مصارف زکات – (قسط 1)

اسلامی تعلیمات وہدایات کی وسعت وہمہ گیری کو سمیٹا جائے تو محض دو لفظوں سے عبارت ہے، اللہ کی بندگی اور بندگانِ خدا کی مدد، نماز رب کی بندگی کی ایک اہم علامت اور خالق ومالک سے تعلق وقربت کا سامان ہے تو زکات انسانوں سے تعلق،اعانت اور ان کے دکھ درد میں شرکت کا روشن عنوان ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن میں اکثر جگہوں پر نماز اور زکات کا تذکرہ ایک ساتھ کیا گیا ہے۔
زکات اسلام کا ایک اہم رکن،عبادت اور دینی فریضہ ہے، زکات نام ہے اس حق کا جو صاحب ثروت کی دولت میں نادار ومحتاج کا ہے، صاحب حق ہی کو یہ حق ملنا چاہئے،حقدار کو محروم کرنا اور غلط جگہوں پر خرچ کرنا بڑا ظلم ہے اس سے معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہوگا اس لئے قرآن حکیم نے بڑی وضاحت کے ساتھ مصارف زکات کا تذکرہ کیا ہے تاکہ بیجا استعمال پر بند لگایا جاسکے اور غیرمستحقین کی حریصانہ نگاہیں اس مال کی طرف نہ اٹھیں چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
منہم من یلمزک فی الصدقات فان اعطو منہا رضوا وان لم یعطوا منہا اذاہم یسخطون ولو انہم رضوا ما اٰتاہم اللہ ورسولہ وقالوا حسبنا اللہ سیوتینا اللہ من فضلہ ورسولہ انا الی اللہ راغبون۔ انما الصدقات للفقراؤالمساکین والعاملین علیہا والمؤلفۃ قلوبہم وفی الرقاب والغارمین وفی سبیل اللہ وابن السبیل فریضۃ من اللہ واللہ علیم حکیم (1)
منافقین میں کچھ ایسے ہیں جو تقسیم صدقات کے بارے میں تم پر الزام لگاتے ہیں، اگر اس میں سے انہیں بھی مل جائے تو خوش رہتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو ناراض ہوجاتے ہیں، حالانکہ اللہ اور اس کے رسول نے جو انھیں دیا ہے اس پر اگر وہ راضی رہتے تو اور کہتے کہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے، اللہ اپنے فضل سے ہمیں نوازے گا،اور اس کا رسول بھی عطا کرے گا، اور ہمیں تو بس اللہ کی طرف رغبت اوراسی کی طلب ہے(تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا) خیرات تو بس فقیروں، مسکینوں،زکات کے لئے کام کرنے والوں کے لئے ہے اور ان لوگوں کے لئے ہے جن کی دلجوئی مقصود ہو، نیز گردنوں کو چھڑانے اور قرض داروں کے قرض کی ادائیگی،اللہ کے راستے میں(جہاد کرنے والوں) اور مسافر کے لئے ہے، یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ فریضہ ہے اور اللہ بڑا علم وحکمت والاہے۔
قرآن میں زکات کی ادائیگی کا حکم محض اجمالی طور پر دیا گیا ہے اور اس سے متعلق تفصیلات سے قطع نظر کیا گیاہے لیکن مصرف زکات کی پوری تفصیل دی گئی ہے، اس کی حکمت یہ ہے کہ ہر مذہب اور معاشرہ میں صدقہ وخیرات کا تصور پایا جاتاہے، داد ودہش کا رجحان ہر سماج میں ملتاہے،ہر حکومت فلاح وبہبود کے نام پر اور غربت وافلاس دور کرنے کے لئے صاحب استطاعت شہریوں سے کچھ وصول کرتی ہے لیکن یہ بھی ہوتا آیاہے کہ غریبوں اور حاجت مندوں کے نام پر جمع ہونے والی دولت کا بڑا کم حصہ حقداروں تک پہونچ پاتاہے، اس دولت سے حکومت کے اہل کار اور قریبی لوگ ہی زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں،سلاطین وحکمراں اپنی عیش کوشی اور عشرت سامانی پر خرچ کرتے ہیں اور غیرمستحقین اس مال کے لئے کوشاں رہتے ہیں، اس بے راہ روی پر روک لگانے کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مصارف زکات اور مدات خرچ کو متعین کردیا، اور حدیث میں ناحق وصول کرنے والوں کے لئے ایسی وعیدیں بیان کی گئیں اور زکات کے لئے ایسی تعبیر اختیار کی گئی کہ اسے لیتے ہوئے کراہیت اور ہتک شان محسوس ہو،تاکہ اس طرح سے حقداروں کا حق محفوظ رہے۔
آئندہ صفحات میں مصارف زکات سے متعلق قرآن وحدیث اور فقہ کی روشنی میں کچھ تفصیلات اور وضاحتیں ذکر کی جائیں گی۔
فقیر اور مسکین
مصارف زکات میں سب سے پہلے فقراء اور مساکین کا تذکرہ کیا گیا ہے،جو اس بات کے لئے دلیل ہے کہ قرآن کی نگاہ میں سب سے اہم مصرف یہی ہے،یہی لوگ اولین حقدار ہیں،نوع انسانی کی محتاجی،مسکینی اور غربت کو دور کرنا،ان کو مفلسی اور بدحالی کے دلدل سے نکالنا اور حاجت مندوں کی ضروریات کی تکمیل،اور گداگری کے دروازے کو بند کرنا ہی زکات کا بنیادی مقصد ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض احادیث میں زکات کا مصرف صرف فقراء کو بیان کیا گیا ہے۔
فقیر ومسکین ہم معنیٰ ہے یا ان میں باہم کوئی فرق ہے؟ اس سلسلہ میں امام ابویوسف اور ابن قاسم مالکی کا خیال ہے کہ ان میں کوئی فرق نہیں ہے(2) اس کے برعکس جمہور فقہاء فرق کے قائل ہیں،لیکن فرق کی حدبندی میں ان کے درمیان اختلاف ہے،حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ مال وجائداد ہو لیکن اس سے اس کی ضرورت پوری نہ ہوتی ہو، اور مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو،گویا کہ مسکین فقیر سے زیادہ بدحال اور ضرورت مند ہے اس کے برخلاف حنابلہ اور شافعیہ کے نزدیک فقیر مسکین سے زیادہ بدحال اور حاجت مند ہے(3)یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ فقیر کا تذکرہ پہلے کرنا بظاہر دلیل ہے کہ فقیر مسکین سے زیادہ حاجت مند اور حقدار ہے، نیز قرآن کی دیگر آیات میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بے سروسامانی کی حالت میں مصر سے مدین پہونچنے کے بعد کہا تھا:
رَبِّ اِنِّیْ لِمَا اَنْزَلْتُ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٍ۔
پروردگار! جو نعمت بھی آپ مجھے بھیج دیں میں اس کا ضرورت مند ہوں(4)
دوسری جگہ کہا گیاہے
اَمَّاالسَّفِیْنَۃُ فَکَانَتْ لِمَسَاکِیْنَ یَعْلَمُوْنَ فِیْ الْبَحْرِ۔
کشتی چند مسکینوں کی ملکیت تھی جو سمندر میں کام کیا کرتے تھے۔(5)
معلوم ہوا کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھوک مٹانے کے لئے کچھ نہ تھا تو انھوں نے اپنے آپ کو فقیر کہا، اور دوسری آیت میں مساکین کشتی کے مالک تھے اور اس سے روزگار حاصل کرتے تھے لیکن اس سے اتنی آمدنی نہیں ہوتی تھی جس سے ان کی ضرورت پوری ہوجائے، اس لئے ان کو مسکین کہا گیا،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فقیر وہ کہلائے گا جس کے پاس زندگی گزارنے کے لئے کچھ نہ ہو، اور مسکین وہ ہے جو کسی قدر مال کا مالک ہو لیکن اس سے اس کی ضرورت کی تکمیل نہ ہوتی ہو۔ چونکہ اس اختلاف کی وجہ سے مسائل زکات پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتاہے، اس لئے اس سے متعلق دیگر تفصیلات کو نظرانداز کرتے ہوئے اس مصرف سے متعلق ایک اہم اور بنیادی مسئلہ کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں اور وہ ہے فقر ومسکنت کا معیار، فقہاء حنفیہ کے نزدیک جس شخص کے پاس نصابِ زکات سے کم مال ہو یا نصاب کے بقدر اموال زکات کے علاوہ دیگر مال کا مالک ہو لیکن وہ اس کی ضروریات زندگی سے فاضل نہ ہو وہ فقیر ومسکین سمجھا جائے گا اور اس کے لئے زکات درست ہے، اس معیار کے مطابق یہ لوگ زکات کے حقدار ہوں گے
(الف) جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو
(ب) جو شخص زمین وجائداد،گھر بار،سازوسامان،یہاں تک کہ غلام اور سواری کا مالک ہے،لیکن ان چیزوں کی اسے ضرورت ہے، ضروریات زندگی سے زائد اور فاضل نہیں ہے،چنانچہ فتاویٰ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اگر کسی کے پاس دوکان اور مکانات ہوں جسے اس نے کرایہ پر اٹھا رکھاہے لیکن اس کا کرایہ اس کی اور اس کے اہل وعیال کی ضروریات کے لئے کافی نہیں ہے تو وہ فقیر ہے، اسے زکات لینی جائز ہے، ایسے ہی امام محمدسے دریافت کیا گیا کہ اگر کسی کے پاس کھیتی،کرایہ کی دوکان اور مکانات ہوں جن سے تین ہزار کی آمدنی ہو لیکن پورے سال کی ضروریات کے کافی نہ ہوتا ہو تو کیا اس کے لئے زکات درست ہے، تو انھوں نے فرمایا کہ ہاں! گرچہ اس کی قیمت ہزاروں کو پہونچ جائے، اور حضرت حسن بصری سے منقول ہے کہ صحابہ ایسے لوگوں کو بھی زکات کی رقم دیا کرتے تھے جو دس ہزار درہم کی مالیت کے بقدر گھوڑا، ہتھیار، نوکر چاکراور گھر کے مالک ہوا کرتے تھے(6)
(ج) جو دوسو درہم سے کم چاندی،بیس مثقال سے کم سونا اور مطلوبہ تعداد سے کم مویشی اور سامانِ تجارت کا مالک ہو۔
امام مالک،شافعی اور احمد بن حنبل کے نزدیک فقرومسکنت کا معیارحاجت اور ضرورت ہے،لہٰذا اگر کسی کی ضروریات زندگی مہیا نہ ہوتی ہو وہ فقیر ہے،خواہ وہ کتنے ہی نصاب زکات کا مالک کیوں نہ ہو، مثلاً کسی کے پاس مطلوبہ معیار کے مطابق سامان تجارت ہے لیکن کساد بازاری یا کثرت اولاد کی وجہ سے اس دوکان کی آمدنی سے اس کی ضروریات کی تکمیل نہ ہوتی ہو وہ فقیر ہی سمجھا جائے گا اور اس کے لئے زکات درست ہے،اور اگر اس کی ضروریات کی تکمیل ہوجاتی ہے تو وہ مالدار ہے گرچہ اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو،اس معیار کے مطابق درج ذیل قسم کے لوگ زکاتکے حقدار ہوں گے۔
(الف) جس کے پاس کچھ مال نہ ہو،اور نہ ہی کوئی حلال اور مناسب کام ملتاہو۔
(ب) کچھ مال اس کے پاس موجود ہے،یا کسی حلال مناسب کام پر لگا ہوا ہے لیکن وہ اس کی اور اس کے اہل وعیال کی ضروریات کے لئے کافی نہ ہو، مثلاً اسے ضرورت ہو روزانہ دس روپئے کی لیکن وہ پانچ روپئے سے کم ہی حاصل کرپاتا ہو،یہ دونوں قسمیں فقیر کے ذیل میں آتی ہیں۔
(ج) اتنا مال ہو جس سے اس کی اور اس کے اہل وعیال کی حاجت کی کفایت ہوسکتی ہے لیکن اس کی تکمیل نہیں ہوسکتی ہے یعنی اس سے اس کی مکمل ضرورت پوری نہ ہوتی ہو، جیسے دس روپئے کی جگہ پانچ یا آٹھ روپئے حاصل کرپاتا ہو۔
واضح رہے کہ گھر بار، زمین جائداد،لباس وپوشاک عورتوں کے زیورات اور علمی کتابوں کا ہونا فقر ومسکنت کے لئے مانع نہیں ہے بلکہ ان چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی وہ فقیر ومسکین سمجھا جائے گا اگر اسے ان کی ضرورت ہو اور ان کے ذریعہ اس کی ضروریات زندگی پوری نہ ہوتی ہو۔(7)
حاصل یہ ہے کہ حنفیہ اموال زکات اور غیر اموال زکات میں فرق کے قائل ہیں کہ اگر اموال زکات کسی کے پاس سال بھر تک موجود ہے تو گو وہ ضرورت مند اور محتاج ہو وہ غنی سمجھا جائے گا اور اسے زکات لینی درست نہیں ہوگی، اور اگر اموال زکات کے علاوہ دیگر مال ودولت کا مالک ہے لیکن وہ اس کی ضرورت سے زائد اور فاضل نہیں ہے تو وہ فقیر ہے خواہ اس کی مالیت کتنی ہی کیوں نہ ہو، اس کے برخلاف دیگر ائمہ اس فرق کے قائل نہیں ہیں بلکہ وہ بہرصورت فقر وحاجت کو معیار مانتے ہیں کہ مال زکات کا نصاب کے بقدر مالک ہونے کے باوجود اگر وہ ضرورت مند ہے تو وہ فقیر ہے، ان کے دلائل یہ ہیں
1۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیصہ بن مخارق نامی صحابی کو مخاطب کرکے کہا
لا تحل المسألۃ الا لاحد ثلاثۃ رجل اصابتہ فاقۃ فحلت لہ المسئلۃ حتی یصیب قواما من عیش اوسداد من عیش۔ رواہ المسلم
مانگنا صرف تین شخصوں کے لئے حلال ہے، ایک وہ آدمی جو فاقہ میں ہو تو اس کے لئے مانگنا حلال ہوجاتاہے یہانتک کہ وہ گذارے کے بقدر حاصل کرلے۔
اس حدیث میں اس وقت تک سوال کو جائز قرار دیا گیاہے جب تک کہ گذارے کے بقدر مال اس کے پاس موجود نہ ہو، اور اگر گذارے کے بقدر مال حاصل کرلیتاہے تو اس کے لئے سوال جائز نہیں ہے،جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتاہے۔
2۔ فقر ومسکنت حاجت وضرورت ہی کا دوسرا نام ہے چنانچہ قرآن میں کہا گیا ہے:
یَاَیُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ اِلَی اللّٰہِ۔
لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو (8)
لہٰذا جو بھی ضرورت مند ہو وہ فقیر اور مسکین کے دائرہ میں آئے گا خواہ اس کے پاس اموال زکات ہوں یا اموال غیر زکات اور اگر محتاج نہ ہو تو وہ اس دائرے سے خارج ہے چاہے وہ کسی بھی طرح کے مال کا مالک ہو کیونکہ دفع حاجت کے لیے مال زکات اور غیر مال زکات میں کوئی فرق نہیں ہے۔(9)
حنفیہ کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں انسانوں کو دو گروپ میں تقسیم کیا گیا ہے مالدار اور فقیر، چنانچہ حضرت معاذ کو زکات کے متعلق بتاتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ
اعلمہم ان علیہم صدقۃ توخذ من اغنیاء ہم فترد فی فقراء ہم (10)
انھیں بتاؤ کہ ان کے اوپر زکات فرض ہے، جو ان کے مالداروں سے لیا جائے گا اور ان کے فقیروں کو دیا جائے گا۔
مالدار پر زکات کو فرض کیا گیا ہے اور اس کے لئے ایک نصاب متعین ہے لہٰذا جس کے پاس اس نصاب کے بقدر مال ہو وہ مالدار ہے اور اس پر زکات فرض ہے اور جس کے پاس مطلوبہ مقدار کے مطابق مال زکات نہ ہو وہ مالدار نہیں ہے لہٰذا وہ فقیروں کے زمرے میں آجائے گا اور اس کے لئے زکات درست ہے۔(11)
اس سے متعلق بعض باتیں شرائط استحقاق زکات کے ذیل میں آئیں گی۔
عاملین زکات
زکات وصدقات کی وصول اور تقسیم، امیرالمؤمنین کے فرائض میں سے ہے اور ظاہر ہے کہ کوئی حکمراں بذات خود یہ تمام کام انجام نہیں دے سکتا ہے بلکہ اسے دوسروں سے مدد لینے کی ضرورت ہوگی، انھیں مددگاروں کو عاملین زکات کہا جاتا ہے(12)
نظام زکات میں ان کی حیثیت ایک ناگزیر عامل کی ہوتی ہے اس لئے اس کا تذکرہ  دوسرے ہی نمبر پر کیا گیا ہے، چونکہ زکات کے جمع وتقسیم میں یہ اپنا وقت لگاتے ہیں اس لئے مال زکات ہی سے ان کی کفالت کی جاتی ہے،اور مالدار ہونے کے باوجود اس رقم سے ان کے لئے لینا درست ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو جمع وتقسیم کے نظام کو باقی رکھنا دشوار ہوجائے گا۔
عاملین زکات کے مفہوم میں وہ تمام لوگ آتے ہیں جو اصول زکات کے ادارے سے متعلق ہیں، زکات کے اہتمام اور انتظام سے متعلق چھوٹے بڑے تمام کارکنوں کو اس مد سے تنخواہ دی جائے گی،چنانچہ علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:
زکات کی اس مد سے محاسب،منشی،مالداروں کو اکٹھا کرنے والے،خزانچی، نگراں،چرواہے اور اس جیسے دیگر لوگوں کو دیا جائے گا،یہ تمام عاملین زکات میں شمار ہوں گے۔(13)
یہی بات امام نووی اور قرطبی نے بھی لکھی ہے۔ (14)
یہ عاملین زکات ایسے ہوں کہ انھیں نظام زکات سے متعلق مطلوبہ معلومات حاصل ہوں، چونکہ یہ خالص اسلامی ادارہ ہے اس لئے اس سے متعلق عملہ کا مسلمان ہونا ضروری ہے،جمہور فقہاء کی یہی رائے ہے، البتہ امام احمدبن حنبل سے ایک قول یہ منقول ہے کہ کافر کو بھی عامل زکات بنایا جاسکتاہے کیونکہ قرآن میں اس کے لئے عام لفظ استعمال کیا گیا ہے جس میں مسلمان اور کافر دونوں شامل ہیں، اور اس لئے بھی کہ عامل ایک طرح سے مزدور ہوا کرتاہے اور اس کو اس کام کی اجرت دی جاتی ہے، لہٰذا جس طرح سے دیگر معاملات میں کافر مزدور کو رکھا جاسکتاہے اسی طرح یہاں بھی اس کام کے لئے کسی کافر کو متعین کرسکتے ہیں۔ ان کی دلیل میں جو کمزوری ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے، کیونکہ قرآن میں تمام مصارف کے لئے عام لفظ استعمال کیا گیا ہے،تو اس کو دلیل بناکر کہا جاسکتا ہے کہ کافر فقیر ومسکین ،مسافر،مقروض وغیرہ کو بھی زکات کی رقم دی جاسکتی ہے؟ نیز عامل کو دی جانے والی رقم اجرت نہیں ہے بلکہ بطور کفالت ہے، اس لئے اسے مزدور پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ امام احمد کی دوسری روایت جمہور کے موافق ہے اس کی دلیل بیان کرتے ہوئے ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں کہ عامل کو مسلمانوں پر ولایت حاصل ہوتی ہے اور کوئی کافر مسلمان کا والی نہیں ہوسکتاہے، نیز عامل کے لئے امانت دار ہونا شرط ہے اور کفر امانت داری کے منافی ہے،چنانچہ حضرت عمر کا فرمان ہے کہ
لا تاتمنوہم وقد خونہم اللہ۔
انھیں امانت دار مت سمجھو کیونکہ اللہ نے انھیں خیانت دار کہا ہے۔
ایسے ہی حضرت موسیٰ اشعری نے جب ایک نصرانی کو اپنا سکریٹری بنایا تو حضرت عمر نے ان پر نکیر فرمائی تو زکات کا معاملہ اس سے زیادہ اہم ہے کہ وہ ایک رکن اسلام ہے لہٰذا یہاں بدرجہ اولیٰ کسی کافر کو عامل وغیرہ بنانا درست نہیں۔
عامل کے لئے عاقل وبالغ اور دیانت دار ہونا بھی شرط ہے(15) ایسے ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا تعلق آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ہو، حنفیہ اور شافعیہ کا یہی مذہب ہے، بعض حنبلی علماء بھی اسی کے قائل ہیں، اور علامہ ابن قدامہ نے اسی کو ترجیح دیا ہے،اس کے برخلاف بعض شافعی اور حنبلی فقہاء کی رائے ہے کہ آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بطور عامل زکات میں سے لینا جائز ہے (16) ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ عمل کی اجرت ہے،لہٰذا جس طرح سے مالدار عامل کے لئے اس مد سے لینا درست ہے ایسے ہی آل نبی ﷺ کے لئے بھی بحیثیت عامل اس مد سے اجرت لینا جائز ہے، حنفیہ وغیرہ کی دلیل وہ حدیث ہے جسے امام مسلم وغیرہ نے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ فضل بن عباس اور مطلب بن ربیع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تاکہ انھیں وصولی صدقہ کے لئے متعین کردیں، انھوں نے عرض کیا:
یا رسول اللہ ! جئناک لتؤمرنا علی ہذہ الصدقات فنصیب ما یصیب الناس من المنفعۃ ونودی الیک ما یودی الناس فقال ان الصدقۃ لا تنبغی لمحمد ولا لآل محمد انما ہی اوساخ الناس، مختصرا لاحمد ومسلم وفی لفظ لہما لا یحل لمحمد ولا لآل محمد (17)
یا رسول اللہ! ہم آپ کے پاس یہ مقصد لے کر آئے ہیں کہ آپ ہمیں وصولی صدقات کے لئے مامور کردیں تاکہ دوسرے لوگ جو اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں وہ ہم بھی حاصل کریں اور جو وہ لاکر دیتے ہیں ہم بھی لاکر دیں گے، یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا محمد اور آل محمد کے لئے صدقہ مناسب نہیں ہے، ایک دوسری روایت میں ہے کہ محمد اور آل محمد کے لئے صدقہ حلال نہیں، یہ تو لوگوں کا میل کچیل ہے ۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو عامل زکات بناکر کسی جگہ بھیجا تو انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابو رافع سے کہا کہ تم بھی میرے ساتھ چلو تاکہ تم بھی کچھ حاصل کرلو، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر میں نہیں جاسکتا ہوں، لہٰذا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان الصدقۃ لا یحل لنا وان موالی القوم من انفسہم۔
ہمارے لئے صدقہ حلال نہیں ہے اور کسی قوم کے غلام انھیں میں شمار ہوتے ہیں (18)
یہ احادیث اپنے موضوع سے متعلق صریح بھی ہیں اور صحیح بھی لہٰذا قیاس کے مقابلہ میں لائق ترجیح ہیں. آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور عامل دوسرے مدسے اجرت دی جائے تو یہ بالاتفاق جائز اور درست ہے (19) مال زکات عامل کے قبضہ سے ہلاک ہوجائے تو وہ اس کی اجرت سے محروم رہے گا، البتہ زکات ادا کرنے والے بری الذمہ ہوجائیں گے، کیونکہ عامل کی حیثیت فقراء وغیرہ کی طرف سے نائب اور وکیل کی ہوتی ہے، اس لئے عامل کے قبضہ کرتے ہی زکات دینے والوں کی زکات ادا ہوجاتی ہے(20) اگر کوئی شخص خود ہی اپنے مال کی زکات بیت المال کے حوالے کر جائے تو وہ اجرت کا حقدار نہ ہوگا۔(21)

حواشی:

(1)سورہ توبہ /60
(2)رد المحتار 3/284، حاشیۃ الدسوقی 1/492
(3)الدرالمختار مع رد المحتار 3/284، المجموع 6/197، الفقہ الاسلامی وادلتہ 2/869، المغنی 9/306مسئلہ 1086 (4)سورہ قصص/24 (5)سورہ کہف /79
(6)بدائع الصنائع 2/158۔159، رد المحتار 3/296
(7)المجموع 6/190۔197 ، نہایۃ المحتاج 6/151۔153

(8)سورہ فاطر/15

(9)المغنی 4/119۔122(10)رواہ الجماعۃ ، نیل الاوطار 4/114(11)البدائع 2/159(12)البدائع 2/151

(13)المغنی 4/108مسئلہ 427، حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی یہ منقول ہے ، دیکھئے نیل الاوطار 4/169، باب الصرف فی سبیل اللہ وابن السبیل (14)المجموع 6/188، الجامع لاحکام القرآن 8/178

(15)المغنی 9/313، باب قسمۃ الفئی والغنیمۃ والصدقۃ مسئلہ 1087 (16)المغنی 4/112، البدائع 2/151، فتح القدیر 2/204، المجموع 6/167

(17)نیل الاوطار 4/164
(18)رواہ الخمسۃ الا ابن ماجۃ، وصححہ الترمذی وابن خزیمۃ وابن حبان ، نیل الاوطار 4/174 (19)المجموع 6/168، رد المحتار 3/285، حضرت علیؓ کو آپ ﷺ نے عامل زکات بناکر بھیجاتھا، مذکورہ احادیث کی وجہ سے کہاجائے گا کہ انھیں سے کسی دوسرے مد سے اجرت دی جاتی تھی ۔ دیکھئے البدائع 2/152 (20) الہندیۃ 1/188، البحر2/241(21)الہندیۃ 1/188
(مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔