مشرق وُسطیٰ کا ‘ما بعد جدید’ بحران!

عالم نقوی

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔ ۔

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا !

یہ شعر مشرق وسطی کے بحران پر بھی پوری طرح صادق آتا ہے جو فی ا لواقع اہل ایمان کے دائمی دشمنوں (مائدہ۔82) اور قرآن کریم کو مہجور بنا دینے والوں (فرقان۔ 30)کے دجالی گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے جوخدا نخواستہ  افغانستان و عراق، فلسطین و کشمیر اور یمن و سیریا سے بڑے انسانی المیے کا سبب بننے والا ہے۔ مشکوٰۃ شریف میں شام، یمن اور نجد کے بارے میں ایک حدیث ہے کہ’’حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے دعا فرمائی ’اے اللہ ہمارے شام میں برکت دے، اے اللہ ہمارے یمن میں برکت دے۔ صحابہ کرام ؓنے عرض کی یا رسول ا للہ اور ہمارے نجد میں ؟۔۔ آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ فرمایا کہ وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہاں سے شیطان کا گروہ نکلے گا (باب ذکر ا لیمن و ا لشام و ذکر اویس قرنی۔ حدیث نمبر 6009 رواہ ا لبخاری ) آج  یمن و سیریا  دونوں جگہ خونی کھیل جاری ہے۔

 یمن کی ہزار سالہ حکومت 1962 میں جمہوریت کی بحالی کے ساتھ ختم ہو گئی۔ شاہ عبد ا لعزیز آل سعود نے 1930 میں یمن کی حکومت سے ایک معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے نجران، عسیر اور جیزان کے یمنی صوبے سعودی عرب کو ساٹھ سال کے پٹّے (لیز) پر دے دیے گئے۔ 1990 میں جب اس لیز کی مدت ختم ہوئی تو یمن میں عبد ا للہ صالح کی حکومت تھی۔ اُن کو بطور رشوت اٹھارہ بلین (ارب ) ڈالر نقد اور سونے کی شکل میں دیے گئے کہ وہ اپنے تینوں یمنی صوبوں نجران، عسیر اور جیزان کا قبضہ واپس نہ مانگیں لیکن جب دو سال قبل یمن پر حوثیوں کا قبضہ ہوا  تو انہوں نے اعلان کردیا کہ اب ہم اپنے تینوں صوبے حاصل کر کے رہیں گے جہاں اب تیل کے کنویں ہیں۔

یمن کی جنگ کا بنیادی سبب تیل کی دولت سے مالا مال  انہی تینوں یمنی صوبوں کی ملکیت ہے جس پر سعودی عرب کا قانونی، اخلاقی اور سب سے بڑھ کر شرعی حق ساٹھ سالہ پٹّے (معاہدے)کی مدت  پوری ہونے کے بعد  1990 میں ختم ہو چکا ہے۔

1930 کا یمن۔ سعودی معاہدہ ویسا ہی تھا جیسا 1901 کا ہانگ کانگ کا معاہدہ تھا جسے برطانیہ نے چین سے 99 سال کے پٹّے پر لیا تھا۔ 1999 میں چین  نے ہانگ کانگ کو برطانیہ سے واپس لے لیا۔سعودی عرب کو بھی یہی کرنا چاہیے۔ لیکن اس کے بجائے وہاں دو سال سے بمباری جاری ہے جس کا سلسہ نہ پچھلے سال  رمضان 1437 ہجری میں بند ہوا تھا نہ آج  رمضان ا لمبارک 1438 ہجری میں رُکا ہے۔

ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب، ریاض سے تل ابیب کے در میان پہلی براہ راست پرواز اور قطر کے بائکاٹ کے پس منظر میں مشرق وسطیٰ کی تازہ ترین افسوسناک  اور عبرت ناک صورت حال  پر ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی (مدیر ماہنامہ ندائے اعتدال، علی گڑھ ) جناب  عبد الحق رحمانی، مولانا یاسر ندیم ا لواجدی اور ڈاکٹر سید شفقت شیرازی کے علمی و تحقیقی مضامین اس ہفتے سوشل میڈیا کے توسط سے پڑھنے کو ملے۔ ہم ان کے اقتباسات  وقتاً فوقتاً اپنے قارئین سے  شیئر کرتے رہیں  گے۔

ڈاکٹر شفقت شیرازی نے لکھا ہے کہ قطر کے ساتھ جو کھیل ہورہا ہے اس کا سبب قطر کے ایران، اخوان اور حماس کے ساتھ تعلقات نہیں کہ وہ نہ صرف قدیم  بلکہ اَظہر مِنَ ا لشّمس ہیں اور وہی کیوں متحدہ عرب امارات اور ایران کے تجارتی تعلقات آج  چھے بلین ڈالر سالانہ تک پہنچ چکے ہیں اور کویت اپنی سرزمین پر ایرانی صدر کا استقبال کر چکا ہے اور سلطنت عمان سے تو ایران کے اسٹریٹجک (تزویری ) تعلقات عرصہ دراز سے قائم ہیں ! (ایرانی معتمرین  کی تعداد حرمین شریفین میں  ہر سال ہر مسلم ملک سے زیادہ ہوتی ہے اور خادم حرمین شریفین کی جانب سے ان کو با لعموم کوئی پریشانی نہیں ہوتی جبکہ شیعوں کو کافر اور واجب ا لقتل قرار دینے والوں کا فکری منبع و ماخذ بھی وہی سرزمین ہے ) ڈاکٹر شفقت کی تحقیق کے مطابق قطر کے ساتھ  رُحما    بیَنھُم  کے بجائے اَشِدّا علَی ا لکُفار جیسےسلوک کا اصل سبب یہ ہے کہ اُس نے اہلِ عرب کے ولی و سرپرست امریکہ بہادر کے  صدر  ٹرمپ کو اپنے حصے کا  مزید ’جگا ٹیکس، بھتہ یا فدیہ‘ ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے آجکل اس کی حالت خستہ ہے۔ سعودی عرب، امارات اور قطر یہ تینوں وہ ملک ہیں جہاں دنیا کے سب سے بڑے امریکی  بری اور بحری فوجی اڈے ہیں اور جن کا پورا خرچ امریکہ ہی نہیں سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر اور یو اے ای وغیرہ صہیونی مقتدرہ کے بندہ ہائے بے دام  اُٹھاتے ہیں کیونکہ وہ بقول صہیونی مقتدرہ’’ اسرائل کے تحفظ کے لیے نہیں عرب بادشاہوں  کو ایران کے انقلاب سے محفوظ رکھنے کے لیے وہاں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں ‘‘ عراق کی دونوں جنگوں کا خرچ بھی ان سبھوں   نے مل کر  اُٹھایا تھا اور لیبیا میں قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے اخراجات بھی امریکہ نے اپنے اِن ہی چاکروں سے وصولے تھے۔ آج کل قطر کی  معاشی حالت  خستہ ہے اور کچھ ایران ، اخوان، حزب ا للہ اور حماس کی حمایت اور  دوستی کا اثر بھی ہے کہ اس نے اِمسال اپنے حصے کا’جگا ٹیکس یا بھتہ‘ امریکہ کو ادا کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ یہ امریکہ کے حکم پر قطر کو اسی کی سزا دی جارہی ہے !

 ظاہر ہے کہ قطر کو غزہ بنا دینے کی عملی دھمکی دینے والے ممالک اپنی اس ’بدمعاشی‘ کا اعتراف کرنے کی ہمت تو رکھتے نہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اپنی مسلکی عصبیت کے اظہار کی بے شرمی انہیں قبول ہے اس لیے قطری بحران کا ٹھیکرا، اِیران کے سر پھوڑ دیا گیا ہے ماہرین کا خیال ہے کہ قطر اور امریکہ کے درمیان گفتگو کا جاری رہنا بتاتا ہے کہ اپنی معاشی ناکہ بندی کو ختم کرانے کے لیے  قسطوں ہی میں سہی قطر کو یہ ’جگا ٹیکس‘ ادا کرنے  پر مجبور ہونا ہی پڑے گا۔ ڈاکٹر شفقت کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے ریاض میں پانچ سو بلین ڈالر کا بھتہ وصول کیا  جبکہ  اس کا مجموعی مطالبہ عرب دنیا سے ڈیڑھ ٹریلین ڈالر کی وصولی کا تھا !قطر کا بحران امریکی وصولی کا نشانہ پورا کرنے کی محض ایک  دور رس صہیونی  حکمت عملی ہے۔اس لیے کہ  ٹرمپ نے واپس آنے کے بعد ٹویٹ کیا ہے کہ ’’ مشرق وسطیٰ سے سیکڑوں بلین ڈالر ز لے کر آیا ہوں۔ جاب، جاب! ‘‘

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔