مسیحائی سے پہلے عشق کا بیمار اچھا تھا

عبدالکریم شاد

مسیحائی سے پہلے عشق کا بیمار اچھا تھا
ترے اقرار سے ظالم! ترا انکار اچھا تھا

مرا ملبوس ہی باعث ہے رائے کے تغیر کا
وگرنہ سب کی نظروں میں مرا کردار اچھا تھا

ندی ساعت کی بہتی ہے الگ ہی سمت میں ہر دم
سدا اِس پار سے لگتا ہے میں اُس پار اچھا تھا

رفاقت تیری میری زندگی کی طرح تھی ہم دم!
نہ اچھی تیری نفرت تھی نہ تیرا پیار اچھا تھا

بچوں میں آستیں سے یا نکالوں پیٹھ کا خنجر
پناہ دوستاں سے دشمنوں کا وار اچھا تھا

یقینا کہتے ہوں گے اب وہ میرا تذکرہ سن کر
خدا محفوظ رکھے کتنا میرا یار اچھا تھا

تری باتوں نے برہم کر دیا سب سننے والوں کو
اگرچہ تیرا ناصح! لہجہء گفتار اچھا تھا

ضمیر اب جاگ اٹھا ہے تو منزل خار لگتی ہے
چلے جانا ہی میرا شاد! سوئے دار اچھا تھا

تبصرے بند ہیں۔