اردو سب کے لئے؟

سعد احمد

(ریسرچ اسکالر جواہر لال نہرو یونی ورسٹی)

تہواروں کا دور ہے. مذہبی تہوار سے دل اکتاتا بھی نہیں کہ عقل و خرد کے تہواروں  کی شہنائی ایک نیا طلسم باندھ دیتی ہے. ان دونوں سے  قدرے جدا ایک تہوار ادب کا بھی ہے. ہندوستانی تہذیبی وراثت، تکثیری فراست اور پختہ شعور یہاں  ہر کسی کو میسر ہے. اس تہوار کی خاص بات یہ ہے کہ یہ عوامی ہے. اس تہوار کا کوئی انتظار نہیں کرتا بلکہ ہرشخص اسے منانے کے لئے تیار بیٹھا رہتا ہے. اس تہوار کی ایک اور خاصیت  حد درجہ ڈیموکریٹک ہونا ہے. بسا اوقات یہ موجودہ ڈیموکریٹک سپرٹ کو بھی چیلنج کرتی نظر آتی . . اسمیں استبداد  دریوں اور کرسیوں کے نیچے بیٹھے نظر آتے ہیں. یہاں قومیت، بدویت اور شہریت کے پیمانے لبریز ہوتے ہیں، جھاگ بنتے ہیں اور کبھی تلچھٹ بن کر اپنی قسمت پہ منہ بسورتے  عدم آباد چلے جاتے ہیں.

  بہرحال، اردو ان زبانوں میں سے ایک ہے جو دوسری ہندوستانی زبانوں، تہذیبوں اور ثقافتوں کے لئے تہوار کی حیثیت رکھتی ہے. یہ ہندوستان کی بہو نھیں لہٰذا کوئی اسے تنقیدی نظر سے نہ دیکھے. یہ ہندوستان کی بیٹی ہے جسکی مائیں ایک سے زیادہ ہیں اور ہر ایک دوجے سے کہیں زیادہ پیار کرتی ہے.

 نھیں بھائی یہ کوئی ساس بہو والے سیریلز کی بات نھیں ہورہی ہے ..بلکہ اردو کی بات ہے. ہاں جی ہم بات اردو ہی کی کر رہے ہیں. اردو ہماراچشمہ حیات ہے. ہمارا یعنی ہماری تہذیب کا.. ہماری تہذیب یعنی ہندوستانی تہذیب!

  اگر آپ اردو کے قائل ہیں تو آپ کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی ضرورت نھیں. اگر ٹکڑے ٹکڑے ہیں تو بھی آپ کو یک جٹ ہونے کی ضرورت نھیں. اسلیے کہ اسےآپ کی ساختیاتی ترتیب اور بے ربطی سے کوئی سروکار نھیں. اسے کسی کی تربت میں تلسی کا پیڑ لگانے سے کوئی خوشی نہیں ملتی. اسے خوشیوں کو چیخوں میں بدل دینے سے کوئی لذت حاصل نھیں ہوتی. یہ  دایہ کی طرح ہے جو بچوں کے یتیم ہوجانے کے بعد انھیں ماں سے زیادہ محبت دیتی ہے. اور تقریباً بڑے بڑے علاقے اور وہاں رہنےوالے ہر طرح کے لوگوں کو اپنا خون پلا کر پالا اور بڑا کیا ہے. اسکے لچیلے پن پہ نہ جائیں. اس کے ادب و آداب کا انداز آپ کو د ھوکے میں نہ ڈالے. یہ بہت مضبوط ہے. اس کا ڈھانچہ اسے کبھی اکڑوں بیٹھنے نہیں دیتا. یہ بالکل سیدھا کھڑا  ہے جیسے کوئی ماہر سپہ سالار جسکی ڈھال جھک جاتی ہے مگر کمر نھیں جھکتی.

اردو کا چاشنی بھرا تخاطب گنگ و جمن کی نیت والا ہے. اسکی نغمہ مزاجی طاقت کی بانسری کو بسا اوقات بےسُر کردیتی ہے. یہ مسجد میں جاتی ہے تو مسجدیں مزید خوبصورت نظر آنے لگتی ہیں اور جب مندروں میں چہل قدمی کرتی ہے تو بندوں کے فکر مند جبیں پہ ہزاروں سجدے مزید تڑپنے لگتے ہیں.

یہ سارے خواص اردو زبان کے ہی ہیں. اس کے برعکس کچھ بیانیے ایسے ہیں جو برابر اس زبان کو،اس سے جڑے عام جذبات کو رنج و غم میں بدل دیتے ہیں. یہ غم افسوس اور اس جیسے سینکڑوں مزید افسوس کی پرورش کرتے ہیں. مثال کے طور پر یہ تفہیم کہ؛

 اردو خواص کی زبان ہے یہ ایک بہت بڑا دھوکہ ہے. اردو عوام کی زبان ہے یہ دھوکہ ذرا سچا لگتا ہے. اردو عوام و خواص دونوں کی زبان ہے یہ خواب ذرا اچھا لگتا ہے،.

یہ بات سچ ہے کہ اردو زبان کی بنیاد اور ارتقاء میں سرکاری شخصیات متحرک رہی ہیں مگر اس سے بڑا سچ یہ ہے کہ وہ ساری شخصیات کبھی بھی اردو زبان کی تعمیر و ترغیب کے معاملے میں سرکاری نھیں تھیں. سچ کا سلسلہ چل نکلا ہے تو یہ بھی جان لینا چاہیئے اردو سے ملحق شخصیات خسرو سے لیکر کی  60کی دہائی تک علی العموم مذہبی نھیں بلکہ حد درجہ مذہبی تھیں. اب سوال یہ ہے کہ شخصیات سرکاری تھیں، کوششیں غیر سرکاری، مزاج مذہبی پھر یہ اردو زبان تو یقینی طور سے ایک ایسی باندی ہے جو مذہب کے ساز کے سوا کسی ساز کو پہچانتی ہی نہیں ہوگی…تو بابو جی!پہلے آپ یہ تو بتائیں کیا مذہب چڑچڑا، بھدا اور ہر وقت جنگ و جدل پہ آمادہ رہنے والے عفریت کا نام ہے یا کوئی اور شئی ہے جسے مذہب کہتے ہیں؟ کیا ابھی کا مذہبی انداز وہی ہے جو پہلے تھا؟  کثیر الجہات مذہبی تصور اور تکثیری تہذیب  کس امتزاج  کا نام ہے؟ کیا اردو دنیا کی واحد مثال نہیں جو کثیر الجہات مذہب اور تکثیری تہذیب  کا زندہ  تابندہ ثبوت ہے؟اگر ایسا ہے تو  کیا ایسی تبویب کفایت کر جائے  گی جس سے خاص طرح کی بو والے لوگ، ان کا رہن سہن، انکا تن من دھن سب پھوس کے دیوتا کی تائید میں ایک الگ دنیا سے جوڑی جائے؟

یہ سارے سوالات تب پیدا ہوئے جب مجھے اردو سے متعلق ایک ادبی تہوار میں جانے کا اتفاق ہوا. وہاں جانا میرے لئے بے حد سود مند ثابت ہوا. میں نے قوالیاں سنیں. شعر و سخن سے محظوظ ہوا.نثر و نظم کے نئے انداز سے شناسائی ہوئی. اردو کی وراثت دیکھ کر عش عش کر اٹھا. اس پر اپنی محنت اور مال بے تکان خرچ کرنے والےمخیر صاحب کو بھی کافی دعائیں دیں. مگر ذرا ٹھریں، میرے ہاتھ اٹھے تو تھے مگر کسی مسیحا کے لئے نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کے لئے جسے وراثت کے معنی معلوم تھے. اور مجھے یقین ہے کہ ان کے ذہن و دل میں اردو کی خدمت انجام دیتے وقت ایک ہی جذبہ ہو گا یعنی ہندوستانی وراثت کی خدمت. مگر یہ کیا؟

میرے اٹھے ہوئے ہاتھ کے  نتیجے میں ہزار صفحات کی تعبیریں، معانی اور مفاہیم حکمت ایزدی نے میری جھولی میں ڈال دیں. میرے سارے سوالات مستقبل کے سوالات سے گتھم گتھا ہونے لگے. میرا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا. میرے کانوں میں لوگوں کی بے ہنگم آوازیں ابھر ابھر کر مدغم ہونے لگیں جو کہہ رہی تھیں دیکھیے جی، وہ ادب  کےکتنے پرستار ہیں، شاید "ہمارے”غالب نے انھیں متاثر کیا ہے کہ اتنا بڑا تہوار انھوں نے برپا کردیا اور ہم تو وہیں مسجد مندر میں پھنسے ہیں.

 فمجھے برج نرائن چکبست اور رگھوپتی سہائے فراق ایسے  یاد آئے جیسے ابھی میرے پاس سے  نصیحت کر کے گذرے ہوں. مجھے وہ لوگ بھی بہت شدت سے یاد آئے جو گنبد کو الٹا کنواں قرار دینے پہ مصر تھے اور چاھتے تھے کہ ایک جھٹکے میں بس گنبد سیدھا کریں اور ریولیشنری بونڈر کھڑا کر دیں . انکا خیال تھا کہ اردو کو اس  کی مزعومہ فطرت کی اس آگ سے جوڑ دیں جہاں کثیر الجہات تصور والا مذہب  ہو اور  نہ ہی اس کے گوناگوں مفاہیم. نہ مولوی ہوں نہ  پنڈت. دماغ میں اور کنوئیں میں بس ایک بھٹی ہو جو تعلق نبھانے کی راہ میں ہر شئی کو جلا کر راکھ کر دے. اور اس نے جلایا بھی. مجھے ڈراویڈین اور آرین والی وہ پگڈنڈی بھی نظر آئی جو بلا وجہ ہی سرحد یں قائم کر نا چاہتی ہے. بلا وجہ ہی خطوط کی کھینچا کھینچی اور لیپا پوتی کرنے کی قائل ہے. مجھے نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوا کہ اب کہ بہار بے موسم ہے. یہ تہوار وراثت کا نہیں ملوکیت کا ہے. یہ چہل پہل سرکاری ہیں. میں نے محسوس کیا گھر کی بیٹی کو کوئی خودکشی کرنے پر مجبور کر رہا ہے. کوئی اس کی تمام تر لیاقت  نہ جانے کس نگر کے دیوتا کو بطور دکچھنا دینا چاہتا ہے. یہ مکالمہ میرے کوائف اور ادبی زیرو بم کے و ظائف کی مالا نہیں ہیں. بلکہ اس بات کا اظہار ہے کہ ملا و برہمن کو اس تہوار سے ایسے نکالا جارہا ہے جیسے انیسویں اور بیسیوں صدی کا اردو ادب مذہبی لوگوں کا تھا ہی نھیں.نہ ہی ہندوستانی کثیر الجہات تصور میں مذہبی افکار  کبھی پنپے ہیں.

بات یہ رہی کہ اردو ادب میں مذہب نہیں پنپ سکتا تو مذہبی خیال کیوں کر؟ وہ بھی ان لوگوں کے خیالات جنھیں علماء کہتے ہیں؟

یہ بات ہر کسی کو معلوم ہونی چاہیے کہ جہاں ہندوستان کی موجودہ شکل و شباہت اور بالغ نظری کو مستحکم کرنے میں علماء کا کردار بہت اہم رہا ہے وہیں اردو ادب پہ علماء کا یہ احسان رہا کہ انہوں نے زبان کو کبھی پیٹ کا مسئلہ نہیں بنایا وہیں اسکی اس طرح سے پرورش کرتے رہے گویا یہ انھیں کی بیٹی ہے. اس روایت کو آزادی کے بعد علماء نے اس طور سے آگے بڑھایا کہ آج بھی ان کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا. اس ضمن میں مدارس، مکاتیب، ذاتی لایبریریاں، مجلات، مسجدوں کے خطبات، مذہبی جلسے، تقاریر، مشاعرے، نعت خوانی کی روایت ایسی مثالیں ہیں کہ ادب کی نئی چادریں ادب کے  دینی جسم کو ڈھانپنے سے قاصر دکھائی پڑتی ہیں. نئی چادر کہیں جسم کے اس حصے کو سڑاند تو نہیں سمجھتیں؟ کیا جسم کا ایک حصہ کٹ جانے پر باقی جسم کی خوبصورتی ویسی ہی برقرار رہے گی جیسے پہلے تھی؟ کیا جسم سرجری سے صحتیاب ہوپائے گا؟ کیا خرابی کی صورت میں اس کا جنیٹک موڈیفیکیشن بھی کیا جائے گا؟ کیا  نئی اردو سب کے لئے ہو گی…….. کثیر الجہات تصور والی!

تبصرے بند ہیں۔