز آنکھوں  کے سامنے آتے ہیں  کہ ایک لڑکی نے پوری مسلم قوم اور سلطنت………. کو تباہ کردیا ۔ یہ ایسی چیزیں  ہیں  کہ حلال و حرام سے قطع نظر بھی کوئی ذی ہوش انسان اس کے قریب جانے کےلئے تیار نہيں  ہوسکتا ۔ الغرض قرآن و سنت اور اسوۂ صحابہ کی رو سے مسلمانوں  پر لازم ہےکہ آج کل کی کتابی ( یہودیوں ، عیسائیوں  کی ) عورتوں  کو نکاح میں  لانے سے کلّی پرہیز کریں  "۔ ( معارف القرآن ج 3 ص 64 ۔ 63)

قارئین اوپر کی تفصیل سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اسلام کا غیر مسلموں  سے نکاح کے منع کا حکم کس قدر عدل پر مبنی ہے ۔ اور ان سے نکاح کرنا کس قدر سنگین اور خطرناک ہے ۔ اور اہل کتاب کی عورتوں  سے نکاح کرنا بھی کسی خطرے سے کم نہيں  ہے ۔۔۔ ان سنگین صورتحال سے بچنے کےلئے ضروری ہے کہ ہم اسلام اور احکام اسلام کے شجر ہائے سایہ دار کی پناہ کو لازم پکڑ لیں  اور اس کی پناہ کو عزیر از جان، مال و عیال سمجھیں ………. گو کہ ہمیں  یہ ناگوار ہی کیوں  نہ محسوس ہو ۔۔۔کیوں  کہ بہت ممکن ہےکہ جسے ہم اپنے لیے اچھا سمجھ رہے ہوں  در حقیقت وہ ہمارے لیے اچھا نہ ہو کیوں  کہ ہمارا علم، ہماری عقل اور ہمارے تجربات خدائے علیم و حکیم و برتر کے سامنے ہیچ ہیں  ۔ ہمارے اچھے اور برے کو درحقیقت صرف اللّٰہ تعالی ہی بہتر جانتے ہیں  ۔۔۔. وَ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ  وَ اَنۡتُمۡ  لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿216﴾ (البقرة) اور یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں  بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں  بری ہو، اور (اصل حقیقت تو) اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں  جانتے۔

تبصرے بند ہیں۔