مسلم سائنسدان رازی: آزاد خیال یا ملحد؟ 

ڈاکٹر احیدحسن

ملحدین و مستشرقین کی طرف سے پیش کیے جانے والے رازی کے مبینہ خلاف پیغمبری اور خلاف مزہب تصورات اور ان کی اصل حقیقت

مضمون Was Muslim scientist Al_Razi a free thinker or an atheist?
The alleged anti religion and anti prophetic views of Al_Razi as claimed by Orientalists and Atheists And Our Detailed Response کا اردو ترجمہ

ملحدین و مستشرقین کے نزدیک قدیم اسلامی دور کا عظیم  سائنسدان رازی خلاف پیغمبرانہ اور خلاف مزہب تصورات رکھتا تھا اور وہ ایک آزاد خیال سائنسدان یا ملحد تھا۔ ملحدین و مستشرقین اپنے اس دعوے کی تائید میں رازی کے درج ذیل مبینہ قول نقل کرتے ہیں

” آپ لوگ کس بنیاد پہ یہ لازمی سمجھتے ہیں کہ خدا کچھ لوگوں کو باقی لوگوں سے افضل بنا کر انہیں انسانوں کی رہنمائی کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجے اور لوگوں کو ان پہ منحصر رکھے۔ "

ملحدین و مستشرقین کے بقول رازی نے مذہب کے درمیان باہمی تصادم کی فضا کے بارے میں درج ذیل باتیں کیں”(مذاہبِ کی وجہ سے) ایک عالمگیر تباہی ہوتی ہے اور آپس کی جنگوں میں کئی لوگ مارے جاتے ہیں جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں۔ اگر لوگوں سے ان کے مذہب کے ثبوت کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ آگ بگولہ ہو جاتے ہیں اور ہر اس شخص کا قتل کر ڈالتے ہیں جو یہ سوال کرے۔ وہ عقلی تصورات کو مسترد کرتے ہیں اور اپنے مخالفین کو قتل کر ڈالتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سچائی خاموش اور خفیہ رہتی ہے۔ کیاخدا لوگوں سے کہتا ہے کہ میرے لیے قربانی کرو؟ یہ الفاظ تو ( نعوذ باللہ) کسی حاجتمند کے لگتے ہیں۔ "

ملحدین و مستشرقین کے بقول رازی نے قرآن کے بارے میں درج ذیل باتیں کیں

"تم لوگ دعوی کرتے ہو کہ قرآن ایک معجزے کی صورت میں موجود ہے۔ تم لوگ کہتے ہو کہ قرآن کا مقابلہ ممکن نہیں ہے۔ ہم اس قرآن کے مقابلے میں تم کو ملحدین، فصیح و بلیغ مصنفین اور شاعروں کے کلام سے ہزاروں کلام بنا کر دکھا دیں گے ( نعوذ باللہ) جو اس قرآن سے زیادہ عمدہ انداز میں مسائل پہ بات کریں گے اور اپنا معنی زیادہ عمدہ انداز میں پیش کریں گے۔ خدا کی قسم ! تم جو کہتے ہو وہ ہمیں بہت حیران کرتا ہے۔ تم ایک ایسی کتاب قرآن کو پیش کرتے ہو جو ( نعوذ باللہ) ماضی کے قصے کہانیاں بیان کرتا ہے اور جس میں نعوز باللہ بہت سے تضادات ہیں۔ "

یہ تھے وہ قول جن کے بارے میں ملحدین و مستشرقین دعوی کرتے ہیں کہ یہ رازی نے قرآن، پیغمبرانہ تعلیمات اور مذہب کے خلاف پیش کیے۔ ملحدین و مستشرقین کے بقول رازی نے مذہب کے خلاف تین کتابیں لکھیں جو کہ The Prophets’ Fraudulent Tricksیا مخارق الانبیاء

”, “The Stratagems of Those Who Claim to Be Prophets”,

یا حیل المتنبیین

and “On the Refutation of Revealed Religions”

یعنی مذہب کی تردید ہیں اور ان کے بقول رازی کے مبینہ مذہب مخالف تصورات انہی کتابوں سے لیے گئے ہیں۔ اب ہم ملحدین و مستشرقین کے ان تمام دعووں کا جائزہ لیتے ہیں جو انہوں نے رازی کے بارے میں پیش کیے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ البیرونی کی طرف سے مرتب کردہ  رازی کی کتابوں کی فہرست یعنی  رسالہ فی الفہرست کتب الرازی کے بقول رازی نے مذہب کے خلاف دو ملحدانہ کتابیں لکھیں جو کہ فی النبوت ( پیغمبروں پر) اور فی حیل المتنبیین یعنی جھوٹے پیغمبروں کے دھوکے ہیں۔ یہاں غور کرنے کے قابل ایک بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ ملحدین و مستشرقین کے بقول رازی نے مذہب کے خلاف ایک کتاب مخارق الانبیاء لکھی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ رازی کی کتابوں کی سب سے پہلے تاریخ میں فہرست مرتب کرنے والے سائنسدان البیرونی نے اس کتاب کا اپنی فہرست میں نام تک نہیں لکھا بلکہ اس کی جگہ جس کتاب کا نام دیا ہے وہ فی النبوت ہے۔ یہ پہلا تضاد ہے جو ملحدین و مستشرقین کے رازی کے بارے میں ان دعووں کا ہے جن سے وہ رازی کو ملحد اور آزاد خیال سائنسدان ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر رازی کی تصنیف مخارق الانبیاء موجود تھی بھی سہی تو عربی لفظ مخارق کا معنی اردو اور انگلش دونوں میں معجزہ اور خلاف عادت بنتا ہے نہ کہ پیغمبروں کے دھوکے۔ لیکن ملحدین و مستشرقین نے عربی لفظ مخارق کا جان بوجھ کر غلط مطلب یعنی فراڈ اور دھوکا کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ رازی کی یہ کتاب پیغمبروں کے فراڈوں کے خلاف تھی نعوذ باللہ اور اس سے انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ رازی ایک ملحد اور بے دین سائنسدان تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ البیرونی  کبھی بھی اپنی رازی کی کتابوں کی فہرست میں اس کتاب کا تذکرہ نہیں کرتا یعنی اس کتاب کا وجود تک ثابت نہیں ہے جس سے رازی کو ملحد اور زندیق ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بیرونی جس کتاب یعنی فی النبوت کا تذکرہ کرتا ہے،اس کے بارے میں بیرونی لکھتا ہے کہ ” یہ دعویٰ کیا گیا کہ رازی کی یہ کتاب مذہب کے خلاف تھی” اور دوسری کتاب فی حیل المتنبیین کے بارے میں بیرونی لکھتا ہے کہ ” یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ کتاب پیغمبروں کی ضرورت کے خلاف تھی”.

کچھ مورخین جیسا کہ پال کراس اور سارہ سٹرومسا کے بقول رازی کے مذہب مخالف تصورات متعصب اسماعیلی( جن کو آج کل آغا خانی کہا جاتا ہے) مبلغ ابو حاتم کی کتاب میں موجود ہیں اور یہ  خیالات رازی نے اپنی ابو حاتم سے بحث میں پیش کیے یا رازی کی ایک ایسی تصنیف میں موجود تھے جو اب معدوم ہوچکی ہے۔ ان کے بقول یہ معدوم کتاب العلم الالہی یا مخارق الانبیاء ہے لیکن ابو حاتم نے اپنی تصنیف میں رازی کا نام تک نہیں لیا بلکہ اپنے مخالف کو ملحد کہ کر مخاطب کیا۔ ابو حاتم کے بقول رازی نے پیغمبروں کی ضرورت کی تردید کی اور معجزات کا انکار کیا اور مذاہبِ اور قرآن پہ تنقید کی۔ وہ لوگ جو رازی کو الحاد کا الزام دیتے ہیں کے بقول اسماعیلی فرقے یعنی موجودہ آغا خانی کے شدت پسند مبلغ ابو حاتم کے شاگرد حامد الدین کرمانی( وفات 1020ء) نے اقوال الظاہبیہ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے رازی کے خلاف وحی تصورات کی تردید کی۔ اس سارے معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ رازی کے مبینہ خلاف پیغبرانہ اور خلاف مزہب تصورات  کتاب اعلام النبوۃ سے لیے گئے ہیں جسکے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اسماعیلی فرقے کے شدت پسند مبلغ ابو حاتم کی تصنیف ہے جس میں ابو حاتم ایک ملحد کی کتاب سے اقتباس پیش کرکے اس ملحد کی تردید کرتا ہے اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ملحد رازی تھا جب کہ یہ بات کسی صورت تصدیق شدہ نہیں ہے کہ یہ ملحدانہ خیالات جن کی تردید ابو حاتم کرتا ہے وہ رازی کے تھے یا ابو حاتم کی کتاب میں موجود لفظ ملحد سے مراد رازی ہے کیونکہ ابو حاتم کی مبینہ کتاب میں ابو حاتم نے رازی کا نام تک نہیں لکھا اور حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب کا پہلا صفحہ پھٹا ہوا ہے اوراج تک اس بات کی تصدیق نہیں ہے کہ یہ کتاب رازی کے خلاف تھی اور اس کتاب میں مذکور ملحدانہ خیالات رازی کے تھے یا کسی اور شخص کے کیونکہ ابو حاتم نے اپنی تصنیف میں رازی کا نام تک نہیں لکھا۔ لہذا ابو حاتم کی کتاب سے کسی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ یہ ملحدانہ خیالات رازی کے تھے اور ابو حاتم رازی کی تردید کر رہا تھا۔

ایک اور بہت اہم بات یہ ہے کہ راغب السرجانی جو کہ  ابتدائی مورخین میں سے ہیں، ان کے بقول کتاب مخارق الانبیاء اور حیل المتنبیین جن کی نسبت رازی کی طرف کی جاتی ہے ایک دھوکا اور فرضی تصانیف ہیں اور ان کا نام کسی مسلم مصنف کی تصنیف میں موجود نہیں ہے۔ لہذا رازی کی طرف سے خلاف پیغمبری اور خلاف مزہب ان کتابوں کی تصنیف کسی صورت درست نہیں  ہے اور آج تک ایک بھی ایسا آزاد ثبوت نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ واقعی میں رازی نے یہ کتابیں تصنیف کیں۔ اور اگر دیکھا جائے تو رازی نے دو تصانیف ان للعبدخالقا ( بیشک انسان کا ایک خالق موجود ہے) اور اسرار التنزیل فی التوحید کے نام سے مرتب کیں اور یہ مذہبی تصانیف ظاہر کرتی ہیں کہ رازی ایک ملحد اور بے دین سائنسدان نہیں  تھا بلکہ کثیرالنوع دلچسپی رکھنے والا عظیم مسلم دانشور اور سائنسدان تھا۔ اس مقام پہ ایک اور بات غور کرنے کے قابل ہے۔ وہ یہ کہ رازی 854ء میں موجودہ ایران کے شہر رے میں پیدا ہوا اور 925 ء یا 932ء میں رے میں ہی فوت ہوا جب کہ البیرونی 4 ستمبر 973ء کو خوارزم یعنی موجودہ ازبکستان میں پیدا ہوا اور 9 دسمبر 1048ء کو موجودہ افغانستان کے شہر غزنی میں فوت ہوا۔ ان تاریخی اعدادو شمار کے مطابق البیرونی رازی کی وفات کے 48 سال بعد پیدا ہوا اور اگر اس نے رازی کے بارے میں تعلیم 16 سال کی عمر میں حاصل کی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ البیرونی نے رازی کے بارے میں اپنی معلومات رازی کی وفات کے 64 سال بعد حاصل کیں۔

اس پہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان 64 سال بعد وہ کون شخص تھا جس سے بیرونی نے رازی اور اس کی تصنیفات کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ اگر ہم اس حقیقت کو مدنظر رکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ رازی کے بارے میں جن مزہب مخالف تصورات کو پیش کیا جاتا ہے وہ مبینہ طور پہ اسماعیلی فرقے کے شدت پسند مبلغ ابو حاتم کی تصنیف اعلام النبوۃ میں موجود ہیں نہ کہ رازی کی موجود کسی تصنیف میں۔ ابو حاتم ایک اسماعیلی مبلغ تھا۔ کیا اس نے رازی کے بارے میں یہ سب معلومات ایمانداری سے مرتب کیں، اس پہ مورخین کو مکمل یقین نہیں ہے۔ عبدالطیف العبد، جو کہ قاہرہ یونیورسٹی مصر میں اسلامی فلسفے کے پروفیسر تھے، ان کے مطابق ابو حاتم اور اس کا شاگرد حامد الدین کرمانی دونوں شدت پسند اسماعیلی فرقے کے مبلغ تھے جنہوں  اپنی  تصنیفات میں رازی کے خیالات کو غلط انداز میں پیش کیا کیونکہ رازی نے کئی بار اسماعیلی فرقے یعنی موجودہ آغا خانیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ عبدالطیف العبد کے بقول رازی کے بارے میں ابو حاتم کے بیان کردہ خیالات خود رازی کے ان مذہبی تصورات کے خلاف ہیں جن کو رازی نے اپنی تصانیف جیسا کہ فی الطب الروحانی( روحانی علاج) میں پیش کیا ہے۔ مغربی مفکر پیٹر ایڈمسن کے مطابق ابو حاتم نے جان بوجھ کر رازی کے خیالات کو غلط انداز میں پیش کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ رازی مزہب دشمن تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب کے بارے میں رازی کی کوئی تصنیف محفوظ نہیں اور یہ بالکل نہیں کہا جا سکتا کہ رازی مزہب دشمن تھا۔ ایڈمسن فخر الدین رازی کی ایک تصنیف کا حوالہ بھی دیتا ہے جس میں مسلم رازی قرآن و حدیث کے حوالے پیش کرتا ہے۔

   اس مقام پہ ایک اہم پہلو اور بھی ہے جس  پہ گفتگو لازمی ہے۔ وہ یہ کہ بیرونی رازی کی ان دو مبینہ کتابوں کا بیان کر رہا تھا جن کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ لوگوں کا دعوی تھا کہ یہ مذہب کے خلاف لکھی گئی ہیں ( اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بیرونی نے یہ تصانیف ابو حاتم سے نقل کیں جس نے رازی کو غلط انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی اور بذات خود بیرونی کو بھی اس بات کی تصدیق نہیں ہے کہ واقعی میں یہ کتابیں مزہب کے خلاف تھیں۔ اس لیے وہ ” دعوی کیا جاتا ہے” کا لفظ استعمال کرتا ہے)، ان کے علاؤہ بیرونی رازی کی اور تصانیف کا ذکر بھی کرتا ہے جو مذہب کے بارے میں ہیں جیسا کہ فی وجوب دعوۃ النبی علی من نکارۃ بالنبوات( یعنی پیغمبروں کو جھٹلانے والوں کے خلاف ان لوگوں کی زمہ داری جو پیغمبروں کی تعلیم عام کرتے ہیں) اور فی ان للانسان خالقا متقنا حاکما ( یعنی انسان کا ایک مکمل اور حکمت والا خالق موجود ہے)۔

اگر ان دو تصانیف کو مد نظر رکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ رازی کسی طرح بھی مذہب مخالف اور ملحد نہیں تھا۔ رازی کی ایک اور مبینہ مذہب مخالف تصنیف فی تردید المذاہب یا مذہب کی تردید کا وجود بھی بالکل ثابت نہیں ہے اور اس کا ایک بھی غیر جانبدار اور مستند ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی اس کا بیرونی نے اپنی رازی کی تصانیف کی فہرست میں تذکرہ کیا ہے۔ دوسری کتاب یعنی فی حیل المتنبیین یعنی جھوٹے پیغمبروں کے حیلے، اگر مان بھی لی جائے تو اس سے یہ کسی صورت ثابت نہیں ہوتا کہ رازی پیغمبروں کی تردید کر رہا تھا بلکہ اس سے یہ بالکل ظاہر ہے کہ وہ اپنے وقت کے پیغمبری کے جھوٹے دعویداروں کے خلاف بول رہا تھا نہ کہ ابراہیمی مذاہب کے حقیقی پیغمبروں کے خلاف۔ اگرچہ رازی اور سینا نے اپنی ایک باہمی خط و کتابت میں رازی کو المانوی ( Manichaeism)  خیالات سے متاثر قرار دیا ہے لیکن بذات خود بیرونی رازی کی جن مذہبی تصانیف کے نام ذکر کرتا ہے وہ ثابت کرتی ہیں کہ رازی ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھا۔

اس گفتگو میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ رازی کے کئی مخالفین تھے جن سے اس کی بحثیں ہوتی تھیں۔ ابوالقاسم البلخی بغداد کے معتزلہ کا سربراہ تھا۔ اس نے رازی کی کتابوں جیسا کہ العلم الالہی کی تردید پہ کئی کتابیں لکھیں۔ اس کا خصوصا رازی سے وقت کے نظریے پہ اختلاف تھا۔ شہید ابن الحسین البلخی کے رازی کے ساتھ کئی تنازعات تھے جن میں سے ایک مسرت اور خوشی کے نظریے پہ تھا۔ مشہور اسماعیلی یعنی موجودہ آغا خانی مبلغ ابو حاتم رازی کا سب سے بڑا مخالف تھا اور وہ واحد انسان ہے جس سے رازی کے مذہب مخالف تصورات نقل کیے جاتے ہیں۔ ابن التمر ایک طبیب تھا جس نے رازی کی الطب الروحانی یعنی روحانی علاج کی تردید کی اور رازی نے اس کی اس تردید کا جواب لکھا۔ جریر نام کے ایک طبیب سے رازی کا اختلاف تھا۔ رازی کے مخالفین میں اور لوگ الکیال تھا جس کے امامت کے تصور کے خلاف رازی نے ایک رسالہ لکھا۔ اور منصور بن طلحہ تھا جس نے وجود پہ ایک کتاب لکھی جس کی رازی نے تردید کی۔ محمد ابن الیث الرسائلی کی کیمیا دانوں کے خلاف ایک تصنیف کا رازی نے جواب دیا۔ رازی کے مخالفین اور حریفوں میں اور لوگ احمد بن الطیب السرکشی اور کئی دیگر لوگ بھی موجود تھے۔ اس ساری تفصیل سے ظاہر ہے کہ رازی معتزلہ، اسماعیلیوں یعنی موجودہ آغا خانیوں اور کچھ متکلمین کے خلاف مسلسل بحثوں میں مصروف رہتا تھا اور کئی متکلمین راسخ العقیدہ سنی مسلمان بھی تھے لیکن متعصب اسماعیلی مبلغ ابو حاتم کے سوا کسی نے یہ الزام نہیں  لگایا کہ رازی ملحد، بے دین یا مذہب دشمن ہے۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو اس وقت عراق و بغداد جو فقہ اور حدیث کے مرکز تھے،وہاں کے سنی علماء کسی صورت رازی کے بارے میں خاموش نہ رہتے اور دوسری طرف جب ہم رازی کی تصانیف جیسا کہ فی وجوب دعوۃ النبوت، ان للعبدخالقا اور الطب الروحانی کا نام سنتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ رازی کسی صورت بھی ملحد بے دین اور مذہب دشمن سائنسدان نہیں  تھا بلکہ وہ ایک مزہب پرست سائنسدان اور مسلمان تھا۔

اگر ہم رازی کے فلسفہ ماورا الطبیعیات یا میٹا فزکس کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ رازی پانچ باقیوں کے نظریے پہ یقیں رکھتا تھا جو کہ خدا، روح،مادہ، وقت اور جگہ یعنی ٹائم اینڈ سپیس ہیں۔ لہذا وہ خدا پہ ایمان رکھتا تھا اور کسی طرح بھی ملحد نہیں تھا۔ اپنی فلسفیانہ سوانح حیات میں اس نے اپنے خیالات کی بنیاد اس تصور پہ رکھی جس کے مطابق مرنے کے بعد زندگی موجود ہے۔ اس کے مطابق ہمیں  غافل رہنے کی بجائے علم حاصل کرنا چاہیے اور اپنی دانش کو استعمال کرکے زندگی میں انصاف کا اطلاق کرنا چاہیے۔ اس کے مطابق یہی وہ چیز ہے جس کا ہمارا خالق ہم سے تقاضا کرتا ہے جس سے ہم دعا کرتے ہیں اور جس کے عذاب سے ہم ڈرتے ہیں۔ رازی کے بقول روحانی اور جسمانی صحت کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ اس کے مطابق موت کا خوف تب ختم ہوسکتا ہے جب مرنے کے بعد کی زندگی پہ یقین رکھا جائے اور اس کے لیے مذہب کے وسیع مطالعے کی ضرورت ہے۔ رازی نے خدا کی وحدانیت پہ دو کتابیں لکھیں جو کہ وحدانیت پہ چھوٹی اور بڑی کتاب کے نام سے تھیں۔ رازی کی کتاب العلم الالہی کے مطابق وقت اور جگہ یعنی ٹائم اینڈ سپیس مطلق یا absolute ہیں جب کہ حرکت نہیں۔ اس کے بقول مادے کی حرکت روح کی وجہ سے ہے اور ایک عظیم ذہانت یعنی خدا نے کائنات کو ایک ترتیب دی اور اس کی حرکت کو یکساں کیا اور روح کو سمجھ عطا کی۔

رازی کے بقول یہی وہ تصور ہے جس سے خدائی تخلیق کے نظریے پہ یقیں رکھنے والے لوگ یعنی Creationists ابدیت کے تصور پہ یقین رکھنے والے سائنسدانوں اور فلسفیوں یعنی Eternalists کو شکست دے سکتے ہیں جو کہ تخلیق کے نظریے کا مکمل انکار کرتے ہیں۔ اس طرح رازی کائنات کے ہمیشہ موجود ہونے کی جگہ اس کے ایک خدا کی طرف سے تخلیق کے نظریے کو بیان کرتا ہے جو کہ افلاطون، دیموکریٹس اور ایپی کیوریل کے فلسفے کی تردید پہ مبنی ہے۔ یہ تصور رازی وحی اور افلاطون کے تصور کے ملاپ سے اخذ کرتا ہے۔

رازی کے یہ خیالات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ایک ملحد اور بے دین نہیں بلکہ ایک عظیم مسلم فلسفی اور سائنسدان تھا جو کہ وحی کی تعلیمات سے بہت متاثر تھا اور اس طرح ہم ثابت کر چکے ہیں کہ رازی ایک ملحد اور بے دین نہیں بلکہ ایک مسلم سائنسدان تھا۔
ھذا ما عندی۔ واللہ اعلم باالصواب۔ الحمد للہ

حوالہ جات:

http://en.wikipedia.org/wiki/Muhammad_ibn_Zakariya_al-Razi#On_Religion
Marenbon, John (14 June 2012). The Oxford Handbook of Medieval Philosophy. Oxford University Press. pp. 69–70.ISBN 9780195379488.
Deura, Nurdeng (2008). "Risalat Al-Biruni Fi Fihrist Kutub Al-Razi: A Comprehensive Bibliography of the Works of Abu Bakr Al-Rāzī (d. 313 A.h/925) and Al-Birūni (d. 443/1051)”. Journal of Aqidah and Islamic Thought. 9: 51–100.
Marenbon, John (14 June 2012). The Oxford Handbook of Medieval Philosophy. Oxford University Press. pp. 69–70.ISBN 9780195379488.
Abdul Latif Muhammad al-Abd (1978). Al-ṭibb al-rūḥānī li Abū Bakr al-Rāzī. Cairo: Maktabat al-Nahḍa al-Miṣriyya. pp. 4, 13, 18.
Ebstein, Michael (2013-11-25). Mysticism and Philosophy in al-Andalus: Ibn Masarra, Ibn al-ʿArabī and the Ismāʿīlī Tradition. BRILL. p. 41. ISBN 9789004255371.
Seyyed Hossein Nasr, and Mehdi Amin Razavi, An Anthology of Philosophy in Persia, vol. 1, (New York: Oxford University Press, 1999), p. 353
Abdul Latif Muhammad al-Abd (1978). Al-ṭibb al-rūḥānī li Abū Bakr al-Rāzī. Cairo: Maktabat al-Nahḍa al-Miṣriyya. pp. 4, 13, 18
Marenbon, John (14 June 2012). The Oxford Handbook of Medieval Philosophy. Oxford University Press. pp. 69–70.ISBN 9780195379488.
Sarah Stroumsa (1999). Freethinkers of Medieval Islam: Ibn Al-Rawandi, Abu Bakr Al-Razi and Their Impact on Islamic Thought. Brill.
Kraus, P; Pines, S (1913–1938). "Al-Razi”. Encyclopedia of Islam. p. 1136.
Marenbon, John (14 June 2012). The Oxford Handbook of Medieval Philosophy. Oxford University Press. pp. 69–70.ISBN 9780195379488.
Abdul Latif Muhammad al-Abd (1978). Al-ṭibb al-rūḥānī li Abū Bakr al-Rāzī. Cairo: Maktabat al-Nahḍa al-Miṣriyya. pp. 4, 13, 18.
Paul E. Walker (1992). "The Political Implications of Al-Razi’s Philosophy”. In Charles E. Butterworth. The Political aspects of Islamic philosophy: essays in honor of Muhsin S. Mahdi. Harvard University Press. pp. 87–89

تبصرے بند ہیں۔