مسکراہٹ کا ہو سبب معلوم

افتخار راغبؔ

مسکراہٹ کا ہو سبب معلوم

درد میرا ہے اُن کو اب معلوم

دل میں کیا رہ گیا ہے کہتے وقت

دل میں جو ہے اُسے ہے سب معلوم

تیری ہر اک ادا انوکھی ہے

کیا کسی کو ہو تیرا ڈھب معلوم

میں سرِ عام تم کو دوں آواز

صرف تم کو ہو وہ لقب معلوم

نام ہرگز کہیں نہ آئے ترا

حال اغیار کو ہو جب معلوم

سانس کیوں ہو رہی ہے بے ترتیب

تیرے دل کو ہو جانے کب معلوم

دو چراغوں کی لو تھیں یوں راغبؔ

دور سے ہو رہے تھے لب معلوم

تبصرے بند ہیں۔